فارسی شاعری می رقصم - شیخ عثمان مروَندی معروف بہ لال شہباز قلندر کی غزل

محمد وارث

لائبریرین
شیخ سید عثمان شاہ مروَندی علیہ الرحمہ معروف بہ لال شہباز قلندر ایک جلیل القدر صوفی ہیں اور انکے نامِ نامی کی شہرت عالم گیر ہے۔ انکی ایک غزل بہت مشہور ہے جس کی ردیف 'می رقصم' ہے، اس غزل کا کچھ تذکرہ مولانا رومی کی ایک غزل جس کی ردیف 'می گردم' ہے لکھتے ہوئے بھی آیا تھا۔ اس وقت سے میں اس غزل کی تلاش میں تھا لیکن افسوس کہ نیٹ پر مکمل غزل کہیں نہیں ملی بلکہ اکا دکا اشعار ادھر ادھر بکھرے ہوئے ملے۔ کتب میں بھی تلاش کیا لیکن نہیں ملی۔

اس سلسلے میں ایک عرض یہ کرونگا کہ بعض مشہور و معروف غزلیات جو صدیوں سے زبان زد عام ہیں، کتب میں نہیں ملتیں، مثلاً امیر خسرو علیہ الرحمہ کی نعت، نمی دانم چہ منزل بود شب جائے کہ من بودم، انکی غزلیات کے پانچوں دیوانوں میں نہیں ہے (بحوالہ خسرو شیریں بیاں از مسعود قریشی، لوک روثہ اشاعت گھر، اسلام آباد) اسی طرح مولانا رومی کی مذکورہ غزل، نہ من بیہودہ گردِ کوچہ و بازار می گردم، انکی غزلیات کے دیوان 'دیوانِ شمس' میں موجود نہیں ہے، مولانا کے یہ کلیات ایران میں تصحیح کے ساتھ شائع ہو چکے ہیں اور اسی دیوانِ سمش کا آن لائن ورژن ویب پر بھی موجود ہے، جس میں یہ غزل موجود نہیں ہے اور اسی طرح شیخ عثمان کی مذکورہ غزل بھی کہیں نہیں ملتی لیکن عام طور سے یہی مشہور ہے کہ یہ غزل شیخ عثمان کی ہے۔ اس غزل کے چار اشعار مجھے ویب سے ملے تھے، باقی اشعار نصرت فتح علی خان قوال کی گائی ہوئی ایک قوالی (امیر خسرو کی نعت نمی دانم) سے ملے ہیں اور یوں سات اشعار کی ایک غزل بہرحال بن گئی ہے جو احباب کی خدمت میں پیش کر رہا ہوں، مجھے پورا یقین ہے کہ اس غزل کے مزید اشعار بھی ہونگے، بہرحال تلاش جاری ہے۔

غزل پیشِ خدمت ہے۔

نمی دانم کہ آخر چوں دمِ دیدار می رقصم
مگر نازم بہ ایں ذوقے کہ پیشِ یار می رقصم

نہیں جانتا کہ آخر دیدار کے وقت میں کیوں رقص کر رہا ہوں، لیکن اپنے اس ذوق پر نازاں ہوں کہ اپنے یار کے سامنے رقص کر رہا ہوں۔

تو ہر دم می سرائی نغمہ و ہر بار می رقصم
بہ ہر طرزِ کہ می رقصانیَم اے یار می رقصم

تو جب بھی اور جس وقت بھی نغمہ چھیڑتا ہے میں اسی وقت اور ہر بار رقص کرتا ہوں، اور جس طرز پر بھی تو ہمیں رقص کرواتا ہے، اے یار میں رقص کرتا ہوں۔

تُو آں قاتل کہ از بہرِ تماشا خونِ من ریزی
من آں بسمل کہ زیرِ خنجرِ خوں خوار می رقصم

تُو وہ قاتل کہ تماشے کیلیے میرا خون بہاتا ہے اور میں وہ بسمل ہوں کہ خوں خوار خنجر کے نیچے رقص کرتا ہوں۔

بیا جاناں تماشا کن کہ در انبوہِ جانبازاں
بہ صد سامانِ رسوائی سرِ بازار می رقصم

آجا جاناں اور دیکھ کہ جانبازوں کے گروہ میں، میں رسوائی کے صد سامان لیے سر بازار رقص کر رہا ہوں۔

اگرچہ قطرۂ شبنم نہ پویَد بر سرِ خارے
منم آں قطرۂ شبنم بہ نوکِ خار می رقصم

اگرچہ شبنم کا قطرہ کانٹے پر نہیں ٹھہرتا لیکن میں وہ قطرۂ شبنم ہوں کہ نوکِ خار پر رقص کرتا ہوں۔

خوش آں رندی کہ پامالش کنم صد پارسائی را
زہے تقویٰ کہ من با جبّہ و دستار می رقصم

واہ وہ رندی کہ جس کیلیے میں سیکنڑوں پارسائیوں کو پامال کر دوں، مرحبا یہ تقویٰ کہ میں جبہ و دستار کے ساتھ رقص کرتا ہوں۔

منم عثمانِ مروندی کہ یارے شیخ منصورم
ملامت می کند خلقے و من بر دار می رقصم

میں عثمان مروندی کہ شیخ منصور (حلاج) میرے دوست ہیں، مجھے خلق ملامت کرتی ہے اور میں دار پر رقص کرتا ہوں۔

اس شعر کیلیے ایک وضاحت یہ کہ شیخ عثمان کا نام شیخ عثمان مروَندی ہے لیکن یہ شعر نصرت فتح علیخان نے عثمان ہارونی کے نام کے ساتھ گایا ہے۔ میں نے اپنی سی کوشش ضرور کی کہ کہیں سے یہ علم ہو جائے کہ صحیح شعر کیا ہے اور یہ 'ہارونی' کیوں آیا ہے مصرعے میں لیکن افسوس کہ میرے پاس ذرائع محدود ہیں، یہ بھی علم نہیں ہو سکا کہ کیا 'ہارون' انکے کسی مرشد کا نام تھا جس کی طرف انہوں نے نسبت کی ہے۔

بہرحال تحقیق کے دروازے کھلے ہیں، اس شعر بلکہ اس غزل کے دیگر اشعار کیلیے میں بھی سرگرداں ہوں اور دیگر اہلِ علم و فن و ہنر کو بھی دعوتِ عام ہے۔
 

الف نظامی

لائبریرین
یہ بھی ملاحظہ ہو:

بہ گردِ مرکزِ خود صورتِ پرکار می رقصم
محیطِ بے کرانم من قلندر وار می رقصم

چو اندر این وجودے خود مقامِ یار می بینم
ہزاراں پردہا چاکم ہزاراں‌ بار می رقصم

منم بے تاب و بے صبرم قتیلِ نظرِ‌ بے باکم
بچشمِ شوخِ آں‌ شوخے پئے دیدار می رقصم

حیائے شانِ بے چُونم متاعِ کنز مخفی ام
ز انوارِ تجلائے سرِ بازار می رقصم

اگرچہ رشتہ جانے و جاناں سر پنہانم
خوشا آں حلقہ گیسو کہ من بردار می رقصم

جلائے آبِ شمشیرم ضیائے درِ مکنونم
سراپا کیف و مستی ام قلندر دار می رقصم

ولی را خود نمی دانم نثارِ‌لذت ہوئم
اگرچہ لامکاں دارم پئے اظہار می رقصم

از ولی الدین
 

الف نظامی

لائبریرین
شیخ سید عثمان شاہ مروَندی علیہ الرحمہ معروف بہ لال شہباز قلندر ایک جلیل القدر صوفی ہیں اور انکے نامِ نامی کی شہرت عالم گیر ہے۔ انکی ایک غزل بہت مشہور ہے جس کی ردیف 'می رقصم' ہے، اس غزل کا کچھ تذکرہ مولانا رومی کی ایک غزل جس کی ردیف 'می گردم' ہے لکھتے ہوئے بھی آیا تھا۔ اس وقت سے میں اس غزل کی تلاش میں تھا لیکن افسوس کہ نیٹ پر مکمل غزل کہیں نہیں ملی بلکہ اکا دکا اشعار ادھر ادھر بکھرے ہوئے ملے۔ کتب میں بھی تلاش کیا لیکن نہیں ملی۔

اس سلسلے میں ایک عرض یہ کرونگا کہ بعض مشہور و معروف غزلیات جو صدیوں سے زبان زد عام ہیں، کتب میں نہیں ملتیں، مثلاً امیر خسرو علیہ الرحمہ کی نعت، نمی دانم چہ منزل بود شب جائے کہ من بودم، انکی غزلیات کے پانچوں دیوانوں میں نہیں ہے (بحوالہ خسرو شیریں بیاں از مسعود قریشی، لوک روثہ اشاعت گھر، اسلام آباد) اسی طرح مولانا رومی کی مذکورہ غزل، نہ من بیہودہ گردِ کوچہ و بازار می گردم، انکی غزلیات کے دیوان 'دیوانِ شمس' میں موجود نہیں ہے، مولانا کے یہ کلیات ایران میں تصحیح کے ساتھ شائع ہو چکے ہیں اور اسی دیوانِ سمش کا آن لائن ورژن ویب پر بھی موجود ہے، جس میں یہ غزل موجود نہیں ہے اور اسی طرح شیخ عثمان کی مذکورہ غزل بھی کہیں نہیں ملتی لیکن عام طور سے یہی مشہور ہے کہ یہ غزل شیخ عثمان کی ہے۔ اس غزل کے چار اشعار مجھے ویب سے ملے تھے، باقی اشعار نصرت فتح علی خان قوال کی گائی ہوئی ایک قوالی (امیر خسرو کی نعت نمی دانم) سے ملے ہیں اور یوں سات اشعار کی ایک غزل بہرحال بن گئی ہے جو احباب کی خدمت میں پیش کر رہا ہوں، مجھے پورا یقین ہے کہ اس غزل کے مزید اشعار بھی ہونگے، بہرحال تلاش جاری ہے۔

غزل پیشِ خدمت ہے۔

نمی دانم کہ آخر چوں دمِ دیدار می رقصم
مگر نازم بہ ایں ذوقے کہ پیشِ یار می رقصم

نہیں جانتا کہ آخر دیدار کے وقت میں کیوں رقص کر رہا ہوں، لیکن اپنے اس ذوق پر نازاں ہوں کہ اپنے یار کے سامنے رقص کر رہا ہوں۔

تو ہر دم می سرائی نغمہ و ہر بار می رقصم
بہ ہر طرزِ کہ می رقصانیَم اے یار می رقصم

تو جب بھی اور جس وقت بھی نغمہ چھیڑتا ہے میں اسی وقت اور ہر بار رقص کرتا ہوں، اور جس طرز پر بھی تو ہمیں رقص کرواتا ہے، اے یار میں رقص کرتا ہوں۔

تُو آں قاتل کہ از بہرِ تماشا خونِ من ریزی
من آں بسمل کہ زیرِ خنجرِ خوں خوار می رقصم

تُو وہ قاتل کہ تماشے کیلیے میرا خون بہاتا ہے اور میں وہ بسمل ہوں کہ خوں خوار خنجر کے نیچے رقص کرتا ہوں۔

بیا جاناں تماشا کن کہ در انبوہِ جانبازاں
بہ صد سامانِ رسوائی سرِ بازار می رقصم

آجا جاناں اور دیکھ کہ جانبازوں کے گروہ میں، میں رسوائی کے صد سامان لیے سر بازار رقص کر رہا ہوں۔

اگرچہ قطرۂ شبنم نہ پویَد بر سرِ خارے
منم آں قطرۂ شبنم بہ نوکِ خار می رقصم

اگرچہ شبنم کا قطرہ کانٹے پر نہیں ٹھہرتا لیکن میں وہ قطرۂ شبنم ہوں کہ نوکِ خار پر رقص کرتا ہوں۔

خوش آں رندی کہ پامالش کنم صد پارسائی را
زہے تقویٰ کہ من با جبّہ و دستار می رقصم

واہ وہ رندی کہ جس کیلیے میں سیکنڑوں پارسائیوں کو پامال کر دوں، مرحبا یہ تقویٰ کہ میں جبہ و دستار کے ساتھ رقص کرتا ہوں۔

منم عثمانِ ہارونی کہ یارے شیخ منصورم
ملامت می کند خلقے و من بر دار می رقصم

میں عثمان ہارونی کہ شیخ منصور (حلاج) میرے دوست ہیں، مجھے خلق ملامت کرتی ہے اور میں دار پر رقص کرتا ہوں۔

اس شعر کیلیے ایک وضاحت یہ کہ شیخ عثمان کا نام شیخ عثمان مروَندی ہے لیکن یہ شعر نصرت فتح علیخان نے اسی طرح گایا ہے جسطرح لکھا ہے یعنی ہارونی کے ساتھ۔ میں نے اپنی سی کوشش ضرور کی کہ کہیں سے یہ علم ہو جائے کہ صحیح شعر کیا ہے اور یہ 'ہارونی' کیوں آیا ہے مصرعے میں لیکن افسوس کہ میرے پاس ذرائع محدود ہیں، یہ بھی علم نہیں ہو سکا کہ کیا 'ہارون' انکے کسی مرشد کا نام تھا جس کی طرف انہوں نے نسبت کی ہے۔ بہرحال شعر میں اگر 'مروندی' بھی پڑھا جائے تو وزن پر کوئی فرق نہیں پڑتا۔

بہرحال تحقیق کے دروازے کھلے ہیں، اس شعر بلکہ اس غزل کے دیگر اشعار کیلیے میں بھی سرگرداں ہوں اور دیگر اہلِ علم و فن و ہنر کو بھی دعوتِ عام ہے۔
خواجہ عثمان ہارونی ،خواجہ معین الدین چشتی رحمۃ اللہ علیہ کے مرشد ہیں۔ تو کیا یہ ان کا کلام ہے؟
 

محمد وارث

لائبریرین
واللہ اعلم باالصواب، نظامی صاحب۔

عام طور پر یہی مشہور ہے کہ یہ غزل شیخ عثمان مروندی لال شہباز قلندر کی ہے۔ چونکہ یہ اور اسی طرح کی بیسیوں مشہور غزلیں عوام اور بالخصوص قوالوں کی زبانوں پر ہیں سو ان میں یقیناً تحاریف بھی ہوئی ہیں، مصرعے اور اشعار بھی مختلف شکلوں میں ملتے ہیں۔
 

فاتح

لائبریرین
قبلہ! اس خوبصورت انتخاب اور ترجمے کی شراکت کا بے حد شکریہ!
حیرت یہ ہے کہ جس روز آپ نے یہ مراسلہ ارسال کیا تھا میں اس روز سیہون میں ہی تھا جہاں لال شہباز قلندر کا مزار ہے اور جب اس مراسلے پر شکریے کا بٹن دبایا تب حیدرآباد میں تھا۔ :)
 

محمد وارث

لائبریرین
برادرم محمد وارث، کیا اس غزل کی گائیکی کی ویڈیو کا ربط مل سکے گا؟

شکریہ برادرم، یہ غزل علیحدہ سے گائی ہوئی مجھے کہیں نہیں ملی، کچھ اشعار نصرت نے اپنی قوالی 'شب جائے کہ من بودم' میں گائے ہیں اور کچھ ادھر ادھر بکھرے ہوئے تھے جن کو میں نے اکھٹا کر دیا ہے۔
 

نبیل

تکنیکی معاون
آپ درست فرما رہے ہیں۔ میں نے بھی نوٹ ‌کیا ہے کہ قوال اس پوری غزل کو گانے کی بجائے دوسری غزلوں میں اس غزل کے اشعار کا لقمہ دینا پسند کرتے ہیں۔
 

مغزل

محفلین
وارث صاحب،
آداب و سلامِ مسنون
تو ہر دم می سرائی نغمہ و ہر بار می رقصم
یہ مصرع میں نے یوں سنا اور پڑھا ہے
( صحت کوئی نہیں کہ محض انتخاب کی کتب میں دیکھا ہے )
’ تو ہر دم می سرا نغمہ کہ ہر دم می سرے رقصم ‘‘
کیا یہ معنوی طور پر درست ہے ؟؟

میں نے مکمل زمان ذکی تاجی قوال سے مکمل سن رکھی ہے
 

محمد وارث

لائبریرین
مغل صاحب، ایسی مشہور و معروف غزلوں، اور بالخصوص جو صدیوں سے قوالوں کی تالیوں میں گونج رہی ہوں، انکی صحت کے بارے بات کرنا بہت مشکل ہے جب کہ وہ لکھی ہوئی بھی کسی کتاب میں نہ ملیں، نہ صرف اس غزل بلکہ اس طرح کی کئی غزلوں میں بے حد تغیرات ملتے ہیں سو کچھ نہیں کہا جا سکتا :)
 
Top