سوات ڈیل مبارک ہو

مہوش علی

لائبریرین
سب سے زیادہ امریکی حکومت ہے جس کی بلاوجہ جارحیت سے تحریک پاکستان طالبان پیدا ہوئی اور مشرف پر ہے جس کی بلاوجہ جارحیت سے تحریک طالبان زور پکڑئے ہوئے ہے اور پھر پاکستانی ایجنیسوں پر ہے جو پاکستان کو بچانے کے لیے طالبان کی ڈھال استعمال کرتی ہیں۔

حیرت ہے بخار کو دیکھتی ہیں‌اور جو وجہ سوائن وائرس ہے اس پر نظر نہیں۔

ہمت برادر،

آپ کی مثال وہ ہے کہ سوائن فلو کی دوا موجود نہیں تو بخار اور درد کی گولی بھی نہ لو۔۔۔۔۔ بلکہ یوں ہی سسک سسک کر مر جاؤ کہ جب سوائن فلو کی دوا ملے گی تو ہی بخار اور درد کے خلاف کچھ کرنا ہے۔

اور امریکا اور ایجنسنیوں کے ساتھ ساتھ چہیتی بے نظیر کو آپ بھول گئے کہ جس نے طالبان کو جنم دے کر مادر طالبان کا لقب حاصل کیا۔

ہمت برادر کے طرز عمل سے تو میں بہت ناامید ہوئی تھی اور بہرحال انہیں کچھ نصیحت کرنے کو بھی دل نہیں کرتا۔ باقی حضرات غور کریں کہ طالبان آج کی تاریخ میں ہزاروں معصوم مسلمان پاکستانیوں کا خون بہا رہے ہیں اور اس سوات ڈیل کی آڑ میں انہیں دوبارہ منظم ہو کر کئی ہزار معصوموں کا خون بہانے کا موقع مل گیا ہے۔ کیا ایک قوم کے لیے سوچنے کا مقام نہیں ہے کہ کیوں اسکے دانشور طالبان کی اس زہریلی فطرت کو پہچان نہ سکے؟ کیوں دوبارہ ڈسنے کے لیے ہزاروں معصومون کو دوبارہ طالبان کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا؟

اور اب بھی کچھ زیادہ تبدیل نہیں ہوا ہے۔ دو چار دن اور، اور اسکے بعد رائیٹ ونگ میڈیا پھر طالبان کی حمایت اور ان سے لڑنے والی افواج پاکستان اور حکومت کے خلاف زہر اگل رہا ہو گا۔ اور طالبان کے خلاف اس لڑائی میں جتنے شہری مارے جائیں گے وہ طالبان کے کھاتے میں نہیں بلکہ یہ رائیٹ ونگ میڈیا محاذ پر لڑنے والی فوج کے کھاتے میں ڈالے گا۔
 
بیٹی بے نظیر تو سب کی چہیتی تھی۔

خون خرابہ جو پاکستانی فوج کررہی ہے اسکے نتائج اچھے تو نکل نہیں سکتے ۔ فوج کاملک کے اندرخون خرابہ کب اچھائی لایا ہے۔ مجھے تو خدانہ خواستہ پاکستان کے حالات اب اچھے ہوتے نظر نہیں‌اتے پتہ نہیں لوگ خون خرابے کی سیاست کے کیوں‌حامی ہیں۔
 

مہوش علی

لائبریرین
جو لوگ اس لڑکی کو کوڑے مارے جانے والی ویڈیو کو جعلی قرار دے رہے تھے، ان کے لیے افضل لالہ کی تصدیق:


جنگ بہت طویل ہے,,,,سویرے سویرے…نذیر ناجی


وزیر اعظم پاکستان سید یوسف رضا گیلانی اور سپہ سالار جنرل اشفاق پرویزکیانی نے آخرکار دہشت گردوں کے خلاف فیصلہ کن کارروائی کا اعلان کر ہی دیا ۔ اسلام آباد نے دہشت گردوں کی سرگرمیوں کو وہ اہمیت کبھی نہیں دی‘ جس کی ضرورت تھی۔عوام بھی یہی سمجھتے رہے کہ افغانستان سے بچ کر نکلے ہوئے طالبان اپنے ملک پر غیرملکی افواج کے قبضے کے خلاف مزاحمت کی تحریک چلا رہے ہیں۔ اسی بنا پر عوام کی اکثریت کی ہمدردیاں انہیں حاصل رہیں۔ میں ابتدا ہی سے اس فتنے کی نشاندہی کر کے بتاتا رہا کہ یہ لوگ پاکستان کے لئے خطرہ بن رہے ہیں اور اب تک مجھے شدید تنقید کا سامنا کرنا پڑتاہے۔ بیشتر لکھنے والے دہشت گردوں کی حمایت کرتے رہے۔ شاید انہیں اندازہ نہیں تھا کہ وہ انسانی یا اسلامی ہمدردی کی وجہ سے کتنے بڑے عفریت کی حوصلہ افزائی کر رہے ہیں۔ چند ایک بدنیت لوگ بھی تھے‘ جو کسی خاص وجہ یا مفاد کی خاطر دہشت گردوں کے وکیل بنے رہے۔ ایک شخص نے تو ٹیلیویژن پر دکھائی گئی اس ویڈیو کو بھی جعلی قرار دے دیا‘ جس میں ایک مظلوم لڑکی کو نامحروموں کے ہجوم کے درمیان وہ کوڑے لگائے گئے‘ جن کا شرعی سزا سے دور کا بھی واسطہ نہیں تھا۔ گزشتہ روز لالہ افضل نے تصدیق کر دی کہ یہ واقعہ سوات ہی میں ہوا تھا۔طالبان کا ایک کارندہ اس لڑکی سے شادی کا خواہشمند تھا۔ انکار پر اس کا دشمن بن گیا۔ ایک روز گھر میں بجلی کی تاریں درست کرنے کے لئے وہ اس گھر میں گیا اور طالبان کا وہ کارندہ لوگوں کو اکٹھا کر کے وہاں لے آیا اور لڑکی پر حد لگا کر اسے وہ سزا دی گئی۔ یہ ویڈیو نام نہاد طالبان نے خود بنائی تھی اور خوف پھیلانے کے لئے تقسیم بھی کی تھی۔ ایک کاپی انسانی حقوق کی کارکن اور بہادر خاتون ثمرمن اللہ کے ہاتھ لگ گئی۔ انہوں نے میڈیا تک پہنچا دی اور اب تک قتل کی دھمکیاں سن رہی ہیں۔
ہم نے مرض کے حد سے گزرجانے کے بعد اس پر سنجیدگی سے توجہ دی ضرور ہے۔ مگر آج بھی وہ عزم صمیم اور قومی جذبہ نظر نہیں آتا جو کسی ملک میں بقا کی جنگ کے دوران جنم لیتا ہے۔ یہ جذبہ ہم نے صرف اور صرف 1965ء میں دیکھا تھا۔ جب پوری قوم سراپا مزاحمت بن گئی تھی۔ فوج عوام کی محبوب تھی اور قوم کے سارے شاعر‘ موسیقار اور مغنی اس کے گیت گا رہے تھے۔ گلی گلی جنگی ترانے گونج رہے تھے اور لڑنے والے سپاہی ایک سرشاری کے عالم میں دشمن سے ٹکرا رہے تھے۔ نہ انہیں موت کی پروا تھی اور نہ ہی پسماندگان کی فکر۔ جان دینے کے لئے کسی بھی سپاہی کو قوم کی طرف سے جو محبت درکار ہوتی ہے۔ اسے فراوانی سے مل رہی تھی۔ جان پر کھیلنا آسان نہیں ہوتا۔ جان دینے پر وہی شخص تیار ہوتا ہے‘ جسے قوم اپنی عزت‘ اپنی شان اور اپنے وقار کی نشانی سمجھنے لگے۔ میں نے سپاہی مقبول حسین کے اعزاز میں جنرل کیانی کی طرف سے برپا کی گئی وہ تقریب دیکھی ہے‘ جس میں پاک فوج اور ملک بھر کے دانشور اور صحافی اسے خراج تحسین پیش کر رہے تھے۔ دشمن نے اسے طویل عرصہ قید رکھ کر ظلم و ستم کے پہاڑ توڑے۔ مگر وہ‘ ہر نئی اذیت پر پاکستان زندہ باد کے نعرے کے سوا کوئی لفظ منہ سے نہیں نکالتا تھا اور اس کے جسم سے جو خون بہتا‘ اس سے وہ عقوبت گاہ کی دیواروں پر پاکستان زندہ باد لکھ دیتا۔ طویل قید کے بعد اسے رہائی نصیب ہوئی‘ تو وہ بوڑھا‘ ضعیف اور گونگا ہو چکا تھا۔ وطن واپس آتے ہی اس نے اپنے یونٹ میں پہنچ کر کمانڈر سے کہا ”سپاہی مقبول حسین حاضر ہے“ اور جب چیف آف آرمی سٹاف جنرل کیانی کی سربراہی میں‘ فوج کی اعلیٰ قیادت نے اسے خراج تحسین پیش کیا‘ تو یقینا وہ اپنے سارے دکھ بھول گیا ہو گا۔ یہی عزت‘ سپاہی کی دولت ہوتی ہے۔
میں بڑے دکھ سے یہ لکھتا آیا ہوں کہ ملک و قوم کی بقا کے لئے ‘ہمارے جو سپاہی لڑ رہے ہیں انہیں وہ حمایت اور عزت نہیں دی جا رہی جس کے وہ مستحق ہیں۔ حالانکہ جس جنگ میں انہیں دھکیلا گیا وہ دو ملکوں کے درمیان ہونے والی جنگ سے زیادہ مشکل اور زیادہ پیچیدہ ہے۔ محاذوں پر ہونے والی جنگ میں دشمن سامنے ہوتا ہے۔ مگر جس جنگ کا ہمیں سامنا ہے‘ اس میں دشمن گھاس کے کیڑے کی طرح رہتا ہے اور موقع پاتے ہی حملہ آور ہو جاتا ہے۔ پہل ہمیشہ دشمن کے ہاتھ میں رہتی ہے۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ دشمن اسلام کا نام استعمال کرتا ہے جبکہ وہ کسی بھی اعتبار سے مسلمان ہونے کی شرائط پوری نہیں کرتا۔ کوئی مسلمان مسلمان کا گلا نہیں کاٹتا۔ اس جرم کی بار بار ممانعت کی گئی ہے۔کوئی مسلمان بندوق کے زور پہ اپنا مسلک مسلط نہیں کرتا۔ کوئی مسلمان دوسرے کلمہ گو کو کافر نہیں کہتا اور کوئی مسلمان بزرگان دین اور اولیائے کرام کے مزاروں کی بے حرمتی نہیں کرتا۔ مختلف فرقوں میں تقسیم ہونے کے باوجود دنیا بھر میں مسلمان محبت اور یگانگت کے ساتھ رہتے ہیں۔ ایک ہی بیت اللہ میں حج کرتے ہیں اور ایک ہی مسجد نبوی میں ساتھ کھڑے ہو کر نمازیں پڑھتے ہیں۔ جن دہشت گردوں کا ہمیں سامنا ہے‘ وہ ہمارے دین سے دور کا تعلق نہیں رکھتے۔ زیادہ تفصیل میں اس لئے نہیں جا رہا کہ اب ہمارے علمائے کرام بھی بیک زبان ان دہشت گردوں کے دعوؤں کو جھٹلا رہے ہیں۔
دیر کے بعد سہی۔ ہم اپنے خلاف لڑی جانے والی جنگ میں بڑے تذبذب اور بے یقینی کے ساتھ اترے ہیں۔ آج بھی وہ عزم‘ یکجہتی اور محافظین وطن کے لئے اس محبت میں وہ زور نہیں جو افسروں اور جوانوں کو دشمن پر جھپٹنے کے جذبے میں سرشار کرتی ہے۔ میڈیا آج بھی ہمارے شہدا کو ”جاں بحق “قرار دیتا ہے۔ میری نشاندہی کے بعد کہیں کہیں شہید لکھا جانے لگاہے۔ لیکن جاں بحق بھی کثرت سے لکھا جا رہا ہے۔ جیسے جیسے جنگ تیز اور طویل ہو گی۔ شہادتیں بھی زیادہ ہوں گی۔ خدا کے لئے ان پسماندگان پر رحم کریں‘ جن کے جگر کا ٹکڑا اور گھر کا سہارا وطن کی خاطر اپنی زندگی نچھاور کرتا ہے اور وہ اخبار اور ٹیلیویژن پر اپنے شہید کو اس درجے پر فائز بھی نہیں دیکھتے‘ جس کا استحقاق وہ اپنا خون بہا کر حاصل کرتا ہے۔ اس جنگ میں شاعروں‘ موسیقاروں اور مغنیوں کی شرکت بھی نہیں ہوئی۔ دہشت گرد جو موسیقی کو حرام قرار دے کر لوگوں کے کاروبار تباہ کر دیتے ہیں۔ خود نہ صرف جنگی ترانے تیار کر کے پھیلاتے ہیں بلکہ ان کی ٹولیاں حملوں کے لئے روانہ ہوتے وقت ان ترانوں کی گونج میں آگے بڑھتی ہیں۔ جنگی ترانے بھی ایک ہتھیار ہیں۔ ہمارے جوانوں کو یہ ہتھیار ابھی تک میسر نہیں۔ میدان جنگ مختلف ہونے کی وجہ سے ہمارے فنکار ‘ جوانوں کی حوصلہ افزائی کے لئے محاذ پر نہیں جا سکتے۔ لیکن وہ ریڈیو اور ٹیلیویژن پر ان کے حوصلے بڑھانے کے لئے کیوں نمودار نہیں ہو رہے؟ میڈیا‘ عوام کو جنگ کے لئے کیوں تیار نہیں کر رہا؟ اس جنگ کے بارے میں بے یقینی اور شکوک و شبہات پیدا کرنے والوں کو عوام آگے بڑھ کر کیوں نہیں روک رہے؟ بھارت میں دہشت گردی کا ایک واقعہ ہوا تھا اور ایک ارب سے زیادہ کی آبادی جوش و خروش سے بھڑک اٹھی تھی۔ وہ پاکستان کو دہشت گردی کا ذمہ دار قرار دے رہے تھے اور پاکستان کا نام سن کر مشتعل ہو جاتے تھے۔ ہم روزدہشت گردی کا نشانہ بنتے ہیں۔ ہمارے جوان اور افسر شہید ہو رہے ہیں اور ہماری صفوں کے اندر دشمن کے حق میں تقریریں اور دلائل دیئے جاتے ہیں اور ہم خاموشی سے سن رہے ہیں۔ عوام کو معلوم ہونا چاہیے کہ وہ کتنی بڑی جنگ میں اترے ہیں۔ کسی کا گھر اس جنگ سے محفوظ نہیں۔ بھارت جیسے دشمن نے بھی جنگوں کے دوران بے گناہ شہریوں کو ہدف نہیں بنایا۔ یہ دشمن ہمارے بے گناہ شہریوں‘ ہماری مساجد‘ ہماری امام بارگاہوں اورہمارے بزرگوں اور اولیائے کرام کے مزاروں کو نشانہ بنا رہا ہے۔ وہ ہمارے غیظ وغضب سے بچ کیسے رہا ہے؟ یہ جنگ چند روزہ نہیں۔ ہفتوں اور مہینوں کی بھی نہیں۔ اسے طویل عرصے تک جاری رہنا ہے۔ کیا ہم اس طویل جنگ کے لئے تیار ہیں؟
 
جنگ چاہے لمبی ہو یا چھوٹی۔
بھاڑے کی فوج نے امریکی غلامی میں‌جو جنگ شروع کی ہے اس کا صرف ایک ہی نتیجہ ہے
جو ان اپ کے حق میں‌ہے نہ میرے حق میں نہ پاکستانیوں کے نہ پشتونوں کے
اسکا نتیجہ صرف امریکیوں کے حق میں‌ہے
 

ساجداقبال

محفلین
میرے خیال میں اب اس دھاگے کا عنوان بدل کر ”سوات میں آپریشن مبارک ہو“ کر کے تہنیتی زمرے میں منتقل کر دینا چاہیے۔ وہ جو زور و شور سے اس آپریشن کی دعوت دے رہے تھے اب بقول جالب ”چپ ہیں وہ زباں دراز“۔۔۔۔ایک ملین بے گھر لوگوں کی مدد تو دور کی بات منہ سے ہمدردی کو ایک لفظ نہیں نکل رہا۔ صد حیف ۔۔۔۔آپریشن کو مذاق سمجھ رکھا تھا۔ یہی لوگ اب اگر کراچی ہجرت کریں توسیاسی مسخروں کے منہ سے طالبان کہلائیں، رجسٹریشن کی باتیں ہوں۔ اب یہ ہمارے "پرامن" شہروں میں آئینگے تو ہم دگنے کرائے وصول کرینگے۔ لعنت پاکستانی قوم پر۔
دوائیں دینے اور کھانے سے پہلے سائیڈ ایفیکٹس ضرور ذہن میں رکھیں۔
 

ساجد

محفلین
میرے خیال میں اب اس دھاگے کا عنوان بدل کر ”سوات میں آپریشن مبارک ہو“ کر کے تہنیتی زمرے میں منتقل کر دینا چاہیے۔ وہ جو زور و شور سے اس آپریشن کی دعوت دے رہے تھے اب بقول جالب ”چپ ہیں وہ زباں دراز“۔۔۔۔ایک ملین بے گھر لوگوں کی مدد تو دور کی بات منہ سے ہمدردی کو ایک لفظ نہیں نکل رہا۔ صد حیف ۔۔۔۔آپریشن کو مذاق سمجھ رکھا تھا۔ یہی لوگ اب اگر کراچی ہجرت کریں توسیاسی مسخروں کے منہ سے طالبان کہلائیں، رجسٹریشن کی باتیں ہوں۔ اب یہ ہمارے "پرامن" شہروں میں آئینگے تو ہم دگنے کرائے وصول کرینگے۔ لعنت پاکستانی قوم پر۔
دوائیں دینے اور کھانے سے پہلے سائیڈ ایفیکٹس ضرور ذہن میں رکھیں۔
اتنا غصہ ، صاحب؟
ایک پتے کی بات ضرور کہی کہ اب گھر بار چھوڑنے والوں کی مدد کے لئیے کوئی آواز نہیں آ رہی۔
 

Fawad -

محفلین
Fawad – Digital Outreach Team – US State Department

پاکستان کا مسقبل تو وہی ہے جو اپکے ملک کو قابل قبول ہو؟


آج کے دور میں جو بھی بين الاقوامی تعلقات کے اسرار ورموز سے واقفيت رکھتا ہے وہ اس ناقابل ترديد حقيقت کی گواہی دے گا کہ کسی بھی قوم کی راہ کا تعين عوام اپنی منتخب حکومتوں کے ذريعے کرتے ہيں۔ کوئ بھی غير ملکی ہاتھ يا حکومت اس ضمن ميں فيصلہ کن کردار ادا نہيں کر سکتی۔

اس ميں کوئ شک نہيں کہ سوات معاہدے کے حوالے سے امريکی حکومت اور عالمی بردادری کا ايک واضح نقطہ نظر تھا۔ يہ نہ تو کوئ خفيہ سازش تھی اور نہ ہی پوشيدہ حقيقت۔ اس نقطہ نظر کی بنياد تاريخی تناظر اور تحقيق شدہ حقائ‍ق تھے۔ ميں نے سوات معاہدے کے حوالے سے امريکی نقطہ نظر اسی تھريڈ پر پيش کيا تھا۔ ليکن حتمی فيصلے کا اختيار بحرحال پاکستانی حکومت کے پاس تھا اور امريکی حکومت نے اس حقيقت کو تسليم کيا۔

يہ بحث اور دليل کہ امريکہ سوات ڈيل کی ناکامی اور آرمی آپريشن کا ذمہ دار ہے، ايک تضاد کو واضح کرتی ہے کيونکہ سوات معاہدہ تمام تر امريکی خدشات اور اعتراضات کے باوجود کيا گيا تھا۔ اگر امريکہ حکومت پاکستان کو سوات معاہدے پر مجبور نہيں کر سکا تو يہ حقيقت تسليم کر لينا اتنا مشکل کيوں ہے کہ پاکستان کے مستقبل کا ذمہ دار امريکہ نہيں بلکہ حکومت پاکستان ہے؟

فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

www.state.gov
 

باسم

محفلین
یا تو آپ بہت سادہ ہیں یا ہم بے وقوف ہیں
پاکستانی عوام کو دہشت گردی کے خلاف حکومت سے بغاوت پر اکسانا
زرداری حکومت کو کمزوراوراس کی کارکردگی کو مایوس کن قرار دینا
فوج کو طاقتور قرار دے کر اسے جمہوری حکومت کے خلاف اکسانا
ایٹمی ہتھیاروں کے حوالے سے شدید دباؤ ڈالنا
اور آپریشن نہ کرنے پر خود حملہ کرنے کی دھمکیاں دینا
پاکستانی عوام اور حکومت کی مخالفت کے باوجود مسلسل حدود کی خلاف ورزی اور ڈرون حملوں کو جاری رکھنا
اور ہر طرح کا حکم ماننے کے باوجود بھارت کو نوازنا
مداخلت اور کس چیز کا نام ہے
تضاد تو آپ کی تحریر سے واضح ہے
اعتراض معاہدہ ختم کروانے پر ہے اور آپ معاہدہ ہونے کو دلیل بناکر پیش کررہے ہیں
"سوات معاہدہ تمام تر امريکی خدشات اور اعتراضات کے باوجود کيا گيا تھا۔ "
بالکل ٹھیک! پارلیمنٹ سے معاہدہ کی منظوری ہوئی مگر پارلیمنٹ ہی سے معاہدے کے خاتمے کی نوبت کیوں نہیں آسکی۔
جمہوریت کو مضبوط کرنے کا نعرہ لگانے والوں کی زبانوں سے یہ بات کیوں نہیں نکلی
"امريکہ حکومت پاکستان کو سوات معاہدے پر مجبور نہيں کر سکا"
کیا امریکا معاہدہ کروانا چاہتا تھا؟
 

Fawad -

محفلین
Fawad – Digital Outreach Team – US State Department

اور ہر طرح کا حکم ماننے کے باوجود بھارت کو نوازنا
مداخلت اور کس چیز کا نام ہے

سب سے پہلے تو ميں يہ واضح کر دوں کہ حکومتوں اور ممالک کے مابين عالمی تعلقات اور فيصلہ سازی کے عمل ميں افواہوں، مبہم ميڈيا رپورٹس اور غير سرکاری افراد کے بيانات پر انحصار نہيں کيا جاتا۔

امريکہ پاکستان کو دوست اور اتحادی تصور کرتا ہے ليکن اس کا يہ مطلب ہرگز نہيں ہے کہ امريکہ بھارت کو اپنا دشمن قرار دے يا اپنے تعلقات کی نوعيت اس بنياد اور نقطہ نظر پر استوار کرے جو پاکستان اپنے ہمسائے کے بارے ميں رکھتا ہے۔ امريکہ دونوں ممالک سے اچھے تعلقات کا خواہ ہے۔

امريکہ اس خطے ميں کسی ملک کے ايسے اقدامات کی کبھی حمايت نہيں کرے گا جس سے پاکستان کا استحکام خطرے ميں پڑے يا دہشت گروپوں کو منظم ہونے کا موقع ملے۔ حقیقت يہ ہے کہ اس طرح کے اقدامات سے خود امريکہ کی کاوششوں اور ارادوں کو نقصان پہنچے گا۔

ليکن يہ ضروری ہے کہ اس قسم کے الزامات اور مفروضوں کو ناقابل ترديد ثبوتوں کے ساتھ پيش کيا جائے۔ ميں بھارتی حکومت کا نقطہ نطر بيان نہيں کر سکتا ليکن امريکی حکومت کا يہ نقطہ نطر واضح کر دينا چاہتا ہوں کہ پاکستان کا استحکام اور دفاع دہشت گردی کے اس عفريت کو ختم کرنے کے ليے انتہائ اہم ہے جس کو ختم کرنے کے ليے امريکہ اور نيٹو افواج نے سال 2001 ميں افغانستان ميں فوجی کاروائ کی تھی۔

ايک کمزور اور غير مستحکم پاکستان نہ تو پاکستان کے مفاد میں ہے اور نہ ہی خطے اور امريکہ کو اس سے کوئ فائدہ پہنچ سکتا ہے۔


فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

www.state.gov
 

اظفر

محفلین
پاکستان کا استحکام اور دفاع دہشت گردی کے اس عفريت کو ختم کرنے کے ليے انتہائ اہم ہے جس کو ختم کرنے کے ليے امريکہ اور نيٹو افواج نے سال 2001 ميں افغانستان ميں فوجی کاروائ کی تھی۔
جس کو ختم کرنے کے ليے امريکہ اور نيٹو افواج نے سال 2001 ميں افغانستان ميں فوجی کاروائ کی تھی۔
یہ مذاق کیا ہے ؟
 

خرم

محفلین
جنگ کی شروعات کی وجوہات کچھ بھی رہی ہوں، اس وقت بات صرف یہ جنگ جیتنے کی ہے اور اسے ہر قیمت پر جیتنا ہوگا۔ باقی رہا امریکہ، تو اس کا کردار اس جنگ میں حلیف کا ہرگز نہیں‌ہے لیکن ہمیں اپنے مفادات کی خود حفاظت کرنا ہوگی اس کی راہ میں چاہے وہائٹ‌ہاؤس آئے یا بلیک ہاؤس۔
 

Fawad -

محفلین
Fawad – Digital Outreach Team – US State Department

جس کو ختم کرنے کے ليے امريکہ اور نيٹو افواج نے سال 2001 ميں افغانستان ميں فوجی کاروائ کی تھی۔
یہ مذاق کیا ہے ؟


امريکی حکومت نے ہميشہ اسامہ بن لادن کو 911 کے حادثے کے ضمن ميں ايک منصوبہ ساز کی حیثيت سے مورد الزام ٹھہرايا ہے۔ يہ فيصلہ کسی قياس يا محض اندازے کی بنياد پرنہيں تھا۔ اسامہ بن لادن نے امريکہ کے خلاف باقاعدہ جنگ کا آغاز کر رکھا تھا اور پوری دنيا ميں امريکيوں کو نشانہ بنايا جا رہا تھا۔

جيسا کہ ميں نے حکومتی دستاويزات کے ذريعے ثابت کيا تھا کہ 911 کے واقعے سے پہلے ہی اقوام متحدہ کی سيکورٹی کونسل کی قرارداد اور عالمی وارنٹ گرفتاری ريکارڈ پر موجود ہے۔

يہاں ميں آپ کو ايک اور دستاويز کا لنک دے رہا ہوں جو امريکی حکومت اور طالبان کے مابين اسامہ بن لادن کے حوالے سے ہونے والے روابط کو مزيد واضح کرے گا۔

http://www.keepandshare.com/doc/view.php?id=1195115&da=y

ستمبر 11 2001 کا واقعہ وہ نقطہ تھا جس پر تمام مذاکرات، مطالبات، قراردادوں اور رپورٹس کا سلسلہ منقطع ہو گيا۔ يہ واضح ہو چکا تھا کہ دہشت گردی کو روکنے، بے گناہ انسانوں کو محفوظ رکھنے اور اسامہ بن لادن کو انصاف کے کٹہرے ميں لانے کے ليے فوجی کاروائ آخری آپشن ہے۔

فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

www.state.gov
 

arifkarim

معطل
اور خود ساختہ دہشت گردی پھیلانے والے کو انصاف کے کٹہرے میں کون لیکر آئے گا؟
نیز کیا ہزاروں بے گناہ افراد کو بچانے کیلئے لاکھوں بے گناہ افراد کو مارنا ضروری ہے۔؟
 

ساجداقبال

محفلین
امريکی حکومت نے ہميشہ اسامہ بن لادن کو 911 کے حادثے کے ضمن ميں ايک منصوبہ ساز کی حیثيت سے مورد الزام ٹھہرايا ہے۔ يہ فيصلہ کسی قياس يا محض اندازے کی بنياد پرنہيں تھا۔ اسامہ بن لادن نے امريکہ کے خلاف باقاعدہ جنگ کا آغاز کر رکھا تھا اور پوری دنيا ميں امريکيوں کو نشانہ بنايا جا رہا تھا۔

جيسا کہ ميں نے حکومتی دستاويزات کے ذريعے ثابت کيا تھا کہ 911 کے واقعے سے پہلے ہی اقوام متحدہ کی سيکورٹی کونسل کی قرارداد اور عالمی وارنٹ گرفتاری ريکارڈ پر موجود ہے۔

يہاں ميں آپ کو ايک اور دستاويز کا لنک دے رہا ہوں جو امريکی حکومت اور طالبان کے مابين اسامہ بن لادن کے حوالے سے ہونے والے روابط کو مزيد واضح کرے گا۔

http://www.keepandshare.com/doc/view.php?id=1195115&da=y

ستمبر 11 2001 کا واقعہ وہ نقطہ تھا جس پر تمام مذاکرات، مطالبات، قراردادوں اور رپورٹس کا سلسلہ منقطع ہو گيا۔ يہ واضح ہو چکا تھا کہ دہشت گردی کو روکنے، بے گناہ انسانوں کو محفوظ رکھنے اور اسامہ بن لادن کو انصاف کے کٹہرے ميں لانے کے ليے فوجی کاروائ آخری آپشن ہے۔

فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

www.state.gov
اور اسکے بعد آپکی ”نالائق“ فوج اور انٹیلی جنس ادارے انہیں نہ پکڑ سکی۔
 

مہوش علی

لائبریرین

سب نقاب اتریں گے,,,,سویرے سویرے…نذیر ناجی


میدان جنگ میں کودنے کے بعد ‘جس قوم کے کچھ عناصر ڈھلمل یقین ہوں۔ اسے بدنصیب ہی کہا جا سکتا ہے۔ ہزاروں بے گناہ ہم وطنوں کی قربانی دینے۔ مسلح افواج کے سینکڑوں افسروں اور جوانوں کی شہادتیں پیش کرنے اور ملک کے تمام بڑے شہروں میں خودکش دھماکوں سے ہونے والی تباہی سے دوچار ہونے کے بعد‘آخرکار دشمن کے خلاف کھلی جنگ شروع کی گئی۔ مجھے یاد ہے کہ چیف آف آرمی سٹاف جنرل اشفاق پرویز کیانی اس جنگ سے بچنے کی کتنی کوشش کرتے رہے۔ وہ اجتماعی نقصان پر انتہائی فکرمند تھے۔ میڈیا کے ساتھ انہوں نے جتنی ملاقاتیں بھی کیں۔ اپنی اس پریشانی کا تفصیل سے اظہار کیا۔ وہ نہیں چاہتے تھے کہ دہشت گردوں کے خلاف کسی کارروائی کے نتیجے میں بے گناہ اور پرامن شہریوں کو تکالیف کا سامنا کرنا پڑے۔ بے گناہ شہریوں کو بچانے کے لئے ان کی آخری کوشش معاہدے امن کی صورت میں سامنے آئی تھی۔ بے شک یہ ایک سیاسی اقدام تھا۔ لیکن چیف آف آرمی سٹاف کی رضامندی کے بغیر یہ معاہدہ نہیں ہو سکتا تھا اور ان کی رضامندی کی واحد وجہ یہ تھی کہ وہ شہریوں کو اجتماعی نقصان سے بچانا چاہتے تھے۔ دہشت گردوں کے مخالفین میں شاید میں ہی ایک ایسا قلم کار تھا جس نے اس معاہدے کی حمایت کی۔ میری بھی یہی خواہش تھی کہ ہمارے بے گناہ ہم وطنوں کو جنگی کارروائیوں کا ہدف نہ بننا پڑے۔ لیکن جیسا کہ میں نے عرض کیا تھاکہ ملا فضل اللہ‘ طالبان کا جنگی بازو تھے اور صوفی محمد سیاسی۔ دونوں نے اپنے اپنے شعبے میں انڈرسٹینڈنگ کے ساتھ کام کیا۔ صوفی محمد نے معاہدہ امن کا کھیل کھیلا اور اس کے پردے میں فضل اللہ کوجنگی تیاریوں کی مہلت لے کر دی۔ اس کا نتیجہ آج ہماری فوج کو بھگتنا پڑ رہا ہے۔اس میں اب کوئی شک نہیں رہنا چاہیے کہ پاکستان کے خلاف برسرجنگ طالبان‘ کسی نہ کسی کے ایجنٹ ضرور ہیں۔ جس تیزی کے ساتھ ملا فضل اللہ مسلح قوت لے کر سامنے آئے‘ ایسا کرنا مقامی وسائل کی بنیاد پر ممکن نہیں ہے اور اب جیسے جیسے فوج پیش قدمی کر رہی ہے۔ دہشت گردوں کے بنائے ہوئے مورچوں اور کمین گاہوں کو دیکھنے سے پتہ چلتا ہے کہ انہیں خصوصی تربیت اور وسائل میسر رہے ہیں۔ اس کا تجربہ ہماری فوج کو باجوڑ میں ہو چکا ہے۔ وہاں جب کارروائی شروع کی گئی‘ تو پتہ چلا کہ طوطے کی ناک جیسے‘ منہ والے بنکر اتنی مہارت اور عمدہ میٹریل سے تیار کئے گئے ہیں کہ خود پاک فوج کو اس طرح کے بنکرز دستیاب نہیں۔ یہ اس طرح کے بنکر تھے‘ جن پر راکٹ یا ٹینک کے گولے کا براہ راست نشانہ نہیں لگ سکتا تھا۔ان بنکرز میں آمدورفت کا راستہ سامنے سے پوری طرح بند تھا۔ اندر جانے اور باہر آنے کے لئے پہلے جھک کر طوطے کی ناک جیسے حفاظتی خول کی پناہ ملتی اور اس کے بعد دہشت گرد اپنی کمین گاہ میں داخل ہوتے۔ یہی طریقہ باہر آنے کا تھا۔ ان بنکرز کو تسخیر کرنے کے لئے فوج کو خصوصی طریقے اختیار کرنا پڑے۔ میں بھی اس وقت تک ان کمین گاہوں کے حفاظتی انتظام کو نہیں سمجھ سکتا تھا‘ جب تک اس کی ویڈیو نہ دیکھ لیتا۔ سننے میں آیا ہے کہ سوات اور اس کے گردونواح میں نئی طرز کے بنکرز اور کمین گاہیں دیکھنے میں آ رہی ہیں اور خونخوار جنگجوؤں نے آمدورفت کے راستوں کو بارودی سرنگوں سے بھر دیا ہے۔ جن کا نشانہ پاک فوج سے زیادہ بے گناہ شہری بن رہے ہیں۔ یہ سب کچھ دیکھنے کے بعد بھی‘ کچھ بے حس لوگ‘ اپنے ہی عوام کی تباہی اور ہلاکتوں کے باوجود قاتلوں کی ہم نوائی کرتے نظر آتے ہیں۔ یہ دہشت گرد سات سالوں سے پاکستانی عوام پر ظلم ڈھا رہے ہیں۔ مگر تب کسی کو نہ احادیث مبارکہ یاد آئیں اور نہ احکامات الٰہی۔ وہ گردنیں کاٹ رہے تھے۔ وہ قبروں سے لاشیں نکال کر چوراہوں میں ٹانگ رہے تھے۔ وہ سکولوں اور ہسپتالوں کو بموں سے اڑا رہے تھے۔ وہ ہماری فوج کے افسروں اور جوانوں کو شہید کر رہے تھے۔ اس وقت کسی کو نہ کوئی حدیث یاد آئی اور نہ کلام پاک کی کوئی آیت‘ جس میں مسلمان کو دوسرے مسلمان کی جان لینے سے منع کیا گیا ہو۔ مگر جیسے ہی طویل صبر کے بعد پاک فوج نے جوابی کارروائی کا فیصلہ کیا اور چند دہشت گرد ہلاک ہوئے تو کالموں کے کالم بھرے جا رہے ہیں۔ جن میں یاد دلایا جاتا ہے کہ ایک مسلمان دوسرے مسلمان کو قتل نہ کرے۔ ایسے لوگوں سے پوچھنا چاہیے کہ جو بے گناہ پاکستانی دہشت گردوں کے ہاتھوں شہید ہو رہے تھے‘ کیا وہ مسلمان نہیں تھے؟ کیا مساجد میں خود کش دھماکوں کا نشانہ بننے والے کافر تھے؟کیا امام بارگاہوں میں بہایا گیا خون غیرمسلموں کا تھا؟ مجھے سمجھ نہیں آتی کہ اپنے ہی ملک کو برباد کرنے والوں کے ساتھ ہمدردی کا جذبہ کہاں سے آ جاتا ہے؟دہشت گردی کے خلاف ‘ قومی یکجہتی میں دراڑیں ڈالنے والوں کی جڑیں کہاں ہیں؟کیا ان کا اسلام صرف دہشت گردی کے فروغ اور تحفظ کا سبق دیتا ہے؟ کیا ان کے اسلام میں پرامن شہریوں‘ عورتوں‘ بچوں اور بوڑھوں کو کوئی تحفظ حاصل نہیں؟ کیا وحشیانہ دروں کا شکار بننے والی ایک کمزور اور بے بس لڑکی کی چیخیں اور بلبلاہٹیں سن کر ان کے دلوں پر کوئی اثر نہیں ہوتا؟ کیا وہ ایک لمحے کے لئے بھی یہ سوچنے کی اہلیت نہیں رکھتے کہ اگر یہ منظر حقیقی ہے تو کس قدر ظالمانہ ہے اور وہ بے حس لوگ جو اس منظر کو دیکھ کر بھی اسلامی سزا قرار دیتے اور اس کے جوازپیش کرتے رہے ہیں۔ کیا انہیں معلوم نہیں کہ ایک خاتون کو سزا دینے کا یہ طریقہ انتہائی وحشیانہ اور غیراسلامی تھا؟
جنگ شروع ہو چکی ہے۔ واپسی کا راستہ نہیں۔ پاک فوج سے لڑنے والے باغیوں کو شکست نہ ہوئی‘ تو پاک فوج کو شکست اٹھانا پڑے گی۔ یہ ہے جنگ کا سیدھا سادہ نتیجہ۔ ان حالات میں جو بھی پاک فوج کے سامنے بندوق اٹھاتا ہے۔ وہ ہمارے ملک اور ہمارے عوام کا دشمن ہے۔ اسے کوئی دوسرا نام دیا ہی نہیں جا سکتا اور جو دشمنی کے اس رشتے کو گدلا کر عوام اور فوج کے جذبے میں کمی لانے کی کوشش کرتا ہے‘ وہ اپنے ملک اور اپنی عوام کا ساتھی نہیں ہو سکتا۔ اس طرح کے لوگوں پر نظر رکھنا اور ان سے حساب لینا عوام کا فرض ہے۔ میں نے ایک ٹاک شو میں عرض کیا تھا کہ ہمارے سامنے دو طرح کے طالبان ہیں۔ امریکی اور پاکستانی۔ امریکہ کو شکایت ہے کہ پاکستانی طالبان‘ افغانستان میں جا کر اس کی فوجوں پر حملہ آور ہوتے ہیں اور ہماری حکومت کو تو نہیں‘ مگر مجھ جیسے کچھ تشکیک پسندوں کو گلا ہے کہ پاکستانی شہریوں اور افواج پر حملہ آور ہونے والے‘ امریکی طالبان ہیں اور امریکہ دشمنی کا لبادہ اوڑھ کر جو پاکستانیوں کا خون بہانے والے طالبان کی حمایت کرتے ہیں‘ وہ درحقیقت امریکی ایجنٹ ہیں۔ جیسا کہ میں نے عرض کیا تھا کہ جنگ سارے پردے اٹھا دیتی ہے۔ پردے اٹھنے کا وقت آ گیا ہے۔ ہر چہرے سے نقاب اترے گا۔ ہر سازش کا راز کھلے گا اور دوستی اور دشمنی کے سارے رنگ سامنے آئیں گے۔ اس وقت نہ لفظوں کی جادوگری کام آئے گی۔ نہ اسلامی حوالے فریب دے سکیں گے۔ جب خون بہتا ہے تو فریب کاری کے سارے نقشے مٹ جاتے ہیں۔
 

راشد احمد

محفلین
شکریہ مہوش بہن

اگر امریکہ کو یقین ہوگیا کہ ان کی سازشیں بے نقاب ہورہی ہیں تو وہ فوری طور پر بہانہ بناکر پاکستان پر حملہ کردے گا۔ماضی میں کئی مثالیں موجود ہیں۔
 

فرخ

محفلین
امريکی حکومت نے ہميشہ اسامہ بن لادن کو 911 کے حادثے کے ضمن ميں ايک منصوبہ ساز کی حیثيت سے مورد الزام ٹھہرايا ہے۔ يہ فيصلہ کسی قياس يا محض اندازے کی بنياد پرنہيں تھا۔ اسامہ بن لادن نے امريکہ کے خلاف باقاعدہ جنگ کا آغاز کر رکھا تھا اور پوری دنيا ميں امريکيوں کو نشانہ بنايا جا رہا تھا۔

جيسا کہ ميں نے حکومتی دستاويزات کے ذريعے ثابت کيا تھا کہ 911 کے واقعے سے پہلے ہی اقوام متحدہ کی سيکورٹی کونسل کی قرارداد اور عالمی وارنٹ گرفتاری ريکارڈ پر موجود ہے۔

يہاں ميں آپ کو ايک اور دستاويز کا لنک دے رہا ہوں جو امريکی حکومت اور طالبان کے مابين اسامہ بن لادن کے حوالے سے ہونے والے روابط کو مزيد واضح کرے گا۔

http://www.keepandshare.com/doc/view.php?id=1195115&da=y

ستمبر 11 2001 کا واقعہ وہ نقطہ تھا جس پر تمام مذاکرات، مطالبات، قراردادوں اور رپورٹس کا سلسلہ منقطع ہو گيا۔ يہ واضح ہو چکا تھا کہ دہشت گردی کو روکنے، بے گناہ انسانوں کو محفوظ رکھنے اور اسامہ بن لادن کو انصاف کے کٹہرے ميں لانے کے ليے فوجی کاروائ آخری آپشن ہے۔

فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

www.state.gov

عجیب بات ہمیشہ یہ رہی ہے، کہ امریکہ کو کبھی اسرائیل کی وہ دھشت گردی نظر نہیں آتی جو وہ 1948 سے جاری رکھے ہوئے ہے اور اس دوران لاکھوں مسلمانوں کا قتل کر چکا ہے اور کئی عمارتوں کو بھی تباہ و برباد کر چُکا ہے۔
انسانی حقوق کی ترجمانی کے ڈھونگ تو خیر اسکے اپنے ملک میں ہونے والی انسانوں‌پر زیادتیوں سے کھلتے ہی رہتے ہیں۔ اور اب یہ کہنا کہ اسامہ بن لادن پوری دنیا میں امریکی مفادات پر حملوں میں ملوث رہا ہے تو امریکہ کونسا بڑا معصوموں والی زندگی گزارتا رہا ہے۔

پوری دنیا میں جتنے لوگ اسوقت امریکہ سے نفرت کرتے ہیں اسے جاننے کے لیئے کسی دستاویز کی ضرورت نہیں ہے۔ اور سب سے بڑی بدمعاشی تو حال ہی میں عراق پر حملہ تھا جس کا بہانہ بڑے پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیار تھے جو آج تک نہیں ملے اور اسکے بعد عراق کا کیا حال ہوا، وہ سب کو پتا ہے۔

اسامہ و طالبان کی دھشت گردی پر سیاست جمانے والوں کو اگر دیکھو، تو وہ ایسے ملک کی حمائیت کرتے نظر آتے ہیں جو خود اتنی بڑی تعداد میں انسانوں کے قتل کرچُکے ہیں جو شائید ابھی طالبان اور القاعدہ کو کرنے میں کئی سال لگ جائیں۔

فواد کی حکومتی دستاویز تو خود اسی امریکہ کی دستاویز ہے جو ظاہر ہے ایک یکطرفہ فیصلہ ہے اور اقوام متحدہ جیسی کٹھ پتلی ادارے کوئی ایسا مستند ادارہ نہیں ہے کہ جس کو غلط کہے وہ واقعی غلط ہو۔ یہ اقوام متحدہ آج تک امریکہ برطانیہ اور اسرائیل کی دھشت گردی تو روک نہیں سکا، تو دوسروں پر کس منہ سے الزام لگاتا ہے۔؂
 

مہوش علی

لائبریرین
مہوش نے جس شوق سے اس ذلیل نذیر ناجی کا کالم یہاں پوسٹ کیاہے، اگر انہوں نے اسکی غلیظ زبان سنی ہوتی جو اس نے ایک دوسرے صحافی کے خلاف صرف اسلئے استعمال کی کہ اس صحافی نے اسے حکومت کی طرف سے دئے گے دوسرے پلاٹ کی تفصیلات پوچھی تھیں، تو شائید اسکی کوئی بات یہاں‌پوسٹ نہیں کرتیں۔
۔


فرخ،

نذیر ناجی کے اس کالم کے جواب میں آپ ذاتیات پر حملے کرنے کی بجائے اگر دلائل سے انکی باتوں کو غلط ثابت کرتے تو بہتر ہوتا۔

میں علی ابن ابی طالب کے اس قول پر یقین رکھتی ہوں کہ انصاف کرتے وقت یہ نہ دیکھا جائے کون کہہ رہا ہے، بلکہ یہ دیکھا جائے کہ کیا کہہ رہا ہے۔

از فرخ:

مگر شائید ایم کیو ایم جیسی بدنامِ زمانہ اور ذلیل جماعت کی حمائیت کرنے والوں کو ایسی ہی گھٹیا لوگوں کے کالم پسند آتے ہیں۔

افسوس فرخ یہ آپ کے اندر کا کینہ ہے جو دلائل سے بات کرنے کی بجائے آپکو ذاتیات پر حملے کرنے پر مجبور کرتا ہے۔

اور یہ بھی یار رکھئیے آپ طالبان جیسے وحشی درندوں کی حمایت کرتے آئے ہیں۔ اگر آپ ہی طرح بات کرنا ہو تو آپ کو بہت کچھ جواب دے سکتی ہوں، مگر معذرت کہ یہ میرا طریقہ کار نہیں۔

اور میں ہر شر سے اللہ تعالی کی پناہ طلب کرتی ہوں۔ امین۔
 

مہوش علی

لائبریرین
آپ سب سے درخواست ہے کہ آپ لوگ نذیر ناجی کا کالم غور سے پڑھیں، اور پھر ٹھنڈے دل و دماغ سے اس پر غور اور سوچ و بچار کریں۔ ہمیں بطور قوم بہت سی چیزوں کا ادراک کرنا ہے۔

********************

صوبہ سرحد اور فاٹا میں حکومتی عملداری صرف ایک تہائی تک محدود

090512_taliban_march_fz.shtml
نذیر ناجی صاحب کے کالم کے بعد آپ لوگوں سے گذارش ہے کہ بی بی سی کا یہ کالم ضرور بالضرور پڑھیں۔ اس سے صحیح زمینی صورتحال آپ پر بالکل واضح ہو جائے گی اور آپ کو پتا چلے گا کہ طالبان کس طرح مسلسل پیشقدمی کرتے رہے اور قوم کو رائیٹ ونگ میڈیا تھپک تھپک کر سلاتا رہا کہ ہمیں طالبان سے کوئی خطرہ نہیں۔

اللہ اللہ کر کے برف نے پگھلنا شروع کیا ہے۔ شکر الحمد للہ۔

مگر منزل بہت دور ہے۔ اور ہم نے بطور قوم پہلے ہی سانپ کی فطرت پہچاننے میں بہت دیر کر دی ہے۔

ذرا توجہ کیجئے، ایک سوات اور مالاکنڈ کو طالبانی فتنے سے نجات دلاتے دلاتے پتا نہیں کتنے معصوم شہری مزید ہلاک ہو گئے ہیں اور ہو رہے ہیں، اور دس لاکھ سے زائد اپنے گھر بار چھوڑ کر بے گھر ہوئے بیٹھے ہیں اور سہولیات نہ ہونے کی وجہ سے آئے دن بھوک سے ہی مرتے جا رہے ہیں۔

اب تصور کیجئے اگر ہمیں طالبان کو مکمل طور پر بقیہ تمام علاقوں میں کچلنا ہے تو پھر کتنے مزید ہزاروں معصوم شہری مارے جائیں گے اور پتا نہیں شاید چالیس پچاس لاکھ لوگ اور اپنے گھروں کو چھوڑ کر ملک کے دوسرے علاقوں میں پناہ لے رہے ہوں گے۔

دیکھا آپ نے کہ ہم لوگ بطور قوم طالبان کی سانپ والی فطرت پہچانتے پہچانتے کتنی دیر کر چکے ہیں اور اس کا کتنا بڑا خمیازہ ہمیں بطور قوم اٹھانا پڑ رہا ہے اور مستقل میں مسلسل اٹھانا پڑتا رہے گا؟


دیکھئیے، سوات ڈیل کا ایک طرف تو بہت فائدہ ہوا کہ طالبان بالکل بے نقاب ہو گئے اور پہچانے گئے اور قوم ان کے فتنے کے خلاف اٹھ کھڑی ہوئی۔ مگر اسکا ایک منفی پہلو بھی تھا اور وہ یہ کہ طالبان نے سوات میں منظم ہو کر گرفت اتنی مضبوط کر لی اور مورچے ایسے کھودے اور لینڈ مائینز کا ایسا جال بچھایا ہے کہ جس کے بعد انہیں علاقے سے نکالنے کے لیے دس لاکھ سے زائد لوگ بے گھر ہو گئے ہیں اور پتا نہیں کتنے معصوم مارے جا چکے ہیں۔ چنانچہ اگر طالبان کے خلاف یہی جنگ سوات امن ڈیل سے قبل شروع کی جاتی تو یہ دس لاکھ لوگ بے گھر نہ ہوتے۔

میں اس تمام چیز کا الزام رائیٹ ونگ میڈیا کے سر پر رکھتی ہوں جس نے سوات ڈیل سے قبل تک ہر ہر موقع پر طالبانی جرم کا دفاع کیا اور تمام برائی کا الزام افغانستان اور انڈین را کی طرف موڑ کر طالبان کو بچاتے رہے اور قوم کو تھپکی دے کر سلاتے رہے کہ طالبان سے ہمیں کوئی خطرہ نہیں۔

اگر یہی میڈیا شروع دن سے طالبانی فطرت کو قوم کے سامنے پیش کرتا رہتا تو طالبان کے خلاف یہ جنگ آج نہیں، بلکہ آج سے کئی سال قبل ہی شروع ہو چکی ہوتی اور اس فتنے کا سر اسی وقت کچلا جا چکا ہوتا۔

افسوس کہ بطور قوم ہم نے اس فتنے کو پہچاننے میں اتنی دیر لگا دی ہے کہ اسکے خمیازے میں مزید تیس چالیس لوگ بے گھر ہوں گے اور سیکنڑوں معصوم مزید مارے جائیں گے۔

اسی لیے قران کہتا ہے کہ فتنے کو مارو اور اس حد تک مارو کہ وہ بالکل ختم نہ ہو جائے۔ اور اگر تم ایسا نہیں کرو گے تو یہ فتنہ بڑھتا ہی چلا جائے گا اور جتنا نقصان آج ہونا ہے، اس سے کہیں گنا زیادہ نقصان مستقبل میں اٹھانا پڑے گا۔

یاد رکھئیے، طالبان کے خلاف آپریشن کو اگر نامکمل چھوڑ دیا گیا اور اس فتنے کو مکمل طور پر ابھی نہیں کچلا گیا، یا پھر انہیں کسی قسم کی ڈھیل دی گئی اور آج کا کام کل پر ڈالا گیا تو کل کو تیس چالیس کی بجائے کڑوڑوں لوگ بے گھر ہوتے دکھائی دیں گے۔

طالبان کے خلاف آپریشن جاری ہے۔ مگر رائیٹ ونگ میڈیا نے ابھی سے ڈھکے چھپے الفاظ میں آپریشن کی مخالفت شروع کر دی ہے اور جلد ہی وہ اس پوزیشن میں ہوں گے کہ پھر سے کھل کر اپنا پروپیگنڈہ کر رہے ہوں۔ میں بس دعا کرتی ہوں کہ اس دفعہ قوم ان کے جال میں نہ آئے اور ان کے دھوکے میں آ کر اپنا مزید نقصان نہ کروا بیٹھے۔ امین۔
 
Top