غزل: خالق سے رشتہ توڑ چلے ٭ محمد تابش صدیقی

ایک پرانی غزل مکمل ہونے کے بعد استادِ محترم کی رضامندی کے ساتھ احبابِ محفل کے ذوق کی نذر:

خالق سے رشتہ توڑ چلے
ہم اپنی قسمت پھوڑ چلے

طوفان کے آنے سے پہلے
ہم اپنے گھروندے توڑ چلے

کچھ تعبیروں کے خوف سے ہی
ہم خواب ادھورے چھوڑ چلے

اب کس کی معیت حاصل ہو
جب سایہ ہی منہ موڑ چلے

شاید کہ تمہیں یاد آئیں پھر
ہم شہر تمہارا چھوڑ چلے

غفلت کی نیند میں ہے تابشؔ
کوئی اس کو بھی جھنجھوڑ چلے

٭٭٭
محمد تابش صدیقی
 
شاید کہ تمہیں یاد آئیں پھر
ہم شہر تمہارا چھوڑ چلے
واہ بھیا بہت زبردست ،
غفلت کی نیند میں ہے تابشؔ
کوئی اس کو بھی جھنجھوڑ چلے
کیا ہی بات ہے ۔عمدہ
اس شعر کی تو تکرار کرنے کا دل کر رہا ہے ۔
بھیا غزل کا آخری شعر مقطع کہلاتا ہے یا مطلع
 
واہ بھیا بہت زبردست ،
کیا ہی بات ہے ۔عمدہ
بہت شکریہ عدنان بھائی
اس شعر کی تو تکرار کرنے کا دل کر رہا ہے ۔
ساتھ ڈھول بھی بجائیں گے، تب اٹھوں گا۔
بھیا غزل کا آخری شعر مقطع کہلاتا ہے یا مطلع
قطع سے مقطع
 
مجھے تھوڑی تفصل درکار ہے۔
غزل کا پہلا شعر کیا کہلاتا ہے؟
غزل کا آخری شعر کیا کہلاتا ہے؟
درمیان والے اشعار کو کیا کہتے ہیں ؟
پہلے شعر کو مطلع کہتے ہیں۔ طلوع سے۔
مطلع کے دونوں مصرعوں میں ردیف قافیہ ہونا ضروری ہے، ورنہ پہلا شعر بھی مطلع نہیں کہلائے گا۔
اگر مطلع کے بعد والے اشعار میں بھی دونوں مصرعوں میں ردیف قافیہ آ رہا ہے، تو ان کو حسنِ مطلع کہا جائے گا۔
درمیانی اشعار کا کوئی مخصوص نام نہیں۔
آخری شعر میں اگر شاعر اپنا تخلص استعمال کرتا ہے تو وہ مقطع کہلائے گا۔ اگر آخری شعر تخلص کے بغیر ہے تو مقطع نہیں کہلائے گا۔

اضافہ:
غزل میں ردیف ہونا ضروری نہیں ہے، مگر قافیہ لازمی ہے۔
 
پہلے شعر کو مطلع کہتے ہیں۔ طلوع سے۔
مطلع کے دونوں مصرعوں میں ردیف قافیہ ہونا ضروری ہے، ورنہ پہلا شعر بھی مطلع نہیں کہلائے گا۔
اگر مطلع کے بعد والے اشعار میں بھی دونوں مصرعوں میں ردیف قافیہ آ رہا ہے، تو ان کو حسنِ مطلع کہا جائے گا۔
درمیانی اشعار کا کوئی مخصوص نام نہیں۔
آخری شعر میں اگر شاعر اپنا تخلص استعمال کرتا ہے تو وہ مقطع کہلائے گا۔ اگر آخری شعر تخلص کے بغیر ہے تو مقطع نہیں کہلائے گا۔
جزاک اللہ خیرا اجر کثیرا ۔
 
آخری تدوین:
ایک پرانی غزل مکمل ہونے کے بعد استادِ محترم کی رضامندی کے ساتھ احبابِ محفل کے ذوق کی نذر:

خالق سے رشتہ توڑ چلے
ہم اپنی قسمت پھوڑ چلے

طوفان کے آنے سے پہلے
ہم اپنے گھروندے توڑ چلے

کچھ تعبیروں کے خوف سے ہی
ہم خواب ادھورے چھوڑ چلے

اب کس کی معیت حاصل ہو
جب سایہ ہی منہ موڑ چلے

شاید کہ تمہیں یاد آئیں پھر
ہم شہر تمہارا چھوڑ چلے

غفلت کی نیند میں ہے تابشؔ
کوئی اس کو بھی جھنجھوڑ چلے

٭٭٭
محمد تابش صدیقی
عمدہ
 

یاز

محفلین
ذیلی شعر کو بھی کچھ موزوں فرمائیے گا

آگا دوڑ پیچھا چوڑ چلے
ہر سگنل اب ہم توڑ چلے
 
آخری تدوین:

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
واہ واہ! کیا اچھے اشعار ہیں تابش بھائی !

کچھ تعبیروں کے خوف سے ہی
ہم خواب ادھورے چھوڑ چلے

بہت خوب ! کیا اچھا کہا ہے ! زندہ باد! سلامت رہیں !
 
Top