کلاسیکی شعرا کے کلام سے انتخاب

فرخ منظور

لائبریرین
کل واقفِ راز اپنے سے وہ کہتا تھا یہ بات
جرات کے یہاں رات جو مہمان گئے ہم
کیا جانیے کمبخت نے کیا ہم پہ کیا سحر
جو بات نہ تھی ماننے کی مان گئے ہم
(جرات)
 

فرخ منظور

لائبریرین
رہا ہے کون عالم میں سدا ، عالم یہ فانی ہے
گر اٹھ جاوئینگے ہم بھی ایک دن عالم سے کیا ہوگا

(مصحفی)
 

فرخ منظور

لائبریرین
پوچھتا کیا ہے حال دل کا میرے
او میاں تجھ سے کچھ چھپا تو نہیں
یعنی عاشق ہو اور ہرجائی
اب تلک ہم نے یہ سنا تو نہیں
بات پر اُس کی میں جو کل بولا
کہا کچھ ذکر آپ کا تو نہیں
(مصحفی)
 

فرخ منظور

لائبریرین
ہے ماہ کہ آفتاب کیا ہے
دیکھو تو تہِ نقاب کیا ہے
میں نے تجھے تُو نے مجھ کو دیکھا
اب مجھ سے تجھے حجاب کیا ہے
آئے ہو تو کوئی دم تو بیٹھو
اے قبلہ یہ اضطراب کیا ہے
مجھ کو بھی گنے وہ عاشقوں میں
اس بات کا سو حساب کیا ہے
اس میکدہ جہاں میں یارو
مجھ سا بھی کوئی خراب کیا ہے

(مصحفی)
 
Top