ولی دکنی ہوا ہے دل مرا مشتاق تجھ چشمِ شرابی کا ۔ ولی دکنی

فرخ منظور

لائبریرین
ہوا ہے دل مرا مشتاق تجھ چشمِ شرابی کا
خراباتی اُپر آیا ہے شاید دن خرابی کا

کیا مدہوش مجھ دل کو انیندی نین ساقی نے
عجب رکھتا ہے کیفیت زمانہ نیم خوابی کا

خطِ شب رنگ رکھتا ہے عداوت حسنِ خوباں سوں
کہ جیوں خفّاش ہے دشمن شعاعِ آفتابی کا

نہ جاؤں صحنِ گلشن میں کہ خوش آتا نہیں مجھ کوں
بغیر از ماہ رُو ہرگز تماشا ماہتابی کا

نہ پوچھو اب ہوا ہے ہم سخن وہ دلبرِ رنگیں
عجب تصویر پر ہے رنگِ دائم لاجوابی کا

پری رُخ کو اٹھانا نیند سوں بر جا نہیں عاشق
عجب کچھ لطف رکھتا ہے زمانہ نیم خوابی کا

نہ جانوں کس پری رُو سوں ہوا ہے جا کے ہم زانو
کہ آئینے نے پایا ہے لقب حیرت مآبی کا

ولی سوں بے حسابی بات کرنا بے حسابی ہے
نہیں وہ آشنا اے یار ہرگز بے حسابی کا

(ولی دکنی)
 

فاتح

لائبریرین
اس خوبصورت انتخاب پر آپ کا شکریہ۔ مطلع کا مصرع ثانی دوباری ملاحظہ فرمائیے گا کہ شاید ٹائپنگ کے دوران کچھ چوک گئے ہیں۔
خرابات اُپر آیا ہے شاید دن خرابی کا
 

فرخ منظور

لائبریرین
اس خوبصورت انتخاب پر آپ کا شکریہ۔ مطلع کا مصرع ثانی دوباری ملاحظہ فرمائیے گا کہ شاید ٹائپنگ کے دوران کچھ چوک گئے ہیں۔
خرابات اُپر آیا ہے شاید دن خرابی کا

نشاندہی کے لئے بہت شکریہ فاتح صاحب۔ درست کر دیا ہے۔ خراباتی کی بجائے خرابات ٹائپ ہو گیا تھا۔
 

کاشفی

محفلین
عمدہ جناب سخنور صاحب۔۔آپ کا ذوق بہت ہی عمدہ اور اعلٰی ہے۔۔ ۔ ایک بات بتاؤں جب آپ کی شیئر کی ہوئی غزل پڑھتا ہوں تو مجھے کچھ کچھ ہونے لگتا ہے۔ :)۔۔
 

فرخ منظور

لائبریرین
عمدہ جناب سخنور صاحب۔۔آپ کو ذوق بہت ہی عمدہ اور اعلٰی ہے۔۔ ۔ ایک بات بتاؤں جب آپ کی شیئر کی ہوئی غزل پڑھتا ہوں تو مجھے کچھ کچھ ہونے لگتا ہے۔ :)۔۔

ہا ہا۔ بہت بہت شکریہ کاشفی صاحب۔ مجھے بھی کوئی کلام پڑھ کر جب کچھ کچھ ہوتا ہے تو صرف وہی کلام ہی میں پوسٹ کرتا ہوں۔ :)
 
Top