کلاسیکی شعرا کے کلام سے انتخاب

فرخ منظور

لائبریرین
ہم چمن میں گئے تھے وا نہ ہوئے
نکہتِ گُل سے آشنا نہ ہوئے

خوار و زار و ذلیل و بے روہت
عاشق اس کے ہوئے سو کیا نہ ہوئے

(میر)
 

فرخ منظور

لائبریرین
عشق سے دل پہ تازہ داغ جلا
اس سیہ خانے میں چراغ جلا

میر کی گرمی تم سے اچرج ہے
کس سے ملتا ہے یہ دماغ جلا

(میر)
 

فرخ منظور

لائبریرین
چاندنی میں جب تجھے یاد اے مۂ تاباں کیا
رات بھر اختر شماری نے مجھے حیراں کیا

قامتِ موزوں تصوّر میں قیامت ہو گیا
چشم کی گردش نے کارِ فتنۂ دوراں کیا

شام سے ڈھونڈیا کیا زنجیر پھانسی کے لئے
صبح تک میں نے خیالِ گیسوئے پیچاں کیا

(آتش)
 

فرخ منظور

لائبریرین
کس طرح سے میں دلِ وحشی کا کہنا مانوں
کوئی قائل نہیں دیوانے کی دانائی کا

یہی زنجیر کے نالے سے صدا آتی ہے
قید خانے میں برا حال ہے سودائی کا

بعد شاعر کے ہوا مشہور کلامِ شاعر
شہرہ البتہ کہ ہو مردے کی گویائی کا

(آتش)
 

فرخ منظور

لائبریرین
وہ بزم اپنی تھی میکشی کی، فرشتے ہو جاتے مست و بیخود
جو شیخ جی واں سے بچ کے آتے تو پھر میں ان کو سلام کرتا

جو زلفیں مکھڑے پہ کھول دیتا صنم ہمارا تو پھر یہ گردوں
نہ دن دکھاتا، نہ شب بتاتا، نہ صبح لاتا، نہ شام کرتا

نظیر آخر کو ہار کر میں گلی میں اس کی گیا تھا بکنے
تماشا ہوتا جو لے کے مجھ کو وہ شوخ اپنا غلام کرتا

(نظیر اکبر آبادی)
 

فرخ منظور

لائبریرین
ساقی ظہورِ صبح و ترشح ہے نور کا
دے مے یہی تو وقت ہے نور و ظہور کا

کوچہ میں اس کے جس کو جگہ مل گئی وہ پھر
مائل ہوا نہ صحنِ چمن کے سرور کا

مے پی کے عاشقی کے خرابات میں نظیر
نے ڈر ہے محتسب کا نہ صدر الصدور کا

(نظیر اکبر آبادی)
 

فرخ منظور

لائبریرین
جو ہم نہ ہوویں تو آکر ہمارے کوچے میں
یہ جم کے بیٹھنا پہروں تلک نہ گھبرانا

جو ہم خفا ہوں تو آکر ہزار منت سے
خوشی سے چھیڑنا، ہنس ہنس کے گالیاں کھانا

پس ایسی باتوں سے کیونکر نہ چاہ ثابت ہو
خدا کو دیکھا نہیں عقل سے تو پہچانا

(نظیر اکبر آبادی)
 

فرخ منظور

لائبریرین
یار کی مے گوں چشم نے اپنی ایک نگہ سے ہم کو نظیر
مست کیا، اوباش بنایا، رند کیا، بدنام کیا

(نظیر اکبر آبادی)
 

محمد وارث

لائبریرین
مجھے شکوہ نہیں، برباد رکھ، برباد رہنے دے
مگر لِلّہ میرے دل میں اپنی یاد رہنے دے

مرے ناشاد رہنے سے اگر تجھ کو مسرّت ہے
تو میں ناشاد ہی اچھّا، مجھے ناشاد رہنے دے

کچھ اپنی گزری ہی بیدم بھلی معلوم ہوتی ہے
مری بیتی سنا دے، قصّۂ فرہاد رہنے دے

(شاہ بیدم وارثی)
 

محمد وارث

لائبریرین
تم اور وفا کرو، یہ نہ مانوں گا میں کبھی
اُس کو فریب دو، جو تمھیں جانتا نہ ہو

کیا کیا شرر ذلیل ہوئے، آبرو گئی
ایسا بھی عاشقی کا کسی کو مزا نہ ہو

(مولوی عبدالحلیم شرر لکھنوی)
 

محمد وارث

لائبریرین
شبِ فرقت میں نالوں نے جہاں سر پر اٹھایا ہے
زمیں کو زلزلہ ہے، آسماں چکّر میں آیا ہے

حسابِ آب و دانہ حشر میں ہوگا، تو کہہ دونگا
پیا ہے عمر بھر خونِ جگر، غم میں نے کھایا ہے

(امانت لکھنوی)
 

محمد وارث

لائبریرین
رکھو خدمت میں، مجھ سے کام تو لو
بات کرتے نہیں، سلام تو لو

ناز و انداز و حسن و خوبی میں
کون ہے تم سا، اس کا نام تو لو

رند حاضر ہیں شیشہ و ساغر
مے نہ سمجھو اگر حرام، تو لو

(رند لکھنوی)
 

فرخ منظور

لائبریرین
آتا ہے دل میں چاکِ گریبان کیجیے
صحرا کی آج چلنے کا سامان کیجیے

واصف (یہ واصف علی واصف نہیں یہ کلاسیکی شاعر ہیں۔ گلشنِ بے خار میں ان کا تذکرہ ملتا ہے)
 
Top