فرخ منظور

لائبریرین
ایک سوال ہے،غزل اور نظم میں کیا فرق ہے،اور شناخت کیا ہے؟

بڑا آسان جواب ہے۔ نظم میں ایک مسلسل خیال کو بیان کیا جاتا ہے اور ہر مصرع گزشتہ مصرعوں سے جڑا ہوتا ہے اور نظم کا عنوان بھی ضرور دیا جاتا ہے۔جبکہ غزل میں ہر شعر ایک اکائی کی صورت میں ہوتا ہے۔ یعنی مکمل ہوتا ہے ضروری نہیں اس شعر کا باقی اشعار سے کوئی ربط ہو۔ ایک غزل میں مختلف خیالات کو بیان کیا جاتا ہے۔ اس حوالے سے ایک دلچسپ واقعہ ہے معلوم نہیں اس میں کتنی حقیقت ہے۔ فراق اور جوش بہت اچھے دوست تھے لیکن فراق غزل کے حامی تھے جبکہ جوش نظم کے طرف دار ایک بار جوش، فراق سے ملے اور انہیں کہنے لگے کہ ملکہ الزبتھ کا جوتا گم گیا ہے، بازار میں چاول کا بھاؤ بہت بڑھ گیا ہے۔ مسلمانوں کی بری حالتِ زار کے کیا اسباب ہیں۔ آج موسم کافی حسین ہے۔ اسی طرح کے مزید کچھ بے ربط جملے کہے تو فراق کہنے لگے جوش تم کیا کہہ رہے ہو کسی جملے میں کوئی ربط نہیں، تو جوش کہنے لگے بھئی میں غزل کہہ رہا ہوں۔
 
ایک بار جوش، فراق سے ملے اور انہیں کہنے لگے کہ ملکہ الزبتھ کا جوتا گم گیا ہے، بازار میں چاول کا بھاؤ بہت بڑھ گیا ہے۔ مسلمانوں کی بری حالتِ زار کے کیا اسباب ہیں۔ آج موسم کافی حسین ہے۔ اسی طرح کے مزید کچھ بے ربط جملے کہے تو فراق کہنے لگے جوش تم کیا کہہ رہے ہو کسی جملے میں کوئی ربط نہیں، تو جوش کہنے لگے بھئی میں غزل کہہ رہا ہوں۔
یعنی غزل دل کا اخبار ہے، اور نظم سپیشل ایڈیشن۔ :p
 

عینی مروت

محفلین
فیض۔۔شائستہ لہجے کے شاعر
ظلم اور جبر پر بات کرتے انداز ایسا ہوتا ہے
جیسے محبوب سے ہمکلام ہوں!

بہت زبردست نظم نذر بزم کی ہے بہنا۔۔
خوش رہیں
 

حبیب صادق

محفلین
ہم دیکھیں گے
لازم ہے کہ ہم بھی دیکھیں گے
وہ دن کہ جس کا وعدہ ہے
جو لوحِ ازل میں لکھا ہے
جب ظلم و ستم کے کوہ گراں
روئی کی طرح اُڑ جائیں گے
ہم محکوموں کے پاؤں تلے
یہ دھرتی دھڑ دھڑ دھڑکے گی
اور اہل حرم کے سر اوپر
جب بجلی کڑکڑ کڑکے گی
جب ارضِ خدا کے کعبے سے
سب بُت اٹھوائے جائیں گے
ہم اہل صفا مردودو حرم
مسند پہ بٹھائے جائیں گے
سب تاج اچھالے جائیں گے
سب تخت گرائے جائیں گے
بس نام رہے گا اللہ کا
جو غائب بھی ہے ، حاضر بھی
جو ناظر بھی ہے ، منظر بھی
اٹھے گا انا الحق کا نعرہ
جو میں بھی ہوں اور تم بھی ہو
اور راج کرے گی خلقِ خدا
جو میں بھی ہوں اور تم بھی ہو

(فیض احمد فیض)
-------------------------------------
وسلام
عمدہ اور خوب صورت کلام
 
اہل سفا سے مراد مدینہ میں دھونی رما کر علم سیکھنے والے تھے جنہیں مکہ سے نکال کر مردود حرم قرار دیا گیا تھا۔ بہت ہی لطیف بیان ہے۔ اسلام کی ابتدائی تاریخ سے واقفیت اس نظم کا لطف دوبالا کر دیتی ہے
جی بالکل بجا فرما یا..
اصل میں ص سے ہے ,
" صفہ " یا "صفا "
س نہیں یہ ص سے ہے محترم..
انکو اصحاب صفہ کہا جاتا تھا, اور یہ لوگ جن میں غالباحضرت ابو ہریرہ رضی اللہ بھی تھے. ہمیشہ مسجد بنوی میں بنے ایک چبوترے پہ بیٹھے رہتے, اور علم, وحی کے احکامات کو زیر بحث لاتے
 

جاسم محمد

محفلین
جی بالکل بجا فرما یا..
اصل میں ص سے ہے ,
" صفہ " یا "صفا "
س نہیں یہ ص سے ہے محترم..
انکو اصحاب صفہ کہا جاتا تھا, اور یہ لوگ جن میں غالباحضرت ابو ہریرہ رضی اللہ بھی تھے. ہمیشہ مسجد بنوی میں بنے ایک چبوترے پہ بیٹھے رہتے, اور علم, وحی کے احکامات کو زیر بحث لاتے
محفل پر خوش آمید۔ اپنا تعارف کروا دیں۔
 
ہم دیکھیں گے

لازم ہے کہ ہم بھی دیکھیں گے
وہ دن کہ جس کا وعدہ ہے
جو لوحِ ازل پہ لکھا ہے
جب ظلم و ستم کے کوہِ گراں
روئی کی طرح اڑ جائیں گے
ہم محکوموں کے پاؤں تلے
جب دھرتی دھڑ دھڑ ڈھڑکے گی
اور اہلِ حکم کے سر اوپر
جب بجلی کڑ کڑ کڑکے گی

ہم دیکھیں گے

جب ارضِ خدا کے کعبے سے
سب بت اٹھوائے جائیں گے
ہم اہلِ صفا، مردودِ حرم
مسند پہ بٹھائے جائیں گے
سب تاج اچھالے جائیں گے
سب تخت گرائے جائیں گے

ہم دیکھیں گے

بس نام رہے گا اللہ کا
جو غائب بھی ہے حاضر بھی
جو ناظر بھی ہے منظر بھی
ااٹھے گا انا الحق کا نعرہ
جو میں بھی ہوں اور تم بھی ہو
اور راج کرے گی خلق خدا
جو میں بھی ہوں اور تم بھی ہو

ہم دیکھیں گے
لازم ہے کہ ہم بھی دیکھیں گے
ہم دیکھیں گے
 
Top