زخم کھاتا ہوا میں زخم لگاتا ہوا تُو

عاطف ملک

محفلین
چند اشعار:

زخم کھاتا ہوا میں زخم لگاتا ہوا تُو
درد سہتا ہوا میں درد بڑھاتا ہوا تُو

ایک منظر ہے مگر دو ہیں الگ رخ اس کے
راکھ ہوتا ہوا میں اور جلاتا ہوا تُو

داد بیداد کی تفسیر نہیں اس کے سوا
ہنس کے سہتا ہوا میں اور ستاتا ہوا تُو

دیکھنے والوں نے دیکھا تھا تماشا یہ عجیب
خاک ہوتا ہوا میں خاک اڑاتا ہوا تُو

مرجعِ عشق کا نقشہ تھا یہی آئے روز
گر کے اٹھتا ہوا میں اور گراتا ہوا تُو

گر نہیں یہ تو جفا کیا ہے بھلا اے عاطفؔ
خون روتا ہوا میں اور رُلاتا ہوا تُو

عاطفؔ ملک
نومبر ۲۰۱۹
 
آخری تدوین:
عاطف بھائی ، اُن صاحب کی غزل سے سے بدرجہا بہتر ہے یہ غزل

کِن صاحب سے؟ اُن سے جن کی یہ غزل ہے؟

زخم کھاتا ہوا تو زخم لگاتا ہوا میں
درد سہتا ہوا تو درد بڑھاتا ہوا میں

ایک منظر ہے مگر دو ہیں الگ رخ اس کے
راکھ ہوتا ہوا تو اور جلاتا ہوا میں

داد بیداد کی تفسیر نہیں اس کے سوا
ہنس کے سہتا ہوا تو اور ستاتا ہوا میں

دیکھنے والوں نے دیکھا تھا تماشا یہ عجیب
خاک ہوتا ہوا تو خاک اڑاتا ہوا میں

مرجعِ عشق کا نقشہ تھا یہی آئے روز
گر کے اٹھتا ہوا تو اور گراتا ہوا میں

گر نہیں یہ تو جفا کیا ہے بھلا اے عاطفؔ
خون روتا ہوا تو اور رُلاتا ہوا میں
 

عاطف ملک

محفلین
بہت خوب ! واہ!
عاطف بھائی ، اُن صاحب کی غزل سے سے بدرجہا بہتر ہے یہ غزل ۔
بہت شکریہ ظہیر بھائی
ویسے آپ بھائی لکھتے ہیں تو جواباً ہم بھی بھائی لکھ دیتے ہیں، امید ہے برا نہیں لگتا ہو گا
کِن صاحب سے؟ اُن سے جن کی یہ غزل ہے؟
ہاہاہا، آپ نے بھی خوب بدلا لیا ہے:p
اس غزل کا تذکرہ ہو رہا تھا:)
ﻣﺠﮫ ﺳﮯ ﺑﻨﺘﺎ ﮨﻮﺍ ﺗُﻮ ﺗﺠﮫ ﮐﻮ ﺑﻨﺎﺗﺎ ﮨُﻮﺍ ﻣَﯿﮟ
شکریہ جناب
بہت شکریہ آپا:)
 
Top