185
ہم بھی پھرتے ہیں یک حشَم لے کر
دستہء داغ و فوجِ غم لے کر
دست کش نالہ، پیش رو گریہ
آہ چلتی ہے یاں علم لے کر
مرگ اک ماندگی کاوقفہ ہے
یعنی آگے چلیں گے دم لے کر
اس کے اوپر کہ دل سے تھا نزدیک
غم دوری چلے ہیں ہم لے کر
بارہا صید گہ سے اس کی گئے
داغِ یاس آہوئے حرم لے کر
صعف یاں...
184
کوئی ہوتا ہے دل تپش سے بُرا
ایک دم کے لہو نہ پینے پر
دل سے میرے شکستیں الجھی ہیں
سنگ باراں ہے آبگینے پر
جورِ دلبر سے کیا ہوں آزردہ
میر اس چار دن کے جینے پر
183
رہنے کا پاس نہیں ایک بھی تار آخرکار
ہاتھ سے جائے گا سر رشتہء کار آخرکار
لوحِ تربت پہ مری پہلے یہ لکھیو کہ اسے
یار دشمن ہو، گیا جان سے مار آخر کار
مشتِ خاک اپنی جو پامال ہے یاں اس پہ نہ جا
سر کو کھینچے گا فلک تا یہ غبار آخرِ کار
چشم وا دیکھ کے اس باغ میں کیجو نرگس...
182
ہو آدمی اے چرخ، ترکِ گردشِ ایام کر
خاطر سے ہی مجھ مست کی تائید دورِ جام کر
دنیا ہے بے صرفہ نہ ہو رونے میں یا کڑھنے میں تو
نالے کو ذکرِ صبح کر، گریے کو وردِ شام کر
جتنی ہو ذلت خلق میں اتنی ہے عزت عشق میں
ناموس سے آ درگزر، بے ننگ ہو کر نام کر
مر رہ کہیں بھی میر جا، سرگشتہ پھرنا...
181
غیروں سے مل چلے تم مستِ شراب ہو کر
غیرت سے رہ گئے ہم یک سُو کباب ہوکر
کل رات مُند گئی تھیں بہتوں کی آنکھیں غش سے
دیکھا کیا نہ کر تُو سرمستِ خواب ہو کر
یک قطرہ آب میں نے اس دور میں پیا ہے
نکلا ہے چشمِ تر سے وہ خونِ ناب ہوکر
180
دل جو اپنا ہوا تھا زخمی چُور
ضبطِ گریہ سے پڑ گئے ناسور
ہم ضعیفوں کو پائمال نہ کر
دولتِ حسن پر نہ ہو مغرور
عرش پر بیٹھتا ہے، کہتے ہیں
گر اُٹھے ہے غبارِ خاطرِ مُور
شکوہء آبلہ ابھی سے میر!
ہے پیارے ہنوز دلی دُور
179
شیخی کا اب کمال ہے کچھ اور
حال ہے اور ، قال ہے کچھ اور
وعدے برسوں کے کن نے دیکھے ہیں
دم میں عاشق کا حال ہے کچھ اور
سہل مت بُوجھ یہ طلسمِ جہاں
ہرجگہ یاں خیال ہے کچھ اور
تورگِ جاں سمجھتی ہوگی نسیم!
اُس کے گیسو کا بال ہے کچھ اور
نہ ملیں گو کہ ہجر میں مرجائیں
عاشقوں کا وصال...
178
کہتا ہے کون تجھ کو یاں یہ نہ کر، تو وہ کر
پر ہو سکے جو پیارے دل میں بھی ٹک جگہ کر
وہ تنگ پوش اک دن دامن کشاں گیا تھا
رکھی ہیں جانمازیں اہلِ ورع نے تہ کر
کیا قصرِ دل کی تم سے ویرانی نقل کریے
ہو ہو گئے ہیں ٹیلے سارے مکان ڈھہ کر
رنگِ شکستہ اپنا بے لطف بھی نہیں ہے
یاں کی تو صبح...
177
دیکھ اس کو ہنستے سب کے دم سے گئے اکھڑ کر
ٹھہری ہے آرسی بھی دانتوں زمیں پکڑ کر
کیا کیا نیاز طینت اے ناز پیشہ تجھ بن
مرتے ہیں خاکِرہ سے گوڑے رگڑ رگڑ کر
وہ سر چڑھا ہے اتنا، اپنی فروتنی سے
کھویا ہمیں نے اس کو ہر لحظہ پاؤں پڑ کر
پائے ثبات بھی ہے نام آوری کو لازم
مشہور ہے نگیں جو...
176
مرتے ہیں تیری نرگسِ بیمار دیکھ کر
جاتے ہیں جی سے کس قدر آزار دیکھ کر
افسوس وے کہ منتظر اک عمر تک رہے
پھر مر گئے ترے تئیں اک بار دیکھ کر
دیکھیں جدھر وہ رشکِ پری پیشِ چشم ہے
حیران رہ گئے ہیں یہ اسرار دیکھ کر
جاتا ہے آسماں لیے کوچے سے یار کے
آتا ہے جی بھرا درودیوار دیکھ کر
ترے...
175
غصے سے اُٹھ چلے ہو جو دامن کو جھاڑ کر
جاتے رہیں گے ہم بھی گریبان پھاڑ کر
دل وہ نگر نہیں کہ پھر آباد ہو سکے
بچھتاؤگے، سنو ہو، یہ بستی اُجاڑ کر
یارب رہِ طلب میں کوئی کب تلک پھرے
تسکین دے کے بیٹھ رہوں پاوں گاڑ کر
منظور ہو نہ پاس ہمارا تو حیف ہے
آئے ہیں آج دور سے ہم تجھ کو تاڑ کر...
جواب
یار خانگی زندگی کے بارے میں تو یہ کہوں گا کہ
میں کہاںاور یہ وبال کہاں
زندگی میں فرصت ہی فرصت ہے۔ کام کرنے کے لیے گھر والے مجبور نہیں کرتے۔ شادی میں نہیں کرناچاہتے۔ رات کو جا گنا ۔ دن کو سونا۔ اس سے اچھی زندگی کے متعلق میں سوچ بھی نہیں سکتا۔
174
لبوں پر ہے ہر لحظہ آہِ شرر بار
جلا ہی پڑا ہے ہمارا تو گھربار
ہوئیں کس ستم دیدہ کے پاس یک جا
نگاہیں شرر ریز، پلکیں جگر بار
کہو کوئی دیکھے اسے سیر کیوںکر
کہ ہے اس تنِ نازک اوپر نظر بار
حلاوت سے اپنی جو آگاہ ہو تو
چپک جائیں باہم ولے لعلِ شکر بار
سبک کر دیا دل کی بے طاقتی نے...
173
دل، و دماغ و جگر یہ سب اک بار
کام آئے فراق میں اے یار!
کیوں نہ ہو ضعف غالب اعضا پر
مرگئے ہیں قشون کے سردار
گُلِ پژمردہ کا نہیں ممنون
ہم اسیروں کا گوشہء دستار
سیکڑوں حرف ہیں گرہ دل میں
پر کہاں پایئے لبِ اظہار
بحثِ نالہ بھی کیجیو بلبل!
پہلے پیدا تو کر لبِ گفتار
شکر کر داغِ...
172
قیامت تھا سماں اس خشمگیں پر
کہ تلواریں چلیں ابرو کی چیں پر
نہ دیکھا آخر اس آئینہ رُو کو
نظر سے بھی نگاہِ واپسیں پر
گئے دن عجز و نالے کے کہ اب ہے
دماغِ نالہ چرخِ ہفتمیں پر
ہوا ہے ہاتھ گُل دستہ ہمارا
کہ داغِ خوںبہت ہے آستیں پر
(ق)
خدا جانے کہ کیا خواہش ہے جی کو
نظر اپنی...
171
کر رحم ٹک، کب تک ستم مجھ پر جفاکاراس قدر
یک سینہ، خنجر سیکڑوں، اک جاں و آزار اس قدر
بھاگے مری صورت سے وہ، عاشق میں اُس کی شکل پر
میں اُس کاخواہاں یاں تلک، وہ مجھ سے بیزار اس قدر
منزل پہنچا اک طرف، نَے صبر ہے نَے ہے سکوں
یکسر قدم میں آبلے، پھر راہ پُر خار اس قدر
جز کش مکش ہووے...
170
یہ عشق بے اجل کش ہے بس اے دل اب توکل کر
اگرچہ جان جاتی ہے چلی لیکن تغافل کر
سفر ہستی کا مت کر سرسری، جوں یاد اے راہرو!
یہ سب خاک آدمی تھے ہر قدم پر ٹک تاءمل کر
سن اے بے درد گُل چیں غارتِ گلشن مبارک ہے
پہ ٹک گوشِ مروت جانبِ فریادِ بلبل کر
نہ وعدہ تیرے آنے کا، نہ کچھ امید طالع سے...
169
دیکھوں میں اپنی آنکھوں سے آوے مجھے قرار
اے انتظار تجھ کو کسی کا ہو انتظار
ساقی تو ایک بار تو توبہ مری تُڑا
توبہ کروں جو پھر تو ہے توبہ ہزار بار
کیا زمزہ کروں ہوں خوشی تجھ سے ہم صغیر
آیا جو میں چمن میں تو جاتی رہی بہار
کس ڈھب سے راہِ عشق چلوں، ہے یہ ڈر مجھے
پھوٹیں کہیں نہ آبلے،...
167
غیروں سے وے اشارے ہم سے چھپا چھپا کر
پھر دیکھنا اِدھر کو آنکھیں ملا ملا کر
ہر گام سدِ رہ تھی بُت خانے کی محبت
کعبے تلک تو پہنچے لیکن خدا خدا کر
نخچیر گہ میں تجھ سے جو نیم کشتہ چھوٹا
حسرت نے اُس کو مارا آخر لِٹا لِٹا کر
اک لطف کی نگہ بھی ہم نے نہ چاہی اُس سے
رکھا ہمیں تو اُن نے...