کاشفی

محفلین
غزل
(شیخ ابراہیم دہلوی متخلص بہ ذوقؔ)

جُدا ہوں یار سے ہم، اور نہ ہوں رقیب جُدا
ہے اپنا اپنا مقدر جُدا نصیب جُدا

دکھا دے جلوہ جو مسجد میں وہ بُتِ کافر
تو چیخ اُٹھے مؤذن جُدا خطیب جُدا

جُدا نہ دردِ جُدائی ہو، گر مرے اعضا
حروفِ درد کی صورت ہوں، ہے طبیب جُدا

ہے اور علم و ادب، مکتبِ محبت میں
کہ ہے، وہاں کا مُعلم جُدا، ادیب جُدا

فراقِ خلد سے گندم ہے سینہ چاک اب تک
الٰہی ہو نہ وطن سے کوئی غریب جُدا

کیا حبیب کو مُجھ سے جُدا فلک نے اگر
نہ کر سکا مِرے دل سے غمِ حبیب جُدا

کریں‌جُدائی کا کس کس کی رنج ہم ؟ اے ذوقؔ
کہ ہونے والے ہیں سب ہم سے عنقریب جُدا
 

کاشفی

محفلین
غزل
(شیخ ابراہیم دہلوی متخلص بہ ذوقؔ)

جُدا ہوں یار سے ہم، اور نہ ہوں رقیب جُدا
ہے اپنا اپنا مقدر جُدا نصیب جُدا

تری گلی سے نکلتے ہی اپنا دم نکلا
رہے ہے کیونکہ گلستاں سے عندلیب جُدا

دکھا دے جلوہ جو مسجد میں وہ بُتِ کافر
تو چیخ اُٹھے مؤذن جُدا خطیب جُدا

جُدا نہ دردِ جُدائی ہو، گر مرے اعضا
حروفِ درد کی صورت ہوں، اے طبیب جُدا

ہے اور علم و ادب، مکتبِ محبت میں
کہ ہے، وہاں کا مُعلم جُدا، ادیب جُدا

ہجوم اشک کے ہمراہ کیوں نہ ہو نالہ
کہ فوج سے نہیں رہتا کبھی نقیب جُدا

فراقِ خلد سے گندم ہے سینہ چاک اب تک
الٰہی ہو نہ وطن سے کوئی غریب جُدا

کیا حبیب کو مُجھ سے جُدا فلک نے اگر
نہ کر سکا مِرے دل سے غمِ حبیب جُدا

کریں‌جُدائی کا کس کس کی رنج ہم ؟ اے ذوقؔ
کہ ہونے والے ہیں سب ہم سے عنقریب جُدا
 
Top