"دسمبر" کے حوالے سے کوئی شعر ۔ ۔ ۔ ۔

اسے کہنا دسمبر آگیا ہے

دسمبر کے گزرتے ہی برس ایک اور ماضی کی گپھا میں

ڈوب جائے گا
اسے کہنا دسمبر لوٹ آئےگا

مگرجو خون جسموں میں

سو جائے گا وہ نہ جاگے گا

اسے کہنا ہوائیں سرد ہیں اور زندگی کی کہرے کی

دیواروں پر لرزاں ہے

اسے کہنا شگوفے ٹہنیوں پر سو رہے ہیں

اور ان پر برف کی چادر بچھی ہے

اسے کہنا اگر سورج نہ نکلے گا

تو برف کیسے پگھلے گی

اسے کہنا لوٹ آئے

(عرش صدیقی)
 
کہیں جائے اسے میری دعائیں یاد کرتی ہیں
اسے کہنا اسے میری وفائیں یاد کرتی ہیں

اسے کہنا خزائیں آگئی ہیں اب تو لو ٹ آئے
اسے کہنا دسمبر کی ہوائیں یاد کرتی ہیں


(وصی شاہ )
 

آصف شفیع

محفلین
اسے کہنا دسمبر آگیا ہے

دسمبر کے گزرتے ہی برس ایک اور ماضی کی گپھا میں

ڈوب جائے گا
اسے کہنا دسمبر لوٹ آئےگا

مگرجو خون جسموں میں

سو جائے گا وہ نہ جاگے گا

اسے کہنا ہوائیں سرد ہیں اور زندگی کی کہرے کی

دیواروں پر لرزاں ہے

اسے کہنا شگوفے ٹہنیوں پر سو رہے ہیں

اور ان پر برف کی چادر بچھی ہے

اسے کہنا اگر سورج نہ نکلے گا

تو برف کیسے پگھلے گی

اسے کہنا لوٹ آئے

(عرش صدیقی)

دسمبر کے حوالے سے یہی نظم میرے ذہن میں آرہی تھی۔ عرش صدیقی کی یہ نظم بہت کمال کی ہے۔ دسمبر کے حوالے سے مجھے اپنا بھی ایک شعر یاد آیا۔

اس کی یادیں منجمد ہونے لگی ہیں
لگ رہا ہے پھر دسمبر آ گیا ہے۔
 
دسمبر کا مہینہ ہے ہمیں تم یاد آتے ہو۔۔۔۔!
کبھی صورت خفی احلام کی ہو کر ستاتے ہو
ہمیں اب تک نہیں بھولا تمہارے ساتھ کا لمحہ
مگر تم آرزو بن کر ہمارے جی کو آتے ہو
وہی لیل و نہار اپنے ہمیشہ ہم جو ملتے تھے
ہمیں جو یاد کرتے ہو اسےکیونکر بتاتے ہو


تازہ ترین۔۔۔۔ (-؛
 
دسمبر کے حوالے سے یہی نظم میرے ذہن میں آرہی تھی۔ عرش صدیقی کی یہ نظم بہت کمال کی ہے۔ دسمبر کے حوالے سے مجھے اپنا بھی ایک شعر یاد آیا۔

اس کی یادیں منجمد ہونے لگی ہیں
لگ رہا ہے پھر دسمبر آ گیا ہے۔

بہت خوب ۔ ۔عرش صدیقی کہ یہ نظم بہت کمال کی ہے -عرش صدیقی کے کسی اور کلام سے واقفیت نہیں ۔۔۔۔
 

ش زاد

محفلین
تیرے نینوں کی ہے یہ تابناکی
پلک میں آنگینہ جل رہا ہے

تیرے ہاتھوں کے لمسِ آتشیں سے
انگوٹھی میں نگینہ جل رہا ہے

بدلتا جا رہا ہے ذوقِ وحشت
دسمبر کا مہینہ جل رہا ہے

ش زاد

:hatoff::hatoff::hatoff:
 

ش زاد

محفلین
تیس دن تک اسی دیوار پہ لٹکے گا یہ عکس
ختم اک دن میں دسمبر نہیں ہونے والا

دانیال طریر
 

جیا راؤ

محفلین
دسمبر مجھے راس آتا نہیں

کئی سال گزرے، کئی سال بیتے
شب و روز کی گردشوں کا تسلسل
دل و جاں میں سانسوں کی پرتیں الٹتے ہوئے
زلزلوں کی طرح ہانپتا ہے
چٹختے ہوئے خواب
آنکھوں کی نازک رگیں چھیلتے ہیں
مگر میں ہر اک سال کی گود میں جاگتی صبح کو
بے کراں چاہتوں سے اٹی زندگی کی دعا دے کر
اب تک وہی جستجو کا سفر کر رہا ہوں
گزرتا ہوا سال جیسے بھی گزرا
مگر سال کے آخری دن
نہایت کٹھن ہیں
مرے ملنے والو !
نئے سال کی مسکراتی ہوئی صبح گر ہاتھ آئے
تو ملنا !
کہ جاتے ہوئے سال کی ساعتوں میں
یہ بجھتا ہوا دل
دھڑکتا تو ہے، مسکراتا نہیں
دسمبر مجھے راس آتا نہیں
 
Top