جمال احسانی غزل ۔ وہ لوگ میرے بہت پیار کرنے والے تھے ۔ جمال احسانی

محمداحمد

لائبریرین
غزل

وہ لوگ میرے بہت پیار کرنے والے تھے
گزر گئے ہیں جو موسم گزرنے والے تھے

نئی رُتوں میں دکھوں کے بھی سلسلے ہیں نئے
وہ زخم تازہ ہوئے ہیں جو بھرنے والے تھے

یہ کس مقام پہ سوجھی تجھے بچھڑنے کی
کہ اب تو جا کہ کہیں دن سنورنے والے تھے

ہزار مجھ سے وہ پیمانِ وصل کرتا رہا
پر اُس کے طور طریقے مُکرنے والے تھے

تمھیں تو فخر تھا شیرازہ بندیء جاں پر
ہمارا کیا ہے کہ ہم تو بکھرنے والے تھے

تمام رات نہایا تھا شہر بارش میں
وہ رنگ اُتر ہی گئے جو اُترنے والے تھے

اُس ایک چھوٹے سے قصبے پہ ریل ٹھیری نہیں
وہاں بھی چند مُسافر اُترنے والے تھے

جمال احسانی
 

فرحت کیانی

لائبریرین
تمام رات نہایا تھا شہر بارش میں​
وہ رنگ اُتر ہی گئے جو اُترنے والے تھے​

اُس ایک چھوٹے سے قصبے پہ ریل ٹھیری نہیں​
وہاں بھی چند مُسافر اُترنے والے تھے​

بہت خوب۔
بہت شکریہ احمد! :)
 

محمداحمد

لائبریرین
تمام رات نہایا تھا شہر بارش میں

وہ رنگ اُتر ہی گئے جو اُترنے والے تھے


اُس ایک چھوٹے سے قصبے پہ ریل ٹھیری نہیں

وہاں بھی چند مُسافر اُترنے والے تھے

بہت خوب۔
بہت شکریہ احمد! :)

انتخاب کی پسندیدگی کا شکریہ فرحت صاحبہ ۔
 

فرخ انیق

محفلین
’’کہ اب تو جا کہ کہیں دن سنورنے والے تھے‘‘ میں میرا خیال ہے کہ دوسرے ’کہ‘ کی جگہ ’کے‘ آتا ہے ۔۔۔
بہت اچھا انتخاب ہے احسانی صاحب کی کیا بات ہے۔۔
 

محمداحمد

لائبریرین
’’کہ اب تو جا کہ کہیں دن سنورنے والے تھے‘‘ میں میرا خیال ہے کہ دوسرے ’کہ‘ کی جگہ ’کے‘ آتا ہے ۔۔۔
بہت اچھا انتخاب ہے احسانی صاحب کی کیا بات ہے۔۔

بہت شکریہ فرخ صاحب،

جہاں تک بات "کہ" کے استعمال کی ہے تو وہ میرا خیال ہے کہ ٹھیک ہی ہے۔ یہاں پر "کہ" سبب کے طور پر استعمال ہوا ہے۔ لغت میں "کہ" کے معنی یہاں دیکھے جا سکتے ہیں۔

ایک اور شعر دیکھیے:

نہ کھا سکیں گی نگاہیں مری فریبِ سکوں
کہ دھڑکنوں ہی سے پائی ہی زندگی میں نے
یہاں بھی یہی صورتحال ہے۔
 

فرخ انیق

محفلین
بہت شکریہ فرخ صاحب،

جہاں تک بات "کہ" کے استعمال کی ہے تو وہ میرا خیال ہے کہ ٹھیک ہی ہے۔ یہاں پر "کہ" سبب کے طور پر استعمال ہوا ہے۔ لغت میں "کہ" کے معنی یہاں دیکھے جا سکتے ہیں۔

ایک اور شعر دیکھیے:

نہ کھا سکیں گی نگاہیں مری فریبِ سکوں
کہ دھڑکنوں ہی سے پائی ہی زندگی میں نے
یہاں بھی یہی صورتحال ہے۔

احمد بھائی پہلا کہ ٹھیک ہے میرا اشارہ دوسرے والے کہ کی طرف تھا۔۔۔ "اب تو جا کے کہیں"
 

طارق شاہ

محفلین
’’کہ اب تو جا کہ کہیں دن سنورنے والے تھے‘‘ میں میرا خیال ہے کہ دوسرے ’کہ‘ کی جگہ ’کے‘ آتا ہے ۔۔۔
بہت اچھا انتخاب ہے احسانی صاحب کی کیا بات ہے۔۔

کے یا کہ سے قطع نظر اِس شعر :

نئی رُتوں میں دُکھوں کے بھی سلسلے ہیں نئے
وہ زخم تازہ ہوئے ہیں جو بھرنے والے تھے

کا پہلا مصرع :
" نئی رُتوں میں دُکھوں کے بھی سلسلے ہیں نئے"
غلط ہے کہ دوسرے مصرع اسے بخوبی زمانہ حال ظاہر کر رہا ہے
دوئم: ایسا لکھنے یا کہنے سے، کئی رتوں کا ایک ساتھ آنا ظاہر ہوتا ہے ۔
جبکہ رُتوں میں ہر رُت کی اپنی آمد یکتا اور معین ہے

اسے یوں، یا کچھ اس طرح کا لکھنا چاہیے تھا کہ :
نئی ہے رُت تو دکھوں کے ہیں سلسلے بھی نئے

یا پھر 'ہیں' کو، " ہوں" کردینا چاہیے تھا :

نئی رُتوں میں دُکھوں کے بھی سلسلے ہوں نئے

ویسے ہی اپنا خیال لکھ دیا، شاید احسانی صاحب دیکھ لیں :)
 
آخری تدوین:

x boy

محفلین
اُس ایک چھوٹے سے قصبے پہ ریل ٹھیری نہیں
وہاں بھی چند مُسافر اُترنے والے تھے
بہت خوب
شکریہ
 
Top