ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
بہت خوب خلیل بھائی! اچھی روانی ہے اشعار میں!
بعض جگہوں پر ایک واقعے سے دوسرے واقعے کی طرف ٹرانزیشن یا گریز ٹھیک سے نہیں ہوپارہا ۔ کچھ تعقید کا مسئلہ بھی ہے ۔خلیل بھائی ، زمرے کی نسبت سے ایک دو تجاویز دینا چاہوں گا ۔ ان شاء اللہ کل تفصیل سے لکھنے کی کوشش کروں گا ۔
 
بہت خوب خلیل بھائی! اچھی روانی ہے اشعار میں!۔
جزاک اللہ ظہیر بھائی

بعض جگہوں پر ایک واقعے سے دوسرے واقعے کی طرف ٹرانزیشن یا گریز ٹھیک سے نہیں ہوپارہا ۔

درست فرماتے ہیں۔ بعض جگہوں پر جلدی میں گزرتے ہوئے واقعات کو نمٹانے کی کوشش کی ہے۔ شاید آپ کا اشارہ بجلی گرنے اور موگلی کے اس سے فایدہ اٹھانے یا بھالو کی سین میں آمد پر ہے۔

کچھ تعقید کا مسئلہ بھی ہے ۔

پہلے شعر میں "ہمارے موگلی" استعمال کیا تھا جسے آخری لمحات میں "مقابل" کردیا۔ اس کو اگر "ہمارے موگلی" ہی کردیں تو یہ مسئلہ حل ہو جائے گا؟ کیا آپ کا اشارہ مزید کسی جگہ پر ہے؟

آپ کی خوبصورت تجاویز کے منتظر!!
 

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
جزاک اللہ ظہیر بھائی
درست فرماتے ہیں۔ بعض جگہوں پر جلدی میں گزرتے ہوئے واقعات کو نمٹانے کی کوشش کی ہے۔ شاید آپ کا اشارہ بجلی گرنے اور موگلی کے اس سے فایدہ اٹھانے یا بھالو کی سین میں آمد پر ہے۔
جی خلیل بھائی ، میرا بھی یہی خیال تھا کہ ان مقامات سے آپ عجلت میں گزرے۔
پہلے شعر میں "ہمارے موگلی" استعمال کیا تھا جسے آخری لمحات میں "مقابل" کردیا۔ اس کو اگر "ہمارے موگلی" ہی کردیں تو یہ مسئلہ حل ہو جائے گا؟ کیا آپ کا اشارہ مزید کسی جگہ پر ہے؟
آپ کی خوبصورت تجاویز کے منتظر!!
معذرت خواہ ہوں خلیل بھائی ، کل مراسلہ جلدی میں ختم کرکے اٹھنا پڑا ۔ حشو و زوائد کہنا چاہتا تھا لیکن تعقید کہہ گیا ۔
 
اساتذہ و دوستوں کی اصلاح کی روشنی میں 19ویں قسط پر کام جاری ہے اسے جلد دوبارہ تصحیح کے بعد محفلین کی خدمت میں پیش کردیں گے۔ سرِ دست 20 ویں اور آخری قسط نظم ہوچکی ہے لہٰذا اسے پیش کررہے ہیں۔
 
باب بیستم : انجام بخیر

بگھیرا نے پہنچ کر جب وہاں پر حال یہ دیکھا
نہ پوچھا کچھ کسی سے، آپ سارا ماجرا سمجھا

چمٹ کر لاش سے بھالو کی روتا موگلی پایا
تب اُس کو رحم اُس بدحال پر بے اختیار آیا

اُسے روتا ہوا یہ موگلی اچھا لگا اُس دَم
جھڑی تھی آنسؤوں کی یاکہ گالوں پر پڑی شبنم

اٹھاکر موگلی کو گرم جوشی سے جو لپٹایا
بہت ہی پیار سے یوں موگلی کو اُس نے سمجھایا

بگھیرا نے کہا’’ پیارے نہ کچھ بھالو کا غم کھاؤ
کروں تعریف کن لفظوں میں بھالو کی یہ بتلاؤ‘‘

"سلام ایسے جوانوں پر جو ظلم و جور سہتے ہیں
ہمیشہ جو ستم سے بر سرِ پیکار رہتے ہیں"

"جواں مردوں کی ہمت سے جہاں آباد رہتے ہیں
کہ ایسے لوگ مرکر بھی ہمیشہ یاد رہتے ہیں"

"ہے آئینِ جواں مرداں ستم سے پنجہ زن رہنا
نہ ڈرنا ظلم کی طاقت سے ، جو سچ ہو وہی کہنا"

’’یہی فطرت تھی بھالو کی، یہی اُس کا طریقہ تھا
تمہیں جو اُس نےسِکھلایا، وہی اُس کا سلیقہ تھا‘‘

مزے کی بات اے بچو ذرا تم کو بھی بتلائیں
چلو ہنس دو کہ بھالو کا تمہیں اب راز سمجھائیں

لڑائی میں جب اُس نے کنپٹی پر چوٹ کھائی تھی
گرا بیہوش ہوکر، یوں سمجھ لو نیند آئی تھی

اب اِس عالم میں چہرے پر پڑے بارش کے جوں قطرے
اچانک ہوش میں آیا وہ بے ہوشی کے عالم سے

جب اس نے ہوش میں آکر بگھیرا کی سنیں باتیں
بگھیرا کی وہ لفاظی، وہ تعریفیں ، مداراتیں

بہت خوش ہو کے بھالو بھی یکایک یوں پکار اٹھا
'تری آواز مکے اور مدینے' او مرے بھیّا

اسے جب ہوش میں پایا ، خوشی سے چیخ کر لپکے
بگھیرا، موگلی ، اور سارے گدھ بھی بس وہیں ٹپکے

یونہی رہنے لگے آپس میں سارے دوست مِل جُل کر
بنا جب موگلی اُن کا، رہا کھٹکا، نہ کوئی ڈر

ہماری اس کہانی کا یہی انجام اچھا ہے
کہ اس میں حق کا اور انصاف کا ہی بول بالا ہے

جو ظالم دُم دبا کر بھاگ نکلے اِس کہانی میں
انہیں یارا نہیں واپس کبھی جنگل میں آ پائیں

بھلائی کی بدی سے اِس جہاں میں جنگ رہتی ہے
کہانی اِ س لڑائی کی زبانِ خلق کہتی ہے

مِرے بچو جہاں میں حق کے دعوے دار بن جاؤ
ستم کے سامنے ڈٹ جاؤ ، اک دیوار بن جاؤ
 
آخری تدوین:

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
بہت ہی اعلیٰ!! خوبصورت ترجمہ ہے خلیل بھائی! یہ آپ ہی کا حصہ ہے!!
اس ترجمے کی تکمیل پر مبارکباد قبول کیجئے ۔ اختتامی اشعار زبردست ہیں۔

خلیل بھائی ، زمرے کی مناسبت سے ایک دو مشورے دینا چاہوں گا ۔ ایک تو یہ کہ بگھیرا کو بگھیرے لکھئے ۔ یعنی بگھیرا نے پہنچ کر کے بجائے بگھیرے نے پہنچ کر درست ہوگا۔ اسی طرح دیگر مقامات پر بھی تبدیل کردیجئے ۔ دوسرا یہ کہ بگھیرے کے ڈائیلاگ میں ہر شعر کو الگ الگ واوین میں مت لکھئے ۔ صرف ڈائیلاگ کے شروع اور آخر میں واوین استعمال کیجئے ۔ انفرادی شعر کو واوین میں بند کرنے کا مطلب یہ لیا جاتا ہے کہ یہ کسی اور شاعر سے مستعار ہے ۔ اور یہ بات آپ بخوبی جانتے ہی ہیں ۔

بہت خوش ہو کے بھالو بھی یکایک یوں پکار اٹھا
'تری آواز مکے اور مدینے' او مرے بھیّا

تری آواز مکے اور مدینے کی یہ نستعلیق ضرب المثل کہانی کے مجموعی پس منظر میں کچھ ٹھیک نہیں لگ رہی ۔ اگر یہ ڈائیلاگ ہمارے منتظم اعلیٰ تابش صدیقی کہہ رہے ہوتے تو ٹھیک تھا لیکن بھالو کے منہ سے کچھ بے محل لگ رہا ہے ۔ :):):) میری ناقص رائے میں اسے یوں کردیکھئے :

بہت خوش ہو کے بھالو بھی یکایک یوں پکار اٹھا
تمہارے منہ میں گھی شکر ، تمہارا شکریہ بھیا ! ۔۔۔ یا ۔۔۔ تمہارے منہ میں گھی شکر ، مرے جگری مرے یارا! ۔۔۔ وغیرہ وغیرہ ۔ یا اورکوئی صورت جو آپ بہتر سمجھیں ۔

اب اس کہانی کو مناسب تصویروں سے سجاکر باتصویر بھی کردیا جائے تو سونے پر سہاگہ ہوجائے گا۔
 
بہت ہی اعلیٰ!! خوبصورت ترجمہ ہے خلیل بھائی! یہ آپ ہی کا حصہ ہے!!
اس ترجمے کی تکمیل پر مبارکباد قبول کیجئے ۔ اختتامی اشعار زبردست ہیں۔

خلیل بھائی ، زمرے کی مناسبت سے ایک دو مشورے دینا چاہوں گا ۔ ایک تو یہ کہ بگھیرا کو بگھیرے لکھئے ۔ یعنی بگھیرا نے پہنچ کر کے بجائے بگھیرے نے پہنچ کر درست ہوگا۔ اسی طرح دیگر مقامات پر بھی تبدیل کردیجئے ۔ دوسرا یہ کہ بگھیرے کے ڈائیلاگ میں ہر شعر کو الگ الگ واوین میں مت لکھئے ۔ صرف ڈائیلاگ کے شروع اور آخر میں واوین استعمال کیجئے ۔ انفرادی شعر کو واوین میں بند کرنے کا مطلب یہ لیا جاتا ہے کہ یہ کسی اور شاعر سے مستعار ہے ۔ اور یہ بات آپ بخوبی جانتے ہی ہیں ۔

بہت خوش ہو کے بھالو بھی یکایک یوں پکار اٹھا
'تری آواز مکے اور مدینے' او مرے بھیّا

تری آواز مکے اور مدینے کی یہ نستعلیق ضرب المثل کہانی کے مجموعی پس منظر میں کچھ ٹھیک نہیں لگ رہی ۔ اگر یہ ڈائیلاگ ہمارے منتظم اعلیٰ تابش صدیقی کہہ رہے ہوتے تو ٹھیک تھا لیکن بھالو کے منہ سے کچھ بے محل لگ رہا ہے ۔ :):):) میری ناقص رائے میں اسے یوں کردیکھئے :

بہت خوش ہو کے بھالو بھی یکایک یوں پکار اٹھا
تمہارے منہ میں گھی شکر ، تمہارا شکریہ بھیا ! ۔۔۔ یا ۔۔۔ تمہارے منہ میں گھی شکر ، مرے جگری مرے یارا! ۔۔۔ وغیرہ وغیرہ ۔ یا اورکوئی صورت جو آپ بہتر سمجھیں ۔

اب اس کہانی کو مناسب تصویروں سے سجاکر باتصویر بھی کردیا جائے تو سونے پر سہاگہ ہوجائے گا۔
جزاک اللہ ظہیر بھائی۔ پسندیدگی پر شکریہ قبول فرمائیے۔

آپ کی تجویز کردہ اصلاح خوبصورت ہے۔ تبدیلی کرکے دوبارہ پیش کرتے ہیں
 

سید عاطف علی

لائبریرین
بگھیرا نے پہنچ کر جب وہاں پر حال یہ دیکھا
بگھیرا میرے خیال میں کیوں کہ کہانی میں بگھیرے کا نام ہے اس لیے اسے بگھیرا بھی استعمال کیا جاسکتا ہے اور بگھیرے بھی کیا جاسکتا ہے ۔
تب اُس کو رحم اُس بدحال پر بے اختیار آیا
یہاں پچھلے مصرع سے موافقت کے لیے تب کے بجائے تو زیادہ بہتر ہے۔
بہت ہی پیار سے یوں موگلی کو اُس نے سمجھایا
یہاں ہی کے بجائے پھر بہتر ہے ۔ وجہ وہی پچھلے مصرع سے مطابقت۔
بگھیرا، موگلی ، اور سارے گدھ بھی بس وہیں ٹپکے
یہاں محض ٹپکے درست نہیں اسے آسانی سے آٹپکے کیا جاستا ہے اور ہونا بھی آٹپکے ہی چاہیئے۔
جو ظالم دُم دبا کر بھاگ نکلے اِس کہانی میں
یہاں نکلے کی بجائے نکلیں ہو گا جمع کے صیغے کے استعمال کی وجہ سے۔
 

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
جو ظالم دُم دبا کر بھاگ نکلے اِس کہانی میں
انہیں یارا نہیں واپس کبھی جنگل میں آ پائیں
یہاں نکلے کی بجائے نکلیں ہو گا جمع کے صیغے کے استعمال کی وجہ سے۔
عاطف بھائی ، آپ اس شعر سے یقیناً سرسری گزرے۔ توجہ کیجئے گا کہ خلیل بھائی نے اس مصرع میں ماضی کا صیغہ استعمال کیا ہے سو یہاں نکلے ہی درست ہے۔ ( ظالم بھاگ نکلا ، ظالم بھاگ نکلے)۔
 

سید عاطف علی

لائبریرین
عاطف بھائی ، آپ اس شعر سے یقیناً سرسری گزرے۔ توجہ کیجئے گا کہ خلیل بھائی نے اس مصرع میں ماضی کا صیغہ استعمال کیا ہے سو یہاں نکلے ہی درست ہے۔ ( ظالم بھاگ نکلا ، ظالم بھاگ نکلے)۔
جی ہاں یہ بات بھی درست ۔۔۔ لیکن اگر "نکلیں" رہے تو شرطیہ انداز کی قید سب صیغوں کو بالعموم ہی محیط ہو جائے ۔ میرا پڑھ ذہن اسی طرف جاتا ہے ۔ اگر چہ آپ کی بات بھی ٹھیک ہے ۔
 
محفلین کی دلچسپی کے لیے ہماری نظم جنگل بک جن مراحل سے گزر کر مکمل ہوئی ان کی تاریخ وار تفصیل


  • پہلا باب: ۲۵ جون ۲۰۱۳

  • دوسرا باب: ۲۷ جون ۲۰۱۳

  • تیسرا باب: ۴ جولائی ۲۰۱۳

  • چوتھا باب: ۹ جولائی ۲۰۱۳

  • پانچواں باب: ۱۳ جولائی ۲۰۱۳

  • چھٹا باب: ۲۹ اکتوبر ۲۰۱۴

  • ساتواں باب: ۲۵ جنوری ۲۰۱۵

  • آٹھواں باب: ۱۳ اپریل ۲۰۱۵

  • نواں باب: ۱۹ اپریل ۲۰۱۵

  • دسواں باب: ۲۲ اپریل ۲۰۱۵

  • گیارھواں باب: ۴ مئی ۲۰۱۵

  • بارھواں باب: ۷ اگست ۲۰۱۵

  • تیرھواں باب: ۲۲ اگست ۲۰۱۵

  • چودھواں باب: ۸ مئی ۲۰۱۶

  • پندرھواں باب: ۲ اگست ۲۰۱۷

  • سولھواں باب: ۹ اگست ۲۰۱۷

  • سترھواں باب: ۲۱ اکتوبر ۲۰۱۸

  • اٹھارواں باب: ۱۴ اپریل ۲۰۲۰

  • انیسواں باب: ۱۷ اپریل ۲۰۲۰

  • بیسواں باب: ۲۹ اپریل ۲۰۲۰
 
ماشاء اللہ:) آخر سات سال کی محنت سے آپ نے یہ کٹھن منزل حاصل کر لی
بہت بہت مبارک ہو محمد خلیل الرحمٰن بھائی
اب اس کو کتابی شکل میں بھی شائع کریں تو بہت اچھا ہو گا ہمارے ملک میں بچوں کے لٹریچر کی بہت کمی ہے
سلامت رہیں
 

صابرہ امین

لائبریرین
بھئ واہ واہ ۔ ۔ ترجمہ کرنا اور وہ بھی منظوم، بہت بڑی بات ہے ۔ ۔ شاندار انداز۔ ۔ جاندار بیان ۔ ۔ ما شا اللہ
 

صابرہ امین

لائبریرین
محفلین کی دلچسپی کے لیے ہماری نظم جنگل بک جن مراحل سے گزر کر مکمل ہوئی ان کی تاریخ وار تفصیل


  • پہلا باب: ۲۵ جون ۲۰۱۳

  • دوسرا باب: ۲۷ جون ۲۰۱۳

  • تیسرا باب: ۴ جولائی ۲۰۱۳

  • چوتھا باب: ۹ جولائی ۲۰۱۳

  • پانچواں باب: ۱۳ جولائی ۲۰۱۳

  • چھٹا باب: ۲۹ اکتوبر ۲۰۱۴

  • ساتواں باب: ۲۵ جنوری ۲۰۱۵

  • آٹھواں باب: ۱۳ اپریل ۲۰۱۵

  • نواں باب: ۱۹ اپریل ۲۰۱۵

  • دسواں باب: ۲۲ اپریل ۲۰۱۵

  • گیارھواں باب: ۴ مئی ۲۰۱۵

  • بارھواں باب: ۷ اگست ۲۰۱۵

  • تیرھواں باب: ۲۲ اگست ۲۰۱۵

  • چودھواں باب: ۸ مئی ۲۰۱۶

  • پندرھواں باب: ۲ اگست ۲۰۱۷

  • سولھواں باب: ۹ اگست ۲۰۱۷

  • سترھواں باب: ۲۱ اکتوبر ۲۰۱۸

  • اٹھارواں باب: ۱۴ اپریل ۲۰۲۰

  • انیسواں باب: ۱۷ اپریل ۲۰۲۰

  • بیسواں باب: ۲۹ اپریل ۲۰۲۰
بھئ یہ تو سب پڑھنا ہوں گے ۔ ۔ مانو خزانہ ہاتھ لگ گیا ۔ ۔ چھپر پھاڑ کر مل گیا ۔ ۔ :)
 

صابرہ امین

لائبریرین

صابرہ امین

لائبریرین
باب پنجم : بھالو

خموشی چھاگئی جِس دَم اکیلا سامنے آیا
وہیں جنگل کا اِک قانون اُس نے پھِر سے دُہرایا

’’اگر چاہیں کسی پلّے کو اپنے جھُنڈ میں لانا
تو پھِر لازِم ہے اُس کے حامیوں کا سامنے آنا

ذرا یہ غور سے سُن لیں جو ہیں سب حاضِر و ناظِر
ہمیں درکار ہیں دو جانور اِس کام کی خاطِر‘‘

یہ سننا تھا کہ بھالو کوُد کر یوں سامنے آیا
اور اِک بھونچال کی مانند اُس نے سب کو چونکایا

یہی بھالو تھا جو اِن سب کو مکتب میں پڑھاتا تھا
سبھی قانون جنگل کے اُنہیں پڑھ کر سُناتا تھا

اُسے حق تھا کہ اِس مجلِس میں اپنی رائے دے سکتا
یہ بھالو تھا کُچھ ایسا ہی کہ بس دِل موہ لے سب کا

کہا بھالو نے یہ بچہ ہے میرا اور میں اسِ کا ہوں
میں اِس انسان کے بچے کے حق میں رائے دیتا ہوں

’’چلویہ طے ہوا اب ایک بھالو اِس کا حامی ہے
مگر اب موگلی کے حق میں خالی اِک اسامی ہے

اگر دو جانور یک رائے ہوکر اِس کا دَم بھر لیں
تو شامل موگلی کو جھنڈ میں ہم آج ہی کرلیں‘‘

اُدھر ماما اکیلی دانت اپنے تیز کرتی تھی
وہ اپنے ناخنوں کو اپنے منہ سے بھی کُترتی تھی

کہیں ایسا نہ ہو کہ فیصلہ اُس کے خلاف آئے
تو پھر بیچارہ بچہ جان تو اپنی بچا پائے

میں اِس بچے کی خاطِر جان بھی اپنی گنوا دوں گی
جو اِس کو کھانے آئے گا، میں اُس کو بھی مِٹا دوں گی

باب چہارم : جنگل کا قانون


سید شہزاد ناصر ، شمشاد، سید عاطف ع:)لی ، @
یہی بھالو تھا جو اِن سب کو مکتب میں پڑھاتا تھا
سبھی قانون جنگل کے اُنہیں پڑھ کر سُناتا تھا

زبردست ۔ ۔

اُدھر ماما اکیلی دانت اپنے تیز کرتی تھی
وہ اپنے ناخنوں کو اپنے منہ سے بھی کُترتی تھی

کیا بات ہے ۔ ۔ ۔ تصور میں ماما محترمہ آ گئیں ۔ نروس سی ۔ ۔ :)
میں اِس بچے کی خاطِر جان بھی اپنی گنوا دوں گی
جو اِس کو کھانے آئے گا، میں اُس کو بھی مِٹا دوں گی

واہ ۔ ۔ بہت عمدہ ۔ ۔
 

صابرہ امین

لائبریرین
ماشا اللہ ۔ ۔ ۔ سبحان اللہ ۔ ۔ ۔ کیا خوب منظوم ترجمہ ہے ۔ ۔ ایک ہی نشست میں پڑھ ڈالا کہ دلچسپی اور تجسس نے اٹھنے ہی نہیں دیا ۔ ۔ یہاں سے معلوم ہوا کہ سات سال سے آپ یہ کام کرنا چاہتے تھے۔ ۔ ۔ مستقل مزاجی کی الگ سے داد کہ بہت سے لوگ تو بس سوچ کر ہی رہ جاتے ہیں ۔ ۔ ۔

آخری باب میں تو لاکھوں کی باتیں ایک ساتھ کر ڈالیں آپ نے ؂

"سلام ایسے جوانوں پر جو ظلم و جور سہتے ہیں
ہمیشہ جو ستم سے بر سرِ پیکار رہتے ہیں"

"جواں مردوں کی ہمت سے جہاں آباد رہتے ہیں
کہ ایسے لوگ مرکر بھی ہمیشہ یاد رہتے ہیں"

"ہے آئینِ جواں مرداں ستم سے پنجہ زن رہنا
نہ ڈرنا ظلم کی طاقت سے ، جو سچ ہو وہی کہنا"

بھلائی کی بدی سے اِس جہاں میں جنگ رہتی ہے
کہانی اِ س لڑائی کی زبانِ خلق کہتی ہے

مِرے بچو جہاں میں حق کے دعوے دار بن جاؤ
ستم کے سامنے ڈٹ جاؤ ، اک دیوار بن جاؤ

سنہرے الفاظ دل میں اترتے گئے ۔ ۔ ۔ بہت لظف اٹھایا ۔ ۔ کئی اشعار تو باربار پڑھے ۔ ۔ بچوں کے لیئے تو بہت ہی عمدہ نظم ایک داستان کے پیرائے میں تیار ہو گئ ہے ۔ ۔ ۔
اساتذہ کی توجہ اور آپ کی کاوش کو پہترین بنانے کی سعی بھی قابل ستائش اور ادب پروری کا منہ بولتا ثبوت ہے ۔ ۔ ۔

کپلنگ کی " ٰIF" میری ہمیشہ سے پسندیدہ رہی ہے ۔ ۔ کاش اس کا بھی کوئی ایسا ترجمہ کرے جیسا کہ آپ نے کیا ۔ ۔( دیکھیئے کیسی خواہشیں پیدا ہو رہی ہیں)

ایک بار پھر ڈھیروں ڈھیر مبارکباد ۔ ۔ :):):)
 
Top