نتائج تلاش

  1. وہاب اعجاز خان

    انتخابِ کلامِ میر (دیوان اول)

    91 فلک کا منہ نہیں اس فتنے کے اٹھانے کا ستم شریک ترا یار ہے زمانے کا بسانِ شمع جو مجلس سے ہم گئے تو گئے سراغ کیجو نہ پھر تُو نشان پانے کا چمن میں دیکھ نہیں سکتی ٹک کہ چبھتا ہے جگر میں برق کے کانٹا مجھ آشیانے کا سراہا ان نے ترا ہاتھ جن نے دیکھا زخم شہید ہوں، میں تری تیغ کے لگانے کا...
  2. وہاب اعجاز خان

    انتخابِ کلامِ میر (دیوان اول)

    90 میں بھی دنیا میں ہوں اک نالہ پریشاں یک جا دل کے سو ٹکڑے مرے پر سبھی نالاں یک جا پند گووں نے بہت سینے کی تدبیریں کیں آہ ثابت بھی نہ نکلا یہ گریباں یک جا تیرا کوچہ ہے ستم گار و کافر جاگہ کہ جہاں مارے گئے کتنے مسلماں یک جا تو بھی رونے کو بَلا، دل ہے ہمارا بھی بھرا ہوجے اے ابر...
  3. وہاب اعجاز خان

    انتخابِ کلامِ میر (دیوان اول)

    89 ہے حال جائے گریہ جانِ پُر آرزو کا روئے نہ ہم کبھو ٹک دامن پکڑ کسو کا جاتی نہیں اُٹھائی اپنے پہ یہ خشونت اب رہ گیا ہے آنا میرا کبھو کبھو کا اپنے تڑپنے کی تو تدبیر پہلے کرلوں تب فکر میں کروں گا زخموں کے بھی رفو کا یہ عیش گہ نہیں ہے، یاں رنگ اور کچھ ہے ہر گُل ہے اس چمن میں ساغر...
  4. وہاب اعجاز خان

    انتخابِ کلامِ میر (دیوان اول)

    88 پھر شب نہ لطف تھا، نہ وہ مجلس میں نور تھا اُس روئے دل فروز ہی کا سب ظہور تھا کیا کیا عزیز خلعِ بدن، ہائے کر گئے تشریف تم کو یاں تئیں لانا ضرور تھا
  5. وہاب اعجاز خان

    انتخابِ کلامِ میر (دیوان اول)

    87 یاں نام یار کس کا دردِ زباں نہ پایا پر مطلقاً کہیں ہم اُس کا نشان پایا پایا نہ یوں کہ کریے اُس کی طرف اشارت یوں تو جہاں میں ہم نے اُس کو کہاں نہ پایا یہ دل کہ خون ہووے بر جا نہ تھا وگرنہ وہ کون سی جگہ تھی، اُس کو جہاں نہ پایا محرومِ سجدہ آخر جانا پڑا جہاں سے جوشِ جباہ سے ہم وہ...
  6. وہاب اعجاز خان

    انتخابِ کلامِ میر (دیوان اول)

    بھلا ہوگا کچھ اک احوال اس سے یا برا ہوگا ماآل اپنا ترے غم میں‌ خدا جانے کہ کیا ہوگا تفحض فائدہ ناصح، تدارک تجھ سے کیا ہوگا وہی پاوے گا میرا درد، دل جس کا لگا ہوگا کسو کو شوق یارب بیش اس سے اور کیا ہوگا قلم ہاتھ آگئی ہوگی تو سو سو خط لکھا ہوگا معیشت ہم فقیروں کی سی اخوانِ زماں سے کر...
  7. وہاب اعجاز خان

    انتخابِ کلامِ میر (دیوان اول)

    85 ہم عشق میں نہ جانا غم ہی سدا رہے گا دس دن جو ہے یہ مہلت سو یاں دہا رہے گا برقع اُٹھے پہ اُس کے ہوگا جہان روشن خورشید کا نکلنا کیوں کر چھپا رہے گا اک وہم سی رہی ہے اپنی نمود تن میں آتے ہو اب تو آو، پھر ہم میں کیا رہے گا مذکور یار ہم سے مت ہم نشیں کیا کر دل جو بجا نہیں ہے پھراُس...
  8. وہاب اعجاز خان

    انتخابِ کلامِ میر (دیوان اول)

    84 سبزانِ تازہ رو کی جہاں جلوہ گاہ تھی اب دیکھیے تو واں نہیں سایہ درخت کا جوں برگ ہائے لالہ پریشان ہوگیا مذکور کیا ہے اب جگرِ لخت لخت کا دلی میں آج بھیک بھی ملتی نہیں‌انھیں تھا کل تلک دماغ جنھیں تاج و تخت کا خاکِ سیہ سے میں جو برابر ہوا ہوں میر سایہ پڑا ہے مجھ پہ کسو تیرہ بخت کا
  9. وہاب اعجاز خان

    انتخابِ کلامِ میر (دیوان اول)

    83 کیا عجب، پل میں‌اگر ترک ہو اُس سے جاں کا ہو جو زخمی کسو برہم زدنِ مژگاں کا اُٹھتے پلکوں کے گرے پڑتے ہیں لاکھوں آنسو ڈول ڈالا ہے مری آنکھوں نے اب طوفاں کا جلوہء ماہ تہِ ابرِ تنک بھول گیا اُن نے سوتے میں دوپٹے سے جو منھ کو ڈھانکا لہو لگتا ہے ٹپکنے جو پلک ماروں ہوں اب تو یہ رنگ ہے...
  10. وہاب اعجاز خان

    انتخابِ کلامِ میر (دیوان اول)

    82 بارہا گور دل جھکا لایا اب کے شرطِ وفا بجا لایا قدررکھتی نہ تھی متاعِ دل سارے عالم میں مَیں دکھا لایا دل کہ اک قطرہ خوں نہیں ہے بیش ایک عالم کے سر بَلا لایا سب پہ جس بار نے گرانی کی اُس کو یہ ناتواں اُٹھا لایا دل مجھے اُس گلی میں لے جا کر اور بھی خاک میں ملا لایا ابتدا ہی...
  11. وہاب اعجاز خان

    انتخابِ کلامِ میر (دیوان اول)

    81 یہ حسرت ہے مروں اُس میں لیے لبریز پیمانہ مہکتا ہو نپٹ جو پھول سی دارو سے مے خانا نہ وے زنجیر کے غل ہیں، نہ دے جرگے غزالوں کے مرے دیوانے پن تک ہی رہا معمور ویرانا مرا سر نزع میں زانو پہ رکھ کر یوں لگا کہنے کہ اے بیمار میرے، تجھ پہ جلد آساں ہو مرجانا نہ ہو کیوں ریختہ بے شورش وکیفیت...
  12. وہاب اعجاز خان

    انتخابِ کلامِ میر (دیوان اول)

    80 نقاش دیکھ تو میں کیا نقشِ یار کھینچا اُس شوخِ کم نما کا نت انتظار کھینچا رسمِ قلم روِ عشق مت پوچھ کچھ کہ ناحق ایکوں کی کھال کھینچی، ایکوں کو دار کھینچا تھا بد شراب ساقی کتنا کہ رات مے سے میں نے جو ہاتھ کھینچا، اُن نے کٹار کھیچنا پھرتا ہے میر تو جو پھاڑے ہوئے گریباں کس کس ستم...
  13. وہاب اعجاز خان

    انتخابِ کلامِ میر (دیوان اول)

    نہ پوچھ خوابِ زلیخا نے کیا خیال لیا کہ کاروان کا کنعاں کے جی نکال لیا رہِ طلب میں گرے ہوتے سر کے بھل ہم بھی شکستہ پائی نے اپنی ہمیں سنبھال لیا رہوں ہوں برسوں سے ہم دوش پر کبھو اُن نے گلے میں ہاتھ مرا پیار سے نہ ڈال لیا بتاں کی میر ستم وہ نگاہ ہے جس نے خدا کے واسطے بھی خلق کا وبال لیا
  14. وہاب اعجاز خان

    انتخابِ کلامِ میر (دیوان اول)

    78 وہ نہانے لگا تو سایہء زلف بحر میں تُو کہے کہ جال پڑا خوبرو اب نہیں ہیں گندم گوں میر ہندوستاں میں‌ کال پڑا
  15. وہاب اعجاز خان

    انتخابِ کلامِ میر (دیوان اول)

    77 جو یہ دل ہے تو کیا سرانجام ہوگا تہِ خاک بھی خاک آرام ہوگا مرا جی تو آنکھوں میں‌ آیا یہ سنتے کہ دیدار بھی ایک دن عام ہوگا نہ نکلا کر اتنا بھی بے پردہ گھر سے بہت اس میں ظالم تو بدنام ہوگا ہزاروں کی یاں لگ گئیں چھت سے آنکھیں تُو اے ماہ کس شب لبِ بام ہوگا جگرچاکی، ناکامی، دنیا ہے...
  16. وہاب اعجاز خان

    انتخابِ کلامِ میر (دیوان اول)

    76 کب تک تو امتحاں میں مجھ سے جدا رہے گا جیتا ہوں تو تجھی میں یہ دل لگا رہے گا تو برسوں میں ملے ہے، یاں فکر یہ رہے ہے جی جائے گا ہمارا اک دم کو یا رہے گا کیا ہے جو اُٹھ گیا ہے پر بستہء وفا ہے قیدِ حیات میں ہے تو میر آ رہے گا
  17. وہاب اعجاز خان

    دیوان (ناصر کاظمی) تبصرے اور تجاویز

    جواب جی اعجاز صاحب میں تصحیح کردی ہے۔ آپ دیکھ سکتے ہیں کیونکہ جن غزلوں کی تصیح ہوئی ہے ان کے ساتھ لکھا ہوا کہ آخری بار وہاب اعجاز خان نے جمعرات مئی 25, 2006 5:44 pm کو; 1 بار مدون کی
  18. وہاب اعجاز خان

    دیوان (ناصر کاظمی) تبصرے اور تجاویز

    جواب میں کل ہی ساری تصحیح‌کر دیتا لیکن سخت بارش کی وجہ سے بجلی کا نظام متاثر ہوا اور ساری رات گرمی مچھروں اور تاریکی کا مقابلہ کرتے ہوئے گزری۔ آج انشاء اللہ میں یہ ساری تصیح کردوں گا۔
  19. وہاب اعجاز خان

    انتخابِ کلامِ میر (دیوان اول)

    75 اشک آنکھوں میں کب نہیں‌ آتا لہو آتا ہے جب نہیں آتا ہوش جاتا نہیں رہا لیکن جب وہ آتا ہے تب نہیں‌ آتا صبر تھا ایک مونسِ ہجراں سو وہ مدت سے اب نہیں آتا دل سے رخصت ہوئی کوئی خواہش گریہ کچھ بے سبب نہیں‌ آتا (ق) عشق کا حوصلہ ہے شرط ارنہ بات کا کس کو ڈھب نہیں‌آتا جی میں کیا...
  20. وہاب اعجاز خان

    انتخابِ کلامِ میر (دیوان اول)

    74 محبت کا جب زورِ بازار ہوگا بکیں گے سر اور کم خریدار ہوگا نہ خالی رہے گی مری جاگہ، گر میں نہ ہوں گا تو اندہِ بسیار ہوگا یہ منصور کا خونِ ناحق کہ حق تھا قیامت کو کس کس سے خوں دار ہوگا کھنچے عہدِ خط میں‌ بھی دل تیری جانب کبھو تو قیامت طرح دار ہوگا زمیں گیر ہو عجز سے تُو کہ اک دن...
Top