کلاسیکی شعرا کے کلام سے انتخاب

کاشفی

محفلین
داغ و مجروح کو سُن لو کہ پھر اس گلشن میں
نہ سُنے گا کوئی بلبل کا ترانہ ہر گز

(مولانا حالی)
 

کاشفی

محفلین
اسد خوشی سے مرے ہاتھ پاؤں پھول گئے
کہا جو اُس نے مرے ہاتھ پاؤں داب تو دے

(غالب)
 

کاشفی

محفلین
اب داغ سا ہمرنگ زمانے میں کہاں ہے
بوڑھوں میں وہ بوڑھا ہے، جوانوں میں جواں ہے

(داغ)
 

کاشفی

محفلین
اے داغ کیوں نہ مجھ کو شفاعت کی ہو اُمید
میں ہوں مُحب حسین کا، دشمن یزید کا

(داغ)
 

کاشفی

محفلین
شبِ وصلت وہ مرے سینہ سے لگ کر مجروح
کہتے ہیں لے ترا باقی کوئی ارماں تو نہیں

(مجروح)
 

کاشفی

محفلین
لے لے کے بلائیں ، مجھے یہ کہتی ہیں آنکھیں
صدقہ ترے، پھر ایک نظر مجھ کو دکھا لا

(نظیر اکبر آبادی)
 

کاشفی

محفلین
کہتے ہیں یاں کہ مجھ سا کوئی مہ جبیں نہیں
پیارے جو ہم سے پوچھو تو یاں کیا، کہیں نہیں

(نظیر اکبر آبادی)
 

کاشفی

محفلین
کہا جو حالِ دل اپنا تو اُس نے ہنس ہنس کر
کہا غلط ہیں یہ باتیں جو تم بتاتے ہو

کہا جتاتے ہو کیوں ہم کو روز ناز و ادا
کہا کہ تم بھی تو چاہت ہمیں جتاتے ہو

(نظیر اکبر آبادی)
 

کاشفی

محفلین
یاد ہیں سب گلعذار لکھنؤ
پھول سے بہتر ہیں خار لکھنؤ

گل سے رنگیں تر ہیں خار لکھنؤ
نشے سے بہتر خمار لکھنؤ

سارے نقشے سامنے آنکھوں کے ہیں
نقش ہیں نقش و نگارلکھنؤ

ہم صفیر اپنا وطن ہے لکھنؤ
ہم تو بلبل ہیں چمن ہے لکھنؤ

آسماں کی کب ہے طاقت جو چھڑائے لکھنؤ
لکھنؤ مجھ پر فدا ہے میں فدائے لکھنؤ

(ناسخ)​
 

کاشفی

محفلین
مونس کی گلستاں میں ابھی آنکھ لگی ہے
اے بلبلوں یہ شور مچانا نہیں اچھا

(مونس ، میر محمد نواب صاحب مونس ، میر خلیق کے چھوٹے فرزند اور میر ببر علی انیس کے چھوٹے بھائی تھے۔ شاعری میں ان کا مرتبہ میر انیس سے کم نہ تھا۔ لیکن گوشہ نشینی نے ان کی شہرت کو مسدود رکھا - وضع کے نہایت پابند تھے۔ یہ بات مشہور ہے کہ میر مونس سے بڑھ کر کسی نے مر ثیہ نہیں پڑھا۔ )
 

فرخ منظور

لائبریرین
مونس کی گلستاں میں ابھی آنکھ لگی ہے
اے بلبلوں یہ شور مچانا نہیں اچھا

(مونس ، میر محمد نواب صاحب مونس ، میر خلیق کے چھوٹے فرزند اور میر ببر علی انیس کے چھوٹے بھائی تھے۔ شاعری میں ان کا مرتبہ میر انیس سے کم نہ تھا۔ لیکن گوشہ نشینی نے ان کی شہرت کو مسدود رکھا - وضع کے نہایت پابند تھے۔ یہ بات مشہور ہے کہ میر مونس سے بڑھ کر کسی نے مر ثیہ نہیں پڑھا۔ )

واہ بہت عمدہ کاشفی صاحب۔ اگر ہو سکے تو میر مونس کا کوئی مرثیہ ضرور شریکِ محفل کیجیے۔ چاہے چند اشعار ہی کیوں نہ ہوں
 

فاتح

لائبریرین
یاد ہیں سب گلعذار لکھنؤ
پھول سے بہتر ہیں خار لکھنؤ

گل سے رنگیں تر ہیں خار لکھنؤ
نشے سے بہتر خمار لکھنؤ

سارے نقشے سامنے آنکھوں کے ہیں
نقش ہیں نقش و نگارلکھنؤ

ہم صفیر اپنا وطن ہے لکھنؤ
ہم تو بلبل ہیں چمن ہے لکھنؤ

آسماں کی کب ہے طاقت جو چھڑائے لکھنؤ
لکھنؤ مجھ پر فدا ہے میں فدائے لکھنؤ

(ناسخ)​
کلام تو بہرحال خوبصورت ہے ہی لیکن ایک اچنبھے کی بات اس میں یہ بھی ہے کہ مقطع کی بحر باقی اشعار سے مختلف ہے۔ باقی تمام اشعار بحر "رمل مسدس محذوف" میں ہیں جب کہ مقطع بحر "رمل مثمن محذوف"میں۔
استاد امام بخش ناسخؔ نے شاید اپنا صوابدیدی اختیار استعمال کیا ہے۔ ناسخ "تازہ گوئی" اور "جدت طرازی" کے حوالے سے تو مشہور ہیں ہی لیکن ان کے دور (1772ء تا 1883ء) میں، جو کہ غالبؔ سے بھی پرانا زمانہ ہے، بحور و اوزان کے استعمال میں ایسی جدت حیران کن ہے۔
 

کاشفی

محفلین
واہ بہت عمدہ کاشفی صاحب۔ اگر ہو سکے تو میر مونس کا کوئی مرثیہ ضرور شریکِ محفل کیجیے۔ چاہے چند اشعار ہی کیوں نہ ہوں

شکریہ سخنور صاحب۔۔

جلوہ ہے دل میں حُبِ علی کی شراب کا
مینائے احمری میں ہے پھول آفتاب کا

(میر مونس )
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
گوہر نکلتے آتے ہیں دریائے طبع سے
ہے عین آبرو جو کریں آشنا پسند

(میر مونس )
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
قبر میں خاک شفا پھولوں کی چادر باہر
مجرئی بوئے ارم پھیلی ہے اندر باہر

دیکھ عبرت سے ذرا گورِ غریباں کی طرف
استخواں قبر کے اندر ہیں تو پتھر باہر

باغِ عالم میں چلی ہے یہ ہوا خست کی
غنچے کہتے ہیں کہ مٹھی سے نہ ہو زر باہر

(میر مونس )
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
غیر کی مدح کروں شہ کا ثنا خواں ہو کر
مجرئی اپنی ہوا کھوؤں سلیماں ہو کر

(میر مونس )
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سلامی لُطفِ زباں ہم زباں اُٹھاتے ہیں
مرے سخن کا مزا قدر داں اُٹھاتے ہیں

(میر مونس )
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 

کاشفی

محفلین
دے دوپٹہ تو اپنا ململ کا
ناتواں ہوں کفن بھی ہو ہل کا

(ناسخ)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نازنینوں سے کروں کیا ربط میں نازک مزاج
بوجھ اُٹھ سکتا نہیں مجھ سے کسی کے ناز کا

(ناسخ)
 
Top