ہم اپنے تئیں خود کو بہت بڑا شاعر سمجھتے تھے۔ یہاں آئے اور اصلاحِ سُخن کے دو چار چکر لگائے تو یقین مانیں بارہ پندرہ چکر آگئے۔ گرتے پڑتے بڑی مشکل سے اِصلاحِ سخن سے باہر آئے۔ گپ شپ میں آ کے گہری سانسیں لیں تو کچھ سانس بحال ہوئی۔ چائے خانہ میں جا کے چار کپ چائے پی تو کچھ جان میں جان آئی۔
وزن۔۔۔
فاعلن فعولن فععن فلان فلاں۔۔۔۔۔
ردیف۔۔۔۔
قافیے۔۔۔
اور تو اور کوئی نئی بات ہو۔۔کچھ مختلف ہونا چاہیے۔ لوجی بندہ پوچھے اس دنیا میں رہ کے کوہ کاف کی باتیں تو نہیں کرسکتے ناں!
یہاں پہ تو اساتذہ تکڑیاں لے کے بیٹھے ہیں۔
میں نے سوچا بہتر ہے کہ میں اپنا مجموعہ کلام چھپوا لوں بجائے اصلاحِ سخن میں چکر لگانے اور تکڑیوں ترازو کے چکر میں پھنسنے کے۔ بس جیسے ہی میری غزلوں کی تعداد دس ہوئی، مجموعہ کلام چھپنے کے لیے چلا جائے گا۔
پھر دیکھیے گا محفل کے کتب خانہ میں میری کتاب کی دھومیں ہوں گی۔ سب میرے آٹوگراف والی کتاب لینا چاہیں گے۔ میرے اشعار سے سب کے کیفیت نامے جگمگا رہے ہوں گے۔
روزمرہ کی باتیں لڑی میں سب یہی باتیں کر رہے ہوں گے۔
آپ نے پڑھا جاسمن کا مجموعہ دس غزلہ۔۔بھئی کیا بات ہے! واہ واہ!
میں بھی اپنی غزلوں کی تعداد پانچ ہونے پر ایسا ہی کرنے کا ارادہ رکھتی ہوں. :heehee:
 
ہم اپنے تئیں خود کو بہت بڑا شاعر سمجھتے تھے۔ یہاں آئے اور اصلاحِ سُخن کے دو چار چکر لگائے تو یقین مانیں بارہ پندرہ چکر آگئے۔ گرتے پڑتے بڑی مشکل سے اِصلاحِ سخن سے باہر آئے۔ گپ شپ میں آ کے گہری سانسیں لیں تو کچھ سانس بحال ہوئی۔ چائے خانہ میں جا کے چار کپ چائے پی تو کچھ جان میں جان آئی۔
وزن۔۔۔
فاعلن فعولن فععن فلان فلاں۔۔۔۔۔
ردیف۔۔۔۔
قافیے۔۔۔
اور تو اور کوئی نئی بات ہو۔۔کچھ مختلف ہونا چاہیے۔ لوجی بندہ پوچھے اس دنیا میں رہ کے کوہ کاف کی باتیں تو نہیں کرسکتے ناں!
یہاں پہ تو اساتذہ تکڑیاں لے کے بیٹھے ہیں۔
میں نے سوچا بہتر ہے کہ میں اپنا مجموعہ کلام چھپوا لوں بجائے اصلاحِ سخن میں چکر لگانے اور تکڑیوں ترازو کے چکر میں پھنسنے کے۔ بس جیسے ہی میری غزلوں کی تعداد دس ہوئی، مجموعہ کلام چھپنے کے لیے چلا جائے گا۔
پھر دیکھیے گا محفل کے کتب خانہ میں میری کتاب کی دھومیں ہوں گی۔ سب میرے آٹوگراف والی کتاب لینا چاہیں گے۔ میرے اشعار سے سب کے کیفیت نامے جگمگا رہے ہوں گے۔
روزمرہ کی باتیں لڑی میں سب یہی باتیں کر رہے ہوں گے۔
آپ نے پڑھا جاسمن کا مجموعہ دس غزلہ۔۔بھئی کیا بات ہے! واہ واہ!
تسی وی:eek:
 

اعجاز کریم

محفلین
اسلام و علیکم.
مجھے ایک سوال کا جواب ڈھونڈنا ھے کوئی مدد کرے. سوال ھے

*اسمٰعیل میرٹھی کو انگریزی حکومت نے ان کی ادبی خدمات کے سلسلے میں کون
سا خطاب دیا تھا؟*
 

فرقان احمد

محفلین
اسلام و علیکم.
مجھے ایک سوال کا جواب ڈھونڈنا ھے کوئی مدد کرے. سوال ھے

*اسمٰعیل میرٹھی کو انگریزی حکومت نے ان کی ادبی خدمات کے سلسلے میں کون
سا خطاب دیا تھا؟*
وعلیکم السلام!

جی ہاں! 'خان صاحب'کا!

نوٹ: یہ لڑی اس طرح کے مراسلہ جات کے لیے مختص نہیں ہے۔ مدیران سے گزارش ہے کہ اس مراسلے کو اور پچھلے مراسلے کو کسی مناسب لڑی میں منتقل کر دیا جائے۔ شکریہ!

ربط اول
ربط دوم
 
آخری تدوین:

رباب واسطی

محفلین
میں نے اردو محفل کے ہر زمرے اور ہر لڑی میں نہایت ہی مفید، دلچسپ اور معلوماتی مواد پڑھا لیکن مختلف محفلین کے کوائف ناموں میں صرف 140 حروف میں سمٹی بہت ہی قیمتی باتیں بھی پڑھیں۔ لیکن اس کے لیئے فرداً فرداً ہر محفلین کے زاتی صفحہ پر جانا پڑتا ہے
لہذا میری ناقص سوچ کے مطابق ایک لڑی ایسی بھی ہونی چاہیئے جہاں تمام محفلین کے کوائف نامے ایک ہی صفحہ پر پڑھنے کو ملیں
یہاں اپنے اپنے کوائف نامے درج کریں تاکہ ایک ہی صفحہ پر تمام محفلین کو اک دوسرے کے کوائف نامے پڑھنے کو ملیں
امید ہے کہ تمام محفلین اور اردو محفل انتظامیہ کا تعاون حاصل رہے گا
 
میں نے اردو محفل کے ہر زمرے اور ہر لڑی میں نہایت ہی مفید، دلچسپ اور معلوماتی مواد پڑھا لیکن مختلف محفلین کے کوائف ناموں میں صرف 140 حروف میں سمٹی بہت ہی قیمتی باتیں بھی پڑھیں۔ لیکن اس کے لیئے فرداً فرداً ہر محفلین کے زاتی صفحہ پر جانا پڑتا ہے
لہذا میری ناقص سوچ کے مطابق ایک لڑی ایسی بھی ہونی چاہیئے جہاں تمام محفلین کے کوائف نامے ایک ہی صفحہ پر پڑھنے کو ملیں
یہاں اپنے اپنے کوائف نامے درج کریں تاکہ ایک ہی صفحہ پر تمام محفلین کو اک دوسرے کے کوائف نامے پڑھنے کو ملیں
امید ہے کہ تمام محفلین اور اردو محفل انتظامیہ کا تعاون حاصل رہے گا
یہ لڑی اسی مقصد کے لیے موجود ہے۔ :)
 
8 اکتوبر 2005ء
قیامت خیز زلزلے کو 13 سال گزر گئے۔ مگر اس کی افسوسناک یادیں ابھی تک دلوں پر نقش ہیں۔
یونیورسٹی میں ہفتہ کے روز چھٹی ہونے کی وجہ سے سحری کے بعد سو رہا تھا۔ اور وہ بھی آئی ایٹ ون کے فلیٹ کی چوتھی منزل پر۔
کہ اچانک جھنجھوڑ دینے والے زلزلہ سے آنکھ کھلی۔ فلیٹ جھول رہا تھا۔ سامنے رکھی کمپیوٹر ٹیبل کے اوپر والے ریک میں رکھی سینٹ کی شیشیاں ایک ایک کر کے گر رہی تھیں۔ ساتھ والے کمرہ میں بھائی تھا۔ یہ فلیٹ ہم نے کرایہ پر لیا ہوا تھا۔ باقی گھر والی اس سے نچلی فلور پر موجود تھے۔ بھائی کی آواز آئی کہ اٹھنا نہیں ہے۔ اٹھ بھی کیسے سکتا تھا۔ کلمہ کا ورد جاری تھا۔ پہلا زلزلہ ہی اتنی دیر تک جاری رہا کہ خبر آنے کی وجہ سے بھائی کو کراچی سے کزن کا فون تک آ گیا اور زلزلہ جاری تھا۔جھٹکا تھما تو نیچے دوڑ لگائی۔ تمام آئی ایٹ باہر آ چکا تھا۔ سب سہمے ہوئے اور کچھ نہ کچھ ورد کرنے میں مگن تھے۔ پھر کسی نے آ کر بتایا کہ ایف ٹین میں مارگلہ ٹاور گر گیا ہے۔ تو تشویش بڑھ گئی کہ اور پتہ نہیں کیا نقصان ہوا ہو۔
ٹی وی پر ہر طرف مارگلہ ٹاور تھا۔ ڈرتے ڈرتے گھروں کو واپس ہوئے۔ پھر دن بھر ہلکے، تیز جھٹکے آتے رہے، اور اوپر نیچے آنے جانے کا سلسلہ جاری رہا۔ یہاں تک کے کچھ فلیٹ والوں نے تو اگلی رات سامنے گراؤنڈ میں ٹینٹ لگا کر گزاری۔
بالاکوٹ، گڑھی شاہو، آزاد کشمیر سے ہولناک خبریں تو دوپہر کے بعد ملنا شروع ہوئیں، کہ ان علاقوں سے تو رابطہ ہی ممکن نہ رہا تھا۔ اگلے دن ہی اسلام آباد کے ہسپتالوں میں زخمی پہنچنا شروع ہو گئے تھے۔ یہاں سے پاکستان کی تاریخ میں چیریٹی کا ایک نیا باب دیکھنے کا موقع ملا۔ ہم نے جگہ جگہ امدادی کیمپ لگا دیے تھے۔ اور جو جتنا کر سکتا تھا، اتنا اس کارِ خیر میں حصہ ڈال رہا تھا۔ بچوں کو اپنی پاکٹ منی جمع کرواتے دیکھا۔ یہاں تک کے بھکاریوں کو چندہ جمع کرواتے دیکھا۔ لوگ آ کر پوچھتے تھے، کہ وہاں کس چیز کی ضرورت ہے، اور پھر وافر مقدار میں بھیج دیتے تھے۔
دن میں محلہ میں لگے کیمپ میں ڈیوٹی، رات کو پمز ہسپتال کے باہر ڈیوٹی۔ ہسپتال کے باہر زخمیوں کے لواحقین موجود تھے۔ ان کے لیے کپڑوں، کمبلوں، سویٹروں کا اہتمام۔لوگ یوں معلوم ہوتا تھا کہ کمبلوں اور سویٹروں کی دکانیں خرید کر چھوڑ کر جا رہے ہیں۔ افطاری، سحری میں بغیر کسی اپیل کے لوگ دیگوں کی دیگیں بھیج رہے تھے۔ ہم لوگ وارڈ ٹو وارڈ جا کر دوائیوں کی ریکوائرمنٹ لکھ لاتے تھے، اور کوئی بھی فرد آتا تھا، اور پوچھتا تھا کہ میں کیا کر سکتا ہوں؟ اس کو دوائیوں کی فہرست پکڑا دیتے، اور کچھ ہی دیر میں وہ دوائیاں ضرورت سے زائد مقدار میں پہنچ جاتی تھیں، جو ہم متعلقہ مریضوں تک پہنچا دیتے تھے۔ پورا شہر ایک ادارہ بنا ہوا تھا۔ کیا ملکی، کیا غیر ملکی، کیا بوڑھے، کیا بچے، کیا خواتین، کیا مرد، پورا اسلام آباد اپنا حصہ اس کارِ خیر میں ڈالنا چاہتا تھا۔ اسلام آباد میں عارضی بستیاں بھی بسائی گئیں۔ وہاں بھی کیمپ لگے اور بہت منظم انداز سے تمام اداروں، بشمول حکومتی اداروں نے مل کر تمام انتظام و انصرام چلایا۔
تقریباً روز ہی اشیائے خورد و نوش ، کپڑے اور کمبل، گدے وغیرہ متاثرہ علاقوں میں بھیجے جا رہے تھے۔ عید کے موقع پر ہم نے فیصلہ کیا کہ عید متاثرین کے ساتھ منائی جائے۔مختلف ٹیمیں تشکیل دیں۔ میں نے عید باغ آزاد کشمیر میں گزاری۔ وہاں جو کچھ آنکھوں نے دیکھا، اور تمام حسیات نے محسوس کیا، وہ بیان سے باہر ہے۔ آج بھی جھرجھری آ جاتی ہے۔ ملبے کا بڑا ڈھیر ترپالوں سے ڈھانپا گیا ہے۔ پوچھنے پر معلوم ہوتا ہے کہ بچیوں کا سکول تھا، اتنی بچیاں اندر ہی دفن ہیں۔ مزید کسی ڈھیر کا پوچھنے کی ہمت نہیں ہوئی۔ وہاں شاید ہی کوئی فرد ہو، جس کے خاندان میں ایک سے زائد شہادتیں نہ ہوئی ہوں۔
اللہ تعالیٰ اس آفت میں شہید ہونے والوں کی مغفرت فرمائے۔ اور درجات بلند فرمائے۔ آمین۔
 
Top