اردو محفل سالانہ عالمی اردو مشاعرہ 2016

کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں
تمام احباب کو محفل کی گیارھویں سالگره بہت بہت مبارک ہو۔
مشاعرے کے منتظمین اور شرکاء نے اس مشاعرے میں چار چاند لگا دیے ہیں۔
یہ خاکسار بھی چند بے ڈھب سے اشعار غزل کے نام پر لے کر حاضرِ خدمت ہے۔
پہلے ایک زیرِ ترتیب غزل سے چند اشعار
-----------------------------------
نگاہِ ناز نے بھٹکا دیا تھا تقریباََ
تُو ریگزارِ محبّت سے بال بال بچا !

ذرا سا بیٹھ کے پھر سوچ لے محبّت پر
یہ چند لمحے خرچ کر کے ماہ و سال بچا !

شکار گھات لگائے تھا خود شکاری پر
وہی ہوا کہ شکاری بچا ، نہ جال بچا !

صفِ عدو سے نکل کر تو دوستوں میں ہے اب
جو وار پشت سے ہو، اس کو اب سنبھال ، بچا !

-----------------------------------
ایک تازہ غزل پیش کر رہا ہوں۔ آپ احباب کی توجہ چاہونگا۔

مطلع عرض کیا ہے۔
سرابِ زندگی میں ہوں رواں آہستہ آہستہ !
بڑھا جاتا ہے رنجِ رفتگاں آہستہ آہستہ !

بھلا لگتا ہے جب میں دیکھتا ہوں ایک آہنگ میں
ہوا میں پٹ ہلاتی کھڑکیاں آہستہ آہستہ !

یہ سگریٹ منظرِ شامِ غریباں پیش کرتی ہے
بھرا کرتی ہے کمرے میں دھواں آہستہ آہستہ!

بہت ہی سست ہے منظر کلی سے پھول بننے کا
نہاں ہوتا ہے آخر خود، عیاں آہستہ آہستہ!

سبق لے سیکھ لے دل گفتگو میں خود ستائش کی
بھری جاتی ہیں کیسے چسکیاں آہستہ آہستہ!

کسی کی یاد سے چونکا ہوں یا پھر واقعی یہ ہے
گھلی ہیں چائے میں کچھ تِلخیاں آہستہ آہستہ!

اور غزل کا مقطع پیش کر رہا ہوں۔
میں شہرِ غم میں کاشف ایسی تاریخی جگہ پر ہوں
گَلی دیوارِ گریہ بھی جہاں آہستہ آہستہ !
سیّد کاشف
-----------------------------------

مشاعرے کے لئے ایک طرحی غزل بھی پیش کرنے کی اجازت چاہونگا۔
چچا غالب کی غزل کا مصرع ہو اور دل نا مچلے ! ایسا تو ہو ہی نہیں سکتا !


بے قراری کا یہ جُز، کیا قربتِ منزل میں ہے ؟
یا خمیرِ ذات کا حصّہ ہے، میری گِل میں ہے ؟


دم بہ دم اک جستجو، دریا بہ دریا جُو بہ جُو
ہے مزا جو اس تگ و دو میں، کہاں حاصل میں ہے!

پھر نئے طوفاں سے ہونگے برسرِ پیکار ہم
اس توقع کی وجہہ کچھ دوریءِ ساحل میں ہے

اک سراب آرزو سے ہم ہوئے ہیں دستکش
پیش انجانا سفر اب اک نئی منزل میں ہے

اے نشاطِ امتحاں، مدّت وہ دل کو شاق ہے
عرصۂِ امن و اماں، جو ہر پسِ مشکل میں ہے!

میری کاوش کے قصیدے کل عدو کے لب پہ تھے
"ذکر میرا مجھ سے بہتر ہے کہ اس محفل میں ہے"!



ڈھونڈ لائے کاش وہ روشن نگیں غیروں سے تُو
اصل میں گھر جس کا تیرے سینہءِ غافل میں ہے

شاخ سے گرتے ہوئے پتّے پہ دل چھوٹا نہ کر
جانے کس کس زندگی کا حل اسی مشکل میں ہے

عالمِ امکاں میں سب نقشِ قدم ہیں معتبر !
اور اسبابِ سفر کاشف رہِ منزل میں ہے
سیّد کاشف
----------------------------
ایک بار پھر تمام منتظمین کو اس کامیاب مشاعرے کے انعقاد پر دلی مبارکباد۔
 
دم بہ دم اک جستجو، دریا بہ دریا جُو بہ جُو
ہے مزا جو اس تگ و دو میں، کہاں حاصل میں ہے!

شاخ سے گرتے ہوئے پتّے پہ دل چھوٹا نہ کر
جانے کس کس زندگی کا حل اسی مشکل میں ہے​

یہ تھے جناب کاشف اسرار احمد، جو مشاعرہ کو اپنے کلام سے معطر کر رہے تھے۔

مشاعرہ شعراء کے خوبصورت کلام سے سجتا ہوا آگے کی طرف بڑھ رہا ہے۔ دنیا بھر سے افراد کی شرکت کے باعث مشاعرہ کی رفتار کچھ کم ہی رہتی ہے۔ لیکن امید ہے کہ شعراء کا جاندار کلام اسے زندہ رکھے گا اور قارئین کی دلچسپی کا سامان مہیا ہوتا رہے گا۔

اب میں دعوتِ کلام دے رہا ہوں جناب منیب احمد فاتح صاحب کو ،کہ وہ آئیں اور اپنے کلام سے مشاعرے کو مہکائیں۔
جناب منیب احمد فاتح
 
آخری تدوین:
مجھے اس شاندار مشاعرے میں شریک ہونے کا موقع دیا گیا۔ اس کے لیے آپ سب کا شکرگزار ہوں۔
زیادہ نہیں، بس دو ہی غزلیں لے کر حاضر ہوا ہوں۔ پہلی مصرع طرح کے مطابق ہے۔ عرض کیا ہے:
ناخدایا گوہر مقصود کس ساحل میں ہے؟
جوش زن موج تمنائے معانی دل میں ہے
کیوں چلوں طے کردہ راہوں پر مثال گوسفند
جستجو دل کی تلاش رہبر کامل میں ہے
چشمِ مہر و ماہ مثلِ دیدۂ جوہر بنی
ایک عالم انتظار جوہر قابل میں ہے
حاملِ خاصیتِ صحرا نوردی اب بھی ہیں
ہے جنوں محمول لیلیٰ پر اگر محمل میں ہے
مدعا پانے کا دعویٰ کون کر پائے منیب
عزمِ آغازِ سفر مدعو ہر اک منزل میں ہے​
بعد اس کے،
گم نہ رہ سوچ میں تو دیکھ کے چل کچھ مت سوچ
ذہن کی بھول بھلیوں سے نکل کچھ مت سوچ
دل اندھیرے کا تری آگ سے ہو جائے گا موم
موم بتی کی طرح چپکے پگھل کچھ مت سوچ
روشنی بانٹ اگر سینہ ترا روشن ہے
کیوں ہیں اوروں کے بجھے دل کے کنول کچھ مت سوچ
معرفت ڈھونڈ سرِ راہِ طلب زیرِ شجر
میرے گوتم! پسِ دیوارِ محل کچھ مت سوچ
بیج بو بیج یہ دنیا ہے عمل کی کھیتی
فصل ناکام رہے گی کہ سپھل کچھ مت سوچ
اژدھا ڈر کا مقابل ہو تو تلوار نکال
وہم کے سانپ کو پتھر سے کچل کچھ مت سوچ
زندگی جنگ ہے لمحات سے لڑنا ہے تجھے
جیتنا چاہے تو دورانِ جدل کچھ مت سوچ
خود کو مصروف رکھ اس آج کے عرصے میں منیب
کل کا سوچیں گے جب آ جائے گا کل کچھ مت سوچ

بہت شکریہ!
 
آخری تدوین:
کیوں چلوں طے کردہ راہوں پر مثال گوسفند
جستجو دل کی تلاش رہبر کامل میں ہے

بیج بو بیج یہ دنیا ہے عمل کی کھیتی
فصل ناکام رہے گی کہ سپھل کچھ مت سوچ​

یہ تھے جناب منیب احمد فاتح، جنہوں نے اپنے کلام اور آواز سے قارئین و سامعین کو محظوظ کیا.

اب میں دعوتِ کلام دے رہا ہوں محترمہ نمرہ صاحبہ کو، کہ وہ آئیں اور اپنا کلام پیش کریں.
محترمہ نمرہ
 
بوجوہ کسی مصروفیت کے محترمہ نمرہ صاحبہ شریک نہ ہو پائیں.
محفل کی کاروائی کو آگے بڑھاتے ہوئے اگلی سخن ور محترمہ نور سعدیہ شیخ صاحبہ کو اس شعر کے ساتھ دعوت دے رہا ہوں

یہ اور بات کہ وہ منبر پہ آکے کچھ نہ کہے
خاموش لوگ بلا کے خطیب ہوتے ہیں
 
آخری تدوین:

نور وجدان

لائبریرین
سب سے پہلے تو اہلِیان محفلین کو دلی مبارک باد !
سب حاضرین کو السلام علیکم

میں کچھ متفرق اشعار پیش کرنا چاہوں گی ۔۔۔ نیا تو کچھ خاص لکھ نہیں پائی ہوں اس لیے پرانا کلام ہی حاضر خدمت ہے ۔۔۔۔۔

حمدیہ اشعار ۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تو نورِ سماوی ، تو نور ِ زمانی
نبی سارے تیری ہیں نوری نشانی

محمد ﷺ میں تیری ہے حکمت مکمل
بشر کی وہ صورت میں تیرا تجمل
=======
نعتیہ اشعار
مقامِ حرا ، معرفت سے ضُو پائی
نبوت سے ظلمت جہاں کی مٹائی

خشیت سے جسمِ مطہر تھا کانپا
خدیجہ نے کملی سے انہیں تھا ڈھانپا


منور ،منقی تجلی سے سینہ
پیامِ خدا سے ملا پھر سفینہ

چراغِ الوہی جلا مثلِ خورشید
تجلی میں جس کی، خدا کی ملےدید

=========
اسے میرے احساس ہی سے ہے نفرت
بجھا چاہتا ہے چراغِ محبت

مداوا غمِ دل کا ہوگا بھی کیسے
کہ زخموں سے ہونے لگی ہے محبت
===================
خواب دیکھوں میں بہارِ شوق کا
مت مچا تو شور اب زنجیر سے

سب تمنائیں ہوئیں اب نور ختم
مت ڈرا ہمدم مجھے تقدیر سے
===============


فراق یارکا ہر لمحہ بے قرار ہوا
سرابِ دشت مرے عشق کا گماں ٹھہرا
حریمِ دل کے بیابان میں ڈھونڈتے پھرتے
غزالِ دشت نے پھر نغمہء فغاں چھیڑا
صدائے نغمہء آہو کا سحر طاری تھی
وصالِ یار حقیقت نہیں فسانہ ہے
مگر فسانہ حقیقت سے کچھ بعید نہ تھا
کشان غم کی تپش سے جو اضطراب بڑھا
ترے خیال کی شدت نے مجھ کو آ تھاما
وصالِ یار کے لمحوں سے پیارا ہجر مجھے
=======================​

ہم نشیں تو خزاں کی بات نہ کر
ہے تخییل سے دور اک وادی
آج کل میں وہاں مکیں ہوتے،
خود ہی تجھ سے میں اب بچھڑ رہی ہوں،
یوں سمجھنا کہ اب بکھر رہی ہوں،
بیچ حائل سراب کا پردہ !
اس کی جھالڑ کو توڑ کے میں نے
سب نہاں کو عیاں کیامیں نے
شان سے جو براجماں تھے تم
دل کی وہ راجدھانی میں خود سے
توڑ کے زخمی ہاتھ کیا کرتی؟
خون رستا رہا کبھو کا ہے!
دل کے برباد کاخ و کو کرتی؟
جا بجا اس میں تیرے تھے شیشے
کانچ کی طرح جانے کیوں بکھرے
خستگی پر غشی سی طاری ہے
یہ گماں ہے نزع کی باری ہے
اک صنم خانہ دل کا ٹوٹاہے
ہم نشیں تو خزاں کی بات نہ کر
موسموں کی ،رتوں کی بات نہ کر
چاہتوں کی ، وفاؤں کی باتیں
فاصلوں کی عطا نہیں ہوتی
چاہتوں کی قضا نہیں ہوتی
=========​
 
آخری تدوین:
مداوا غمِ دل کا ہوگا بھی کیسے
کہ زخموں سے ہونے لگی ہے محبت

سب تمنائیں ہوئیں اب نور ختم
مت ڈرا ہمدم مجھے تقدیر سے

یہ تھیں محترمہ نور سعدیہ شیخ صاحبہ جو قارئین کے سامنے اپنے خوبصورت منظوم خیالات کا اظہار کر رہیں تھیں۔

اب میں دعوتِ کلام دینے جا رہا ہوں محترمہ ایمان قیصرانی صاحبہ کو ، کہ وہ محفل مشاعرہ میں اپنا کلام پیش کریں۔
محترمہ ایمان قیصرانی
 
لیجئے ہم بھی حاضر ،تاخیر کی معذرت

غزل
تو اپنی زات کے زنداں سے گر رہائی دے۔
تو مجھ کو پھر میرے ہمزاد کچھ دکھائی دے ۔
بس ایک گھر ہو خدائی میں کائنات مری ،
مرے خدا ! مجھے اتنی بڑی خدائی دے ۔
میں اُسکو بھولنا چاہوں تو گونج کی صورت ،
وہ مجھ کو روح کی پاتال میں دکھائی دے ۔
بجھا چکا ھے زمانہ چراغ سب لیکن !
یہ میرا عشق کہ ہر راستہ دکھائی دے ۔
ہمارے شہر کے سوداگروں کی محفل میں،
وہ ایک شخص کہ سب سے الگ دکھائی دے ۔
اُسے غرور ِ عطا ہے ،کوئی تو اب آ ئے ،
جو اُس کے دست میں بھی کاسہِ گدائی دے۔
پلٹ بھی سکتی ہوں ایماں فنا کی راہوں سے،
اگر کوئی مجھے اُس نام کی دُھائی دے ۔

------

غزل
ایک ادھورے خواب کا منظر آنکھوں میں تحریر ہوا ہے ۔
راتوں کا وہ چاند بنا ہے ، صبحوں کی تعبیر ہوا ہے ۔
درد سے جس کی خوب بنی ہو،جس نے دل پہ چوٹ سہی ہو،
وہ ہی شیلے ،کیٹس بنا ہے ، وہ ہی غالب ،میر ہوا ہے۔
ہجر کی اندھی شش جہتوں میں،ذات کی سجدہ گاہوں میں
عشق ہمارا مرشد ِ اولیٰ ،عشق ہی قبلہ پیر ہوا ہے ۔
کیا کیا منظر دکھلائے ہیں ،وقت کے رستے زخموں نے
دکھ کا گہرا سناٹا اب آنکھوں میں تحریر ہوا ہے ۔
آنکھ کی رتھ پر بیٹھا سپنا ، اس کا نام ہی جپتا ہے ۔
جس غزنی کے ہاتھ سے میرا دل مندر تسخیر ہوا ہے ۔
صرف ِ نظر سے کیسے کیسے کم ظرفوں کو ظرف ملا ہے
اور ہماری آنکھ کا تنکا ہر اِک کو شہتیر ہوا ہے ۔
آج بھی میرے سر کی چادر ،تیرے عشق کا حجرہ ہے ۔
آج بھی تیرا نقش ِ کف ِ پا ، قدموں کی زنجیر ہوا ہے ۔
لفظ بنے ہیں میری شہرت ،عشق ہوا ہے وجہ ِ شہرت
ایک کئیے ہے ہر سو رسوا،ایک مری تشہیر ہوا ہے ۔
عشق دھمالیں ڈالتی آئی رانجھا رانجھا کرتے ہیر
لیکن کیا کوئی رانجھا اب تک ،عشق میں مثل ِ ہیر ہوا ہے۔
ایماں ایک زمیں زادے کے عشق کا ہے اعجاز فقط
یہ جو ایک سخن دیوی سے شعر نگر تعمیر ہوا ہے ۔

---
 

مقدس

لائبریرین
کیا کیا منظر دکھلائے ہیں ،وقت کے رستے زخموں نے
دکھ کا گہرا سناٹا اب آنکھوں میں تحریر ہوا ہے

آنکھ کی رتھ پر بیٹھا سپنا ، اس کا نام ہی جپتا ہے
جس غزنی کے ہاتھ سے میرا دل مندر تسخیر ہوا ہے


یہ تھیں جنابہ ایمان قیصرانی صاحبہ جو اپنے کلام سے محفل کو محظوظ فرما رہی تھیں۔

اب ہم دعوت کلام دیں گے جناب واسطی خٹک صاحب کو کہ تشریف لائیں اور اپنے کلام سے نوازیں

جناب واسطی خٹک صاحب۔
 

واسطی خٹک

محفلین
السلام علیکم سب کو

سلام کے بعد ایک غزل حاضر هے

شرارتیں بھی ، محبت بھی ، بدگمانی بھی
عجیب سی ہے صنم ! آپ کی کہانی بھی
تمہارے قرب کی لذت سے ہوگئے واقف
بسر کریں گے ، بنا تم یہ زندگانی بھی
سنا ہے شوق ہے اسکو پرانے قصوں کا
اسے سنانا کسی دن مری کہانی بھی
وہی تو ایک حسینہ ہے میرے گاؤں کی
ملی ہے موت بھی جس سے و زندگانی بھی
وہ بادلوں کے گرجنے سے ڈر رہی ہے خٹکؔ
مجھے قبول نہیں اب برستا پانی بھی

ایک اور بھی برداشت کی جیے


جب پڑی اس کی ضرورت مجھ کو
تب ملی خوب عداوت مجھ کو
پہلے مشغول رہا غیبت میں
اب عطا کر دی ہے تہمت مجھ کو
جب کبھی پایا ہے تنہا اس کو
نہ ہوئی بات کی ہمت مجھ کو
وہ جفا کار جفا کر گزرا
اس نے بخشی ہے یہ دولت مجھ کو
پھر تو اس کو بھی پریشاں پایا
جب ہوئی اور سے چاہت مجھ کو

شکریه
 
مدیر کی آخری تدوین:
منفرد اور دل نشیں انداز میں واسطی خٹک صاحب کچھ یوں محو سخن تھے،

سنا ہے شوق ہے اسکو پرانے قصوں کا
اسے سنانا کسی دن مری کہانی بھی

وہ بادلوں کے گرجنے سے ڈر رہی ہے خٹکؔ
مجھے قبول نہیں اب برستا پانی بھی

اب میں ملتمس ہوں محترم فیصل عظیم فیصل صاحب سے۔ آپ تشریف لائیں اورمحفل میں اپنا کلام پیش کریں۔
 
مدیر کی آخری تدوین:
بسم اللہ الرحمن الرحیم
شکریہ محمود چاہت کا محبت کا کہ اب
مجھ کو شاعر کہ رہے ہو گو کہ ذرہ ہوں یہاں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
خوب صورت موسموں میں بارشیں نفاق کی
محو حیرت ہوں کہ پانی کس قدر بادل میں ہے

سوچتا ہے ہر کوئی محفل میں بیٹھا ہے عبث
میں ہوں بہتر مجھ سے بہتر کون اس منزل میں ہے

محفلیں چاہت سے پر ہوں اور باتیں پیار کی
کون جانے کس قدر نفرت تمہارے دل میں ہے

یہ تو ممکن ہی نہیں ہے غیب ہم بھی جان لیں
آج دعوے علم کے، سب قبضہ جاہل میں ہے

گفتگو ہے گفتگو ہے خامشی ہر دل میں ہے
ذکر میرا مجھ سے بہتر ہے کہ اس محفل میں ہے

بدظنی سے بچ کے رہنا رحمتوں کی آس پر
راہ چلنا ان(ص) کی جن ہر ادا کامل میں ہے

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ایک پرانا کلام جو مجھے بہت عزیز ہے ایک بار پھر سے حاضر خدمت ہے

تم لوٹ کے آ جاؤ
ہم انتظار میں ہیں
اب بات کرو ہم سے
ہم انتظار میں ہیں
جب عمر ختم ہوگی
ہم موت سے کہ دیں گے
مت جان ہماری لو
ہم انتظارمیں ہیں
پھر بہہ نکلیں آنسو
سب لوگ کہیں گے یوں
تم لوٹ کے آجاؤ
ہم انتظار میں ہیں​
 
آخری تدوین:
سوچتا ہے ہر کوئی محفل میں بیٹھا ہے عبث
میں ہوں بہتر مجھ سے بہتر کون اس منزل میں ہے

محفلیں چاہت سے پر ہوں اور باتیں پیار کی
کون جانے کس قدر نفرت تمہارے دل میں ہے

یہ تھے جناب فیصل عظیم فیصل صاحب جو اپنا کلام پیش کر رہے تھے۔
اب میں دعوتِ کلام دینے جا رہا ہوں، جناب امجد علی راجا صاحب کو، کہ وہ آئیں اور قارئینِ مشاعرہ کو اپنے کلام سے محظوظ کریں۔
جناب امجد علی راجا صاحب
 
محترم صدرِ محفل، محترم مہمانِ خصوصی، محترم انتظامیہ اور تمام محترم محفلین کی خدمت میں آداب
ہرمحفل کے کچھ آداب ہوتے ہیں، محفلِ مشاعرہ کے تو خاص آداب ہوتے ہیں لیکن میرا کلام پڑھتے وقت صرف اس بات کا خیال رکھا جائے کہ آپ کی زوجہ محترمہ کی نظر میرے کلام پر نہ پڑ جائے (بصورتِ دیگر ذمہ داری آپ کی اپنی ہوگی)۔
امید ہے کہ آپ سب میرے اشعار کی گہرائی میں غوطہ زن ہونے کی بجائے صرف داد دینے پر ہی اکتفا کریں گے۔ اشعار کا مطلب آپ بعد میں سمجھتے رہیئے گا۔ سمجھ آگئے تو آپ کے نصیب بصورتِ دیگر یقین کر لیجیئے گا کہ الہامی کلام ہے۔



زلفِ دراز شان ہے حسن و جمال کی
نسوانیت ادھوری ہے اس کو نکال کر

بیگم! اسی کی چھاؤں میں رہتے ہیں عاشقین
رسوا کرو نہ زلف کو سالن میں ڈال کر​



کتابوں میں بہت نقصان اٹھا کر
دکاں پر رکھ لئے جوتے جرابیں

چراغ علم یوں روشن کیا پھر
سر فٹ پاتھ رکھ دیں سب کتابیں​



چار دفتر میں ہیں، اک گھر میں ہے اور اک دل میں ہے
چھ حسینوں میں گھرا امجد بڑی مشکل میں ہے

ذکر سن کر چھ حسینوں کا نہ گھبرا جانِ من
اک حسینہ کے لئے اب بھی جگہ اس دل میں ہے

ساس کے پہلو میں بیوی کو جو دیکھا، ڈر گیا
یا الہٰی خیر ہو خنجر کفِ قاتل میں ہے

دے رہا تھا لیڈروں کو گالیاں جو جو بھی وہ
"میں نے یہ جانا کہ گویا یہ بھی میرے دل میں ہے"

میں تو سمجھا تھا کہ جاں لیوا ہے بیماری مری
موت کا سامان لیکن ڈاکٹر کے بل میں ہے

دیکھ کر کل رات فیشن شو میں بوفے حسن کا
آ گئے ہم گھر مگر دل اب بھی اس محفل میں ہے

میری دل جوئی کو آنے لگ پڑیں ہمسائیاں
فائدہ کیا کیا مرا بیگم تری کِلکِل میں ہے

دیکھئے، رشوت نہیں لایا، سفارش بھی نہیں
ایک بھی خوبی بھلا اس کی پروفائل میں ہے؟

آپ جو فائل دبا کر بیٹھے ہیں دو ماہ سے
آپ کا نذرانہ عالی جا! اسی فائل میں ہے

ہے غلط فہمی کہ خوش فہمی مگر لگتا ہے یہ
ذکرِ امجد اب تو اردو کی ہر اک محفل میں ہے​



(So Boring)

ایک جنجال ہے سسرال مرا، سو بورنگ
اس پہ شوہر بھی نہ قابو میں ہوا، سو بورنگ

مر گئے چھوڑ کے دولت کے خزانے دادا
جشن کے بدلے ہوئی قل کی دعا، سو بورنگ

گولڈ کی رنگ، آئی فون، نہ پرفیوم کوئی
پیار میں اس نے بس اک پھول دیا، سو بورنگ

گو کہ افسر ہے مگر ہے وہ بہت نالائق
اپنے خرچے پہ وہ حج کرنے گیا، سو بورنگ

چھ مہینے سے وہ چپکی ہے اسی لڑکے سے
آج کے فاسٹ زمانے میں وفا، سو بورنگ

شعر تو کہتے ہیں بجلی کے اجالے میں مگر
ان کے ہر شعر میں جلتا ہے دیا، سو بورنگ

ڈش کوئی مرغ کی کھائے تو کوئی بات بھی ہو
دال پہ کرتا ہے وہ شکر ادا، سو بورنگ

میں نے لکھا اسے اردو میں محبت نامہ
ہائے، انگریز کی بچی نے کہا، سو بورنگ

میری پرلطف غزل بزم میں سن کر لوگو
کس چھچھورے نے لگائی ہے صدا، ”سو بورنگ“​



یہاں میں اپنی بیوی کا شکریہ ضرور ادا کرنا چاہوں گا جس کے تعریفی اور تنقیدی رویے نے اس مشاعرے کے لئے کلام مکمل کرنے میں میری بہت حوصلہ افزائی فرمائی، حالانکہ بحیثیتِ بیوی یہ کافی مشکل کام تھا۔
شکریہ بیگم۔
 
مدیر کی آخری تدوین:
محفل مشاعرہ کے دھنک رنگ میں اک نئے رنگ کا، منفرد ڈھنگ اور آہنگ سے کچھ یوں اضافہ کررہے تھے محترم امجد علی راجا صاحب،

کتابوں میں بہت نقصان اٹھا کر
دکاں پر رکھ لئے جوتے جرابیں

چراغ علم یوں روشن کیا پھر
سر فٹ پاتھ رکھ دیں سب کتابیں

ساس کے پہلو میں بیوی کو جو دیکھا، ڈر گیا
یا الہٰی خیر ہو خنجر کفِ قاتل میں ہے

دے رہا تھا لیڈروں کو گالیاں جو جو بھی وہ
"میں نے یہ جانا کہ گویا یہ بھی میرے دل میں ہے"

گو کہ افسر ہے مگر ہے وہ بہت نالائق
اپنے خرچے پہ وہ حج کرنے گیا، سو بورنگ
میں نے لکھا اسے اردو میں محبت نامہ
ہائے، انگریز کی بچی نے کہا، سو بورنگ​

معاشرتی سچائیوں کو بہت خوبصورت انداز میں مزاح میں ڈھالا محترم امجد علی راجا صاحب نے، آپ کی نظر یہ شعر،​

غلط تھے وعدے مگر میں یقین رکھتا تھا
کہ وہ شخص لب و لہجہ دل نشین رکھتا تھا​

انہیں کلمات کے ساتھ محفل کی کاروائی آگے بڑھاتے ہوئے اگلی مہمان سخن ور محترمہ نمرہ صاحبہ کو دعوت کلام دے رہا ہوں۔ آپ تشریف لائیں اور محفل سے ہم کلام ہوں۔​
 
آخری تدوین:

نمرہ

محفلین
منتظمین اور دیگر افراد کے شکریے کے ساتھ ایک غزل۔


اور کیا ساماں بہم بہرِ تباہی چاہیے
حسنِ لب بستہ سے ذوقِ کم نگاہی چاہیے
جانثاری مشغلہ ہی سمجھیے عشاق کا
روزِ محشر آپ کی لیکن گواہی چاہیے
آبلوں کی جستجو میں دشت گردی خوب، پر
علم کچھ منزل کا بھی نادان راہی چاہیے
ہم لیے پھرتے ہیں کاندھوں پر جہاں داری کا بوجھ
اور ضد یہ ہے، غرورِ کج کلاہی چاہیے
بسکہ طالب اپنے دل پر اختیارِ کل کے ہیں
کب سکندر کی سی ہم کو بادشاہی چاہیے
آرزو یاں کچھ نہیں جز ایک اقرارِ گنہ
اور واں اصرار، تیری بے گناہی چاہیے
شعر گوئی کارِ لاحاصل سہی، پر سچ یہ ہے
مشغلہ آخر کوئی خواہی نخواہی چاہیے​

اور مصرع طرح پر میری طبع آزمائی:

قیس کو دشت جنوں میں بڑھ کے ہے زنجیر سے
اک کسک کہ جستجوئے عشق لاحاصل میں ہے
عشق کا ہر مرحلہ پہلے سے ہے دشوار تر
دل خدا جانے کہاں ہے، کون سی منزل میں ہے
چین سے رہنے نہیں دیتی کہیں اک پل مجھے
ایک سیمابی سی کیفیت کہ آب و گل میں ہے
مار ڈالے گی ہمیں پتھر دلی کے باوجود
کچھ ستاروں سی چمک جو دیدۂ سائل میںہے
بحر کی موجوں کو گر بھاتا ہے ساحل کاسکون
بے کراں ہونے کی حسرت موجۂ ساحل میں ہے
بے نیازی کا وہ عالم ہے، تسلی یہ نہیں
ذکر میرا مجھ سے بہتر ہے کہ اس محفل میں ہے​
 
مدیر کی آخری تدوین:
ہم لیے پھرتے ہیں کاندھوں پر جہاں داری کا بوجھ
اور ضد یہ ہے، غرورِ کج کلاہی چاہیے

بے نیازی کا وہ عالم ہے، تسلی یہ نہیں
ذکر میرا مجھ سے بہتر ہے کہ اس محفل میں ہے​
بہت خوبصورت اور منفرد انداز میں محو کلام تھیں محترمہ نمرہ صاحبہ۔
اب میں اپنے ایوان سے دعوت سخن دے رہا ہوں محترم ذوالفقار نقوی صاحب کو آپ تشریف لائیں اور اپنا کلام پیش کریں۔
 
السلام علیکم منتظمین و قارئین کرام ۔۔۔۔
حکم کی تعمیل میں ایک ادنی سی کوشش پیش خدمت ہے ۔۔۔۔

غزل
مجھے زمان و مکاں کی حدود میں نا رکھ
صدا و صوت کی اندھی قیود میں نا رکھ

میں تیرے حرف ِ دعا سے بھی ماورا ہوں میاں
مجھے تُو اپنے سلام و درود میں نا رکھ

کلیم ِ وقت کے در کو جبیں ترستی ہے
امیر ِ شہر کے بیکل سجود میں نا رکھ

نظام ِ قیصر و کسری کی میں روانی ہوں
وجوب ِ عین ہوں صاحب شہود میں نا رکھ

بچھا یقیں کا مصلی درون ِ ہستی میں
نیاز و راز کے قصے نمود میں نا رکھ

پس ِ وجود ِ جہاں میری خاک ہی تو ہے
رموز ِ ہستی ِ دوراں وُرود میں نا رکھ

ذوالفقار نقوی ۔۔ انڈیا



السلام علیکم ۔۔۔ تاخیر کے لئے معذرت ۔۔۔میرا نیٹ ایک مسئلہ تھا ۔۔۔۔
بہر حال حکم کی تعمیل میں ایک اور غزل پیش ِ خدمت ہے ۔۔۔۔۔

دشت میں دھوپ کی بھی کمی ہے کہاں
پاؤں شل ہیں مگر بے بسی ہے کہاں

لمس ِ دشت ِ بلا ہی کی سوغات ہے
میرے اطراف میں بے حسی ہے کہاں

خاک میں خاک ہوں ، بے مکاں بے نشاں
میرا ملبوس ِ تن خسروی ہے کہاں

میرا سوز ِ دروں مائل ِ لطف ہو
مجھ میں شعلہ فشاں وہ نمی ہے کہاں

پھونک دے بڑھ کے جو تیرگی کا بدن
میری آنکھوں میں وہ روشنی ہے کہاں

صوت و حرف ِ تمنا سے ہو با خبر
ایسی ادراک میں نغمگی ہے کہاں

ذوالفقار نقوی ۔۔۔ انڈیا
 
مدیر کی آخری تدوین:

مقدس

لائبریرین
میں تیرے حرف ِ دعا سے بھی ماورا ہوں میاں
مجھے تُو اپنے سلام و درود میں نا رکھ
کلیم ِ وقت کے در کو جبیں ترستی ہے
امیر ِ شہر کے بیکل سجود میں نا رکھ


لمس ِ دشت ِ بلا ہی کی سوغات ہے
میرے اطراف میں بے حسی ہے کہاں

محترم ذوالفقار نقوی صاحب کے پرکیف کلام کے بعد ہم اب دعوتِ کلام دیتے ہیں محترم حسن محمود جماعتی صاحب کو کہ وہ اپنا کلام پیش فرما کر مشاعرے کی رونق کو بڑھائیں۔

محترم حسن محمود جماعتی صاحب
 
بہت بہت شکریہ مقدس آپ کا۔
صدر محفل کی اجازت سے۔۔۔۔
سب سے پہلے صدر محفل و میر محفل کو آداب اور سلام عرض ہے۔
جملہ محفلین، اراکین، قارئین، ناظرین، حاضرین، وابستگان اور مہمانان کو ہماری ہر دل عزیز اور بہت ہی پیاری "اردو محفل" کی گیارہویں سالگرہ بہت بہت مبارک ہو۔
؎ پھلا پھولا رہے یا رب چمن ہماری امیدوں کا​
دعا ہے باری تعالی ہماری اس اردو محفل کو اسی طرح شاد آباد اور پر رونق رکھے ہمیں اس محفل سے اور آپس میں محبت عطا کرے۔
اجازت کے ساتھ۔۔۔۔
اس شعر سے آغاز کرتا ہوں، عرض کیا ہے کہ۔۔۔
؎ لکھا نہیں جو مقدر میں دینے والے نے
ملا نہیں تو پھر اس پر ملال کیسا ہے​

ایک قطعہ ملاحظہ فرمائیں۔

؎ ہاں دل کی تسلی کے لیے بات ٹھیک ہے
یہ اور بات خوف سا چھایا ہے آپ پر
دامن ہمارا چھوڑ کے جی لیں گے آپ بھی
لیکن ہمارا آج بھی سایہ ہے آپ پر​


اس قطعہ اور غزل کے ساتھ اجازت۔۔۔۔۔

؎ وسعت ذات میں کھویا ہوں تجھے پایا ہے
جس جگہ دیکھتا ہوں یہ ترا سایہ ہے
میں کہ افلاک کی گردش کو کہاں چھو سکتا
یہ ترا لمس افق پار تلک لایا ہے​




لے کے حسن و خمار پہلو میں
کب سے بیٹھا ہے یار پہلو میں

قتل کرنے کو ایک کافی ہے
کر سلیقے سے وار پہلو میں

اُن سے پہلو تہی نہیں ہوتی
جن کا رہتا ہو پیار پہلو میں

عشق کرنے کا ہے مزہ جب ہی
ہو رقابت کا خار پہلو میں

زندگی دیر تک نہیں چلتی
ہجر کا لےکے بار پہلو میں

آگ نفرت کی کیا جلائےہمیں
تیرے غم کی ہے نار پہلو میں

جب محبت کو ہم نےدفنایا
اک بنایا مزار پہلو میں

ہم حسن شوق سے جھکائیں گے سر
وہ سجائے جو دار پہلو میں

والسلام شکریہ
حسن محمود جماعتی​
 
آخری تدوین:
کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں
Top