نماز جمعہ اور نماز تراویح کا باجماعت اہتمام ہوگا

جاسم محمد

محفلین
۔ مسئلہ یہ ہے کہ بالکل کندھا ملا کر نہ بھی کھڑے ہوں، تو بھی صرف غیر ضروری طور پر ایک مشترکہ کمرے میں اکٹھا ہونا ہی اپنی جگہ ایک خطرناک عمل ہے۔ ایسے بھی اشارے مل رہے ہیں کہ ممکنہ طور پر بلند آواز سے گفتگو کے دوران منہ سے اڑنے والے خردبینی ذرات بھی انفیکشن کو پھیلانے کا سبب بن سکتے ہیں۔ کمرے میں ہوا کا اچھی طرح گزر نہ ہونا مسئلے کو مزید گمبھیر بناتا ہے۔
اگر واقعی یہ انفیکشن اتنی تیزی سے پھیل سکتی ہے تو پھر نمازیوں کی تعداد کم ہو یا زیادہ سب ہی اس وبا کے زیر اثر آسکتے ہیں۔ بہترین حل یہی ہے کہ جب تک وبا کنٹرول میں نہیں آتی ہر قسم کے مجمع میں شامل ہونے سے گریز کیا جائے۔
 

اے خان

محفلین
ایک دوست نے معلومات میں اضافہ کیا کہ رمضان میں تراویح پڑھانے کے اچھے خاصے پیسے ملتے ہیں ۔ اس سے محرومی گوارا نہیں مولویوں کو۔ :)
خدا کے لیے مولویوں کی عزت نہ اچھالیں. آپ کیا جانے مولوی اس مہنگائی کے دور میں کتنی مشکل سے اپنا گزارا کرتے ہیں. ہمارے اپنے مسجد کے پیش امام جن کے بھائیوں کے پاس گاڑیاں ہیں. اور ہمارے مولوی صاحب کے پاس اپنی موٹر سائیکل بھی نہیں جو ہے وہ بھی بھائی نے دی ہے. ہمارے محلے میں کل ملا کر بیس گھر ہے. ماہانہ دو سو روپے شادی شدہ فرد امام صاحب کو دیتا ہے. جو کبھی کبھار چھ ہزار یا سات ہزار بن جاتے ہیں. کبھی کبھار کوئی نہ دے تو بھی امام صاحب مطالبہ نہیں کرتے. اور یہ پیسے بھی محلے کے بزرگوں نے امام صاحب کی شادی کے بعد مقرر کیے ہیں اس پہلے امام صاحب بغیر تنخواہ نماز پڑھایا کرتے تھے.صبح سے دوپہر تک طالبات کو درس بھی دیتے ہیں ظہر کی نماز کے بعد بچوں کو ناظرہ ترجمہ بھی پڑھاتے ہیں. عشاء کی نماز سے پہلے بھی قرآن کا درس دیتے ہیں. اتنے کم تنخواہ میں کون یہ کم کرتا ہے.؟
 

جاسم محمد

محفلین
خدا کے لیے مولویوں کی عزت نہ اچھالیں.
ایسی کوئی بات نہیں ہے۔ ہمیں اعتراض صرف اس بات پر ہے کہ جب لاک ڈاؤن کےسرکاری احکامات معاشرہ کے تمام طبقات کیلئے ہیں تو ایک خاص طبقہ خود کو اس سے مبرا کیوں سمجھ رہا ہے؟ حکومت، فلاحی تنظیموں اور مخیر حضرات سے جتنا ہو سکتا ہے، وہ اس لاک ڈاؤن سے متاثرہ لوگوں کی مالی امداد کر رہے ہیں۔ ایسے میں ریاست کو مجبور کرنا کہ وہ مساجد و مدارس کو لاک ڈاؤن سے استثنا یا نرمی فراہم کرے تو یہ معاشرہ کے دیگر کمزور طبقات کے ساتھ زیادتی ہوگی۔ نیز اس سے وائرس دوبارہ شدت سے پھیل سکتا ہے۔
 

فہد مقصود

محفلین
پاکستان کے علما نے جو ماڈل پیش کیا ہے اس سے حکومت متفق ہے اور اسی پر عمل در آمد ہوگا۔ البتہ اس تھریڈ میں جو لوگ علماء پر تنقید کر کے اپنا 'مرزا' راضی کر رہے ہیں ان کی اس روش سے مجھے سخت اختلاف ہے کہ ایک آرگنائزڈ طریقے سے مخصوص لوگ علما ئے کرام کی ٹرولنگ کرتے ہیں کبھی تو مجھے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ علماء پر بے جا تنقید اردو محفل کی پالیسی کا حصہ ہو لیکن پھر حسن ظن کا سہارا لینا پڑتا ہے۔

کون کس کا 'مرزا' ہے اور کون اپنے اپنے 'مرزا' کو کیسے کیسے راضی کرتا رہا ہے!!!!!!!!


propaganda & propaganda tools

propaganda & propaganda tools

propaganda & propaganda tools

propaganda & propaganda tools
 
آخری تدوین:

محمد سعد

محفلین
ایک خاص طبقہ خود کو اس سے مبرا کیوں سمجھ رہا ہے؟
خاص طور پر جب ان کا یہ رویہ بڑی تعداد میں لوگوں کی زندگیاں خطرے میں ڈالنے کا سبب بن رہا ہے۔
ان کو اس بات کا احساس نہیں ہو رہا کہ جب لوگوں کی ایک بڑی تعداد کو دن میں کئی بار ایک ہی ہال میں اکٹھا کیا جائے گا تو دنیا بھر کے سائنس دان ابھی تک کوئی بھی ایسی "احتیاطی تدابیر" ایجاد نہیں کر پائے ہیں جو مرض کے پھیلاؤ کو روک سکیں۔ سوائے شاید اس کے کہ ہر کوئی گھر سے سر تا پا PPE میں ملبوس آئے اور جب واپس گھر جائے تو گھر کے دروازے پر الکوحل یا کلورین کا غسل کر کے اندر داخل ہو۔
 

اے خان

محفلین
ایسی کوئی بات نہیں ہے۔ ہمیں اعتراض صرف اس بات پر ہے کہ جب لاک ڈاؤن کےسرکاری احکامات معاشرہ کے تمام طبقات کیلئے ہیں تو ایک خاص طبقہ خود کو اس سے مبرا کیوں سمجھ رہا ہے؟ حکومت، فلاحی تنظیموں اور مخیر حضرات سے جتنا ہو سکتا ہے، وہ اس لاک ڈاؤن سے متاثرہ لوگوں کی مالی امداد کر رہے ہیں۔ ایسے میں ریاست کو مجبور کرنا کہ وہ مساجد و مدارس کو لاک ڈاؤن سے استثنا یا نرمی فراہم کرے تو یہ معاشرہ کے دیگر کمزور طبقات کے ساتھ زیادتی ہوگی۔ نیز اس سے وائرس دوبارہ شدت سے پھیل سکتا ہے۔
عوام اگر مسجد نا جائیں تو امام نے کس کو نماز پڑھانی ہے؟ اور اگر عوام ہی باہر نکل کر گھومیں تو لاک ڈاؤن کا کیا فائدہ سوائے معاشی نقصان کے. باجماعت نماز ادا نہ کرنے کا الگ گناہ
میرے شہر میں لاک ڈاؤن بالکل ختم ہوچکا ہے. یہاں لاک ڈاؤن کا فائدہ نہیں تھا کیونکہ لاک ڈاؤن کے باوجود سب چل رہا تھا سوائے کاروبار کے
 

محمد سعد

محفلین
عوام اگر مسجد نا جائیں تو امام نے کس کو نماز پڑھانی ہے؟ اور اگر عوام ہی باہر نکل کر گھومیں تو لاک ڈاؤن کا کیا فائدہ سوائے معاشی نقصان کے. باجماعت نماز ادا نہ کرنے کا الگ گناہ
میرے شہر میں لاک ڈاؤن بالکل ختم ہوچکا ہے. یہاں لاک ڈاؤن کا فائدہ نہیں تھا کیونکہ لاک ڈاؤن کے باوجود سب چل رہا تھا سوائے کاروبار کے
جس طبقے کی طرف لوگ رہنمائی کے لیے دیکھتے ہیں، وہ کم از کم اپنی ذمہ داری کا احساس کر کے عوام کو گول مول مبہم الفاظ کے بجائے واضح طور پر بتا سکتے ہیں کہ کچھ عرصے کے لیے سب کا گھروں پر نمازیں ادا کرنا بہتر بلکہ حالات کو قابو کرنے کے لیے ضروری ہے۔ وہ تو خود ہی گیمیں کھیلنے اور مقابلے لگانے بیٹھ گئے ہیں۔
 

La Alma

لائبریرین
بظاہر یہ فیصلہ معاشرے کی مجموعی سوچ کا عکاس نظر آ رہا ہے۔ یہاں صرف علمائے کرام کو قصور وار نہیں ٹھہرایا جا سکتا۔ حکومت چاہتی تو لاک ڈاؤن پرسختی سے عمل درآمد کروا سکتی تھی۔ موجودہ حالات میں حکومت کو مذہبی طبقات کی جانب سے کسی خاص مزاحمت کا اندیشہ بھی نہیں تھا اور نہ ہی کوئی ایسی سیاسی مجبوری درپیش تھی کہ انہیں چار و ناچار ان کی بات ماننا پڑتی۔ اس سلسلے میں صدرمملکت کا آج کا بیان ہی کافی ہے ۔ جب اعلیٰ حکام کو ہی معاملے کی سنگینی کا احساس نہیں تو محلے کی مسجد کے ایک سیدھے سادے امام سے ایسی توقع رکھنا عبث ہے جس کی اپنی ہزار معاشی مجبوریاں ہیں۔
 

نبیل

تکنیکی معاون
جب اعلیٰ حکام کو ہی معاملے کی سنگینی کا احساس نہیں تو محلے کی مسجد کے ایک سیدھے سادے امام سے ایسی توقع رکھنا عبث ہے جس کی اپنی ہزار معاشی مجبوریاں ہیں۔

کیا کچھ دیر اسی ایشو کو سنجیدگی سے ایڈریس نہیں کیا جا سکتا ہے؟ بلاوجہ زور ایک دوسرے کو نیچا دکھانے پر لگایا جا رہا ہے جبکہ انسانی جانوں کو حقیقی خطرہ لاحق ہے۔ تمام دنیا میں مساجد ہی نہیں بلکہ باقی عبادت گاہیں بھی بند کر دی گئی ہیں۔ اس سے ظاہر چندے کی ذیل میں ملنے والی رقم بھی متاثر ہوئی ہے۔ اسے تسلیم کرنے میں کوئی شرمندگی نہیں ہونی چاہیے۔ یہاں جرمنی میں بھی مساجد کی انتظامیہ کی جانب سے ڈونیشن کی اپیل کی گئی ہے تاکہ ان کا انتظام جیسے تیسے چلتا رہے۔ عام لوگ غالبا اس کا احساس نہیں کرتے لیکن مسجد ایک بڑی اسٹیبلشمنٹ ہوتی ہے اور اس کا کی رننگ کاسٹ کافی ہوتی ہے۔ اس کا احساس مسجد بنانے والوں کو بھی بعد میں ہوتا ہے۔ فی الحال اس بحث کا موقع نہیں ہے کہ نئی مساجد کس ضرورت کے تحت بننی چاہییں اور ان کے اخراجات کو کس طرح کنٹرول کرنا چاہیے۔ آج کل جہاں باقی لوگوں کو ریلیف پیکج فراہم کیا جا رہا ہے، وہاں اگر مساجد کے لیے بھی کچھ ایسا انتظام ہو جائے تو شاید ایک بڑے نقصان سے بچا جا سکتا ہے۔
 
کچھ ریسرچ یہ کہہ رہی ہے کہ بیماری کے سمپٹم ظاہر ہونے سے پہلے ہی دوسروں میں پھیل سکتے ہیں۔

دوسرے یہ بھی سوچیں کہ کیا ساری دنیا بلاوجہ ہی سب کچھ بند کر کے بیٹھی ہے

میرا ایک قریبی دوست، ہیوسٹن کے ایک ہسپتال میں ڈاکٹر ہے، اس کو کرونا سے انفیکشن ہوا، اور 15 دن بعد بچ گیا، اب اس میں کرونا سے مدافعت کے انیٹی باڈیز پائے گئے ہیں اور دوبارہ کرونا سے بیمار نہیں پڑے گا، لیکن اس کو بتایا گیا ہے کہ یہ ایک خطرناک بات ہے۔ یہ اپنے ہاتھوں اور اپنی سانس سے بناء جانے ، یہ جرثومے دوسروں میں منتقل کرسکتا ہے۔ اب صحت مند ہے۔ ماسک لگا کر سب کو دیکھتا ہے اور اب دوسروں کے لئے صفائی رکھتا ہے۔ ایسا ایک نمازی ، ساری مسجد کو بیمار کرسکتا ہے۔ ملاء اپنی نالائقی سے ، ایسے صحت مند لوگوں کی جماعت لگا کر یہ مرض پھیلانا چاہتا ہے۔ اگر اس کے پاس مناسب تعلیم ہوتی تو پہلے ہی یہ رشوت خوری میں مبتلا نا ہوتا۔ نا کہ اب لوگوں کی جان لینے پر تلا ہوا ہے۔ یہ فساد فی الارض نہیں تو پھر کیا ہے ، کھلم کھلا انسانیت کا قتل عام ، اپنی اناء کے نام؟
 
حدیث گھروں کو مصیبت کے وقت مسجد بنا لو، کوئی صاحب ریفرنس فرام کرسکتے ہیں؟
جب کوئی نئی صورتحال پیش آتی ہے تو اصول شرع کی روشنی میں اجتہاد کیا جاتا ہے۔

بالکل نہیں ۔ وہ زمانے لد گئے، کہ جب اصول شرع کی روشنی میں کچھ لوگ اجتہاد کرتے تھے۔ بغداد شریف کی اس روایت کو ختم ہوئے صدیاں بیت گئی ہیں۔ اب اجتہاد عوام کے منتخب نمائندے، قرآن و سنت کی روشنی میں کرتے ہیں۔ یہ پاکستان کا آئین ہے۔ ایسی بیچارگیوں کا پرچار درست نہیں۔ اصول قرآن و سنت، کسی بھی بغدادی اصول شریعت سے بہتر ہیں۔ لیکن ملاء یہ بات نہیں مانتا اور آج بھی اسی بات کا پرچار کرتا نظر آتا ہے۔ کیوں؟ اس لئے کہ ملاء قرآن سےبہت دور واقع ہوا ہے۔ رسول اکرم سے نفرت کی بناء پر۔
 

جاسم محمد

محفلین
حکومت چاہتی تو لاک ڈاؤن پرسختی سے عمل درآمد کروا سکتی تھی۔ موجودہ حالات میں حکومت کو مذہبی طبقات کی جانب سے کسی خاص مزاحمت کا اندیشہ بھی نہیں تھا اور نہ ہی کوئی ایسی سیاسی مجبوری درپیش تھی کہ انہیں چار و ناچار ان کی بات ماننا پڑتی۔ اس سلسلے میں صدرمملکت کا آج کا بیان ہی کافی ہے ۔ جب اعلیٰ حکام کو ہی معاملے کی سنگینی کا احساس نہیں تو محلے کی مسجد کے ایک سیدھے سادے امام سے ایسی توقع رکھنا عبث ہے جس کی اپنی ہزار معاشی مجبوریاں ہیں۔
ہیں؟؟؟
جب حکومت ڈنڈا اٹھا کر ریاستی رٹ قائم کرنے کی کوشش کر رہی تھی تو تنقید ہوتی تھی کہ حکومت کو عوام کی مجبوریاں کا احساس نہیں۔
اور اب جبکہ حکومت عوام کا احساس کرتے ہوئے مختلف طبقات کے ساتھ مل جل کر مفاہمت کی پالیسی پر چل رہی ہے تو تنقید ہو رہی ہے کہ حکومت کو معاملے کی سنگینی کا احساس نہیں۔ o_O
 
خدا کے لیے مولویوں کی عزت نہ اچھالیں. آپ کیا جانے مولوی اس مہنگائی کے دور میں کتنی مشکل سے اپنا گزارا کرتے ہیں. ہمارے اپنے مسجد کے پیش امام جن کے بھائیوں کے پاس گاڑیاں ہیں. اور ہمارے مولوی صاحب کے پاس اپنی موٹر سائیکل بھی نہیں جو ہے وہ بھی بھائی نے دی ہے. ہمارے محلے میں کل ملا کر بیس گھر ہے. ماہانہ دو سو روپے شادی شدہ فرد امام صاحب کو دیتا ہے. جو کبھی کبھار چھ ہزار یا سات ہزار بن جاتے ہیں. کبھی کبھار کوئی نہ دے تو بھی امام صاحب مطالبہ نہیں کرتے. اور یہ پیسے بھی محلے کے بزرگوں نے امام صاحب کی شادی کے بعد مقرر کیے ہیں اس پہلے امام صاحب بغیر تنخواہ نماز پڑھایا کرتے تھے.صبح سے دوپہر تک طالبات کو درس بھی دیتے ہیں ظہر کی نماز کے بعد بچوں کو ناظرہ ترجمہ بھی پڑھاتے ہیں. عشاء کی نماز سے پہلے بھی قرآن کا درس دیتے ہیں. اتنے کم تنخواہ میں کون یہ کم کرتا ہے.؟

ملاء اور مولوی میں بہت بڑا فرق ہے۔ مولوی ، عزت و احترام کی علامت ہے اور ملاء دینی، سیاسی بازیگری کی علامت ہے۔ مولوی درس وتدریس کا کام کرتا ہے اور علم حاصل کرتا ہے۔ مشکل حالات میں بھی اپنی غیرت برقرار رکھتا ہے۔ ملاء ، لوگوں کے دلوں میں خوف ڈال کر ، اپنا الو سیدھا کرتا ہے، اس خوف سے اللہ سے کام کروانے کے بہانے ، دعا کرنے کے بہانے ، بالواسطہ طور پر چندے کے نام پر رشوت وصولتا ہے اور اس طرح حق تلفی کو جائز سمجھتا ہے۔ ۔۔ پلیز معصوم ، عالم ، مولوی کو اس میں نا گھسیٹیں۔ ملاء ازم، ملاگیری، بھگوان گیری ، ہر مذہب میں پائی جاتی ہے۔ ان کا کام ہے کہ چاند دکھائیں گے، عید، ان کی مرضی کے دن ہوگی، مسجد ان کی مرضی سے کھلے گی۔ حکومت کے احکامات کے خلاف ، اپنی چار اینٹ کی مسجد بنائیں گے اور عوام کے جذبات ابھار کر فساد فی الاض اللہ پیدا کریں گے۔

یہ ملاء ازم ہے۔ اس کا کسی عالم کے مولوی ہونے سے کوئی تعلق نہیں ۔ ہمارے دوست یہاں مولوی ، عالم اور دین کی ترویج کرنے والے ہیں۔ ملاء اس طرف کا رخ بھی نہیں کرتا۔ :)
 

جاسم محمد

محفلین
اصول قرآن و سنت، کسی بھی بغدادی اصول شریعت سے بہتر ہیں۔ لیکن ملاء یہ بات نہیں مانتا اور آج بھی اسی بات کا پرچار کرتا نظر آتا ہے۔ کیوں؟
کیا یہ تاریخ کی ستم ظریفی نہیں کہ یہودیت اور اسلام دونوں میں ملائیت کا آغاز بابل یعنی بغداد شریف سے ہی ہوا تھا؟
 

جاسم محمد

محفلین
تحریک انصاف حکومت نے علما کرام سے مشاورت کے بعد رمضان کریم میں نماز و تراویح کیلئے لائحہ عمل جاری کر دیا ہے۔
94038209_10157479919679527_3266642277254037504_o.jpg
 

نبیل

تکنیکی معاون
حدیث گھروں کو مصیبت کے وقت مسجد بنا لو، کوئی صاحب ریفرنس فرام کرسکتے ہیں؟

کیا قران کی اس آیت سے اس سلسلے میں رہنمائی نہیں مل سکتی؟

وَأَوْحَيْنَا إِلَى مُوسَى وَأَخِيهِ أَن تَبَوَّءَا لِقَوْمِكُمَا بِمِصْرَ بُيُوتًا وَاجْعَلُواْ بُيُوتَكُمْ قِبْلَةً وَأَقِيمُواْ الصَّلاَةَ وَبَشِّرِ الْمُؤْمِنِينَ سورۃ یونس آیت 87

اور ہم نے موسیٰؑ اور اس کے بھائی کو اشارہ کیا کہ “مصر میں چند مکان اپنی قوم کے لیے مہیا کرو اور اپنے ان مکانوں کو قبلہ ٹھیرا لو اور نماز قائم کرو اور اہل ایمان کو بشارت دے دو"
(مودودی)
 
میرے علم کے مطابق حکومت پاکستان نے مساجد کی تعمیر نا ہونے کے برابر کروائی ہے۔ مساجد عام طور پر لوگوں کے چندوں سے بنائی جاتی ہیں۔ مسجد کمیٹیوں کے ذریعہ امام مسجد، مؤذن اور مسجد خادمین وغیرہ کی تنخواہیں ادا کی جاتی ہیں۔ ایک اور اہم بات یہ ہے کہ مسجد بنانے کے لئے عموماً زمین خریدی نہیں جاتی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 

اسد

محفلین
میرے علم کے مطابق حکومت پاکستان نے مساجد کی تعمیر نا ہونے کے برابر کروائی ہے۔ مساجد عام طور پر لوگوں کے چندوں سے بنائی جاتی ہیں۔ مسجد کمیٹیوں کے ذریعہ امام مسجد، مؤذن اور مسجد خادمین وغیرہ کی تنخواہیں ادا کی جاتی ہیں۔ ایک اور اہم بات یہ ہے کہ مسجد بنانے کے لئے عموماً زمین خریدی نہیں جاتی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یہ درست ہے لیکن بات حکومت پاکستان کی نہیں ہے، میں نے مثال 'سرکاری مسجد' کی دی تھی۔ قیام پاکستان سے قبل کی بیشتر مساجد سرکاری ہیں۔ سرکاری، نیم سرکاری اور پرائویٹ اداروں کی تعمیر کردہ بیشتر مساجد سرکاری ہیں۔ سرکاری یا نیم سرکاری زمین پر تعمیر شدہ مساجد چاہے سرکاری نہ ہوں لیکن ان میں سرکاری عمل دخل ہوتا ہے۔ مزاروں وغیرہ کی بیشتر مساجد وقف ہوتی ہیں اور ان میں محکمہ اوقاف کا دخل ہوتا ہے۔ بیشتر فیکٹری ٹاؤن شپس (مثلاً واہ کینٹ اور بڑی پرائویٹ فیکٹریوں میں رہائشی سہولتوں) کی مساجد میں سرکاری عمل دخل ہوتا ہے، کیونکہ ملا تفرقہ بازی سے باز نہیں آتے اور فیکٹریوں والے جھگڑے برداشت نہیں کرتے۔ چھاؤنیوں میں مساجد کنٹونمنٹ بورڈ کے تحت ہوتی ہیں۔

کسی زمانے میں مساجد زیادہ ہوتی تھیں اور جامع مساجد کچھ کم، یعنی جہاں جمعے کی جماعت ہوتی ہے۔ عید گاہیں تو بہت ہی کم ہوتی تھیں۔ جہاں عید گاہ نہیں ہوتی تھی وہاں عام طور پر سکول کے گراؤنڈ میں اور کچھ جگہوں پر پارکوں میں نمازعید ادا ہوتی تھی۔ اب دو تین سو افراد کی گنجائش والی مساجد میں جمعہ بھی پڑھایا جاتا ہے اور عید کی نماز بھی۔ کیا ایسی مسجد میں جمعہ کی جماعت ہونی چاہیے جہاں جمعے کے لیے پوری سڑک بند کر دی جاتی ہو؟ اور ایسی مسجد میں عید کی نماز؟؟؟ بدقسمتی سے یہ سب پیسے (چندے) کی وجہ سے ہے جس سے ملا ازم چلتا ہے۔

اگر پرائویٹ مسجد ہو اور میں وہاں جاؤں تو چندہ ضرور دوں گا۔ لیکن جب میں ایک سرکاری مسجد میں جاتا ہوں، جہاں کے 'عملے' کو سرکاری تنخواہ ملتی ہے اور دیکھ بھال کا سرکاری بجٹ ملتا ہے تو میں وہاں چندہ نہیں دوں گا۔

عام حالات میں، میں ان معاملات میں نہیں پڑتا۔ لیکن یہ انسانی جانوں کا معاملہ ہے۔ میں تو ایک مہینے سے گھر کی قریبی مارکٹ میں سب سے سستے سٹور میں نہیں گیا، کیونکہ وہ اس مسجد کے قریب ہے جہاں تبلیغی بھی جاتے ہیں اور نماز کے بعد کئی نمازی اس سٹور میں آتے ہیں۔
 

الف نظامی

لائبریرین
خاص طور پر جب ان کا یہ رویہ بڑی تعداد میں لوگوں کی زندگیاں خطرے میں ڈالنے کا سبب بن رہا ہے۔
ان کو اس بات کا احساس نہیں ہو رہا کہ جب لوگوں کی ایک بڑی تعداد کو دن میں کئی بار ایک ہی ہال میں اکٹھا کیا جائے گا تو دنیا بھر کے سائنس دان ابھی تک کوئی بھی ایسی "احتیاطی تدابیر" ایجاد نہیں کر پائے ہیں جو مرض کے پھیلاؤ کو روک سکیں۔ سوائے شاید اس کے کہ ہر کوئی گھر سے سر تا پا PPE میں ملبوس آئے اور جب واپس گھر جائے تو گھر کے دروازے پر الکوحل یا کلورین کا غسل کر کے اندر داخل ہو۔
Community Mobility Reports بمقابلہ پاکستان میں کورونا وائرس کی شرح اموات
 
Top