509.jpg
مجھے لگتا ہیے یہ پی ایس ایل کا فائنل ہو رہا جس میں کامران اکمل نے کیچ مس کر دیا یقین نہیں تو کیپر کی پوزیشن چیک کر لیں
 

سین خے

محفلین
ویسے مجھے تو اس خاتون سے ہمدردی ہو رہی ہے جو شادی کی وجہ سے اپنے ارمان پورے نہیں کر سکی، شادی کے بعد شوہروں کو بیویوں سے تعلیم کے معاملے میں تعاون کرنا چاہئے ۔

آپ کی بات ٹھیک ہے لئیق بھائی پر انجنئیرنگ جیسی مشکل پڑھائی لڑکیاں شادی کے بعد نہیں کر سکتیں۔ یا تو شوہر ہر کام کے لئے نوکر چاکر رکھ کر دے اور یہ صرف اسی وقت ہی ممکن ہے جب پیسے کا مسئلہ نہ ہو۔ ایسا صرف امیر گھرانوں میں ہی ممکن ہے۔ دوسری بات بہت جگہ پر جوائنٹ فیملی سسٹم بھی ہوتا ہے اور ایسی صورت میں سسرالیوں کے تعاون کو بھی مدنظر رکھنا پڑتا ہے۔

شادی کے بعد بی اے، بی ایس سی تو کیا جا سکتا ہے پر انجنئیرنگ یا میڈیکل کی پڑھائی کافی مشکل ہو جاتی ہے۔
 

سین خے

محفلین
اس مراسلے پر ہنسنا بالکل بھی منع نہیں ہے :rolleyes:

ایک بچے کو میں نے "میرے پسندیدہ استاد" پر پیراگراف لکھنے کو دیا۔ اس نے اصرار کیا کہ مجھ پر لکھے گا۔ میں بڑی خوش ہوئی۔

اس نے کچھ ایسا لکھا

میری پسندیدہ استانی مس سائرہ ہیں۔ میں ان سے ٹیوشن پڑھنے جاتا ہوں۔ مجھے وہ اس لئے پسند ہیں کیونکہ مجھے ان سے بالکل ڈر نہیں لگتا ہے۔ ان کو بیوقوف بنانا بہت آسان ہے۔ وہ ہمارے ہر جھوٹ پر یقین کر لیتی ہیں۔ میں اگر ان سے کہوں کہ میں بیمار ہوں تو بہت پریشان ہو جاتی ہیں اور میری امی کو فون کرتی ہیں۔ جب تک میری امی نہیں آتی ہیں پھر وہ جب تک مجھے نہیں پڑھاتی ہیں۔ وہ خود کبھی بھی اکیلے اکیلے نہیں کھاتی پیتی ہیں بلکہ ہمیں بھی کھلاتی ہیں۔ ہمیں ڈانٹتی بھی نہیں ہیں اور نہ ہی مارتی ہیں۔ اگر ہم کہیں کہ ہم تھک رہے ہیں تو ہماری ڈائیگرام بھی بنا دیتی ہیں۔ ہمیں ایکٹیویٹیز بھی کرواتی ہیں۔ ہمیں ان کے ساتھ بہت مزہ آتا ہے۔

یہ پڑھ کر میری کافی حالت خراب ہوئی۔ میں نے اس سے پوچھا کہ واقعی تمھیں مجھ سے ڈر نہیں لگتا تو اس نے جواب میں اپنے ٹوٹے ہوئے دانتوں کی بتیسی نکال کر نہیں میں سر ہلا دیا۔ پھر میں نے پوچھا کہ تم مجھ سے بہانے بناتے ہو تو اس نے جلدی سے سر ہاں میں ہلا دیا۔ :unsure:

اس کے بڑے بھائی نے کہا مس یہ تو گھر جا کر آپ کی نقل بھی اتارتا ہے۔ پھر میں نے باقی سب سے بھی پوچھا کہ واقعی کسی کو ڈر نہیں لگتا تو سب جواب میں "ہے ہے ہے" کرتے رہے۔ :cry:

اس دن مجھے پتا چلا کہ میں آٹھ سال کے بچے کے ہاتھوں تقریباً روزانہ بیوقوف بنتی ہوں اور مجھے ایک دن بھی اس بات کا اندازہ نہیں ہو سکا۔ :cry2:
 
اس مراسلے پر ہنسنا بالکل بھی منع نہیں ہے :rolleyes:

ایک بچے کو میں نے "میرے پسندیدہ استاد" پر پیراگراف لکھنے کو دیا۔ اس نے اصرار کیا کہ مجھ پر لکھے گا۔ میں بڑی خوش ہوئی۔

اس نے کچھ ایسا لکھا

میری پسندیدہ استانی مس سائرہ ہیں۔ میں ان سے ٹیوشن پڑھنے جاتا ہوں۔ مجھے وہ اس لئے پسند ہیں کیونکہ مجھے ان سے بالکل ڈر نہیں لگتا ہے۔ ان کو بیوقوف بنانا بہت آسان ہے۔ وہ ہمارے ہر جھوٹ پر یقین کر لیتی ہیں۔ میں اگر ان سے کہوں کہ میں بیمار ہوں تو بہت پریشان ہو جاتی ہیں اور میری امی کو فون کرتی ہیں۔ جب تک میری امی نہیں آتی ہیں پھر وہ جب تک مجھے نہیں پڑھاتی ہیں۔ وہ خود کبھی بھی اکیلے اکیلے نہیں کھاتی پیتی ہیں بلکہ ہمیں بھی کھلاتی ہیں۔ ہمیں ڈانٹتی بھی نہیں ہیں اور نہ ہی مارتی ہیں۔ اگر ہم کہیں کہ ہم تھک رہے ہیں تو ہماری ڈائیگرام بھی بنا دیتی ہیں۔ ہمیں ایکٹیویٹیز بھی کرواتی ہیں۔ ہمیں ان کے ساتھ بہت مزہ آتا ہے۔

یہ پڑھ کر میری کافی حالت خراب ہوئی۔ میں نے اس سے پوچھا کہ واقعی تمھیں مجھ سے ڈر نہیں لگتا تو اس نے جواب میں اپنے ٹوٹے ہوئے دانتوں کی بتیسی نکال کر نہیں میں سر ہلا دیا۔ پھر میں نے پوچھا کہ تم مجھ سے بہانے بناتے ہو تو اس نے جلدی سے سر ہاں میں ہلا دیا۔ :unsure:

اس کے بڑے بھائی نے کہا مس یہ تو گھر جا کر آپ کی نقل بھی اتارتا ہے۔ پھر میں نے باقی سب سے بھی پوچھا کہ واقعی کسی کو ڈر نہیں لگتا تو سب جواب میں "ہے ہے ہے" کرتے رہے۔ :cry:

اس دن مجھے پتا چلا کہ میں آٹھ سال کے بچے کے ہاتھوں تقریباً روزانہ بیوقوف بنتی ہوں اور مجھے ایک دن بھی اس بات کا اندازہ نہیں ہو سکا۔ :cry2:
باقی تو سب ٹھیک ہے۔ لیکن ایک استاد ہونے کی حیثیت سے میرا تجربہ تو یہ ہے کہ میں بسا اوقات سب کچھ جانتے بوجھتے بھی بچوں کے سامنے انجان بن جاتا ہوں اور وہ خوش ہو جاتے ہیں کہ واہ! استاد کو پتہ ہی نہیں چلا۔:)
میرے نزدیک بعض اوقات بچے کی غلطی کو نظر انداز کرنا مناسب ہوتا ہے۔
اور میرے خیال میں اکثر اساتذہ بچے کی "دو نمبریوں" کو بخوبی سمجھ جاتے ہیں لیکن بچوں کی رعایت سے نظر انداز کرتے ہیں۔
 
یہ ہمارے سیکنڈ ائیر کا واقعہ ہے۔
ہمارے کیمسٹری کے لیکچرار چند دن کی چھٹی پر گئے اور اپنی جگہ کسی اور لیکچرار کا بندوبست کر گئے ۔ متبادل لیکچرار پڑھانے کے لئے آئے، ان کے ساتھ ایک عجیب مسئلہ تھا کہ جب وہ بات کرتے تو ان کا پیٹ مدھانی کی طرح دائیں بائیں حرکت کرتا تھا، ہم لوگ اس وقت ٹین ایجر تھے ان کے پیٹ کی حرکت دیکھ کر باربار ہماری ہنسی چھوٹ جاتی ۔ لیکچرار صاحب نے ہماری ہنسی دیکھ کر ہمیں سختی سے ڈانٹا اور ہنسنے سے منع کیا اور ہم نے بھی نہ ہنسنے کا مصمم ارادہ کر لیا ۔ مگر جب لیکچرار صاحب نے پڑھانا شروع کیا تو ان کے پیٹ نے پھر مدھانی کے انداز میں حرکت شروع کر دی، کچھ دیر تک تو ہم ضبط کرتے رہے پھر ایک دم سب کی ہنسی فوارے کی طرح پھوٹ پڑی اور لیکچرار صاحب ناراض ہو کر کلاس چھوڑ کر چلے گئے ۔
لئیق احمد بھائی جان ،آپ والا ٹیچرتوپھربھی رحم والا تھا ،سوائے تھوڑا موٹا ہونے کے علاوہ اس میں کوئی برائی نہیں تھی بلکہ لاکھوں میں ایک تھا ۔ ہمارا ٹیچر تو بات بات پر ڈیریکٹ مرغا بنادیا کرتا تھا اور کتاب کاپیوں سے بھرا بیگ کمر پر رکھ دیتا تھا۔اگر آپ پہلے بتاتے تو میں آپ سے Teacher Swaping کرتا ۔ پھر مزا آجاتا قسم سے!
 

سین خے

محفلین
باقی تو سب ٹھیک ہے۔ لیکن ایک استاد ہونے کی حیثیت سے میرا تجربہ تو یہ ہے کہ میں بسا اوقات سب کچھ جانتے بوجھتے بھی بچوں کے سامنے انجان بن جاتا ہوں اور وہ خوش ہو جاتے ہیں کہ واہ! استاد کو پتہ ہی نہیں چلا۔:)
میرے نزدیک بعض اوقات بچے کی غلطی کو نظر انداز کرنا مناسب ہوتا ہے۔
اور میرے خیال میں اکثر اساتذہ بچے کی "دو نمبریوں" کو بخوبی سمجھ جاتے ہیں لیکن بچوں کی رعایت سے نظر انداز کرتے ہیں۔

جی زیادہ تر تو میں بھی بچوں کے جھوٹ اور بہانے بازیاں سمجھ جاتی ہوں اور آپ کی طرح اگنور بھی کر دیتی ہوں :) پر اس بچے کے ہاتھوں میں واقعی بیوقوف بن گئی تھی۔ وہ ایکٹنگ ہی بیماری کی اتنی ذبردست کرتا تھا۔ آنسو بھی نکال لیتا تھا اور میں گھبرا جاتی تھی :)
 

سید عمران

محفلین
آپ کی بات ٹھیک ہے لئیق بھائی پر انجنئیرنگ جیسی مشکل پڑھائی لڑکیاں شادی کے بعد نہیں کر سکتیں۔ یا تو شوہر ہر کام کے لئے نوکر چاکر رکھ کر دے اور یہ صرف اسی وقت ہی ممکن ہے جب پیسے کا مسئلہ نہ ہو۔ ایسا صرف امیر گھرانوں میں ہی ممکن ہے۔ دوسری بات بہت جگہ پر جوائنٹ فیملی سسٹم بھی ہوتا ہے اور ایسی صورت میں سسرالیوں کے تعاون کو بھی مدنظر رکھنا پڑتا ہے۔

شادی کے بعد بی اے، بی ایس سی تو کیا جا سکتا ہے پر انجنئیرنگ یا میڈیکل کی پڑھائی کافی مشکل ہو جاتی ہے۔
اور بچہ جو ہر وقت ماں کی آغوش، محبت اور توجہ کا محتاج ہوتا ہے تو اس کمی کو کیسے پورا کیا جاسکے گا؟؟؟
 
میں نے اپنے ایک اسٹوڈنٹ کو بقرعید سے دو دن پہلے سارے tenses جتنے میں نے پڑھائے تھے، ریوائز کروائے۔ پھر اسے ایک ٹاسک دیا کہ ہر tense کا مجھے ایک جملہ بنا کر دکھائے ۔ اس نے یہ جملے بنائے۔

I go to bakramandi.
I am going to bakramandi.
I have gone to bakramandi.

I went to bakramandi yesterday.
I was going to bakramandi.
I had gone to bakramandi when my father came home.

I will go to bakramandi at 10 p.m
I will be going to bakramandi tonight.
I will have gone to bakramandi by the time my father comes home.

میں نے اس سے پوچھا کہ بکرا منڈی کے علاوہ دماغ میں کوئی بات ہے؟ اس نے کہا نہیں۔ پھر میں نے اسے چھٹی ہی دے دی۔
زور کس پہ ہوا ' بکرا منڈی پر' ۔ آپ کے اشٹوڈنٹ کو خواب میں بھی بکرا منڈی نظر آتا ہوگا ، آپی۔ کہیں پچھلے جنم میں وہ کوئی بکرا تو نہیں تھا !
 
کلاس سکس میں ہمارا ٹیچر ایک روز مرنے کے بعد جسمانی اعضا کو عطیہ دینے کے بارے میں خوب زور دے رہے تھے اورساتھ میں اپنی تعریف بھی کررہے تھے کہ میں نے اپنے فلاں فلاں آرگنز لکھ کر ڈونیٹ کیے ہیں ۔ان میں ان کی آنکھیں بھی شامل تھیں جن پر ہر وقت نظر کا ایک موٹا چشمہ سجا ہوتا اور اس کے باوجود سبق پڑھاتے وقت وہ کتاب کو اپنی پکوڑا سی ناک سے صرف دو یا تین انچ کی دوری پر رکھتے تھے ۔میرے والد صاحب کی نظر نابینا ہونے کی حد تک کمزور ہوچکی تھیں۔ جب ٹیچر صاحب کی زبانی پتہ چلا کہ ان کےمرنے کے بعد ان کی آنکھیں کسی اندھے کو دی جائیں گی تو میں جھٹ اپنی جگہ سے کھڑا ہوا اور خوشی اور جوش سے بولا۔" سر جی آپ مرنے کے بعد اپنی آنکھیں میرے ابو کو دے دیں۔" تو صاحب میرایہ کہنا تھا کہ کلاس کے سارے لڑکے زور کا قہقہہ ماکر ہنس پڑے۔ میں حیران و پریشان کہ یااللہ میں نے ایسی کونسی Funny بات کری ہے ۔ادھر ٹیچر کا تھوبڑا الگ لٹکا ہوا تھا ۔ پھر ماسٹرجی رونے والی آواز ، جس میں چھپا ہوا غصہ بھی شامل تھا ، میں مجھ سے بولے ۔" اچھا تو تو اللہ میاں سے دعا کر کہ میں تیرے باپ سے پہلے مرجاؤں !
تب بات میری سمجھ میں آئی۔
 
Top