ملا ایک derogatory term ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ لفظ ملا تضحیک کے لئے استعمال کیا جاتا ہے۔ لیکن اردو شاعری میں شیخ اور واعظ کا بھی ذکر ملتا ہے۔

ملا اگر جاہلوں کے لئے استعمال کیا گیا ہے تو واعظ اور شیخ سے کیا مراد ہوتی ہے؟ کیا شیخ اور واعظ سے مراد علما دین ہیں؟
میری رائے میں نفس مضمون اس کا فیصلہ کرتا ہے کہ ان الفاظ کو کن معانی میں استعمال کیا گیا ہے۔
"ہم پوچھتے ہیں شیخ کلیسا نواز سے"
میں ظاہر ہے کہ کوئی احترام اور توقیر کا پہلو نہیں ہے۔
اسی طرح:
ہے مریدوں کو تو حق بات گوارا لیکن
شیخ و ملا کو بری لگتی ہے درویش کی بات
میں دونوں کو بیک وقت "نوازا" گیا ہے۔ :)
اس کے برخلاف درج ذیل شعر میں تحقیر کا کوئی پہلو نہیں ہے:
افغانیوں کی غیرت دیں کا ہے یہ علاج
ملا کو ان کے کوہ و دمن سے نکال دو
 
آخری تدوین:

سین خے

محفلین
عربی میں مَلْآن کا مطلب ہے بھرا ہوا۔ تو ملّا کا مطلب بنتا ہے علم سے بھرا ہوا۔ ملا علی قاری دینی لٹریچر میں ایک محترم شخصیت ہیں۔ افغانستان میں ملا ایک قابلِ احترام لفظ ہے جیسے ملا عمر۔

دلچسپ :)

لیکن عام بول چال میں اب یہ لفظ تضحیک کے لئے ہی استعمال کیا جاتا ہے۔
 

سین خے

محفلین
نہ معلوم کیوں ہمارے یہاں زیادہ تر تحقیق اقبال کی شاعری پر ہی کی جاتی ہے۔ یہ ایک واحد مضمون تھا جس میں شعرا کا بھی ذکر تھا ورنہ صرف اقبال کی شاعری پر ہی تحقیقی مضامین ہی اس موضوع پر ملے۔
 

سین خے

محفلین
اردو ادب ، اقبال اور ملا
تحریر : ابو زید دبئی
-----------------------اردو ادب کے مختلف ادوار میں ملا، مولوی، زاہد اور واعظ ادیبوں اور شاعروں کے مشق ستم کا نشانہ بنتے رہے ہیں۔ آج کے دور میں ایسے کسی ادب پر اعتراض کیے جانے پر عموماً اردو ادب کی روایات کا حوالہ دیا جاتا ہے۔کسی دور میں مذہبی حلقوں سے علامہ اقبال کی بھی مخالفت کی گئی تھی لیکن آج مجموعی طور پر اقبال کافی احترام کی نگاہوں سے دیکھے جاتے ہیں۔ علامہ اقبال کی شاعری میں استعمال شدہ ملّا اور مجاہد کی اصطلاح معروف ہے۔ اقبال کی شاعری میں ملّا پر سخت تنقید ملتی ہے۔ لیکن جہاں پر بھی علامہ نے ملّا پر طنز یا تنقید کی ہے اس کے سیاق و سباق سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ وہ کس وجہ سے ملّا پر نالاں ہیں۔ ایک جگہ پر علامہ اقبال ملّا کو مجاہد کے ضد کے طور پربھی پیش کرتے ہیں۔ ملّاکے سلسلے میں علامہ کے کچھ اشعارملاحظہ ہوں:
الفاظ و معانی میں تفاوت نہیں لیکن
ملّا کی اذاں اور مجاہد کی اذاں اور

مزید ملاحظہ ہو:
وہ مذہب مردان خود آگاہ و خدا مست
یہ مذہب ملّا و جمادات و نباتات

مزید ملاحظہ ہو:
لّا کو جو ہے ہند میں سجدے کی اجازت
ناداں یہ سمجھتا ہے کہ اسلام ہے آزاد
ایک نظم ملّائے حرم میں یہ فرماتے ہیں:
عجب نہیں کہ خدا تک تری رسائی ہو
تری نگہ سے ہے پوشیدہ آدمی کا مقام
تری نماز میں باقی جلال ہے، نہ جمال
تری اذاں میں نہیں ہے مری سحر کا پیام
ہماری سعی پیہم کی کرامت ہے کہ آج
صوفی و ملّا ملوکیت کے بندے ہیں تمام
ملّا کی مستی گفتار پر یہ ارشاد ہے:
صوفی کی طریقت میں فقط مستی احوال
ملّا کی شریعت میں فقط مستی گفتارم

ان اشعار سے ملّا کی اندھی مخالفت کے بجائے اس بات کی وضاحت ملتی ہے کہ علامہ اقبال کیوں ملّا سے ناراض ہیں۔ دین میں جمود، اپنے اور آدمیت کے مقام کا ادراک نہ کرنا، اجتماعی زندگی سے دین کو الگ رکھ کر صرف عبادات تک محدود رکھنا، ملوکیت کے آگے جھکنا، دین پر عمل کرنے کے بجائے صرف زبانی نصیحتوں پر اکتفا کرنا وغیرہ۔

اس سب کے باوجود علامہ اقبال ایسے ملّا کی قدر بھی کرتے تھے جو مسلمانوں میں ملی غیرت باقی رکھنے میں کوشاں ہوں۔ ابلیس کی زبان سے علامہ یوں گویا ہیں ؂

افغانیوں کی غیرت دیں کا ہے یہ علاج
ملّا کو ان کے کوہ دمن سے نکال دو​
الغرض علامہ کلی معنوں میں ملّا کے مخالف نہیں تھے۔

دراصل پچھلی کچھ صدیاں علمی اعتبار سے مسلمانوں کے زوال کی صدیاں رہی ہیں اور یہ زوال سب سے زیادہ اس گروہ پر آیا جو دین کا محافظ اور نگران سمجھا جاتا تھا بلکہ اگر یہ زوال اس گروہ میں نہ آیا ہوتا تو مسلمانوں کو زوال دیکھنا ہی نہ پڑتا۔ حالات اور وقت کی تبدیلیوں کی قیادت یورپ کے ہاتھوں میں تھی۔ مسلمان ان تبدیلیوں کے چیلنج کا مقابلہ تو در کنار ان تبدیلیوں کو سمجھ ہی نہ سکے۔بدلتے ہوئے چیلنج کو نہ سمجھنے کی وجہ سے ہمارا روایتی دینی حلقہ ان کامقابلہ کرنے کے قابل نہ ہوسکا۔

ایک طرف مسلمانوں کی قیادت علماء کے ہاتھوں سے نکل رہی تھی اور دوسری طرف پڑھا لکھا مسلمان مغرب کا اثر لے رہا تھا اور پھر اس دینی حلقہ کو کچھ ادراک ہی نہ تھا کہ یہ تبدیلی کس طرح کی ہے۔ایسی کیفیت میں ان دین دار حلقوں نے جس طرح کارویہ اختیار کیا اس کی وجہ سے دینی حلقے اور تعلیم یافتہ حلقوں میں بُعد بلکہ مخالفت پیدا ہوگئی۔ وہ تعلیم یافتہ حلقہ جو کسی بھی طرح سے دین کی ترویج کی راہ نکال کر دے رہاتھا اُس سے بھی علماء کی نہ بنی اور علماء اپنے ذہنی جمود کی وجہ سے اپنے اندر کوئی تبدیلی اور ڈائنا مزم نہیں لا سکے۔

علامہ اقبال کی ملّا پر تنقید اسی جمود پر رد عمل ہے۔

اصولی طور پر کسی پر اگر لعن طعن کرنا ہو تو اس کی وجہ واضح ہونی چاہیے۔ بے معنی اور لغو طعن کسی بھی طرح سے اخلاق کے دائرے میں نہیں آتا اگرچہ کہ اس کو اردو ادب سے الگ کرنا ممکن نہ ہو۔ لیکن آج کے دورمیں ملّا اس لیے نشانہ بن رہا ہے کیوں کہ اس نے علامہ اقبال سے سبق سیکھ کر اپنے اندر تبدیلی پیدا کردی۔بلکہ آج کے اس دور میں ملّا پر لعن طعن کرتے ہوئے یہی بات واضح نہیں ہے کہ ملّا سے یہاں کیا مراد ہے؟ کیا کسی مدرسے کا مولوی؟ یا کوئی دیندار شخص، یا ترقی پسند تحریک کا مخالف، منٹو اور عصمت چغتائی کے طرز تحریر کا نقاد، سیکولرزم اور جدت پسندی کو دلائل سے پچھاڑ دینے والا؟ سوال یہ ہے کہ ملّا کو ملّا ہونے پر نشانہ بنایا جارہا ہے یامجاہد ہونے پر؟ ملّا کو ملوکیت کا غلام بننے پر نشانہ بنایا جارہا ہے یا استعمار مخالفت پر؟ ملّا کو دین کی انفرادی تعبیر پر نشانہ بنایا جارہا ہے یا دین کی اجتماعی تعبیر پر؟ ایک ابہام ہے اور اس ابہام کے پردے میں اندر کا پورا کا پورا بغض اتارنے کی پوری آزادی۔
حقیقت یہ ہے ملّا کے طعنے دلیل کا متبادل بن گئے ہیں۔ ایک طرف علامہ اقبال فرسودگی، جمود اور ملوکیت کی غلامی پر ملّا پر تنقید کر رہے ہیں اور آج وہ حلقہ جو مغرب سے درآمد شدہ فرسودگی، اور مغرب کے شکست خوردہ فکری اور معاشی نظریات کی اندھی تقلید کا قائل ہے وہ ملّا پر طعن کرتا نظر آتا ہے۔یعنی بات بالکل الٹ ہوگئی ہے۔ دینی حلقوں میں روایتی علماء کی جگہ اپنی تمام خامیوں کے باوجود ایسا حلقہ موجود ہے جو وقت کے چیلنج کو سمجھ کر ڈٹا ہوا ہے۔ لیکن یہ مغربی نظریات کے گند میں آلودہ بوسیدہ ذہن ملّا کے پیچھے پڑا ہوا ہے اس کی وضاحت کے بغیر کہ اس سے کون سا ملّا مراد ہے؟

حقیقت یہی ہے علامہ اقبال جس ملّا کو مخاطب کر رہے ہیں اس کا متبادل آج کے دور کی وہ بوسیدہ ذہن نسل ہے جس نے ایک عمر سرخ سویرے کے انتظارمیں گزاردی اور جب یہ سرخ سویرا افغان ملّا کے ہاتھوں اپنے انجام کو پہنچ گیا تو ادب کے نام پر اس ملّا کے پیچھے پڑا ہے جس کی ضربوں نے ان کے خوابوں کی حقیقت ان کو دکھلادی۔ اس ملّا کا متبادل وہ ذہن بھی ہے جو ایک عرصے سے مغرب کے سماجی و سیاسی نظریات کو عقیدے کا حرف آخر سمجھتا رہا اور اب جا کر پتہ چلا ہے کہ یہ سخت جان ملّاسوٹ بوٹ میں ٹی وی پر آکر بھی ان نظریات کے پرخچے اُڑا سکتا ہے۔کوشش کے باوجود یہ سرخ اور مغربی ملّا اپنی تمناؤوں اور حسرتوں کی لاش سے اُٹھتے ہوئے تعفن کو چھپا نہیں پاتا۔

پچھلے دور کے ملّا کا بھی یہ المیہ تھا کہ ایک عرصہ تک ایک مخصوص سوچ کے ساتھ گزارنے کے بعد اور کچھ مخصوص اساتذہ کی تعلیمات کو حرف آخر سمجھنے کے بعد ان کواپنے آپ کو تبدیل کرنا ناممکن ہوگیاتھا۔ بالکل یہی مسئلہ اس فرسودہ ذہن نسل کا بھی ہے کہ ایک رخ پر اتنی دورچلنے کے بعد کسی طرح بھی اپنے آپ کو پلٹنے پر آمادہ نہیں کرپاتے ۔ بقول شاعر ؂

کعبہ کس منہ سے جاؤگے غالب
شرم تم کو مگر نہیں آتی

حیرت کی بات یہ ہے ابلاغی میدان میں ملّا کے طعنے ان کے لیے بھی دھڑادھڑ استعال ہورہے ہیں جو وقت کے چیلنج کا سامنا بڑی جواں مردی سے کر رہے ہیں۔

کہنے کا قطعاً یہ مطلب نہیں ہے کہ آج کے دور میں ایسے ملّا نہیں پائے جاتے جن کو علامہ اقبال نے نشانہ بنایا تھا۔ لیکن اقبال کی نظیر کو پیش کرکے اس طرح سے ملّا پر اعتراض کرنا کہ یہ پتہ بھی نہ چلے کہ کس قسم کے ملّا پر اور کیوں اعتراض کیا جارہا ہے کسی بھی طرح معقول طرز عمل قرار نہیں دیا جاسکتا۔ اور ان کی طرف سے ملا پر فقرے کسنا جو کہ اقبال کی فکر سے غیر اعلانیہ طور اپنے اندر پر شدید بغض پال رکھے ہوں اپنے میں ایک عجیب تناقض ہے۔

پرانی شاعری میں واعظ، زاہد وغیرہ کی اصطلاحات پر اور آج کے دور میں مولوی پر بھی ادب کے نام پر پھبتی کسی جاتی ہے۔ غالب وغیرہ کی پرانی شاعری پڑھنے سے یہ لگتا ہے کہ اپنی اخلاقی بے راہ روی کو جواز فراہم کرنے کے لیے اردو شاعری میں اس طرح کی چیزیں پائی جاتی تھیں۔ اگرچہ کہ یہ اخلاقی اعتبار سے انتہائی پست چیز ہے لیکن اردو ادب میں یہ روایت بن چکی ہے اور یہ کوشش عبث ہے کہ اردو ادب کو اس سے پاک کیا جائے۔ مقبول عام پرانی شاعری میں شاعر اپنی کسی ادبی کمزوری کو چھپانے کے لیے اس طرح کی حرکت کرتا نہیں پایا جاتا تھا۔ بلکہ انتہائی معیاری شاعری میں ایک آدھ اس طرح کے اشعار پائے جاتے ہیں۔ اور شعراء کے کلام کے مجموعے میں اس کا تناسب انتہائی کم نظر آتا ہے۔ اور ملّا پر جس طرح پھبتیاں کسی جاتی تھیں اس میں ادبی معیار کا بھی لحاظ رکھا جاتا تھا کہ اس کا نشانہ بننے والے خود اس سے لطف اندوز ہوں۔

لیکن اس روایت کا فائدہ اٹھا کر ماشاء اللہ اب ایسے شعراء کی افزائش بھی ہورہی ہے جو شاعری کے بجائے تک بندی بلکہ نثر بندی کرتے ہیں اور انھیں شعر لکھنے کے لیے کوئی موضوع نظر نہیں آتا تو مولوی بے چارہ نشانہ بن جاتا ہے اور وہ بھی ایسے کہ سمجھ میں نہیں آتا کہ مولوی کی کس بات پر اس کو مشق ستم بنایا جارہا ہے۔چونکہ کچھ وجوہات کی بنا پر آج بھی ایک پڑھا لکھا شخص اپنے آپ کو مولوی یا مولویت سے متعلق پیش نہیں کرنا چاہتا اس لیے یہ ایک انتہائی آسان نسخہ ہے۔ بلکہ اگر کوئی سرپھرا مولویت کا دفاع کرتا نظر بھی آئے تو اس کو ایک تنگ نظر کے طور پر پیش کرنا انتہائی آسان ہے ۔ اس سے ایک بہت بڑا فائدہ یہ بھی ہوتا ہے کہ وہ ادب جس میں مولوی کو نشانہ بنایا گیا ہے اس کے معیار کی جانچ ہی نہیں ہوپاتی۔ آپ جتنا بھی بے تکا بھونڈا اور لغو ادب پیش کریں کہیں نہ کہیں سے داد و تحسین کے ڈوگرے برسانے والے نظر آہی جاتے ہیں۔ ایسے میں ایک ادبی ذوق رکھنے والے شریف انسان کو خاموشی میں ہی عافیت نظر آتی ہے۔ اس طرح کے ادب سے یوں محسوس ہوتا ہے کہ گویا ڈھلتی عمر کی کوئی ناکام اداکارہ ذرائع ابلاغ میں جگہ پانے کے لیے کسی نہ کسی حرکت کی محتاج ہے۔بلکہ اس طرح کے نیچ ادب کے ساتھ وہ فرسودہ نسل بھی ساتھ ہوجاتی ہے جوملّا کی غیرت اور بیداری کی وجہ سے اپنے خوابوں کی تعبیر نہیں دیکھ سکی اور نہ ہی دیکھنے کا کوئی امکان پاتی ہے۔

 

سین خے

محفلین
بزم اردو لائبریری پر موجود ایک کتاب "اردو شاعری میں طنز و مزاح ۔۔۔ محمد شعیب" ہے۔ اس کتاب میں شاعری میں مولویت پر طنز و طعنوں کے حوالے سے کافی تحقیق موجود ہے۔ اس کتاب سے کچھ اقتاباسات یہاں شریک کیے جا رہے ہیں۔

باب دوم: اودھ پنچ سے پہلے کا عہد ۔۔۔۔
۔۔۔

یہ وہ دور تھا جب ملک سیاسی افراتفری، اقتصادی بدحالی، سماجی بے اعتدالی اور اخلاقی بے راہ روی کا شکار ہو چکا تھا۔ غیر اقوام کی لوٹ مار نے عوام میں عدم تحفظ کا احساس بڑھا دیا تھا اور بیرونی یلغار معمول بن چکی تھی۔ اس ابتر صورتحال میں ہر شخص کی حالت ایسی تھی کہ وہ روز مرتا اور روز جیتا تھا۔ روزگار نہ ہونے کے باعث بے عملی، نا امیدی ویاس اور شکست خوردگی نے ہر گھر میں ڈیرے ڈال رکھے تھے۔ خوف اور سراسیمگی کی فضا نے تمام معاشرے کو اپنی لپیٹ میں لے کر زندگی سے فرار کی راہ دکھائی۔ یوں شاعری میں بھی فرار کی اس فضا نے قنوطیت کو جنم دے کر جذبات کی تیز لہروں کا رُخ اپنے ماحول اور خیالی زاہد و واعظ سے چھیڑ چھاڑ کی جانب موڑ دیا۔ زاہد ومحتسب سے اس چھیڑ چھاڑ کے نتیجے میں شگفتگی اور رندی و بے باکی کے مضامین کھل کر سامنے آنے لگے جو فارسی شاعری میں اس سے پہلے مو جود تھے۔ بقول ڈاکٹر خواجہ محمد زکریا:

’’۔ ۔ ۔ دکنی شاعروں کے کلام میں واعظ اور ناصح سے چھیڑ چھاڑ کے اشعار فارسی شعرا کے تتبع میں موجود ہیں۔ یہ رو ولی، میر، مصحفی، آتش، غالب، حالی وغیرہ سے ہوتی ہوئی جدید شعرا یعنی فیض وغیرہ تک پہنچتی ہے۔ ایک اور رو جس میں ظرافت نے ہزل کا روپ اختیار کر لیا ہے اور ثقاہت کے تمام نقاب الٹ دیے ہیں۔ اس کے نمائندہ جعفر زٹلی، عطا، اٹل، زانی، افسق وغیرہ ہیں۔ تیسری رو ہجویات کی ہے۔ قدیم شاعری میں طنزیہ اور مزاحیہ شاعری کے قابلِ ذکر نمونے ہجویات میں نظر آتے ہیں۔ سودا، نظیر، انشا وغیرہ کے ہاں کہیں تو ہجو معاشرے کی آلودگیوں کی پردہ دری کر کے بلند منصب پر فائز ہو گئی ہے اور کہیں ذاتیات میں اُلجھ کر اپنے مقام سے گر گئی ہے۔ ۔ ۔ ۔ ‘‘ [۷] ۷۔ غلام حسین ذوالفقار، ڈاکٹر، اردو شاعری کا سیاسی اور سماجی پسِ منظر، لاہور، مطبع جامعہ پنجاب، ۱۹۶۶ع، ص۲۳۲

جب برصغیر میں اسلام کی شمع روشن ہوئی تو اس وقت خطے میں چھوٹی چھوٹی ریاستیں موجود تھیں جن پر ہندو راجے راج کرتے تھے۔ ذات پات کا نظام انسانوں کی کچھ نسلوں کو دوسروں سے بلند کیے ہوئے تھا اور کچھ لوگ جانوروں کی طرح زندگی بسر کر رہے تھے۔ برہمن، ویش، کھشتری اور شودر کی تقسیم نے انسانیت کو غلام بنا رکھا تھا۔ ایسے میں اسلام نے انسانی مساوات و برابری کا علم بلند کر کے برصغیر کے لوگوں میں شعور پیدا کیا لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ہندی مسلمانوں میں وہی پرانی ہندوانہ انسانی تفریق اپنی جڑیں پھیلانے لگی اور واضح طور پر دو طبقے وجود میں آ گئے۔ دینی احکام کی تربیت دینے والا علما کا طبقہ اپنے آپ کو دین کا ٹھیکیدار سمجھ بیٹھا اور عام مسلمانوں کو گناہ گار قرار دے کر دوسرے درجے کی مخلوق قرار دیا۔ ابتدا میں ان علما کی بہت عزت و تکریم کی جاتی تھی اور ہر محفل(شادی، موت، مذہبی تہوار وغیرہ) میں ان کو نمایاں مقام حاصل ہوتا۔ اس تکریم کی وجہ سے یہ طبقہ بذاتِ خود عزت دار کہلایا اور عام مسلمان اس کو واعظ، ملاّ، محتسب، شیخ، ناصح اور مولوی کے القاب سے یاد کرنے لگے۔ انھوں نے دین میں میانہ روی کے بجائے سختی کو فروغ دیا اور لوگوں پر کفر کے فتوے لگانے شروع کر دیے جس سے ان کے خلاف بغاوت کی رسم چل نکلی۔ اردو شاعری میں شعرا نے شروع سے ہی اس تنگ نظری پر احتجاج کرتے ہوئے شیخ و ناصح کو معتوب ٹھہرایا اور فارسی شاعری کے نقشِ قدم پر چلنے لگے:

’’ اردو شاعری میں مذہبی تنگ نظری وسخت گیری، ملّائیت و مولویّت کے حوالے سے بطورِ احتجاج مُلّا، واعظ، ناصح اور اِن کے بعض متعلقات کا مذاق اُڑانے اور ان پر طنز کرنے کا رواج بہت پُرانا ہے اور فارسی سے اردو کو وِرثے میں ملا۔ چنانچہ اردو کا شاید ہی کوئی ایسا شاعر ہو جس کے یہاں واعظ و ناصح اور ان کے قبیل کے دوسرے افراد کو طنز و مزاح کا نشانہ نہ بنایا گیا ہو۔ ۔ ۔ ۔ ‘‘ ۸۔ وزیر آغا، ڈاکٹر، اردو ادب میں طنزو مزاح، ص۳۱۸، ۳۱۹

واعظ مخالف اشعار سے ہر عہد کے شعرا کے دیوان بھرے پڑے ہیں۔ شیخ کے ساتھ دینی فرائض اور مقدس مقامات بھی شعرا کی طنز کا شکار بنے۔ اس رسم کو کسی بھی طرح قابلِ رشک و تقلید قرار نہیں دیا جا سکتا کیونکہ اسی قبیح روایت کی وجہ سے مذہبی حلقوں میں کافی عرصے تک شاعری کو اچھی نظرسے نہیں دیکھا گیا۔ ایسی شاعری سے چند مثالیں ملاحظہ کیجیے:

ترے ابرو کی گر پہنچے خبر مسجد میں زاہد کوں
تماشا دیکھنے آوے ترا محراب سے اُٹھ کر
(ولی)

شرکتِ شیخ و برہمن سے میر
کعبہ و دیر سے بھی جائیے گا
(میر)

تقویٰ کا اس کے موسم گل نے کیا یہ رنگ
زاہد کو خانقاہ سے میخانہ لے گیا
(سودا)

دیکھ کل ان کی طرف شیخ رہا، تو بولے
خوبی قسمت کی، ہوا مجھ پہ مچھندر عاشق
یہ جو مہنت بیٹھے ہیں رادھا کے کنڈ پر
اوتار بن کے گرتے ہیں پریوں کے جھنڈ پر
(انشا)


رندِ خراب حال کو زاہد نہ چھیڑ تو
تجھ کو پرائی کیا پڑی اپنی نبیڑ تو
(ذوق)

کہاں میخانہ کا دروازہ غالب اور کہاں واعظ
پر اتنا جانتے ہیں کل وہ جاتا تھا کہ ہم نکلے
یہ کہاں کی دوستی ہے کہ بنے ہیں دوست ناصح
کوئی چارہ ساز ہوتا، کوئی غم گسار ہوتا
شورِ پندِ ناصح نے زخم پر نمک چھڑ کا
آپ سے کوئی پوچھے تم نے کیا مزا پایا
(غالب)

لوگ کیوں شیخ کو کہتے ہیں کہ عیار ہے وہ
اُس کی صورت سے تو ایسا نہیں پایا جاتا
شیخ رندوں میں بھی ہیں کچھ پاکباز
سب کو ملزم تو نے ٹھہرایا عبث
آ نکلتے تھے کبھی مسجد میں ہم
تو نے زاہد ہم کو شرمایا عبث
(حالی)

اس عہد کی شاعری میں جہاں جہاں شگفتگی و ظرافت موجود ہے وہاں زاہد کے مقابلے میں رندی و سرمستی کو نمایاں کیا گیا ہے۔ شعرا نے رندی و سرمستی کو ایک مستقل موضوع کے طور پر اختیار کر کے تبسم زیرِ لب کی کیفیات پیدا کر دیں۔ یہ اندازِ فکر اپنے اندر حالات کی سنگینی سے کچھ دیر چھٹکارا حاصل کرنے کی قوت سے لبریز ہے۔ ایک تو مے نوشی کا اپنا خاصہ ہے کہ یہ انسان کو اپنے گردوپیش سے لاتعلق کر دیتی ہے، دوسرا شاعری میں رندی کے مظاہرے اس لیے بھی عام ہیں کہ واعظ اس کے نام سے بھی پُرخاش رکھتا ہے:

کیا کام ہم کو سجدۂ دیر و حرم کے ساتھ
مستوں کا سر جھکے ہے صراحی کے خم کے ساتھ
(انشا)

کیفیت چشم اس کی مجھے یاد ہے سودا
ساغر کو مرے ہاتھ سے لینا کہ چلا میں
(سودا)

مجھ رند کو حلال ہے، گو مے حرام ہو
پیرِ مغاں کا حکم ہے اس میں جواز کا
شرابِ خلد کی خاطر دہن ہے رکھتا صاف
وضو میں ورنہ یہ زاہد غرارہ کیا کرتا
(آتش)

میں اور بزمِ مے سے یوں تشنہ کام آؤں !
گر میں نے کی تھی توبہ، ساقی کو کیا ہوا تھا
قرض کی پیتے تھے مے لیکن سمجھتے تھے کہ ہاں
رنگ لائے گی ہماری فاقہ مستی ایک دن
(غالب)

جہاں میں بزم نہیں مے کدے سے رنگیں تر
دھری شراب ہے، بیٹھے ہیں جا بہ جا ساقی
یہاں تو اور کسی چیز سے نہیں مطلب
ہمارا جام تو مقصد ہے، مدعا ساقی
رندی و مستی و مے خواری و شاہد بازی
فرصتِ عمر تو کم اور مجھے کام بہت
(مجروح)

۔۔۔۔

اللہ تعالیٰ کے ساتھ براہِ راست شگفتگی کا مظاہرہ اور وہ بھی بڑی خوبصورت ادا کے ساتھ، غالب کے کمالِ فن اور تخئیل کی بلند پروازی کا حاصل ہے۔ غالب کا واعظ و ناصح پر تنقید کرنے کے ساتھ فرشتوں کے لکھے پر پکڑے جانا اور دل کے خوش رکھنے کو جنت کا اچھا خیال کہہ دینا ان کی نکتہ آرائی کا ایک شگفتہ پہلو ہے:

ہم کو معلوم ہے جنت کی حقیقت لیکن
دل کے خوش رکھنے کو غالب یہ خیال اچھا ہے
پکڑے جاتے ہیں فرشتوں کے لکھے پر نا حق
آدمی کوئی ہمارا دمِ تحریر بھی تھا
کیا فرض ہے کہ سب کو ملے ایک سا جواب
آؤ نہ ہم بھی سیر کریں کوہِ طور کی

 

سین خے

محفلین
باب سوم: اودھ پنچ کا عہد
۔۔۔۔

شیخ ومحتسب اور واعظ پر ہر دور کی طرح اودھ پنچ کے زمانے میں بھی طعن و تشنیع کی گئی۔ اس زمانے میں معاشرے کا یہ طبقہ مغربی تہذیب کے خلاف تھا لیکن اس میں بھی کچھ لوگ ایسے تھے جو مشرقی و مغربی دونوں تہذیبوں کو ساتھ لے کر چلنے کے خواہش مند تھے۔ یہاں دوسری قسم کے زاہدوں پر طنز کی گئی:

شیخ کی دعوت میں مے کا کام کیا
احتیاطاً کچھ منگا لی جائے گی
مولوی صاحب نہ چھوڑیں گے خدا گو بخش دے
گھیر ہی لیں گے پولس والے سزا ہو یا نہ ہو
مغربی ذوق ہے اور وضع کی پابندی بھی
اونٹ پر چڑھ کے جو تھیٹر کو چلے ہیں حضرت
خلافِ شرع کبھی شیخ تھوکتا بھی نہیں
مگر اندھیرے اجالے میں چوکتا بھی نہیں
(اکبر الٰہ آبادی)

باب چہارم: اکبر الٰہ آبادی اور ظریف لکھنوی

۔۔۔
ب۔ ظریف لکھنوی

۔۔۔۔
مولویوں کے قول و فعل میں پائے جانے والے تضاد، دین میں رخنہ ڈال کر لوگوں کو تقسیم کرنے اور آپس میں لڑانے کی پرانی چالوں کو ظریف نے اپنے مخصوص لہجے اور علامات کے ذریعے ہدفِ تنقید بنایا ہے۔ ’’کفّار سے یارانہ، مالوی و مولوی، شریعت کی مہار، زبان چارہ جو ہے آج‘‘ وغیرہ اسی مضمون کو بیان کرتی ہیں۔ چند امثلہ ملاحظہ ہوں :

’’مالوی و مولوی‘‘

شخصیت بڑھ جائے جب اتنی کہ جس کی حد نہ ہو
تھے برائے نام جو نائب وہ بن بیٹھے امام
وہ شریعت ناز تھا اسلام کو جس شرع پر
یعنی خلق اللہ کے جمہور کا سادہ نظام
خود غرض اشخاص استعمال جب کرنے لگیں
حسبِ مرضی اپنے پھر قانون کو کیا اس سے کام
معنی حبل المتین کو بٹ کے رسی کی طرح
گتھیاں ہر بات میں پیدا کریں بہر عوام
ان کی یا ان کے مریدوں کی ہو جس میں منفعت
وہ حلالاً طیباً اور ما بقی ہر شے حرام
جتنے قومی سانڈ ہیں ان کو نمائش میں بلائیں
یہ بھجن منبر پہ چڑھ کر گائیں واعظ صبح شام

’’شریعت کی مہار‘‘

تیری آنکھیں بحر عیاری کے گویا دو حباب
کان جن میں کلمۂ حق کی صدائیں ناگوار
قوم کو باہم لڑا دینے میں تیری ذات فرد
میرے قومی اُونٹ اے جنگ جمل کی یادگار
پیٹ تیرا قوم کی گاڑھی کمائی کے لیے
وقف ہے کھا کر نہیں لیتا کبھی تو ڈکار

 

سین خے

محفلین
باب پنجم: علامہ اقبال اور جوش ملیح آبادی کی طنزیہ و مزاحیہ شاعری

۔۔۔

علامہ کی طنزیہ و مزاحیہ شاعری میں ملاّ، شیخ اور واعظ خاص طور پر مطعون ٹھہرتا ہے۔ اس کردار کو پرانے خیالات کا حامی اور مشرقی تہذیب کا سب سے بڑا نمائندہ سمجھا جاتا ہے۔ اس دور میں مولویوں کی بھی دو اقسام تھیں۔ ایک جدیدیت کے حامی تھے اور دوسرے اس کے خلاف۔ جدیدیت کے حامی اپنے فائدے کی چیزوں اور قوانین کو حلال قرار دیتے اوراسلام میں جو حلال ہیں ، انگریزوں کی خوشنودی کے لیے اُن کی مخالفت سے بھی دریغ نہ کرتے۔ اس مضحکہ خیز دو عملی پر اقبالؒ اس طرح طنز کرتے ہیں :

کچھ غم نہیں جو حضرتِ واعظ ہیں تنگ دست
تہذیبِ نو کے سامنے سر اپنا خم کریں
ردّ جہاد میں تو بہت کچھ لکھا گیا
تردیدِ حج میں کوئی رسالہ رقم کریں

طنزیہ و مزاحیہ اُردو شاعری کی تاریخ میں واعظ اور مے نوش کے درمیان پائی جانے والی چپقلش کی روایت بہت پرانی ہے۔ علامہ اقبالؒ نے ان دونوں فریقوں کے درمیان بحث کا ایک مؤثر انداز اختیار کیا ہے۔ اس بحث کے آخر میں علامہ خود بھی شریک ہو جاتے ہیں جس سے کلام میں طنز کے ساتھ ظرافت کا پہلو زوردار ہو جاتا ہے:

فرما رہے تھے شیخ طریقِ عمل پہ وعظ
کفّار ہند کے ہیں تجارت میں سخت کوش
مشرک ہیں وہ جو رکھتے ہیں مشرک سے لین دین
لیکن ہماری قوم ہے محرومِ عقل و ہوش
ناپاک چیز ہوتی ہے کافر کے ہاتھ کی
سن لے اگر گوش مسلماں کا حق نیوش!
اک بادہ کش بھی وعظ کی محفل میں تھا شریک
جس کے لیے نصیحتِ واعظ تھی بارِ گوش!
کہنے لگا ستم ہے کہ ایسے قیود کی
پابند ہو تجارتِ سامانِ خورد و نوش
میں نے کہا کہ ’’آپ کو مشکل نہیں کوئی
ہندوستاں میں ہیں کلمہ گو بھی مے فروش‘‘ !

۔۔۔
جوش نے مزاح کو باقاعدگی سے نہیں اپنایا اس لیے ان کی شاعری میں ظرافت کی جو کرنیں روشنی پیدا کرتی ہیں ان کی مقدار بہت زیادہ نہیں ہے۔ انھوں نے روایتی مضامین پر طنز و مزاح کی بنیادیں استوار کی ہیں اور چند دیگر مسائل کو بھی ظرافت کے پردے میں آشکار کیا ہے۔ ڈاکٹر وزیر آغا ان کی شاعری پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں :

’’۔ ۔ ۔ وہ(جوش) روایتی انداز سے ملا اور زاہد پر طنز کرتے ہیں اور ایک خالص انقلابی کی طرح مہاجن کی حرص و ہوا کا بھی مذاق اُڑاتے ہیں۔ ساتھ ہی ساتھ وہ انسان کی عالمگیر ناہمواریوں سے بھی بے نیاز نہیں رہتے۔ چنانچہ اپنی نظموں ، غزلوں اور خاص طور پر اپنی رُباعیوں میں انھوں نے انتہائی دلچسپ طریق سے بہت سے انسانی مسائل پر قلم اُٹھایا ہے۔ ۔ ۔ ۔ ‘‘ [۱۷] ۷ا۔ وزیر آغا، ڈاکٹر، اردو ادب میں طنزو مزاح، ص۱۲۲

زاہد پر طنز کا تیور ملاحظہ ہو:


زاہد رہِ معرفت دکھا دے مجھ کو
یہ کس نے کہا ہے کہ سزا دے مجھ کو
کافر ہوں ! ہوئی یہ تو مرض کی تشخیص
اب اس کا علاج بھی بتا دے مجھ کو
 

سین خے

محفلین
باب ششم: طنزیہ و مزاحیہ شاعری کا جدید دور (۱۹۴۷ء تا ۱۹۸۰ء)
۔۔۔
۵۔ سیّد محمد جعفری

۔۔۔
سیّد محمد جعفری نے طنز و مزاح کو پھکڑ پن سے صاف کر کے ایک منفرد تخلیقی لہجہ عطا کیا اور جدید دور کی طنزیہ شاعری کے صفِ اوّل کے معماروں میں شمار ہوئے۔

۔۔۔
سید محمد جعفری تضمین کے ماہر تھے اس ضمن میں انھوں نے غالب و اقبال سے بھرپور استفادہ کیا۔ جعفری بنیادی طور پر طناز تھے اس لیے ان کے کلام میں اکثر مقامات پر مزاح کے ساتھ طنز کی نشتریت نمایاں ہے۔ ذیل کی نظموں میں اس کے نمونے دیکھیے:

لا الہ الا اللہ

زباں سے کہتا ہوں ہاں لا ا لہ الا اللہ
نہیں عمل سے عیاں لا الہ الا اللہ
الاٹ منٹ ہیں یاروں کی آستینوں میں
’’نہ ہے زمیں نہ مکاں لا الہ الا اللہ‘‘
مدیر و پیر و وزیر و سفیر و شیخ و کبیر
’’بتانِ وہم و گماں لا الہ الا اللہ‘‘
نمازی آئیں نہ آئیں اذان تو دے دوں
’’مجھے ہے حکمِ اذاں لا الہ الا اللہ‘‘
جو مولوی ہیں وہ کھاتے ہیں رات دن حلوے
’’بہار ہو کہ خزاں لا الہ الا اللہ‘‘
۔۔۔

۶۔ ظریف جبل پوری


ظریف جبل پوری کی طنزیہ و ظریفانہ شاعری واعظ ومحتسب، سیاست، عشق و محبت، صنفِ نازک اور اس کے متعلقات پر مبنی ہے۔ ۔۔۔

قیس کے انکل

ہم حسن کے ہر گھات سے غافل تو نہیں تھے
بی۔ اے تھے، کوئی مولوی فاضل تو نہیں تھے
میک اپ نے کیا حسن خداداد کا قائل
ہم حسن خداداد کے قائل تو نہیں تھے
مہنگائی میں کیوں پھاڑتے دامان و گریباں
عاشق تھے مگر قیس کے انکل تو نہیں تھے

باب ہفتم: طنزیہ و مزاحیہ شاعری کا جدید ترین دور (۱۹۸۰ء تا ۲۰۰۸ء)

۔۔۔

۳۔ مسٹر دہلوی
۔۔۔

نظیر اکبر آبادی کی نظم ’’بنجارہ نامہ‘‘ کی پیروڈی ’’ماڈرن بنجارہ نامہ‘‘ میں انسان، مولانا، انجینئر، بیگم، لیڈر، طبیب، سرکاری افسر، سائس دان اور شاعر وغیرہ پر طبع آزمائی کی گئی ہے۔ اس کے چند بند ملاحظہ ہوں :

گو چومتے ہیں سب ہاتھ ترے
اور تو بڑا ہے اک مولانا
مت بھول کہ غافل تجھ کو بھی
اِک روز یہاں سے ہے جانا
کیا بکرے، نقدی، شیرینی
کیا نذر، نیاز اور نذرانہ
کیا دعوت صبح و شام تری
کیا مرغِ مسلم روزانہ !
’سب ٹھاٹ پڑا رہ جائے گا
جب لاد چلے گا بنجارہ‘
ہاں تو ہے بڑے گھر کی بیگم
چلتا ہے اشارے پر شوہر
ہے گھی میں پانچوں انگلیاں تر
کل ہو گا کڑاہی میں بھی سر
کیا بنگلے موٹر فرنیچر
اک ایک قدم پر اک نوکر
کیا کپڑے لتّے اور زیور
کیا ہاتھ ہلے بن لقمۂ تر
’سب ٹھاٹ پڑا رہ جائے گا
جب لاد چلے گا بنجارہ‘
سرکار میں تو اک افسر ہے
ہیبت بھی ہے چاروں طرف تری
آیا جب اجل کا ’’ڈی او‘ ‘ تو
رہ جائے گی ساری دھونس تری
کیا افسر تیرے اور کلرک
اسٹینو ، پی اے ، سیکرٹری
کیا چوکی پہرہ چاروں طرف
کیا آگے پیچھے آرڈر لی
’سب ٹھاٹ پڑا رہ جائے گا
جب لاد چلے گا بنجارہ‘


۴۔ انور مسعود
۔۔۔

جس معاشرتی برائی پر چوٹ کرتے ہیں ، اس کی مکمل تصویر نگاہوں کے سامنے لا کر پہلے تو دیکھنے والے کو اس پر خندہ زن ہونے کا موقع دیتے ہیں لیکن جلد ہی تماشائی گھبرا کر اپنے گریبان میں جھانکنے پر مجبور ہو جاتا ہے۔ ابتداًمساجد کے ہمسایہ میں آباد لوگ بڑے خوش قسمت سمجھے جاتے تھے کہ ان کو تمام نمازیں با جماعت ادا کرنے میں بڑی آسانی رہتی تھی۔ جب سے لاؤڈ اسپیکر ایجاد ہوا، ان لوگوں پر ہر لمحہ امتحان بن کر نازل ہوتا ہے۔ اذان کے علاوہ بھی علما ء و واعظین وقت بے وقت مسجد کے قریب بسنے والے لوگوں کوستانے کی تگ و دو میں منہمک رہتے ہیں۔ بچوں کے امتحانات، بیماروں کے آرام، دن بھر کے تھکے ہارے محنت کشوں کے سستانے کا خیال رکھے بغیر سارا سارا دن مساجد میں فرقہ ورانہ تقاریر اور نعرے بازیاں معمول بن چکا ہے۔ ایسے ہی معمولات کی مصوری انور مسعود کچھ یوں کرتے ہیں :

در پئے تقریر ہے اک واعظِ گنبد گلو
لاؤڈ اسپیکر بھی اس کے سامنے موجود ہے
نیند کا طالب ہے اک بیمار بھی ہمسائے میں
’’کیا کسی کو پھر کسی کا امتحاں مقصود ہے‘‘

۶۔ بشیر احمد چونچال
۔۔۔
شیخ و زاہد ان کی طنزیہ و مزاحیہ شاعری کا سب سے اہم کردار ہے۔ چونچال اس کی ذات پر ہر پہلو سے حملہ آور ہو کر اس پر پھبتیاں کستے ہیں۔ یہاں ان کا لہجہ کبھی ناصحانہ ہے تو کبھی جنگجویانہ، طعنہ زنی کرتے ہیں اور کبھی شیخ کے ساتھ ہنسی مذاق کرنے لگتے ہیں :


رواں تھا کاروبارِ انجمن کس حسن و خوبی سے
نہیں تھا مولوی کوئی شریکِ انجمن جب تک
شیخ بیرونی مدد لے کر بہت مسرور ہیں
اہل غیرت کی نظر میں بھیک آخر بھیک ہے
سخت خطرے میں ہے حلقومِ مسلمانی مرا
ہاتھ میں ان کے برابر خنجر تکفیر ہے
وہ ایسے ذکر کرتے ہیں خدا کا
کہ جیسےآئے ہیں مل کر خدا سے
جبین شیخ شب و روز سجدہ ریز رہی
پر اس کے سجدوں میں اک سجدہ بے ریا نہ ملا
بچوں کی تربیت کا نہیں کچھ انھیں شعور
کچھ بے تمیز شیخ کے بچوں کی ماں بھی ہے

کچھ ملاّؤں نے اسلام کے پسِ پردہ مسلمانوں کو تفرقے میں ڈالا اور ملّت میں مذہب کے نام پر پھوٹ ڈال کر اپنے پیٹ کے لیے حلوے مانڈے اور مرغِ مسلّم کا بندوبست کیا۔ ان واعظین نے کبھی نام نہاد مذہبی سیاستدانوں کے ساتھ مل کر ملک میں نفاذِ اسلام کا نعرہ بلند کیا اور کہیں سُنی، وہابی، شیعہ کی تفریق ڈال کر عوام کے جذبات کو مجروح کیا۔ چونچال ان سازشوں کا تذکرہ لطیف انداز میں یوں کرتے ہیں :


نظامِ مصطفیٰ نافذ ہے اعلانات کی حد تک
نکل کر بات منہ سے رہ گئی ہے بات کی حد تک
ہو گئی ہے اب نظامِ مصطفی کی ابتدا
اللہ اللہ کر کے تم شغلِ مسلمانی کرو
وہ کافروں کا نگر ہے یہ مومنوں کا وطن
وہاں ہے امن یہاں رات دن لڑائی ہے

قطعہ

عالمِ اسلام میں یہ کیا خرابی ہو گئی
یہ ہوئی سُنی تو وہ مسجد وہابی ہو گئی
ملّتِ توحید اور تفریق اللہ رے ستم
کفر کے فتوے لگانا ان کی ہابی ہو گئی

۸۔ ڈاکٹر انعام الحق جاوید
۔۔۔
ان کے شکاروں میں مولوی، بیگم، پولیس، سیلزمین، ڈاکٹر، سیاستدان، مہمان، استاد، طلبہ، عاشق و معشوق، خوشامد، رشوت، سفارش، ڈاکے، اغوا وغیرہ اپنی لاشوں پر خود ہی نوحہ گر ہیں۔

۹۔ سرفراز شاہد

ان کا شمار پاکستان کے اہم مزاح گو شعرا میں ہوتا ہے۔ سرفراز شاہد کی مزاحیہ شاعری میں بیگم، عاشق، محبوبہ، مولانا، مہمان، مہنگائی، فیشن، اقربا پروری، دھونس، دھاندلی، استحصال وغیرہ کو بطور خاص طنز و مزاح کا نشانہ بنایا گیا ہے۔ کہیں کہیں تو ان میں سے کئی صورتیں ایک ہی قطعے میں اکٹھی مل جاتی ہیں۔

۔۔۔

ان کے متنوع موضوعات جدید ترین طنزیہ و مزاحیہ شاعری میں ان کے فن کی عظمت کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔ ایسے ہی متفرق موضوعات پر سرفراز شاہد کی قادر الکلامی کے کرشمے دیکھیے:

ہے پاک دھماکوں پہ چچا سام کو حیرت
کیسے ہوئی یہ بات جو ہم نے نہیں چاہی
اب ایٹمی ہتھیار سے کیوں لیس ہے مومن
پہلے تو یہ بے تیغ ہی لڑتا تھا سپاہی
گھری رہتی ہیں جو افلاس کے بحران میں ساری
صدی اکیسویں ان پر نہ ہو جائے کہیں بھاری
خدایا تیسری دنیا کی یہ قومیں کدھر جائیں
جو آدھی ’’ایڈ‘‘ پہ زندہ ہیں ، آدھی ’’ایڈز‘‘ کی ماری
جناب شیخ اپنے وعظ میں روزانہ برسوں سے
سنائے جا رہے ہیں ایک ہی افسانہ برسوں سے
ڈش انٹینا کے رستے روز آتی ہیں مرے گھر میں
وہ حوریں جن کے چکر میں ہیں یہ مولانا برسوں سے
 

آصف اثر

معطل
تعجب نہیں جو لوگ خود کو غیرمذہبی ظاہر کرنا چاہتے ہیں وہ بھی اس طرح کے تضحیکی اور تحقیری کوششوں میں خود پر قابو رکھ نہیں پاتے اور وہ سب تربیت جو بچپن میں ان کے اذہان میں انڈیلی گئی ہوتی ہے وہ باہر آجاتی ہے۔
حیرت اس پر بھی نہیں کہ ملا کو بدنام کرنے کی کوئی کسر کیوں نہیں چھوڑی جاتی، کیوں کہ اسی ملا نے ایرانی فرقے اور مغربی قوتوں کا راستہ روکا۔ لہذا از بس ضروری چلتا آرہا ہے کہ نئے اذہان میں ملا کے لفظ کو بطورِ تحقیر اور گالی کے بٹھادیا جائے۔ اب جہاں جہاں ایرانی مہاجرین آباد کرائے گئے چاہے ان کا فرقہ کوئی بھی ہو، وہاں یا ان قوموں میں ملا کو بطور ایک تضحیکی کردار کے یہ ایرانی ذاکرین ہر مجلس و محفل میں ذکر کرنے کو اپنا فریضہ سمجھتے ہیں۔ جب کہ جہاں ایسا نہ ہوسکے وہاں بھی اس جدید دور میں اپنے اثرات کو پھیلانے کی کوششیں ہوتی آرہی ہے۔
حالاں کہ ملا افغانستان اور پشتون معاشرے میں ایک مقدس لفظ ہے۔ اس کو بطورِ تحقیر پیش کرنا ایسا ہی جیسا کہ ایران میں ذاکرین کو احمق اور گنوار کہا جائے۔ لیکن وہاں ایسا نہیں ہوسکتا کیوں کہ ایک تو یہی ذاکرین تاریخی پس منظر سے لے کر جدید پیش منظر تک انگریز اور مغربی اقوامِ عالم کی جوتا چاٹی خدمت کرنے کو اپنا فریضہ سمجھتے آرہے ہیں چاہے وہ چنگیز خان کا دور ہو انگریز سامراج کا، ہمیشہ اسی ایرانی لابی اور فرقے نے ان اسلام دشمنوں کی خدمات بجا لاکر مسلمانوں کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچایا ہے۔
اسی طرح جو ایرانی نواز اور فرقہ پرست ظاہرا باطنا خود کو معتدل ظاہر کرکے ملا کے لفظ کو بطورِ تضحیک کے استعمال کرکے چٹخارے لینا چاہتے ہیں وہ بھی ذرا اپنے گریبان میں جھانکے اور ملا جیسے پاک لفظ کے مقابلے میں ایرانی ذاکرین جیسے گندے کرداروں پر بھی کچھ تبرا فرمائے تاکہ انصاف کا بول بالا ہو، اور خلق اللہ اصل بدنما کرداروں سے بھی کماحقہ واقف رہے۔
مزید تبصرے کا حق محفوظ رکھا جاتا ہے۔ آداب۔
 

سید ذیشان

محفلین
تعجب نہیں جو لوگ خود کو غیرمذہبی ظاہر کرنا چاہتے ہیں وہ بھی اس طرح کے تضحیکی اور تحقیری کوششوں میں خود پر قابو رکھ نہیں پاتے اور وہ سب تربیت جو بچپن میں ان کے اذہان میں انڈیلی گئی ہوتی ہے وہ باہر آجاتی ہے۔
حیرت اس پر بھی نہیں کہ ملا کو بدنام کرنے کی کوئی کسر کیوں نہیں چھوڑی جاتی، کیوں کہ اسی ملا نے ایرانی فرقے اور مغربی قوتوں کا راستہ روکا۔ لہذا از بس ضروری چلتا آرہا ہے کہ نئے اذہان میں ملا کے لفظ کو بطورِ تحقیر اور گالی کے بٹھادیا جائے۔ اب جہاں جہاں ایرانی مہاجرین آباد کرائے گئے چاہے ان کا فرقہ کوئی بھی ہو، وہاں یا ان قوموں میں ملا کو بطور ایک تضحیکی کردار کے یہ ایرانی ذاکرین ہر مجلس و محفل میں ذکر کرنے کو اپنا فریضہ سمجھتے ہیں۔ جب کہ جہاں ایسا نہ ہوسکے وہاں بھی اس جدید دور میں اپنے اثرات کو پھیلانے کی کوششیں ہوتی آرہی ہے۔
حالاں کہ ملا افغانستان اور پشتون معاشرے میں ایک مقدس لفظ ہے۔ اس کو بطورِ تحقیر پیش کرنا ایسا ہی جیسا کہ ایران میں ذاکرین کو احمق اور گنوار کہا جائے۔ لیکن وہاں ایسا نہیں ہوسکتا کیوں کہ ایک تو یہی ذاکرین تاریخی پس منظر سے لے کر جدید پیش منظر تک انگریز اور مغربی اقوامِ عالم کی جوتا چاٹی خدمت کرنے کو اپنا فریضہ سمجھتے آرہے ہیں چاہے وہ چنگیز خان کا دور ہو انگریز سامراج کا، ہمیشہ اسی ایرانی لابی اور فرقے نے ان اسلام دشمنوں کی خدمات بجا لاکر مسلمانوں کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچایا ہے۔
اسی طرح جو ایرانی نواز اور فرقہ پرست ظاہرا باطنا خود کو معتدل ظاہر کرکے ملا کے لفظ کو بطورِ تضحیک کے استعمال کرکے چٹخارے لینا چاہتے ہیں وہ بھی ذرا اپنے گریبان میں جھانکے اور ملا جیسے پاک لفظ کے مقابلے میں ایرانی ذاکرین جیسے گندے کرداروں پر بھی کچھ تبرا فرمائے تاکہ انصاف کا بول بالا ہو، اور خلق اللہ اصل بدنما کرداروں سے بھی کماحقہ واقف رہے۔
مزید تبصرے کا حق محفوظ رکھا جاتا ہے۔ آداب۔
معلوم نہیں آپ کو ایران سے اتنی دشمنی کیوں ہے۔ جبکہ مشہور سنی محدث مسلم بن حجاج کا تعلق نیشاپور سے تھا۔ آپ کی ملا والی بات میں بھی دم نہیں ہے کیونکہ مشہور شیعہ محدث ملا باقر مجلسی کو بھی ایران میں ملا ہی لکھا اور پڑھا جاتا ہے۔ اگر شاعر ملا پر طنز کرتے ہیں تو اس کو ایک خاص context میں سمجھنے کی ضرورت ہوتی ہے۔
 

سین خے

محفلین
معلوم نہیں آپ کو ایران سے اتنی دشمنی کیوں ہے۔ جبکہ مشہور سنی محدث مسلم بن حجاج کا تعلق نیشاپور سے تھا۔ آپ کی ملا والی بات میں بھی دم نہیں ہے کیونکہ مشہور شیعہ محدث ملا باقر مجلسی کو بھی ایران میں ملا ہی لکھا اور پڑھا جاتا ہے۔ اگر شاعر ملا پر طنز کرتے ہیں تو اس کو ایک خاص context میں سمجھنے کی ضرورت ہوتی ہے۔

فرقہ وارانہ منافرت کتنی بڑی بیماری ہے اس کا احساس بہت ہی کم لوگوں کو ہے۔ فرقہ واریت کو ہوا دی جاتی رہتی ہے اور یہ سب فخر سے کیا جاتا ہے۔ اور اس کے بعد امت کے "سب" مسائل کا ذمہ دار غیر مسلموں کو قرار دے دیا جاتا ہے۔
 

آصف اثر

معطل
معلوم نہیں آپ کو ایران سے اتنی دشمنی کیوں ہے۔ جبکہ مشہور سنی محدث مسلم بن حجاج کا تعلق نیشاپور سے تھا۔ آپ کی ملا والی بات میں بھی دم نہیں ہے کیونکہ مشہور شیعہ محدث ملا باقر مجلسی کو بھی ایران میں ملا ہی لکھا اور پڑھا جاتا ہے۔ اگر شاعر ملا پر طنز کرتے ہیں تو اس کو ایک خاص context میں سمجھنے کی ضرورت ہوتی ہے۔
دراصل آپ کے ساتھ مسئلہ ہی خاص ہے۔
میں نے ایرانی ذاکرین اور اس ایرانی فرقے کی بات کی ہے جو مسلمانوں کے دلوں سے ملا اور مولوی کا احترام نکالنے کے لیے صدیوں سے اوپر تا نیچے زور لگانے میں اپنی پوری زندگی صرف کردیتے ہیں۔ لیکن آپ اس کو ایران کے ساتھ جوڑ کر خود کو جھوٹی تسلی دے رہے ہیں۔
آپ خود ہی یہ کہہ رہے ہیں کہ ملا کے لفظ کو پاکستان میں "خاص" تناظر میں تضحیک کا نشانہ بنایا جاتاہے تو بات بالکل واضح ہوجاتی ہے۔ یعنی سنی مسلمانوں کے علما کو ملا کہنا تو تضحیک آمیز مشہور کرانا آپ کے لیے چٹخارے کا باعث ہوتا ہے اور بغض معاویہ کو مزید جلا بخشتا ہے لیکن یہی لفظ جب ایران میں یہی ذاکرین اور ایرانی فرقہ اپنےکسی عالم کے لیے استعمال کریں تو انتہائی ادب و احترام کے ساتھ اس کا ذکر کیا جاتاہے۔
یہی فرق اگر آپ کو سمجھ آگیا تو میری "ایران" دشمنی بھی آپ پر واضح ہوسکتی ہے۔

فرقہ وارانہ منافرت کتنی بڑی بیماری ہے اس کا احساس بہت ہی کم لوگوں کو ہے۔ فرقہ واریت کو ہوا دی جاتی رہتی ہے اور یہ سب فخر سے کیا جاتا ہے۔ اور اس کے بعد امت کے "سب" مسائل کا ذمہ دار غیر مسلموں کو قرار دے دیا جاتا ہے۔
جعلی آئی ڈیز۔۔۔ نو کمنٹس
 

سید ذیشان

محفلین
دراصل آپ کے ساتھ مسئلہ ہی خاص ہے۔
میں نے ایرانی ذاکرین اور اس ایرانی فرقے کی بات کی ہے جو مسلمانوں کے دلوں سے ملا اور مولوی کا احترام نکالنے کے لیے صدیوں سے اوپر تا نیچے زور لگانے میں اپنی پوری زندگی صرف کردیتے ہیں۔ لیکن آپ اس کو ایران کے ساتھ جوڑ کر خود کو جھوٹی تسلی دے رہے ہیں۔
آپ خود ہی یہ کہہ رہے ہیں کہ ملا کے لفظ کو پاکستان میں "خاص" تناظر میں تضحیک کا نشانہ بنایا جاتاہے تو بات بالکل واضح ہوجاتی ہے۔ یعنی سنی مسلمانوں کے علما کو ملا کہنا تو تضحیک آمیز مشہور کرانا آپ کے لیے چٹخارے کا باعث ہوتا ہے اور بغض معاویہ کو مزید جلا بخشتا ہے لیکن یہی لفظ جب ایران میں یہی ذاکرین اور ایرانی فرقہ اپنےکسی عالم کے لیے استعمال کریں تو انتہائی ادب و احترام کے ساتھ اس کا ذکر کیا جاتاہے۔
یہی فرق اگر آپ کو سمجھ آگیا تو میری "ایران" دشمنی بھی آپ پر واضح ہوسکتی ہے۔


جعلی آئی ڈیز۔۔۔ نو کمنٹس
ایران میں مولوی کو ملا ہی کہتے ہیں۔ ذاکر کا لفظ صرف برصغیر میں مشہور ہے۔ آپ کو تعلیم کی شدید ضرورت ہے۔ شاعری جیسے موضوع سے آپ دور ہی رہیں تو بہتر ہے۔ سائنس پر دوبارہ توجہ مرکوز کریں۔ کہیں تو ریڈار منگوا دیتا ہوں؟
 

سین خے

محفلین
جعلی آئی ڈیز۔۔۔ نو کمنٹس

دلیل سے جواب دینا سیکھئے :) ذاتی حملے اور جھوٹی باتیں پھیلانے سے آپ خود اپنا موقف کمزور کرتے ہیں۔

ویسے allegation لگانے کے ساتھ ساتھ ثبوت بھی پیش کئے جاتے ہیں۔ لائیے نا کچھ میرے خلاف :) انتظار رہے گا :) کافی عرصے سے آپ کی اور کچھ اور احباب کی الزام تراشیاں اور بد تہذیبی (اور کچھ میرے پیٹھ پیچھے کی جانے والی باتیں جو مجھے خوش قسمتی سے معلوم ہو گئی ہیں) برداشت کر رہی ہوں۔ بہتر ہوگا کہ آپ اور دیگر احباب کوئی solid evidence لے ہی آئیے :)
 
آخری تدوین:
Top