فرحت کیانی

لائبریرین
میرے دوستو! قابلِ رحم ہے وہ قوم جس کے پاس عقیدے تو بہت ہیں لیکن
دل یقین سے خالی ہے!
قابلِ رحم ہے وہ قوم جو ایسے کپڑے پہنتی ہے جن کو اس نے خود نہیں بنایا
جو ایسی روٹی کھاتی ہے جس کے لئے اس نے خود گندم نہیں اگائی!
اور ایسی شراب پیتی ہے جو اسکے اپنے میخانوں میں نہیں بنی!
قابلِ رحم ہے وہ قوم جو بھڑکیں لگانے والوں کو اپنا ہیرو مان لیتی ہے
اور چمکتی ہوئی تلوار سے بنے ٹھنے فاتح کو اپنا اَن داتا سمجھتی ہے!
قابل۔ رحم ہے وہ قوم جو بظاہر خواب کی حالت میں بھی ہوس اور لالچ سے نفرت کرتی ہے!
مگر عالمِ بیداری میں مفاد پرستی کو اپنا شعار بنا لیتی ہے!
قابلِ رحم ہے وہ قوم جو جنازوں کے جلوس کے علاوہ کہیں اپنی آواز بلند نہیں کرتی اور اپنے ماضی کی یادوں کے سوا اس کے پاس فخر کرنے کا کائی سامان نہیں!
اور وہ اس وقت تک صورتحال کے خلاف احتجاج نہیں کرتی جب تک اس کی گردن عین تلوار کے نیچے نہیں آ جاتی!
قابلِ رحم ہے وہ قوم جس کے نام نہاد سیاستدان لومڑیوں کی طرح مکار اور دھوکےباز ہیں
اور جس کے دانشور محض شعبدہ باز اور مداری!
اور جس کے فنون کا عالم یہ ہے جیسے مسخروں کی جگت بازیاں اور بھانڈوں کی نقلیں!
قابلِ رحم ہے وہ قوم جو اپنے نئے حکمرانوں کے راستے میں استقبال کے ہار لئے کھڑی ہوتی ہے
اور ڈھول بجا کر ان کو خوش آمدید کہتی ہے
اور جب وہ اقتدار سے محروم ہوں، ان پر آوازے کستی ہے اور ان کا تمسخر اڑاتی ہے
اور عین اس وقت بھی اس بات پر آمادہ ہوتی ہے کہ جب یہ اقتدار سے محروم ہوں تو نئے آنے والوں کی پذیرائی کے لئے بینڈ باجے تیار رکھے!
قابلِ رحم ہے وہ قوم جس کے اہلِ علم و دانش وقت کی گردش میں گونگے اور بہرے ہو کر رہ گئے ہیں!
اور جس کے مردانِ جری نے ابھی گھٹنوں کے بل چلنا بھی نہیں سیکھا
اور قابلِ رحم ہے وہ قوم جو ٹکڑوں اور قومیتوں میں بٹ چکی ہے اور جس کا ہر طبقہ اپنے آپ کو پوری قوم سمجھتا ہے

خلیل جبران
 
Top