فرخ منظور کی تک بندیاں

فرخ منظور

لائبریرین
ایک دوست کے شعر کے جواب میں
اصل شعر:
کوئی تو اپنا بھی ہو راز داں محبت میں
مزا تو ہم کو بھی آئے کبھی زیارت میں
(زیارت علی)
جواباً شعر:
نہ سمجھا اپنا کبھی آپ نے محبت سے
نہ ہم نے لطف اٹھایا کبھی زیارت سے
(فرخ منظور)


 

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
شکریہ ظہیر بھائی۔ انبوہ، ہنگامہ اور فراوانی کے معنوں میں بھی مستعمل ہے۔
فرخ بھائی ، انبوہ کے معنی ہنگامہ تو قطعی نہیں ۔ فراوانی ، ہجوم ، بھیڑ ، کثرت وغیرہ کے معانی میں مستعمل ہے ۔ لیکن ترکیبِ اضافی مین صرف انہی اشیا کے ساتھ استعمال ہوتا ہے کہ جو قابلِ شمار ہوں ۔ یعنی انبوہِ عاشقاں تو درست لیکن انبوہِ عشق خلافِ محاورہ ہوگا ۔ خیر ، یہ موشگافی والی بات ہے ۔ شعر آپ کا اچھا ہے ۔ کبھی پوری غزل کی کوشش بھی کیجئے ۔ بہت اشتیاق ہے ہمیں ۔ :):):)
 

فہد اشرف

محفلین
فرخ بھائی ، انبوہ کے معنی ہنگامہ تو قطعی نہیں ۔ فراوانی ، ہجوم ، بھیڑ ، کثرت وغیرہ کے معانی میں مستعمل ہے ۔ لیکن ترکیبِ اضافی مین صرف انہی اشیا کے ساتھ استعمال ہوتا ہے کہ جو قابلِ شمار ہوں ۔ یعنی انبوہِ عاشقاں تو درست لیکن انبوہِ عشق خلافِ محاورہ ہوگا ۔ خیر ، یہ موشگافی والی بات ہے ۔ شعر آپ کا اچھا ہے ۔ کبھی پوری غزل کی کوشش بھی کیجئے ۔ بہت اشتیاق ہے ہمیں ۔ :):):)
زہرا نگاہ کی ایک نظم کا عنوان ہے ’تن نحیف سے انبوہ جبر ہار گیا‘ کیا یہ ترکیب صحیح ہے؟
 
آخری تدوین:

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
زہرا نگاہ کے ایک نظم کا عنوان ہے ’تن نحیف سے انبوہ جبر ہار گیا‘ کیا یہ ترکیب صحیح ہے؟
جی ہاں ۔ انبوہِ جبر ، انبوہِ غم وغیرہ درست تراکیب ہیں ۔ جبر اور غم دونوں قابلِ شمار ہیں ۔ دونوں کی واحد اور جمع مستعمل ہے ۔
 

فرخ منظور

لائبریرین
فرخ بھائی ، انبوہ کے معنی ہنگامہ تو قطعی نہیں ۔ فراوانی ، ہجوم ، بھیڑ ، کثرت وغیرہ کے معانی میں مستعمل ہے ۔ لیکن ترکیبِ اضافی مین صرف انہی اشیا کے ساتھ استعمال ہوتا ہے کہ جو قابلِ شمار ہوں ۔ یعنی انبوہِ عاشقاں تو درست لیکن انبوہِ عشق خلافِ محاورہ ہوگا ۔ خیر ، یہ موشگافی والی بات ہے ۔ شعر آپ کا اچھا ہے ۔ کبھی پوری غزل کی کوشش بھی کیجئے ۔ بہت اشتیاق ہے ہمیں ۔ :):):)

شکریہ ظہیر بھائی۔ غزل مکمل کہنے کی کوشش کرتا ہوں مگر بہت مشکل کام ہے۔ بہرحال آپ دو حوالے دیکھیے۔
ایک آن لائن لغت کا
دوسرا فرہنگ آصفیہ کا
 

کاشف اختر

لائبریرین
JDweJGNJdL86XFaT2
 

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
شکریہ ظہیر بھائی۔ غزل مکمل کہنے کی کوشش کرتا ہوں مگر بہت مشکل کام ہے۔ بہرحال آپ دو حوالے دیکھیے۔
ایک آن لائن لغت کا
دوسرا فرہنگ آصفیہ کا
فرخ بھائی ، یہ ایک دلچسپ بحث ہے اور مجھے ان موضوعات پر بات کرنا پسند بھی ہے ۔ جی تو چاہتا ہے کہ تفصیلا لکھوں لیکن وہی پرانا مسئلہ وقت کی قلت کا درپیش ہے ۔ مختصرا عرض کروں گا کہ لغت ایک طرح سے بولی اور لکھی جانے والی زبان کا تحریری ریکارڈ ہوتا ہے ۔ کسی بھی لفظ کے ذیل میں وہ تمام معانی درج کردیئے جاتے ہیں کہ جو کسی بھی دور ، کسی بھی علاقے اور کسی بھی موقع پر اہلِ زبان میں مستعمل رہے ہوں ۔ چونکہ زبان جیتی جاگتی زندہ شے ہے اس لئے اس میں تغیرات کا پیدا ہونا ایک فطری سی بات ہے۔ یہ تو ہم جانتے ہی ہیں کہ الفاظ کا استعمال وقت کے ساتھ ساتھ متروک بھی ہوجاتا ہے ۔ اسی طرح الفاظ کے معنی بھی متروک ہوسکتے ہیں ، بدل سکتے ہیں اور ان کے نئے معنی بھی پیدا ہوسکتے ہیں ۔ مثلا ایک لفظ مذاق کو لے لیجئے ۔ یہ لفظ جس معنی میں آج کل عام استعمال ہوتا ہے آج سے اسی نوے سال پہلے تک نہیں ہوتا تھا بلکہ اس کے کچھ اور ہی معنی ہوتے تھے ۔ کہنے کا مقصد یہ ہے کہ لغت میں کسی بھی لفظ کے ذیل میں دیئے گئے تمام کے تمام معانی مستعمل نہیں ہوتے ۔ لفظوں کے استعمال کی سند عموما اساتذہ زبان (شعراء و ادباء) سے لی جاتی ہے ۔ ایسا ممکن ہے کہ انبوہ کو کبھی کسی نے کسی دور میں بمعنی ہنگامہ استعمال کیا ہو ۔ اسی لئے سید دہلوی نے اسے فرہنگ میں لکھ دیا ۔ فرہنگ اردو کی قدیم ترین لغات میں سے ہے ۔ جبکہ مولوی صاحب نورالحسن نے اپنی لغت میں اس کے یہ معنی نہیں دیئے ہیں ۔ دیگر لغات میں بھی بمعنی ہنگامہ درج نہیں ۔ میں نے جہاں تک پڑھا ہے انبوہ اسی معنی میں مستعمل ہے کہ جو اوپر کے مراسلوں میں ذکر کیا ۔ واللہ اعلم بالصواب ۔
دوسری بات یہ کہ آپ کے شعر میں محل بھیڑ اور مجمع ہی کا ہے ، ہنگامے کا نہیں ۔

ویسے آپ کی غزل کا انتظار ہے ۔ فرخ بھائی ، اگر آپ کہیں تو ہم مصرع طرح دیئے دیتے ہیں شاید اسی طرح طبیعت رواں ہوجائے ۔:):):)
 

فرخ منظور

لائبریرین
فرخ بھائی ، یہ ایک دلچسپ بحث ہے اور مجھے ان موضوعات پر بات کرنا پسند بھی ہے ۔ جی تو چاہتا ہے کہ تفصیلا لکھوں لیکن وہی پرانا مسئلہ وقت کی قلت کا درپیش ہے ۔ مختصرا عرض کروں گا کہ لغت ایک طرح سے بولی اور لکھی جانے والی زبان کا تحریری ریکارڈ ہوتا ہے ۔ کسی بھی لفظ کے ذیل میں وہ تمام معانی درج کردیئے جاتے ہیں کہ جو کسی بھی دور ، کسی بھی علاقے اور کسی بھی موقع پر اہلِ زبان میں مستعمل رہے ہوں ۔ چونکہ زبان جیتی جاگتی زندہ شے ہے اس لئے اس میں تغیرات کا پیدا ہونا ایک فطری سی بات ہے۔ یہ تو ہم جانتے ہی ہیں کہ الفاظ کا استعمال وقت کے ساتھ ساتھ متروک بھی ہوجاتا ہے ۔ اسی طرح الفاظ کے معنی بھی متروک ہوسکتے ہیں ، بدل سکتے ہیں اور ان کے نئے معنی بھی پیدا ہوسکتے ہیں ۔ مثلا ایک لفظ مذاق کو لے لیجئے ۔ یہ لفظ جس معنی میں آج کل عام استعمال ہوتا ہے آج سے اسی نوے سال پہلے تک نہیں ہوتا تھا بلکہ اس کے کچھ اور ہی معنی ہوتے تھے ۔ کہنے کا مقصد یہ ہے کہ لغت میں کسی بھی لفظ کے ذیل میں دیئے گئے تمام کے تمام معانی مستعمل نہیں ہوتے ۔ لفظوں کے استعمال کی سند عموما اساتذہ زبان (شعراء و ادباء) سے لی جاتی ہے ۔ ایسا ممکن ہے کہ انبوہ کو کبھی کسی نے کسی دور میں بمعنی ہنگامہ استعمال کیا ہو ۔ اسی لئے سید دہلوی نے اسے فرہنگ میں لکھ دیا ۔ فرہنگ اردو کی قدیم ترین لغات میں سے ہے ۔ جبکہ مولوی صاحب نورالحسن نے اپنی لغت میں اس کے یہ معنی نہیں دیئے ہیں ۔ دیگر لغات میں بھی بمعنی ہنگامہ درج نہیں ۔ میں نے جہاں تک پڑھا ہے انبوہ اسی معنی میں مستعمل ہے کہ جو اوپر کے مراسلوں میں ذکر کیا ۔ واللہ اعلم بالصواب ۔
دوسری بات یہ کہ آپ کے شعر میں محل بھیڑ اور مجمع ہی کا ہے ، ہنگامے کا نہیں ۔

ویسے آپ کی غزل کا انتظار ہے ۔ فرخ بھائی ، اگر آپ کہیں تو ہم مصرع طرح دیئے دیتے ہیں شاید اسی طرح طبیعت رواں ہوجائے ۔:):):)

شکریہ ظہیر بھائی۔ آپ اس شعر کو ایسے پڑھ لیں۔
رہ جائے گا ہنگامِ جنوں خاک اڑاتا
مجھ ایسا جب اس خاک پہ مجنوں نہ رہے گا
(فرخ منظور)
رہ گئی غزل کی بات تو یہ کارِ گراں بھی کسی دن کر گزروں گا۔ آپ اگر کوئی مصرع طرح دینا چاہتے ہیں تو ضرور دیں۔ کوشش کرتا ہوں۔
 

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
رہ گئی غزل کی بات تو یہ کارِ گراں بھی کسی دن کر گزروں گا۔ آپ اگر کوئی مصرع طرح دینا چاہتے ہیں تو ضرور دیں۔ کوشش کرتا ہوں۔

فرخ بھائی ، یہ چند مصرع اس وقت ذہن میں آرہے ہیں ۔ چونکہ آپ اکثر بحرِ خفیف میں لکھتے ہیں اس لئے اگر کبھی طبیعت مائل ہو تو ان میں سے ایک آدھ پر ضرور فکر کریں ۔

۔ کوئی صورت نظر نہیں آتی
۔ دلِ ناداں تجھے ہوا کیا ہے
۔ رنج راحت فزا نہیں ہوتا

فرخ بھائی ، ضروری نہیں کہ آپ انہی مصرعوں کو دیکھیں اور خود کو پابند کریں ۔ میدان تو بہت وسیع ہے ۔ کو شش شرط ہے ۔ :):):)
 

فرخ منظور

لائبریرین
تری نگاہ کا جب بھی کبھی اشارہ ہوا
زماں دو لخت ہوا اور مکاں کنارہ ہوا
(فرخ منظور)​
 
آخری تدوین:

فرخ منظور

لائبریرین
زلف لہرا کے وہ فتنوں کو ہوا دیتے ہیں
مسکراتے ہیں کہ وہ حکمِ قضا دیتے ہیں
(فرخ منظور)
 
آخری تدوین:

فرخ منظور

لائبریرین
سر و سامانِ وجودم شررِ عشق بسوخت
زیرِ خاکسترِ دل سوزِ نہانم باقیست
شاہ نیاز احمد بریلوی
میرے سارے وجود کا ساماں عشق نے تیرے جلا دیا
لیکن خاکستر سے دل میں سوزِ نہاں سا باقی ہے

ترجمہ: فرخ منظور
 
آخری تدوین:

فرخ منظور

لائبریرین
تم مجھ کو شاید مٹا ڈالو گے اپنی جھوٹی اناؤں سے
لیکن میں ابھروں گا پھر بھی بن کے راکھ فضاؤں سے
(فرخ منظور)
 

فرخ منظور

لائبریرین
آزاد منظوم ترجمہ کافی شاہ حسین از فرخ منظور

سجن نے پکڑی بانہہ ہماری
کیسے کہہ دوں چھوڑ رے یارا
رات اندھیری، بادل بارش
بعد وکیلوں ہو گئی مشکل
مشکل ہو گیا اب تو بلاوا
عشق محبت وہی ہیں جانیں
جن کے اوپر بیتی ساری
جوہڑ پیدا کریں ہیں کلّر
دھان کو ریت میں
بو نہ یارا
کیوں تو مارے بڑی چھلانگیں
اک دن سب کچھ چھوڑ کے جانا
کہے حسین فقیر اک رب کا
نین میں نیناں گاڑ دے یارا

کافی: شاہ حسین
سجن دے ہتھ بانہہ اساڈی،کیونکر آکھاں چھڈ وے اڑیا
رات اندھیری،بدل کنیاں،باجھ وکیلاں مُشکل بنیاں
ڈاہڈے کیتا سڈ وے اڑیا
عشق محبت سو ای جانن،پئی جنہاں دے ہڈ وے اڑیا
کلر کھٹّن کھوہڑی، چینا ریت نہ گڈ وے اڑیا
نِت بھرناں چھُٹیاں، اک دن جا سیں چھڈ وے اڑیا
کہے حسین فقیر نمانا نین نیناں نال گڈ وے اڑیا

 
آخری تدوین:
Top