درد پیہم ہے کوئی ساعتِ راحت ہی نہیں

عاطف ملک

محفلین
ایک اور کاوش اساتذہ کرام اور محفلین کی خدمت میں پیش ہے۔امید ہے اپنی رائےسے آگاہ کریں گے۔

درد پیہم ہے کوئی ساعتِ راحت ہی نہیں
میرے ہونٹوں پہ مگر حرفِ شکایت ہی نہیں

کوئی خواہش نہیں دل میں کوئی حسرت ہی نہیں
زندگی ایسی کہ جینے کی ضرورت ہی نہیں

میں تجھے چاند جو کہتا ہوں تو سچ کہتا ہوں
بخدا یوں بھی خوشامد مری عادت ہی نہیں

چاہنے والوں کو ایسے بھی جھڑکتا ہے کوئی
اے حسیں شخص تجھے پاسِ مروت ہی نہیں

جب وہ بچھڑا تو یہ لگتا تھا کہ مر جائیں گے ہم
اب وہ لوٹا ہے تو اس کی کوئی وقعت ہی نہیں

پوچھ بیٹھا ہے تو سُن عشق ہے اب بھی تجھ سے
کیسے کہہ دوں کہ مجھے تجھ سے محبت ہی نہیں

ہر تعلق ہے یہاں طمع و غرض پر قائم
صدق و اخلاص کی اس عہد میں قیمت ہی نہیں

وہ تو ہر آن ہے آمادہءِ بخشش عاطفؔ
ترے دامن میں کوئی اشکِ ندامت ہی نہیں


عاطفؔ ملک
فروری ۲۰۲۰​
 
آخری تدوین:

عاطف ملک

محفلین
آہا! ۔۔۔ کیا کہنے ۔۔۔ سادہ اور بے ساختہ! مزا آگیا!
بہت خوب، ماشاءاللہ اچھی غزل ہے۔
بہت شکریہ :)
اعلی
بہت عمدہ غزل ہے۔
بہت شکریہ:)
خوب ۔ لیکن شاید طَمَع کا تلفظ غرض کی طرح ہوتا ہے ۔
شکریہ۔۔۔۔۔کیا اس طرح طمع والا مصرع بحر سے خارج ہو رہا ہے؟
 

سید عاطف علی

لائبریرین
بہت شکریہ :)

بہت شکریہ:)

شکریہ۔۔۔۔۔کیا اس طرح طمع والا مصرع بحر سے خارج ہو رہا ہے؟
اصولی طور پر لگ تو رہا ہے ۔ لیکن میرے نزدیک ، میں تسکین اوسط کی ریورس ٹیکنک تحریک اوسط کی بنیاد پر اسے بحر کے جائز حد میں سمجھتا ہوں ۔البتہ ہر لفظ درست بیٹھے تو اصل مزہ آتا ہے۔ یہ میرا ذاتی خیال یے۔ اعجاز بھائی کی رائے لے لیتے ہیں۔ الف عین ۔
تحریک اوسط کوئی معیاری اصطلاح نہیں میری اپنی اختراع ہے۔
 

الف عین

لائبریرین
اصولی طور پر لگ تو رہا ہے ۔ لیکن میرے نزدیک ، میں تسکین اوسط کی ریورس ٹیکنک تحریک اوسط کی بنیاد پر اسے بحر کے جائز حد میں سمجھتا ہوں ۔البتہ ہر لفظ درست بیٹھے تو اصل مزہ آتا ہے۔ یہ میرا ذاتی خیال یے۔ اعجاز بھائی کی رائے لے لیتے ہیں۔ الف عین ۔
تحریک اوسط کوئی معیاری اصطلاح نہیں میری اپنی اختراع ہے۔
واقعی اس طرف میرا دھیان نہیں گیا تھا عطف کی صورت میں درست تلفظ سمجھنے کے لئے کچھ زیادہ ہی غور کرنا پڑتا ہے جو میں نے نہیں کیا! ویسے قبول کیا جا سکتا ہے۔ ویسے اگر سقم دور کرنا چاہو تو محض 'صرف' سے کام چل سکتا ہے یعنی صرف غرض پر قائم
 
اصولی طور پر لگ تو رہا ہے ۔ لیکن میرے نزدیک ، میں تسکین اوسط کی ریورس ٹیکنک تحریک اوسط کی بنیاد پر اسے بحر کے جائز حد میں سمجھتا ہوں ۔البتہ ہر لفظ درست بیٹھے تو اصل مزہ آتا ہے۔ یہ میرا ذاتی خیال یے۔ اعجاز بھائی کی رائے لے لیتے ہیں۔ الف عین ۔
تحریک اوسط کوئی معیاری اصطلاح نہیں میری اپنی اختراع ہے۔
مکرمی عاطف بھائی، آداب!
آپ نے تسکین اوسط کا تذکرہ کیا تو اس سے استاذی سرور عالم راز صاحب کا اس عنوان پر ایک مضمون یاد آگیا جس کے مطابق تسکین اوسط محض افاعیلی نقشے بنانے کا عروضی قاعدہ ہے۔ خود شعر میں کسی لفظ کے متحرک حرف کو ساکن کرنے کے لئے استعمال نہیں کیا جاسکتا۔ یہ ساری بحث ایک شاعر کے کسی دوسرے فورم پر نَظَرِ کرم کو نَظْرِ کرم باندھنے پر ہوئی تھی، جس کا جواز مذکورہ شاعر صاحب نے تسکین اوسط کے قاعدے سے اخذ کرنے کی سعی کی تھی۔
آپ کے مراسلے میں کیا اسی جانب اشارہ ہے؟
 

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
اصولی طور پر لگ تو رہا ہے ۔ لیکن میرے نزدیک ، میں تسکین اوسط کی ریورس ٹیکنک تحریک اوسط کی بنیاد پر اسے بحر کے جائز حد میں سمجھتا ہوں ۔البتہ ہر لفظ درست بیٹھے تو اصل مزہ آتا ہے۔ یہ میرا ذاتی خیال یے۔ اعجاز بھائی کی رائے لے لیتے ہیں۔ الف عین ۔
تحریک اوسط کوئی معیاری اصطلاح نہیں میری اپنی اختراع ہے۔
عاطف بھائی ، تسکینِ اوسط کا استعمال تو صرف عروضی اراکین پر کیا جاتا ہے ۔ اس اصول کو زبان کے لفظوں پر تو نہیں لاگو کیا جاسکتا ۔ یعنی اس بحر میں فعِلاتن کو تسکین اوسط کے ذریعے فع-لا-تن میں تبدیل کیا جاسکتا ہے ۔ لیکن شعر کے الفاظ کو پھر اس عروضی وزن پر بٹھانا ہو گا۔ شعر کے الفاظ کو البتہ تسکین اوسط کے ذریعے مسخ نہیں کیا جاسکتا ۔ ۔ فارسی شعرا نے فارسی شاعری میں بعض الفاظ کے ساتھ یہ روا رکھا ہے لیکن اردوشاعری میں تو یہ حرام ہے ۔ عروضی وزن پر بٹھانے کے لئے کسی لفظ کی حرکت میں تغیر نہیں کیا جاسکتا۔ لفظ کی ہیئت اور ساخت تو جوں کی توں استعمال ہوگی ۔
 
آخری تدوین:

عاطف ملک

محفلین
اصولی طور پر لگ تو رہا ہے ۔ لیکن میرے نزدیک ، میں تسکین اوسط کی ریورس ٹیکنک تحریک اوسط کی بنیاد پر اسے بحر کے جائز حد میں سمجھتا ہوں ۔البتہ ہر لفظ درست بیٹھے تو اصل مزہ آتا ہے۔ یہ میرا ذاتی خیال یے۔ اعجاز بھائی کی رائے لے لیتے ہیں۔ الف عین ۔
تحریک اوسط کوئی معیاری اصطلاح نہیں میری اپنی اختراع ہے۔

ویسے اگر سقم دور کرنا چاہو تو محض 'صرف' سے کام چل سکتا ہے یعنی صرف غرض پر قائم
مکرمی عاطف بھائی، آداب!
آپ نے تسکین اوسط کا تذکرہ کیا تو اس سے استاذی سرور عالم راز صاحب کا اس عنوان پر ایک مضمون یاد آگیا جس کے مطابق تسکین اوسط محض افاعیلی نقشے بنانے کا عروضی قاعدہ ہے۔ خود شعر میں کسی لفظ کے متحرک حرف کو ساکن کرنے کے لئے استعمال نہیں کیا جاسکتا

عاطف بھائی ، تسکینِ اوسط کا استعمال تو صرف عروضی اراکین پر کیا جاتا ہے ۔ اس اصول کو زبان کے لفظوں پر تو نہیں لاگو کیا جاسکتا ۔ یعنی اس بحر میں فعِلاتن کو تسکین اوسط کے ذریعے فع-لا-تن میں تبدیل کیا جاسکتا ہے ۔ لیکن شعر کے الفاظ کو پھر اس عروضی وزن پر بٹھانا ہو گا۔ شعر کے الفاظ کو البتہ تسکین اوسط کے ذریعے مسخ نہیں کیا جاسکتا ۔ ۔ فارسی شعرا نے فارسی شاعری میں بعض الفاظ کے ساتھ یہ روا رکھا ہے لیکن اردوشاعری میں تو یہ حرام ہے ۔ عروضی وزن پر بٹھانے کے لئے کسی لفظ کی حرکت میں تغیر نہیں کیا جاسکتا۔ لفظ کی ہیئت اور ساخت تو جوں کی توں استعمال ہوگی ۔
اس علمی گفتگو سے بہت فائدہ ہوا جس کیلیے ممنون ہوں۔
ابھی کیلیے استادِ محترم کےمشورے پرعمل کرتے ہوئے مصرع کو یوں کر دیتا ہوں۔۔
ہر تعلق ہے یہاں صرف غرض پر قائم
اصل میں مجھ سے بھی یہی چوک ہوئی کی عطف کی وجہ سےحرکت کے باوجود مغالطہ ہوا کہ مصرع بحر میں ہی ہے۔
محمد تابش صدیقی محمد خلیل الرحمٰن سے درخواست ہے کہ تدوین کر دی جائے۔
 
آخری تدوین:
Top