تخلیق یا ارتقاء

نبیل

تکنیکی معاون
دنیا بھر کے سائنس کے نصابوں میں نظریہ ارتقاء کے اسباق شامل ہیں۔ یہ نظریہ چارلس ڈارون کی تحقیق پر مبنی ہے جس کی تشریح کی رو سے زندگی کی تمام شکلیں کسی نہ کسی بنیادی حیاتی اکائی کے ارتقاء سے وجود میں آئی ہیں۔ اس طرح انسان جوکہ ارتقاء کی تکمیل ہے، غالباً بن مانس کی جینز کی mutation کے نتیجے میں بنا ہے۔ نظریہ ارتقاء اپنے آغاز سے ہی تنازعے کا شکار ہے اور اسی وقت سے نظریہ ارتقاء اور نظریہ تخلیق (creationism) کے ماننے والوں میں نظریاتی جنگ جاری ہے۔ اگر آج کے دور میں medieval زمانے کے گرجا کا راج ہوتا تو اس نے گیلیلیو کی طرح کب کا ڈارون کو ٹھکانے بھی لگا دیا ہوتا۔ لیکن آج کے دور میں کلیسا کو کونے میں لگا کر نصاب میں نظریہ ارتقاء کے اسباق پڑھائے جا رہے ہیں۔ اس کے باوجود تخلیق کے ماننے والوں نے ارتقاء کے خلاف اپنی جنگ ہمیشہ جاری رکھی ہے۔ نظریہ تخلیق، یعنی یہ کہ زندگی کی ہر شکل اپنی مکمل صورت میں پیدا کی گئی، اگرچہ آسمانی کتب کے متن سے مطابقت رکھتا ہے لیکن اسے سائنس سے ثابت نہیں کیا جا سکتا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ ابھی تک نظریہ ارتقاء بھی سائنس کے ذریعے ثابت نہیں کیا جا سکا ہے۔ سائنسدانوں کا ہمیشہ خیال رہا ہے کہ انسان اور بن مانس کے DNA میں بہت ہی معمولی فرق ہے۔ کچھ ہی دنوں پہلے کی ریسرچ کے مطابق انسان اور بن مانس کے DNA ایک دوسرے سے 80 فیصد مختلف ہیں۔

حالیہ دنوں میں امریکہ کی ایک عدالت نے جب فیصلہ دیا کہ سکولوں کے نصاب میں ارتقاء کے ساتھ ساتھ متبادل نظریے کے طور پر ذہین ڈیزائن کا نظریہ ( Intelligent Design Theory) نہیں پڑھایا جا سکتا تو میری توجہ اس نظریے کی جانب مبذول ہوئی۔ ذہین ڈیزائن کے نظریہ کے مطابق ا س کائنات کے کئی پہلو ایک اعلی و ارفع ہستی کا پتا دیتے ہیں کیونکہ اس قدر پیچیدہ اور منظم جزئیات کسی خودکار ارتقاء کے مکینزم کے تحت وجود میں نہیں آسکتی۔ اگرچہ ذہین ڈیزائن کے ماننے والوں کے نزدیک یہ نظریہ بھی سائنٹفک بنیادوں پر قائم ہے لیکن سائنسی کمیونٹی اسے نظریہ تخلیق کی ہی ایک کیموفلاجڈ شکل مانتے ہیں۔

نظریہ جو بھی ٹھیک ہو، ہم تو وہی پڑھتے رہیں گے جو ہمارے نصاب میں شامل کر دیا جائے گا۔

متعلقہ روابط:

Intelligent Design
 

دوست

محفلین
نظریہ ارتقاء واقعی ایک فریب ہے اور ارتقاء پسندوں نے اسے ایک سائنسی تسلیم شدہ نظریہ بنانے کے لیے کئی ایک جعل سازیاں بھی کیں جو کہ آن دی ریکارڈ ہیں پھر بھی جب تک اس کا متبادل سامنے نہیں آجاتا ہم اسے ٹھیک کہنے پر مجبور ہیں(سائنسی لحاظ سے)۔ اگرچہ ذہین ڈیزائن کا نظریہ موجود ہے مگر اس کے حامیوں کا ایک ہی مقصد ہے کہ نظریہ ارتقاء کو جھوٹا ثابت کیا جائے اور بس۔ مگر اس طریقہ سے متبادل تو نہیں وجود میں آسکتا۔
اس ضمن میں جدید مسلم سکالرز میں سے ایک ترکی کے ہارون یحیٰی ہیں جن کاسانئس کے میدان میں آنے کا مقصد ہی یہ ہے کہ نظریہ ارتقاء جھوٹا ہے ان کی ہر کتاب کے ساتھ(تقریبًا) نظریہ ارتقاء کے رد کا ضمیمہ شامل ہوتا ہے ۔ تاہم انھوں نے اور بھی کئی اطراف قابل قدر کام کیا ہے جیسے تباہ شدہ اقوام بارے تحقیقات جنکا ذکر قرآن میں کیا گیا ہے۔
 

اظہرالحق

محفلین
بھائی ڈارون کے اپنے الفاظ ہیں کہ اگر ارتقائی منازل کے درمیانی ثبوت حاصل نہ ہوں تو سب کچھ غلط ہے ۔ ۔ ۔

رہی بات ۔ ۔ ۔ ذہین ڈیزائن کی تھیوری کی تو ۔ ۔ ۔ وہ اصل سائنس کی ماہیت کو بدل نہیں سکتی ۔ ۔ ۔ جیسے اگر زمین پر ایک اصول ہے تو وہ ہی اصول پلوٹو پر بھی ہو گا ۔ ۔ ۔
 

T NAZ malik

محفلین
ڈارون نے ایک غیر تصدیق شدہ مفروضہ پیش کیا تھا اس نے وہی لکھا جو اس کی سوچ تھی
اب ایک انسان کی سوچ حقیقت تو نہیں بن سکتی
جب کے ہمیں اللہ تعالی نے قرآن میں سب باتوں کا جواب دیا ہے اور ہم ایک انسان کی سوچ کو لے کر 2 سو سال سے بحث کیے جا رہے ہیں
 

دوست

محفلین
نظریہ ارتقاء واقعی ایک فریب ہے اور ارتقاء پسندوں نے اسے ایک سائنسی تسلیم شدہ نظریہ بنانے کے لیے کئی ایک جعل سازیاں بھی کیں جو کہ آن دی ریکارڈ ہیں پھر بھی جب تک اس کا متبادل سامنے نہیں آجاتا ہم اسے ٹھیک کہنے پر مجبور ہیں(سائنسی لحاظ سے)۔ اگرچہ ذہین ڈیزائن کا نظریہ موجود ہے مگر اس کے حامیوں کا ایک ہی مقصد ہے کہ نظریہ ارتقاء کو جھوٹا ثابت کیا جائے اور بس۔ مگر اس طریقہ سے متبادل تو نہیں وجود میں آسکتا۔
اس ضمن میں جدید مسلم سکالرز میں سے ایک ترکی کے ہارون یحیٰی ہیں جن کاسانئس کے میدان میں آنے کا مقصد ہی یہ ہے کہ نظریہ ارتقاء جھوٹا ہے ان کی ہر کتاب کے ساتھ(تقریبًا) نظریہ ارتقاء کے رد کا ضمیمہ شامل ہوتا ہے ۔ تاہم انھوں نے اور بھی کئی اطراف قابل قدر کام کیا ہے جیسے تباہ شدہ اقوام بارے تحقیقات جنکا ذکر قرآن میں کیا گیا ہے۔
لگ بھگ 13 برس پرانی تحریر سے اعلانِ برأت تو نہیں، البتہ ارتقاء کی مذہب کی بنیاد پر مخالفت ایک سعیِ لاحاصل ہے۔ اور ہارون یحیٰی، یہ حضرت حسیناؤں کے جلو میں ٹی وی پروگرام کرنے کے لیے مشہور ہیں۔ شواہد کے لیے گوگل پر تلاش کی جا سکتی ہے۔ ان کی قابلیت اپنی جگہ، لیکن ان کے خیالات پر اعتبار کم ہوتا ہے اب۔
 

زیک

مسافر
لگ بھگ 13 برس پرانی تحریر سے اعلانِ برأت تو نہیں، البتہ ارتقاء کی مذہب کی بنیاد پر مخالفت ایک سعیِ لاحاصل ہے۔ اور ہارون یحیٰی، یہ حضرت حسیناؤں کے جلو میں ٹی وی پروگرام کرنے کے لیے مشہور ہیں۔ شواہد کے لیے گوگل پر تلاش کی جا سکتی ہے۔ ان کی قابلیت اپنی جگہ، لیکن ان کے خیالات پر اعتبار کم ہوتا ہے اب۔
دلچسپ
 

آصف اثر

معطل
بن مانس اور انسان کے ڈی این اے کی 80، 90 فیصد یکسانیت والی کہانیاں اب دم تھوڑ چکی ہیں۔ صرف 2٪ ڈی این اےکی بنیاد پر انسان کو بن مانس کا رشتہ دار کہنا ناواقفیت پر دلالت کرتاہے۔ باقی 98 فیصد ”ڈارک ڈی این اے“ کے متعلق ہمیں چند باتوں کے ماسوا کچھ علم نہیں۔
جن احباب کے خیال میں صرف مذہب کی بنیاد پر ارتقا کی مخالفت درست نہیں تو صرف مذہب دشمنی کی بنیاد پر ارتقا کی حمایت بھی اسی زمرے کی پیداوار ہے۔ ارتقا کے مفروضے کو تخلیق پرستی کے خلاف ایک مضبوط ہتھیار کے طور پر استعمال کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔
کوئی بھی مسلمان قرآن کی ان آیات کے بعد خود کو بندر کا رشتہ دار کہلانے پر ذرا برابر یقین نہیں رکھ سکتا۔
لَقَدْ خَلَقْنَا الْاِنْسَانَ فِىٓ اَحْسَنِ تَقْوِيْمٍ (4)
بے شک ہم نے انسان کو بڑے عمدہ انداز میں پیدا کیا ہے۔ سورۃ التین

وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْاِنْسَ اِلَّا لِيَعْبُدُوْنِ (56)
اور میں نے جن اور انسان کو تخلیق کیا ہے تو صرف اپنی بندگی کے لیے۔

خَلَقَ الْاِنْسَانَ مِنْ صَلْصَالٍ كَالْفَخَّارِ (14)
اس نے انسان کو ٹھیکری کی طرح بجتی ہوئی مٹی سے پیدا کیا۔

وَخَلَقَ الْجَآنَّ مِنْ مَّارِجٍ مِّنْ نَّارٍ (15)
اور اس نے جنوں کو آگ کے شعلے سے پیدا کیا۔


 
آخری تدوین:

زیک

مسافر
محفل پر تیرہ سال ان مباحث سے میں اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ پاکستانی سکولوں، کالجوں اور یونیورسٹیوں میں حیاتیات کی تعلیم کا انتہائی برا حال ہے
 

آصف اثر

معطل
وَقَالُوٓا ءَاِذَا كُنَّا عِظَامًا وَّرُفَاتًا ءَاِنَّا لَمَبْعُوْثُوْنَ خَلْقًا جَدِيْدًا (49)
اور کہتے ہیں کیا جب ہم ہڈیاں اور چورا ہو جائیں گے پھر نئے بن کر اٹھیں گے۔

قَالَ ءَاَسْجُدُ لِمَنْ خَلَقْتَ طِيْنًا
کہا کیا میں ایسے شخص کو سجدہ کروں جسے تو نے مٹی سے تخلیق کیا ہے۔
 
آخری تدوین:

آصف اثر

معطل
جن ممالک میں اسکولوں، کالجوں اور یونیورسٹیوں میں ڈاروِن جیسے پروفیسر اسٹوڈنٹس کو حیاتیات اور ارتقا میں فرق نہ سمجھا سکتے ہوں وہاں جہالت کتنی عروج پر ہوگی۔
 

آصف اثر

معطل
وَفَضَّلْنَاهُمْ عَلٰى كَثِيْرٍ مِّمَّنْ خَلَقْنَا تَفْضِيْلًا
اور اپنی بہت سی مخلوق-ات پر انہیں فضیلت عطا کی۔

وَلَقَدْ خَلَقْنَاكُمْ ثُمَّ صَوَّرْنَاكُمْ ثُمَّ قُلْنَا لِلْمَلَآئِكَةِ اسْجُدُوْا لِاٰدَمَۖ
ور ہم نے تمہیں پیدا کیا پھر تمہاری صورتیں بنائیں پھر فرشتوں کو حکم دیا کہ آدم کو سجدہ کرو،
 

عرفان سعید

محفلین
گو اس کا اختیار ہر ایک کے پاس ہے، منفی ریٹنگ سے دل کا غبار تو نکالا جا سکتا ہے لیکن نہ تو اس سے اپنی بات مضبوط ہوتی ہے اور نہ دوسرے کا نقطۂ نظر کمزور پڑتا ہے۔ اچھی علمی بحث کے لیے اپنی بات میں وزن پیدا کرنے پر توجہ مرکوز رہے تو ارتقائی بحث ہو سکتی ہے۔ دلچسپ موضوع ہے۔ میری شدید خواہش ہے کہ یہ کسی تعصب کی نذر نہ ہو جائے۔
 

عرفان سعید

محفلین
یہی تو مسئلہ ہے کہ محفل پر دنیا کے سب سے بڑے ”سائنسی دان“ بیٹھے ہوئے ہیں جو دلیل کے بجائے زبان نکالنا زیادہ پسند کرتے ہیں۔ یہ سب والدین اور اساتذہ کی تربیت کا ”فیضان“ ہوتاہے۔
اس بات کی خوشی ہے کہ میری رائے سے آپ متفق ہیں۔
لیکن پیارے بھائی، جو بات میں بتانا چاہ رہا ہوں آپ اس کے برعکس کس پیرائے میں اس کا اظہار کر رہے ہیں؟
آپ اچھے بھلے سمجھدار اور باعلم انسان ہیں، آپ خود ہی بتائیے کائنات کے خالق کے اس بے مثال تخلیقی شاہکار، انسان، کا کیا یہ مقام ہونا چاہیے؟ تہذیب و شائستگی کے آداب ملاحظہ رکھیں اور اپنے نقطہ نظر کے اعلی ترین ابلاغ پر اپنی توانائیاں صرف کریں۔ اور آپ اپنی انتہائی کوشش بھی کر دیکھیں تو تمام انسانوں کو ایک نقطے پر جمع کرنا ممکن نہیں ہے۔ اختلافِ رائے انسانیت کا حسن ہے اس کی قدر کریں۔
میری باتوں کو تنقید کے بجائے مودبانہ گزارشات سمجھیں۔ بہت شکریہ
 
Top