کلاسیکی شعرا کے کلام سے انتخاب

فرخ منظور

لائبریرین
شیخ ولی اکبر نظیر

ہم نے چاہا تھا کہ حاکم سے کریں گے فریاد
وہ بھی کمبخت ترا چاہنے والا نکلا

سر چشمۂ بقا سے ہر گز نہ آب لاؤ
حضرتِ خضر کہیں سے جا کر شراب لاؤ

عشق پھر رنگ وہ لایا ہے کہ جی جانے ہے
دل کا یہ رنگ بنایا ہے کہ جی جانے ہے

میں دست و گریباں ہوں دمِ بازِ پسیں سے
ہمدم اسے لاتا ہے تو لا جلد کہیں سے

 

فرخ منظور

لائبریرین
(آشوب)

کوئی دم خاک میں ہم خاک کے آسودوں کو
اوس کے ہنگامۂ رفتار نے سونے نہ دیا

پوچھا جو میں نے یار سے انجامِ سوزِ عشق
شوخی سے اک چراغ کو اوس نے بجھا دیا

دل کو سمجھے تھے کہ اوس بزم سے لے آئیں گے
ہائے اپنا بھی ہوا وہاں سے پھر آنا مشکل

دل کہیں دیدہ کہیں صبر کہیں تاب کہیں
ہائے کتنا شبِ ہجراں میں پریشان ہوں میں

دیدہ و دل اوس پر مائل میرے دونوں ہیں
دشمن میرے دونوں ہیں قاتل میرے دونوں ہیں

 

فرخ منظور

لائبریرین
(تخلص اسد شاگرد مرزا رفیع سودا)

بزمِ بتاں ہو جام ہو خلوت ہو پھر تو بس
کافر ہوں گر وہاں میں خدا کا بھی ڈر کروں

غالب نے اس شعر پر کہا تھا کہ اگر یہ میرا شعر ہے تو مجھ پر لعنت۔
اسد اس جفا پر بتوں سے وفا کی
مرے شیر شاباش رحمت خدا کی

جس سے کہ دل ملا تھا جب آیا وہ سامنے
ہلنے نہ پائے ہونٹ کہ سو بات ہو گئی

 

فرخ منظور

لائبریرین
(انشا)

گر یار مے پلائے تو کیوں کر نہ پیجیے
زاہد نہیں، میں شیخ نہیں، کچھ ولی نہیں

دل کو لے بھاگی کدھر ہاتھ سے تیرے انشا
کوئی کھڑکی بھی تو اس گنبدِ بے در میں نہیں

چھیڑنے کا تو مزا تب ہے کہو اور سنو
بات میں تم تو خفا ہو گئے لو اور سنو

سچ یہ آفت تری یہ دھج یہ خوش اندامی ہے
کہ نظر بھر کے تجھے دیکھیں تو بدنامی ہے

غصے میں ترے ہم نے بڑا لطف اٹھایا
اب تو عمداً اور بھی تقصیر کریں گے

 

کاشفی

محفلین
اطبّا دیکھ کر بیمار کو تیرے یہ کہتے ہیں
بہم پُہنچے تو اس کو شربتِ دیدار بہتر ہے

سوا لِ بوسہ پر ہنس کر وہ بُت کہتا ہے اے آتش
خیالِ بد اگر گزر ے تو استغفار بہتر ہے

(آتش)
 

کاشفی

محفلین
یہ جسمِ زار بے حرکت پیرہن میں ہے
سب مجھ کو جانتے ہیں کہ مردہ کفن میں ہے

فرقت قبول رشک کے صدمے نہیں قبول
کیا آئیں ہم رقیب تری انجمن میں ہے

ہیں بے نصیب صحبت جاناں سے ایک ہم
پروانہ بزم میں ہے تو بلبل چمن میں ہے

دونوں کا کر چکا ہوں میں اے ناسخ امتحان
سید میں مہر ہے نہ وفا برہمن میں ہے

(شیخ امام بخش متخلص بہ ناسخ )
 

کاشفی

محفلین
زندگی زندہ دلی کا ہے نام
مُردہ دل خاک جیا کرتے ہیں

دھیان آتا ہے کفن کا مجھ کو
کپڑے جب قطع کیا کرتے ہیں

نیک و بد کیا ہوں ہمیشہ باہم
پھول کانٹوں سے جدا کرتے ہیں

(شیخ امام بخش متخلص بہ ناسخ )
 

کاشفی

محفلین
کون کہتا ہے مُنہ کو کھولو تم
کاش کے پردے ہی میں بولو تم

حکم آبِ رواں رکھے ہے حُسن
بہتے دریا میں ہاتھ دھو لو تم

جب میسر ہو بوسہ اُس لب کا
چُپ کے ہی ہو رہو نہ بولو تم

رات گزری ہے سب تڑپتے میر
آنکھ لگ جائے گر تو سو لو تم

(میر)
 

کاشفی

محفلین
آج اُس بزم میں طوفان اُٹھا کے اُٹھے
یاں تلک روئے کہ اُس کو بھی رولا کے اُٹھے

جی ہی مانند نشان کفِ پا بیٹھ گیا
پاؤں کیا کوچہ سے اُس ہوش ربا کے اُٹھے

شعر مومن کے پڑھے بیٹھ کے اُس کے آگے
خوب احوالِ دلِ زار سُنا کے اُٹھے
(مومن)
 

کاشفی

محفلین
بُت بھی عاشق ہیں اپنی صورت کے
اے میں قربا ں تیری قدرت کے

آتے ہی چشمِ اہل دنیا میں
سوگئے پاؤں خواب ِ غفلت کے

نہیں سنتا ہے اے منیر کوئی
ڈنکے بجتے ہیں کوسِ رحلت کے

(سید محمد اسمعیل متخلص بہ منیر)
 

کاشفی

محفلین
یہ ہم جو ہجر میں دیوار و در کو دیکھتے ہیں
کبھی صبا کو کبھی نامہ بر کو دیکھتے ہیں

وہ آئے گھر میں ہمارے خدا کی قدرت ہے
کبھی ہم اُن کو کبھی اپنے گھر کو دیکھتے ہیں

نظر لگے نہ کہیں اُس کے دست و بازو کو
یہ لوگ کیوں مرے زخمِ جگر کو دیکھتے ہیں

(غالب)
 

کاشفی

محفلین
زبان ہلاؤ تو ہو جائے فیصلہ دل کا
اب آچکا ہے لبوں پر معاملہ دل کا

کچھ اور بھی تجھے اے داغ بات آتی ہے
وہی بتوں کی شکایت وہی گلہ دل کا

(داغ)
 

کاشفی

محفلین
حسرت آتی ہے دلِ ناکام پر
اس کو دے ڈالوں خدا کے نام پر

ہو گیا صیاد بھی عاشق مزاج
خود بچھا جاتا ہے اپنےدام پر

جب پسند آتا ہے میرا شعر اُنہیں
گالیاں پڑتی ہیں میرے نام پر

جلنے لگتی ہے زبان کہتے ہی، داغ
اُف نکل جاتی ہے میرے نام پر

(داغ)
 
Top