نماز جمعہ اور نماز تراویح کا باجماعت اہتمام ہوگا

'نماز جمعہ اور نماز تراویح کا باجماعت اہتمام ہوگا' - Videos - Dawn News
نماز جمعہ اور نماز تراویح کا باجماعت اہتمام ہوگا

ان مذہبی لیڈروں کے چکر میں آ کر معصوم افراد ہلاک ہوں گے۔
ان مذہبی کاروباریوں کا کاروبار ہی مسجد سے جمع ہونے والے چندے سے چلتا ہو۔ نمازی نہیں آئیں گے تو چندہ نہیں جمع ہوگا تو پھر ؟؟؟
 

الف نظامی

لائبریرین
والد گرامی کی روایت ہے، گوجرانوالہ میں یوسف کمال نام کے ایک ڈپٹی کمشنر صاحب مقرر ہوئے جو کافی رعونت پسند اور مولویوں کے بڑے خلاف تھے۔ ایک میٹنگ میں، جس میں صاحبزادہ فیض الحسن صاحب سمیت شہر کی بڑی مذہبی شخصیات شریک تھیں، ڈی سی صاحب نے گفتگو شروع فرمائی کہ مجھے علماء کرام پر بہت ترس آتا ہے، میرا دل دکھتا ہے کہ ان کا اپنا کوئی ذریعہ آمدن نہیں ہوتا، ان کا روزگار لوگوں کی جیب سے وابستہ ہوتا ہے، وغیرہ۔ صاحبزادہ فیض الحسن صاحب مضطرب ہوئے اور زیر لب کہنے لگے کہ یہ بہت زیادتی ہے۔ والد گرامی نے کہا کہ اگر آپ فرمائیں تو میں ڈی سی صاحب کو جواب دوں؟ صاحبزادہ صاحب نے کہا کہ ہونا تو چاہیے۔ خیر، اپنی باری آنے پر والد گرامی نے کہا کہ میں ڈی سی صاحب کا بہت ممنون ہوں کہ انھوں نے علماء کے ساتھ اظہار ہمدردی کیا ہے، بس اتنی وضاحت کرنا چاہتا ہوں کہ روزگار آپ کا بھی لوگوں کی جیب سے ہی وابستہ ہے۔ فرق صرف یہ ہے کہ آپ کی تنخواہ ٹیکس کلکٹر ڈنڈے کے زور پر لوگوں کی جیب سے وصول کرتا ہے، اور علماء کے پاس لوگ خود آ کر کہتے ہیں کہ حضرت، ہدیہ قبول فرمائیں اور ساتھ دعا کی درخواست بھی کرتے ہیں۔
ڈی سی صاحب کا تو جو حال ہوا، سو ہوا۔ خیال ہوا کہ جن دوستوں کو آج کل مسجد اور مولوی کے روزگار کے باہمی تعلق پر ہمدردی آئی ہوئی ہے، ان کو ذرا یاد دلا دیا جائے کہ پوری ریاستی مشینری اور اس کے کروفر والے سارے عہدے دار (آرمی چیف، صدر اور چیف جسٹس سمیت) اسی جیب سے روزگار پاتے ہیں جہاں سے مولوی کو ملتا ہے۔ آپ کو مذہب سے مسئلہ ہے تو اس کا غصہ مولوی کو زنانہ طعنے دے کر نہ نکالیں۔
(عمارخان ناصر بن مولانا زاہدالراشدی)
 
بہت ہی اچھی بات، کیا ہی اچھا ہو کہ ملاء کو سرکاری خزانے سے ایسی ہی ملازمت دی جائے:)
ملاء سے نفرت بالکل نہیں ، بلکہ ملاء کی بہتری مقصود ہے، کہ یہ نیم تعلیم یافتہ شخص سارے معاشرے پر اثر انداز ہوتا ہے۔

ان صاحب نے فرمایا کہ لوگ خود پیسے لے کر ملاء کے پاس آتے ہیں۔ تو ایسا نہیں کہ گورنمنٹ ملازمین کے پاس لوگ پیسے لے کر نہیں آتے؟ بالکل آتے ہیں اور یہ رشوت کہلاتی ہے۔ ملاء بھی رشوت خور ہے۔ کہ لوگ پیسے لے کر اس کے پاس آتے ہیں کہ میرا یہ کام کروادو۔ اس رشوت خوری سے ملاء کو نجات دلانے کی ضرورت ہے اور ملاء کی بہتری کی کوشش ہے۔

ضرورت اس امر کی ہے کہ ملاء کے لئے ایک بہتر نصاب ترتیب دیا جائے تاکہ معاشرے کی تعمیر میں یہ اپنا حصہ لے سکے، پانچ وقت نماز پڑھانے کے پیسے ملیں لیکن کوئی روز گار بھی ہو۔

دراز نفسی مقصد نہیں، میں نوکری کرتا ہوں، نماز پڑھاتا ہوں ، لوگ دعا کے لئے بھی آتے ہیں لیکن مجھے رشوت لینے کی ضرورت نہیں کہ انجینئرنگ میں ماسٹرزڈگری کی وجہ سے نا رشوت لینی پڑتی ہے اور نا کسی دوسرے مقصد کے لئے کوئی رقم۔ مجھے صد فی صد یقین ہے کہ الف نظامی ہی نہیں ، اس فورم کا ہر وہ شخص ، جس کا ذریعہ روزگار اس کی تعلیم کے نتیجے میں ہے، بآسانی نماز پڑھا سکتا ہے۔ تو ملاء تعلیم کیوں نہیں حاصل کرسکتا؟

ضرورت ہے کہ ملاء کےپاس روزگار کے لئے تعلیم ہو، روز گار ہو، اور ملاء کو تربیت اور امتحان کے بعد لائسنس جاری کیا جائے امامت کرنے کا، تاکہ قوم جہالت کا شکار نا ہو۔ جو لوگ مذہبی تعلیم میں سپیشلائزیشن کرنا پسند کریں ان کے لئے مناسب تدریسی نصاب ترتیب دیا جائے۔

کس مزے کی بات ہے کہ تعمیرات کے لئے سول انجینئر اور آرکیٹیکٹ ڈھونڈتے ہیں ، دل کی سرجری کے لئے بہتری ڈاکٹر، علاج معالجے کے لئے ایف آر سی پی لیکن معاشرے کی تعمیر ایک بنای کسی سرٹیفیکیٹ ، بناء کسی مناسب نصاب، بناء کسی مناسب امتحان کے ایک نیم ملاء فرد کے ہاتھ میں دے دی جاتی ہے اور ملاء پراپیگنڈے کا شکار ہو کر ، اس نیم حکیم کی صلاحیتوں پر اترایا جاتا ہے، فخر کیا جاتا ہے۔ علماء اور عالم کا خطاب دیا جاتا ہے۔

خود دیکھ لجئے کہ یہ لوگ کیس تعمیری بحث کے قابل بھی نہیں ، ورنہ کچھ نا کچھ تو یہاں موجود ہوتے؟ دوسری طرف ان کے خوف کا عالم یہ ہے کہ یہ بات چیت کرنے کے لئے تیار نہیں صرف وعظ کرنا چاہتے ہیں،جبکہ لیکچر بوسیدہ اور غیر منطقی ہے۔

تھوڑی سی تعمیری سوچ ہو تو کسی رکیک قسم کے حملوں کی ضرورت باقی نہیں رہ جاتی۔
 
آخری تدوین:
ملاء بھی رشوت خور ہے۔

ملاء بھی رشوت خور ہے۔ کہ لوگ پیسے لے کر اس کے پاس آتے ہیں کہ میرا یہ کام کروادو۔ اس رشوت خوری سے ملاء کو نجات دلانے کی ضرورت ہے اور ملاء کی بہتری کی کوشش ہے
چلیے صاحب میں آپ سے اپنی بہتری کروانا شروع کرتا ہوں۔
میں ایک مولوی ہوں۔ ایک دینی ادارے میں انشاء عربی اور دیگر علوم فقہ وغیرہ کا مدرس ہوں۔ یومیہ 5 پیریڈ لیتا ہوں اور ادارے کے دیگر کام کرتا ہوں۔ میری ڈیوٹی کا دورانیہ تقریباً دس گھنٹے ہے۔ شام کو چھٹی ہوتی ہے تو مسجد میں چلا جاتا ہوں جہاں مغرب اور عشاء کی نماز پڑھاتا ہوں اور پھر فجر کی نماز پڑھانے کے لیے مسجد جاتا ہوں۔ جمعہ کے روز "وعظ" کہتا ہوں۔
اس معمولی سی ڈیوٹی پر مجھے مسجد اور مدرسے سے جو وظیفے کی خطیر رقم وصول ہوتی ہے وہ تو میں عرض کر ہی دوں گا لیکن میں اپنی "بہتری" کے لیے آپ سے چند سوالات کرتا ہوں۔
1۔ مجھے جو وظیفہ ملتا ہے (جو کہ گزشتہ دو ماہ سے نہ مسجد سے ملا ہے اور نہ مدرسہ سے) وہ رشوت کیسے ہے؟
2۔ میری تربیت میں جو نصاب کی کمی رہ گئی ہے اس کے لیے مجھے کون سی کتابیں پڑھنا ہوں گی؟
3۔ میں اپنے وعظ کو غیر بوسیدہ اور منطقی کیسے بنا سکتا ہوں؟
باقی سوالات بعد میں عرض کروں گا لیکن برسبیل تذکرہ ایک چھوٹا سا سوال یہ کرنا چاہتا ہوں کہ آپ "تعمیری سوچ" کا تذکرہ کر رہے تھے تو کیا تعمیری سوچ میں یہ بات شامل نہ ہونی چاہیے کہ کالج اور یونیورسٹیز میں اسلامک سٹڈیز میں پائی جانے والی خامیوں کو دور کرکے بہتر نصاب تعلیم مرتب کیا جائے تاکہ اسلامک سٹڈیز کے فضلاء مناسب تربیت اور بہتری کے بعد مسجد سنبھال سکیں؟ آپ تو تعمیری سوچ کے قائل ہیں تو پھر آپ نے کس منطق سے اپنی گفتگو کا دائرہ ایک فریق تک محدود رکھا؟
 

آورکزئی

محفلین
عجیب بات ہے۔۔۔ ائے روز یہاں کے لیبرل طبقہ علماء کے خلاف لکھتے رہتے ہیں۔۔۔ جن میں ایک بندے تو بس بہانہ چاہیئے۔۔۔
ان لوگوں کو مارکیٹوں۔۔۔ اور دوسری جگہوں پہ یہی نمازی نظر نہیں آتے۔۔۔۔۔۔۔۔ افسوس۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔

افلاطون کا قول یاد آیا۔۔۔۔۔۔۔۔۔ فرماتے ہیں :
’’ میں پیدائشی جاہل نہیں تھا ، مجھے میرے علم نے جاہل بنایا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 
چلیے صاحب میں آپ سے اپنی بہتری کروانا شروع کرتا ہوں۔
میں ایک مولوی ہوں۔ ایک دینی ادارے میں انشاء عربی اور دیگر علوم فقہ وغیرہ کا مدرس ہوں۔ یومیہ 5 پیریڈ لیتا ہوں اور ادارے کے دیگر کام کرتا ہوں۔ میری ڈیوٹی کا دورانیہ تقریباً دس گھنٹے ہے۔ شام کو چھٹی ہوتی ہے تو مسجد میں چلا جاتا ہوں جہاں مغرب اور عشاء کی نماز پڑھاتا ہوں اور پھر فجر کی نماز پڑھانے کے لیے مسجد جاتا ہوں۔ جمعہ کے روز "وعظ" کہتا ہوں۔
اس معمولی سی ڈیوٹی پر مجھے مسجد اور مدرسے سے جو وظیفے کی خطیر رقم وصول ہوتی ہے وہ تو میں عرض کر ہی دوں گا لیکن میں اپنی "بہتری" کے لیے آپ سے چند سوالات کرتا ہوں۔
1۔ مجھے جو وظیفہ ملتا ہے (جو کہ گزشتہ دو ماہ سے نہ مسجد سے ملا ہے اور نہ مدرسہ سے) وہ رشوت کیسے ہے؟
2۔ میری تربیت میں جو نصاب کی کمی رہ گئی ہے اس کے لیے مجھے کون سی کتابیں پڑھنا ہوں گی؟
3۔ میں اپنے وعظ کو غیر بوسیدہ اور منطقی کیسے بنا سکتا ہوں؟
باقی سوالات بعد میں عرض کروں گا لیکن برسبیل تذکرہ ایک چھوٹا سا سوال یہ کرنا چاہتا ہوں کہ آپ "تعمیری سوچ" کا تذکرہ کر رہے تھے تو کیا تعمیری سوچ میں یہ بات شامل نہ ہونی چاہیے کہ کالج اور یونیورسٹیز میں اسلامک سٹڈیز میں پائی جانے والی خامیوں کو دور کرکے بہتر نصاب تعلیم مرتب کیا جائے تاکہ اسلامک سٹڈیز کے فضلاء مناسب تربیت اور بہتری کے بعد مسجد سنبھال سکیں؟ آپ تو تعمیری سوچ کے قائل ہیں تو پھر آپ نے کس منطق سے اپنی گفتگو کا دائرہ ایک فریق تک محدود رکھا؟

1۔ آپ کے پاس لوگ پیسے لے کر آتے ہیں کہ لو یہ لے لو اور ہمارا ایک کام (اللہ سے یہ کروادویا وہ کروادو(کرادو؟ اگر نہیں تو پھر آپ کا وظیفہ، آپ کے کام کا معاوضہ ، آپ کا رزق حلال ہے۔ جب آپ کام کروانے کے پیسے لیں گے کہ اس سے زمین خرید کر مسجد بنا کر ، پیچھے مکان بنا سکیں تو وہ رشوت ہوگی ۔ اسی طرح جس طرح کے ڈی اے کے ملازمین ، رشوت لے کر کام کرواتے ہیں۔

2۔ آپ کی تعلیم میں اگر، پھر عرض کرتا ہوں ، اگر کوئی کمی ہے تو آپ کسی بھی شعبے میں مزید ، تعلیم حاصل کر سکتے ہیں۔ اور پھر اس تعلیم سے بہتر معاضے والی جاب حاصٌ کرسکتے ہیں۔ اس کا مطلب یہ نہیں کہ آپ نماز پڑھانا چھوڑ دیں۔ یا انشاء عربی پڑھانا چھوڑ دیں۔

3۔ میں آپ کو آئیندہ مراسلے میں ایک مثال دوں گا، کہ آج مسلمان ، اللہ تعالی کے فرمان ، قرآن حکیم سے کس طرح اور کیوں دور ہے۔ دوسرے علوم کے ساتھ، ہاتھ اور ذہن دھو کر قرآن حکیم کا مطالعہ کیجئے، آپ دیکھیں گے قرآن حکیم، آج کے ہر قسم کے ڈپارٹمنٹ آف لائف کے لئے بہترین ہدایت فراہم کرتا ہے ۔ آپ کے لیکچر ، دنیا کے جدید مالی اور سائینسی معلومات سے بھرپور اور قرآں حکیم کے احکامات سے ہم آہنگ ہوجائیں گے۔

آپ کا چھوٹا سا سوال، آپ کی تعمیری سوچ کا مظہر ہے، آپ بالکل درست سوچ رہے ہیں کہ اسلامک سٹڈیز ان لوگوں کو بھی پڑھائی جائے جو دیگر علوم حاصل کرتے ہیں۔ ایک نصاب ہو سب کے لئے۔ ایک فریق نہیں دونوں فریق اس کمزوری کا شکار ہیں۔ دینی مدارس سے نکلنے والے دنیاوی علوم میں بہت پیچھے ہیں، جبکہ دنیاوی علوم والے، دینی علوم کو بہت دیر میں حاصل کر پاتے ہیں۔ اور بہت سے تو دینی تعلیم سے بھاگ ہی جاتے ہیں :) اور دبہت سے کہتے ہیں کہ سوچنے کی ضرورت ہی کیا ہے، یہ تو علماء کا کام ہے۔ ہمارا کوئی تھوڑی ہے۔

کل ایک لمیٹیڈ مثال دوں گا کہ آج کا مسلمان قرآن سے کس طرح دور ہے اور یہ کیسے ہوا؟ تھوڑا سا فرقہ پرستی سے باہر نکل کر سوچا جائے تو بہت ہی آسانی سے یہ بات سمجھ میں آجائے گی کہ دوری کی وجہ کیا ہے۔
 
والد گرامی کی روایت ہے، گوجرانوالہ میں یوسف کمال نام کے ایک ڈپٹی کمشنر صاحب مقرر ہوئے جو کافی رعونت پسند اور مولویوں کے بڑے خلاف تھے۔ ایک میٹنگ میں، جس میں صاحبزادہ فیض الحسن صاحب سمیت شہر کی بڑی مذہبی شخصیات شریک تھیں، ڈی سی صاحب نے گفتگو شروع فرمائی کہ مجھے علماء کرام پر بہت ترس آتا ہے، میرا دل دکھتا ہے کہ ان کا اپنا کوئی ذریعہ آمدن نہیں ہوتا، ان کا روزگار لوگوں کی جیب سے وابستہ ہوتا ہے، وغیرہ۔ صاحبزادہ فیض الحسن صاحب مضطرب ہوئے اور زیر لب کہنے لگے کہ یہ بہت زیادتی ہے۔ والد گرامی نے کہا کہ اگر آپ فرمائیں تو میں ڈی سی صاحب کو جواب دوں؟ صاحبزادہ صاحب نے کہا کہ ہونا تو چاہیے۔ خیر، اپنی باری آنے پر والد گرامی نے کہا کہ میں ڈی سی صاحب کا بہت ممنون ہوں کہ انھوں نے علماء کے ساتھ اظہار ہمدردی کیا ہے، بس اتنی وضاحت کرنا چاہتا ہوں کہ روزگار آپ کا بھی لوگوں کی جیب سے ہی وابستہ ہے۔ فرق صرف یہ ہے کہ آپ کی تنخواہ ٹیکس کلکٹر ڈنڈے کے زور پر لوگوں کی جیب سے وصول کرتا ہے، اور علماء کے پاس لوگ خود آ کر کہتے ہیں کہ حضرت، ہدیہ قبول فرمائیں اور ساتھ دعا کی درخواست بھی کرتے ہیں۔
ڈی سی صاحب کا تو جو حال ہوا، سو ہوا۔ خیال ہوا کہ جن دوستوں کو آج کل مسجد اور مولوی کے روزگار کے باہمی تعلق پر ہمدردی آئی ہوئی ہے، ان کو ذرا یاد دلا دیا جائے کہ پوری ریاستی مشینری اور اس کے کروفر والے سارے عہدے دار (آرمی چیف، صدر اور چیف جسٹس سمیت) اسی جیب سے روزگار پاتے ہیں جہاں سے مولوی کو ملتا ہے۔ آپ کو مذہب سے مسئلہ ہے تو اس کا غصہ مولوی کو زنانہ طعنے دے کر نہ نکالیں۔
(عمارخان ناصر بن مولانا زاہدالراشدی)

مندرجہ بالا سے سو فیصد متفق۔ لیکن لیکن لیکن جو جائز ذرائع ہیں مثلاً مسجد سے وابستہ لوگوں کی تنخواہ۔ تو حضورِ والا یہ اس کی بات نہیں ہورہی۔ ۔۔۔۔۔
 
۔ آپ کے پاس لوگ پیسے لے کر آتے ہیں کہ لو یہ لے لو اور ہمارا ایک کام (اللہ سے یہ کروادویا وہ کروادو(کرادو؟ اگر نہیں تو پھر آپ کا وظیفہ، آپ کے کام کا معاوضہ ، آپ کا رزق حلال ہے۔ جب آپ کام کروانے کے پیسے لیں گے کہ اس سے زمین خرید کر مسجد بنا کر ، پیچھے مکان بنا سکیں تو وہ رشوت ہوگی ۔ اسی طرح جس طرح کے ڈی اے کے ملازمین ، رشوت لے کر کام کرواتے ہیں۔
:)
میرے پاس کوئی بھی اللہ میاں سے اپنا کام کروانے کے لیے نہیں آتا۔ البتہ دعا کرنے کے لیے بہت سے لوگ کہتے ہیں اور میں بھی بہت سے لوگوں سے کہتا ہوں۔ لیکن میں دعا کرنے پر کوئی فیس چارج نہیں کرتا۔ :)
۔ آپ کی تعلیم میں اگر، پھر عرض کرتا ہوں ، اگر کوئی کمی ہے تو آپ کسی بھی شعبے میں مزید ، تعلیم حاصل کر سکتے ہیں۔ اور پھر اس تعلیم سے بہتر معاضے والی جاب حاصٌ کرسکتے ہیں۔ اس کا مطلب یہ نہیں کہ آپ نماز پڑھانا چھوڑ دیں۔ یا انشاء عربی پڑھانا چھوڑ دیں۔
میری تعلیم میں بہت سی کمیاں ہیں لیکن جاب کرنا میری ترجیحات میں کبھی شامل نہیں رہا۔
میں آپ کو آئیندہ مراسلے میں ایک مثال دوں گا، کہ آج مسلمان ، اللہ تعالی کے فرمان ، قرآن حکیم سے کس طرح اور کیوں دور ہے۔ دوسرے علوم کے ساتھ، ہاتھ اور ذہن دھو کر قرآن حکیم کا مطالعہ کیجئے، آپ دیکھیں گے قرآن حکیم، آج کے ہر قسم کے ڈپارٹمنٹ آف لائف کے لئے بہترین ہدایت فراہم کرتا ہے ۔ آپ کے لیکچر ، دنیا کے جدید مالی اور سائینسی معلومات سے بھرپور اور قرآں حکیم کے احکامات سے ہم آہنگ ہوجائیں گے۔
میں قرآن مجید کا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث کا اسی نیت سے مطالعہ کرتا ہوں اور میرا یقین ہے کہ قرآن کریم اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث ہر قسم کے ڈپارٹمنٹ آف لائف کے لئے بہترین ہدایت فراہم کرتے ہیں۔
 

محمد سعد

محفلین
حیرت ہے کہ علمائے دین چلو سائنس نہ جانتے ہوں، اپنے تاریخ کے علم پر جو فخر جتاتے ہیں اسی سے کچھ سیکھ لیتے۔

کتاب The Black Death in the Middle East میں مائیکل ڈولز، ابن أبي حجلة کے حوالے سے بتاتے ہیں،
A well-known incident occurred in Damascus during the height of the Black Death. According to Ibn Abi Hajalah, who witnessed the plague in the Syrian capital, the plague "blew with the blowing of the wind" in Egypt and Syria." On Tuesday, 12 Rajab 749/6 October 1348," following the afternoon call to prayer, there appeared a mighty wind which provoked a great yellow dust cloud, then red, then black until the earth was darkened by it entirely and the people remained in it for nearly three hours. They turned to God Almighty and begged His forgiveness. And the people hoped that this cataclysm marked the end of their distress. But the number of deaths did not decrease; it did not prevent a terrible mortality."

وائرس کو آپ کے ایمان سے کوئی فرق نہیں پڑنا۔ بلکہ اس بار آپ کو ایک ایسے مرض سے سامنا ہے جو آپ کو ہو سکتا ہے زیادہ متاثر نہ کرے لیکن آپ جا کے کسی اور کو یہ مرض منتقل کر دیں جو پھر اس کے ہاتھوں مارا جائے۔ اب جانتے بوجھتے ہوئے کسی اور کے لیے ایک دردناک موت کا سبب بننا اسلام کی نظر میں کیسا ہے، یہ کوئی راکٹ سائنس نہیں ہونی چاہیے۔
ایسے وقت میں جو لوگ تحفظات تحفظات کی رٹ لگائے ہوئے ہیں اور دانستہ کروڑوں کی تعداد میں لوگوں کی زندگیوں کو خطرے میں ڈالنا چاہتے ہیں، اس میں کوئی شک نہیں رہ جانا چاہیے کہ یہ سب لوگ رانگ نمبر کے سوا کچھ نہیں ہیں۔ ان کو اپنی دکانیں خطرے میں نظر آ رہی ہیں ورنہ اسلام کو ایک دو ماہ کے لیے بڑے اجتماعات بند ہو جانے سے کوئی خطرہ نہیں ہے۔
 

محمد سعد

محفلین
ان لوگوں کو مارکیٹوں۔۔۔ اور دوسری جگہوں پہ یہی نمازی نظر نہیں آتے۔۔۔۔۔۔۔۔ افسوس۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کھانے اور دیگر سامان ضرورت کے بغیر زندہ رہنا ممکن نہیں۔ تراویح کی جماعت کے بغیر زندہ رہا جا سکتا ہے۔ بہ الفاظ دیگر، "نماز سے پیٹ نہیں بھرتا۔"
اگر ہمارے علمائے دین کو اتنا بنیادی فرق سمجھ نہیں آتا تو پھر وہ قوم کی رہنمائی کا دعویٰ کس منہ سے کرتے ہیں؟
 
میرے پاس کوئی بھی اللہ میاں سے اپنا کام کروانے کے لیے نہیں آتا۔ البتہ دعا کرنے کے لیے بہت سے لوگ کہتے ہیں اور میں بھی بہت سے لوگوں سے کہتا ہوں۔ لیکن میں دعا کرنے پر کوئی فیس چارج نہیں کرتا۔

ٹحیک ہے کہ آپ یہ کام نہیں کرتے۔ لیکن ایسے ملاؤں کی موجودگی سے انکار نہیں کیا جاسکتا۔
لیکن بہت سے دینی کاروباری افراد، لوگوں کو کچھ اس طرح سے سمجھاتے ہیں کہ جنت میں گھر بنانے کے لئے، دنیا میں مسجد بنوانی ضروری ہے، اور اس مسجد کے لئے چندہ ، دیجئے
جب لوگ ، انہی دعاؤں کے نتیجے میں، اپنی زکواۃ ، خیرات اور صدقات، مسجدوں کے چندے میں ڈالتے ہیں تو اس کے پیچھے کونسے عوامل کار فرما ہوتے ہیں؟
بنوری ٹاؤن مسجد، میمن مسجد، اور اسی طرح کی بہت سی وقف جائیدادیں، اس کی بہترین مثالیں ہیں۔
 
ٹحیک ہے کہ آپ یہ کام نہیں کرتے۔ لیکن ایسے ملاؤں کی موجودگی
"کچھ افراد" کسی بھی شعبے سے کسی بھی قسم کے ہوسکتے ہیں۔ لیکن اس سے علی سبیل العموم حکم لگا کر ہر کہ ومہ پر قدغن لگادینا کہاں کا انصاف ہے؟ اپنے مراسلے کو دوبارہ پڑھیے اور غور فرمائیے کہ کیا آپ نے ان لوگوں کو کسی قسم کا استثناء دیا ہے جو خالص لوجہ اللہ دین کا کام کر رہے ہیں؟ کیا آپ کا یہ طرز عمل دیانت داری کے منافی نہیں؟
 
"کچھ افراد" کسی بھی شعبے سے کسی بھی قسم کے ہوسکتے ہیں۔ لیکن اس سے علی سبیل العموم حکم لگا کر ہر کہ ومہ پر قدغن لگادینا کہاں کا انصاف ہے؟ اپنے مراسلے کو دوبارہ پڑھیے اور غور فرمائیے کہ کیا آپ نے ان لوگوں کو کسی قسم کا استثناء دیا ہے جو خالص لوجہ اللہ دین کا کام کر رہے ہیں؟ کیا آپ کا یہ طرز عمل دیانت داری کے منافی نہیں؟
دین کو کاروبار بنانا ، نا شرعی ہے اور نا ہی سنت اور نا ہی فرمان الہی ۔۔۔ دعا کرنے، نماز پڑھانے کے پیسے ڈائریکٹلی یا انڈائیریکٹلی لینا، رشوت خوری ہے ، خیانت ہے اور بد دیانتی ہے۔ تھوڑا سوچئے، طلاق کی تکمیل سے پہلے ، طلاق ہو جانے کا حکم صادر کرنا، بدیانتی ہے۔ پھر ملاء اپنے آپ کو حلالے کے لئے پیش کرتا ہے تو یہ بدمعاشی ہے۔

یہ لوگ خالص اللہ کے لئے کام کررہے ہیں؟
یہ صرف ذاتی خواہشات کی پیروی کررہے ہیں، جناب۔
 

سید عاطف علی

لائبریرین
دین کو کاروبار بنانا ، نا شرعی ہے اور نا ہی سنت اور نا ہی فرمان الہی ۔۔۔ دعا کرنے، نماز پڑھانے کے پیسے ڈائریکٹلی یا انڈائیریکٹلی لینا، رشوت خوری ہے ، خیانت ہے اور بد دیانتی ہے۔ تھوڑا سوچئے، طلاق کی تکمیل سے پہلے ، طلاق ہو جانے کا حکم صادر کرنا، بدیانتی ہے۔ پھر ملاء اپنے آپ کو حلالے کے لئے پیش کرتا ہے تو یہ بدمعاشی ہے۔
یہ ساری باتیں تو ہر کسی کے نزدیک مسلمہ و متفقہ ہیں اور اظہر من الشمس بھی ہیں ۔ اگر آپ کے پاس کسی کی گرفت کی کوئی خاص بنیاد ہے تو وہ سامنے لائیں ۔ تاکہ اس کو کوئی جواب دے ۔
اس طرح خود ہی گیند اچھال کے چھکے لگا نا تو سب کو آتا ہے ۔
 
Top