سالانہ عالمی اردو مشاعرہ 2016 تبصرے

محمداحمد

لائبریرین
گم نہ رہ سوچ میں تو دیکھ کے چل کچھ مت سوچ
ذہن کی بھول بھلیوں سے نکل کچھ مت سوچ
دل اندھیرے کا تری آگ سے ہو جائے گا موم
موم بتی کی طرح چپکے پگھل کچھ مت سوچ
روشنی بانٹ اگر سینہ ترا روشن ہے
کیوں ہیں اوروں کے بجھے دل کے کنول کچھ مت سوچ
معرفت ڈھونڈ سرِ راہِ طلب زیرِ شجر
میرے گوتم! پسِ دیوارِ محل کچھ مت سوچ
بیج بو بیج یہ دنیا ہے عمل کی کھیتی
فصل ناکام رہے گی کہ سپھل کچھ مت سوچ
اژدھا ڈر کا مقابل ہو تو تلوار نکال
وہم کے سانپ کو پتھر سے کچل کچھ مت سوچ
زندگی جنگ ہے لمحات سے لڑنا ہے تجھے
جیتنا چاہے تو دورانِ جدل کچھ مت سوچ
خود کو مصروف رکھ اس آج کے عرصے میں منیب
کل کا سوچیں گے جب آ جائے گا کل کچھ مت سوچ

خوبصورت غزل منیب بھائی !

بہت لطف آیا پڑھ کر۔

بہت سی داد اور مبارکباد!
 

محمداحمد

لائبریرین
بجھا چکا ھے زمانہ چراغ سب لیکن !
یہ میرا عشق کہ ہر راستہ دکھائی دے ۔
پلٹ بھی سکتی ہوں ایماں فنا کی راہوں سے،
اگر کوئی مجھے اُس نام کی دُھائی دے ۔

بہت خوب!

کیا کیا منظر دکھلائے ہیں ،وقت کے رستے زخموں نے
دکھ کا گہرا سناٹا اب آنکھوں میں تحریر ہوا ہے ۔

آنکھ کی رتھ پر بیٹھا سپنا ، اس کا نام ہی جپتا ہے ۔
جس غزنی کے ہاتھ سے میرا دل مندر تسخیر ہوا ہے ۔

واہ ! کیا کہنے!

بہت سی داد! :)
 

محمداحمد

لائبریرین
شرارتیں بھی ، محبت بھی ، بدگمانی بھی
عجیب سی ہے صنم ! آپ کی کہانی بھی

سنا ہے شوق ہے اسکو پرانے قصوں کا
اسے سنانا کسی دن مری کہانی بھی

جب کبھی پایا ہے تنہا اس کو
نہ ہوئی بات کی ہمت مجھ کو

بہت خوب واسطی خٹک صاحب!

خوش رہیے۔ :)
 

محمداحمد

لائبریرین
بدظنی سے بچ کے رہنا رحمتوں کی آس پر
راہ چلنا ان(ص) کی جن ہر ادا کامل میں ہے
کیا کہنے!
تم لوٹ کے آ جاؤ
ہم انتظار میں ہیں
اب بات کرو ہم سے
ہم انتظار میں ہیں
جب عمر ختم ہوگی
ہم موت سے کہ دیں گے
مت جان ہماری لو
ہم انتظارمیں ہیں
پھر بہہ نکلیں آنسو
سب لوگ کہیں گے یوں
تم لوٹ کے آجاؤ
ہم انتظار میں ہیں​

کیا کہنے!

اللہ خوش رکھے آپ کو فیصل بھائی!
 

محمداحمد

لائبریرین
ذکر سن کر چھ حسینوں کا نہ گھبرا جانِ من
اک حسینہ کے لئے اب بھی جگہ اس دل میں ہے
ساس کے پہلو میں بیوی کو جو دیکھا، ڈر گیا
یا الہٰی خیر ہو خنجر کفِ قاتل میں ہے
دے رہا تھا لیڈروں کو گالیاں جو جو بھی وہ
"میں نے یہ جانا کہ گویا یہ بھی میرے دل میں ہے"
ہے غلط فہمی کہ خوش فہمی مگر لگتا ہے یہ
ذکرِ امجد اب تو اردو کی ہر اک محفل میں ہے​

:) :) :)

کیا کہنے امجد بھائی! آپ نے تو مشاعرے کو کشتِ زعفران بنا دیا ہے۔ :applause::applause::applause:
(So Boring)

ایک جنجال ہے سسرال مرا، سو بورنگ
اس پہ شوہر بھی نہ قابو میں ہوا، سو بورنگ

مر گئے چھوڑ کے دولت کے خزانے دادا
جشن کے بدلے ہوئی قل کی دعا، سو بورنگ

گولڈ کی رنگ، آئی فون، نہ پرفیوم کوئی
پیار میں اس نے بس اک پھول دیا، سو بورنگ

گو کہ افسر ہے مگر ہے وہ بہت نالائق
اپنے خرچے پہ وہ حج کرنے گیا، سو بورنگ

چھ مہینے سے وہ چپکی ہے اسی لڑکے سے
آج کے فاسٹ زمانے میں وفا، سو بورنگ

شعر تو کہتے ہیں بجلی کے اجالے میں مگر
ان کے ہر شعر میں جلتا ہے دیا، سو بورنگ

ڈش کوئی مرغ کی کھائے تو کوئی بات بھی ہو
دال پہ کرتا ہے وہ شکر ادا، سو بورنگ

میں نے لکھا اسے اردو میں محبت نامہ
ہائے، انگریز کی بچی نے کہا، سو بورنگ

میری پرلطف غزل بزم میں سن کر لوگو
کس چھچھورے نے لگائی ہے صدا، ”سو بورنگ“​

اور یہ سو بورنگ تو بہت ہی مزیدار ہے۔ :D:p

واہ واہ!

خوش کر دیا بھائی! (y)

جیتے رہیے۔ :)

یہاں میں اپنی بیوی کا شکریہ ضرور ادا کرنا چاہوں گا جس کے تعریفی اور تنقیدی رویے نے اس مشاعرے کے لئے کلام مکمل کرنے میں میری بہت حوصلہ افزائی فرمائی، حالانکہ بحیثیتِ بیوی یہ کافی مشکل کام تھا۔
شکریہ بیگم۔

بہت خوب!

یعنی حق بہ حق دار رسید! :)

بھابھی کا بھی بہت شکریہ کہ اس قسم کے کلام پر حوصلہ افزائی بہت حوصلے کا کام ہے۔ :):D:p
 

الف عین

لائبریرین
اب تک کل پچیس چھبیس شعرا کا کلام شامل مشاعرہ ہوا ہے اور اس کے لیے آپ کو محض تین صفحات پلٹنے ہوں گے۔ اول تو ایسا کام ڈیٹا بیس میں کوئیری رن کرا کے اگر کرانے کی کوشش کی جائے (جس سے بچنا چاہیے) تو امکان ہے کہ بعض مقامات پر غیر متوازن صورت پیدا ہو جائے۔ دوم یہ کہ شعرا کے کلام والے مراسلوں کی شناخت کا بظاہر کوئی سہل طریقہ کار نہیں اس لیے ایک ایک پیغام کی آئی ڈی مینؤلی جمع کرنی ہوگی۔ کل ملا کر بات سر درد اور صندل والی ہوگی۔ :) :) :)
جزاک اللہ خیر سعود۔ آخر میں نے ہمت کر کے آج دو پہر کو سب کی ریٹنگ بنفس نفیس کر دی ہے۔
 

الف عین

لائبریرین
ایک بات کا مزید اعلان کر دوں۔
تمام احباب ذاتی مکالمے میں اپنے اس نام سے ضرور آگاہ کریں جس کے ذریعے وہ معروف ہیں یا ہونا چاہتے ہی۔ ای بک میں محفل کے نک نیم نظر نہیں آئیں گے۔ الف عین کا نام اعجاز عبید ہو گا۔ کاشف اسرار احمد مثلاً محض سید کاشف پسند کرتے ہیں۔ نوید رزاق بٹ ابن منیب
 
بہت شکریہ احمد بھائی!
"مریم افتخار" ایک "انسان" کا نام ہے اور یہ غزل اس انسان نے لکھی ہے اور اتفاق سے انسان کی مؤنث ابھی تک لسانیات میں دستیاب نہیں. میں نے غزل میں خالص انسانی جذبات اور psychology کے حوالے سے بات کی ہے اس میں کوئی نسوانیت نہیں اور ان شاء اللہ میری آئندہ تخلیقات بھی اسی حوالے سے ہوں گی اور میں صرف اتنا چاہتی ہوں عورت کو بھی "انسان" سمجھا جائے .اگر یہ نیا trend ہے تَو نیا سہی اور اگر فرسودہ ہے تَو یوں ہی سہی!:)
مجھے بوچھی کی خوشبو آ رہی ہے ۔ اللہ بخشے پوری محفل کی باجو تھی ہے اور کوئی اس جیسا نہ تھا نہ ہے نہ ہوگا۔
 

یوسف سلطان

محفلین
کتابوں میں بہت نقصان اٹھا کر
دکاں پر رکھ لئے جوتے جرابیں

چراغ علم یوں روشن کیا پھر
سر فٹ پاتھ رکھ دیں سب کتابیں​
بالکل صحیح کہا ۔
چار دفتر میں ہیں، اک گھر میں ہے اور اک دل میں ہے
چھ حسینوں میں گھرا امجد بڑی مشکل میں ہے

ذکر سن کر چھ حسینوں کا نہ گھبرا جانِ من
اک حسینہ کے لئے اب بھی جگہ اس دل میں ہے

ساس کے پہلو میں بیوی کو جو دیکھا، ڈر گیا
یا الہٰی خیر ہو خنجر کفِ قاتل میں ہے

دے رہا تھا لیڈروں کو گالیاں جو جو بھی وہ
"میں نے یہ جانا کہ گویا یہ بھی میرے دل میں ہے"

میں تو سمجھا تھا کہ جاں لیوا ہے بیماری مری
موت کا سامان لیکن ڈاکٹر کے بل میں ہے

دیکھ کر کل رات فیشن شو میں بوفے حسن کا
آ گئے ہم گھر مگر دل اب بھی اس محفل میں ہے

میری دل جوئی کو آنے لگ پڑیں ہمسائیاں
فائدہ کیا کیا مرا بیگم تری کِلکِل میں ہے

دیکھئے، رشوت نہیں لایا، سفارش بھی نہیں
ایک بھی خوبی بھلا اس کی پروفائل میں ہے؟

آپ جو فائل دبا کر بیٹھے ہیں دو ماہ سے
آپ کا نذرانہ عالی جا! اسی فائل میں ہے

ہے غلط فہمی کہ خوش فہمی مگر لگتا ہے یہ
ذکرِ امجد اب تو اردو کی ہر اک محفل میں ہے​
:laughing::laughing::laughing:
ایک جنجال ہے سسرال مرا، سو بورنگ
اس پہ شوہر بھی نہ قابو میں ہوا، سو بورنگ

مر گئے چھوڑ کے دولت کے خزانے دادا
جشن کے بدلے ہوئی قل کی دعا، سو بورنگ

گولڈ کی رنگ، آئی فون، نہ پرفیوم کوئی
پیار میں اس نے بس اک پھول دیا، سو بورنگ

گو کہ افسر ہے مگر ہے وہ بہت نالائق
اپنے خرچے پہ وہ حج کرنے گیا، سو بورنگ

چھ مہینے سے وہ چپکی ہے اسی لڑکے سے
آج کے فاسٹ زمانے میں وفا، سو بورنگ

شعر تو کہتے ہیں بجلی کے اجالے میں مگر
ان کے ہر شعر میں جلتا ہے دیا، سو بورنگ

ڈش کوئی مرغ کی کھائے تو کوئی بات بھی ہو
دال پہ کرتا ہے وہ شکر ادا، سو بورنگ

میں نے لکھا اسے اردو میں محبت نامہ
ہائے، انگریز کی بچی نے کہا، سو بورنگ

میری پرلطف غزل بزم میں سن کر لوگو
کس چھچھورے نے لگائی ہے صدا، ”سو بورنگ“​
بہت خوب !یہ تو نو بورینگ ہے ۔(y)
 

یوسف سلطان

محفلین
اور کیا ساماں بہم بہرِ تباہی چاہیے
حسنِ لب بستہ سے ذوقِ کم نگاہی چاہیے
جانثاری مشغلہ ہی سمجھیے عشاق کا
روزِ محشر آپ کی لیکن گواہی چاہیے
آبلوں کی جستجو میں دشت گردی خوب، پر
علم کچھ منزل کا بھی نادان راہی چاہیے
ہم لیے پھرتے ہیں کاندھوں پر جہاں داری کا بوجھ
اور ضد یہ ہے، غرورِ کج کلاہی چاہیے
بسکہ طالب اپنے دل پر اختیارِ کل کے ہیں
کب سکندر کی سی ہم کو بادشاہی چاہیے
آرزو یاں کچھ نہیں جز ایک اقرارِ گنہ
اور واں اصرار، تیری بے گناہی چاہیے
شعر گوئی کارِ لاحاصل سہی، پر سچ یہ ہے
مشغلہ آخر کوئی خواہی نخواہی چاہیے
بہت عمدہ ۔
قیس کو دشت جنوں میں بڑھ کے ہے زنجیر سے
اک کسک کہ جستجوئے عشق لاحاصل میں ہے
عشق کا ہر مرحلہ پہلے سے ہے دشوار تر
دل خدا جانے کہاں ہے، کون سی منزل میں ہے
چین سے رہنے نہیں دیتی کہیں اک پل مجھے
ایک سیمابی سی کیفیت کہ آب و گل میں ہے
مار ڈالے گی ہمیں پتھر دلی کے باوجود
کچھ ستاروں سی چمک جو دیدۂ سائل میںہے
بحر کی موجوں کو گر بھاتا ہے ساحل کاسکون
بے کراں ہونے کی حسرت موجۂ ساحل میں ہے
بے نیازی کا وہ عالم ہے، تسلی یہ نہیں
ذکر میرا مجھ سے بہتر ہے کہ اس محفل میں ہے​
خوب !
"میں ہے" ٹائپو ہو گیا ہے
 

یوسف سلطان

محفلین
بچھا یقیں کا مصلی درون ِ ہستی میں
نیاز و راز کے قصے نمود میں نا رکھ
واہ ۔۔
پھونک دے بڑھ کے جو تیرگی کا بدن
میری آنکھوں میں وہ روشنی ہے کہاں
بہت خوب ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
؎ لکھا نہیں جو مقدر میں دینے والے نے
ملا نہیں تو پھر اس پر ملال کیسا ہے​
بہت عمدہ ۔
؎ ہاں دل کی تسلی کے لیے بات ٹھیک ہے
یہ اور بات خوف سا چھایا ہے آپ پر
دامن ہمارا چھوڑ کے جی لیں گے آپ بھی
لیکن ہمارا آج بھی سایہ ہے آپ پر​
خوب ۔
لے کے حسن و خمار پہلو میں
کب سے بیٹھا ہے یار پہلو میں

قتل کرنے کو ایک کافی ہے
کر سلیقے سے وار پہلو میں

اُن سے پہلو تہی نہیں ہوتی
جن کا رہتا ہو پیار پہلو میں

عشق کرنے کا ہے مزہ جب ہی
ہو رقابت کا خار پہلو میں

زندگی دیر تک نہیں چلتی
ہجر کا لےکے بار پہلو میں

آگ نفرت کی کیا جلائےہمیں
تیرے غم کی ہے نار پہلو میں

جب محبت کو ہم نےدفنایا
اک بنایا مزار پہلو میں

ہم حسن شوق سے جھکائیں گے سر
وہ سجائے جو دار پہلو میں
واہ واہ لا جواب
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ﻭﺍﻗﻒ ﺗﻤﮩﺎﺭﮮ ﻗﺮﺏ ﮐﯽ ﻟﺬﺕ ﺳﮯ ﺟﺐ ﮨﻮﺍ
ﺟﯿﻨﮯ ﻣﯿﮟ ﮐﯿﺎ ﻣﺰﺍ ﮨﮯ ﯾﮧ ﻣﺠﮫ ﭘﮧ ﮨﻮﺍ ﻋﯿﺎﮞ

ﺳﺐ ﮨﯿﮟ ﺗﺮﯼ ﻃﺮﺡ ﻏﻢِ ﺟﺎﻧﺎﮞ ﻣﯿﮟ ﻣﺒﺘﻼ
ﻗﺼﮯ ﺷﺐِ ﻓﺮﺍﻕ ﮐﮯ ارشد ﻧﮧ ﮐﺮ ﺑﯿﺎﮞ
بہت خوب ۔
ﺯﺧﻢ ﺍﭘﻨﮯ ﭼﮭﭙﺎﺋﮯ ﭘﻬﺮﺗﮯ ﮨﯿﮟ
ﯾﮧ ﺳﺪﺍ ﻣﺴﮑﺮﺍﻧﮯ ﻭﺍﻟﮯ ﻟﻮﮒ
ﺍﭘﻨﮯ ﮔﻬﺮ ﮐﮯ ﮨﯽ ﺁﺩﻣﯽ ﻧﮑﻠﮯ
ﻣﯿﺮﮮ ﮔﻬﺮ ﮐﻮ ﺟﻼﻧﮯ ﻭﺍﻟﮯ ﻟﻮﮒ

ﺟﺎﻧﮯ ﮐﺐ ﺁﺳﻤﺎﮞ ﺳﮯ ﺍﺗﺮﮮ ﮨﯿﮟ
ﺗﻢ ﭘﮧ ﺍﻧﮕﻠﯽ ﺍﭨﮭﺎﻧﮯ ﻭﺍﻟﮯ ﻟﻮﮒ
واہ واہ کیا کہنے ،بہت خوب ۔
 

محمد بلال اعظم

لائبریرین
بہت خوب مریم ! عمدہ اشعار ہیں۔

یہ غزل بلال بھائی کے نام موسوم ہے یا آپ نے اُن ہی کی طرف سے لکھی ہے؟ کہ پوری غزل "مردانہ وار" لکھی گئی ہے۔ :)



واہ !

بہت سی داد!

شاد آباد رہیے۔ :)

بہت شکریہ احمد بھائی!
"مریم افتخار" ایک "انسان" کا نام ہے اور یہ غزل اس انسان نے لکھی ہے اور اتفاق سے انسان کی مؤنث ابھی تک لسانیات میں دستیاب نہیں. میں نے غزل میں خالص انسانی جذبات اور psychology کے حوالے سے بات کی ہے اس میں کوئی نسوانیت نہیں اور ان شاء اللہ میری آئندہ تخلیقات بھی اسی حوالے سے ہوں گی اور میں صرف اتنا چاہتی ہوں عورت کو بھی "انسان" سمجھا جائے .اگر یہ نیا trend ہے تَو نیا سہی اور اگر فرسودہ ہے تَو یوں ہی سہی!:)

کوئی ایک گلاس پانی پلاؤ بھائی۔۔۔۔او ہو ہو ہو۔۔۔۔۔ مریم آپ تو جیسے چھا سی نہیں گئيں۔۔۔!!:):):):)

سب سے پہلے تو یہ سمجھ لیجے کہ میں آپ کے جذبات کو قدر کی نگاہ سے دیکھتا ہوں۔

تاہم آپ یہ بتائیے کہ کیا میں بطورِ انسان شاعری کرنا چاہوں اور چاہوں کہ میری شاعری سے صنفی امتیاز (Gender Discrimination ) نہ چھلکے تو کیا مجھے نسوانی لب و لہجے میں شاعری کرنا ہوگی؟

دراصل صنفی اعتبار سے لہجے کا امتیاز انسانیت کے برخلاف کوئی شے نہیں ہے۔ بلکہ انسانیت تو اُن قدروں میں ہوتی ہے جن سے انسان وابستہ ہوتا ہے اگر آپ اُن قدروں کو اہمیت دیتے ہیں تو آپ انسان دوست ہیں ورنہ نہیں!

اُمید ہے کوئی بات آپ کو ناگوار نہیں گزری ہوگی۔

روح افزا مل جائے تو ہمارے لئے بھی منگوا لیجے حسن بھائی! :) :) :)

احمد بھائی ابھی تو کچھ بھی مل جائے۔۔۔۔۔۔۔ بس۔۔۔!!

بھیا جی! یقین کیجئیے! مجھے کوئی بات ناگوار نہیں گزری :) میں نے آپ کی بات کا جواب دیا تھا مگر آپ کے جواب سے ایسا معلوم ہو رہا ہے کہ آپ سمجھ نہیں پائے. جو مثال آپ نے دی اُس میں اور اِس غزل , اس کے مضامین اور مجھ میں فرق ہے اور اسے سمجھنے کے لیے اِس سائیڈ پہ آنا پڑے گا. ;)

اب اُس سائیڈ پر آنا تو دشوار ہے۔ :)

ویسے میرے کہنے کا مطلب یہ تھا کہ آپ کی غزل میں اگر "مر رہا تھا" کی جگہ "مر رہی تھی" بھی ہوتا تو اُس سے آپ کی انسانیت یا غزل کی انسانیت پر کوئی فرق نہیں پڑتا۔
اب فرض کیجے کہ یہ غزل کہیں بغیر نام کے پوسٹ ہوتی ہے تو کسی کے وہم و گمان میں بھی نہیں آئے گا کہ یہ غزل کسی "مریم افتخار" کی ہے۔

ان تمام باتوں کے باوجود آپ کی غزل بہت اچھی ہے اور لائقِ ستائش ہے۔

ویسے میں ادب میں صنفی امتیاز کا قائل نہیں ہوں، میرے نزدیک اچھا کلام قابلِ تعریف ہوتا ہے چاہے وہ کسی نے بھی کہا ہو۔

ہوائی باتیں
خلائی گفتگو
مجال ہے جو ایک لفظ سمجھ آیا ہو۔۔۔ کوئی پہلے روح افزاء پلا دے :p:ROFLMAO:
دو فلاسفر جہاں مل جائیں وہاں میرا جیسا صرف چائے پینے ہی جا سکتا ہے بشرطیکہ چائے ہی ہو ;)
 

یوسف سلطان

محفلین
سود و زیاں سے پرے، صرف خدا کے اسیر
اہلِ تصوف وہ ہیں، جن پہ ہے خالق کو ناز
بہت خوب ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

رات کی خیمہ گاہ میں شمع جلانے آ گئی
آ گئی مہرباں کی یاد، آگ لگانے آ گئی

بندہ نواز، کیا کروں؟ مجھ کو تو خود نہیں خبر
فرش میں عرش کی کشش کیسے نجانے آ گئی؟

جس کے وجود کا پتا موت کو بھی نہ مل سکا
اس کی گلی میں زندگی شور مچانے آ گئی

خاک ہوا تو دیکھیے، خاک پہ فضل کیا ہوا
کوچۂِ یار کی ہوا مجھ کو اڑانے آ گئی
بہت اعلی۔
عشق مشکل میں ہے، ضبط اس سے بڑی مشکل میں ہے
دل تمنا میں گیا، پھر بھی تمنا دل میں ہے

کچھ نہ کچھ تاب و تواں باقی ابھی بسمل میں ہے
پوچھ لیجے، آخر ایسی بات کیا قاتل میں ہے؟

جس کے باعث حسن ہے بدنام ازل سے، غافلو!
وہ خرابی اصل میں عاشق کے آب و گل میں ہے

انتظارِ وصل میں ہے کیا مزا، مت پوچھیے
پوچھیے مت، کیا مزا اس سعیِ لاحاصل میں ہے

خود شناسی کے سفر میں کیا نہیں پائی مراد
یہ وہ منزل ہے کہ جس کی راہ بھی منزل میں ہے

نام ہی کا رہ گیا ہوں یوں بھی اب راحیلؔ میں
"ذکر میرا مجھ سے بہتر ہے کہ اس محفل میں ہے"​

واہ واہ راحیل بھائی بہت خوب۔
اللہ کرے زورِقلم اور ۔
 
Top