داغ کیوں چُراتے ہو دیکھ کر آنکھیں ۔ داغ دہلوی

فرخ منظور

لائبریرین
غزل

کیوں چُراتے ہو دیکھ کر آنکھیں
کر چکیں میرے دل میں گھر آنکھیں

ضعف سے کچھ نظر نہیں آتا
کر رہی ہیں ڈگر ڈگر آنکھیں

چشمِ نرگس کو دیکھ لیں پھر ہم
تم دکھا دو جو اِک نظر آنکھیں

ہے دوا ان کی آتشِ رخسار
سینکتے ہیں اس آگ پر آنکھیں

کوئی آسان ہے ترا دیدار
پہلے بنوائے تو بشر آنکھیں

جلوۂ یار کی نہ تاب ہوئی
ٹوٹ آئی ہیں کس قدر آنکھیں

دل کو تو گھونٹ گھونٹ کر رکھا
مانتی ہی نہیں مگر آنکھیں

نہ گئی تانک جھانک کی عادت
لئے پھرتی ہیں در بدر آنکھیں

کیا یہ جادو بھرا نہ تھا کاجل
سرخ کر لیں جو پونچھ کر آنکھیں

ناوک و نیشتر تری پلکیں
سحر پرداز و فتنہ گر آنکھیں

یہ نرالا ہے شرم کا انداز
بات کرتے ہو ڈھانک کر آنکھیں

خاک پر کیوں ہو نقشِ پا تیرا
ہم بچھائیں زمین پر آنکھیں

نوحہ گر کون ہے مقدّر کا
رونے والوں میں ہیں مگر آنکھیں

یہی رونا ہے گر شبِ غم کا
پھوٹ جائیں گی تا سحر آنکھیں

حالِ دل دیکھنا نہیں آتا
دل کی بنوائیں چارہ گر آنکھیں

داغ آنکھیں نکالتے ہیں وہ
ان کو دے دو نکال کر آنکھیں

(داغ دہلوی)
 

فاتح

لائبریرین
داغ آنکھیں نکالتے ہیں وہ
ان کو دے دو نکال کر آنکھیں
ہم نے تو محض اس کا مشہور زمانہ مقطع ہی سن رکھا تھا۔
 

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
اردو لغت میں شاید سب سے زیادہ محاورے اور روزمرہ آنکھ سے متعلق ہی ہیں ۔ جس خوبصورتی سے داغ نے اس غزل کے ہر شعر میں جس طرح محاورے کا استعمال کیا ہے وہ بیشک داغ ہی کا حصہ ہے ۔ واہ، واہ! کیا کہنے !! سبحان اللہ سبحان اللہ !!
 
Top