اردو محفل سالانہ عالمی اردو مشاعرہ 2016

کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں
لکھا نہیں جو مقدر میں دینے والے نے
ملا نہیں تو پھر اس پر ملال کیسا ہے

قتل کرنے کو ایک کافی ہے
کر سلیقے سے وار پہلو میں

اُن سے پہلو تہی نہیں ہوتی
جن کا رہتا ہو پیار پہلو میں
یہ تھے جناب حسن محمود جماعتی صاحب جو اپنے خوبصورت کلام سے مشاعرہ کو مہکا رہے تھے.

آن لائن مشاعرہ میں شعراء اور انتظامیہ کی موجودگی مختلف اوقات میں ہونے کے سبب تاخیر ہوتی ہے. صبح کے وقت میں دفتری اوقات کے باعث بھی مشاعرہ میں ٹھہراؤ آ جاتا ہے.

قارئین سے گزارش ہے کہ خاطر جمع رکھیے، مشاعرہ جاری ہے، اور شعراء کے میسر ہوتے ہی آگے بڑھے گا.

امید ہے کہ اپنے تبصروں سے مشاعرہ کی رونق بڑھاتے رہیں گے. :)
 
مدیر کی آخری تدوین:

Arshad khan

محفلین
تمام سخن شناس احباب کو دل کی گہرائیوں سے السلام علیکم
اور اردو محفل کا بہت بہت شکریہ کہ مجھ ناچیز کو اس مشاعرہ میں شرکت کا موقع دیا. اور اب جناب برداشت کی جیے میرا ﭨﻮﭨﺎ ﭘﮭﻮﭨﺎ ﮐﻼﻡ
سب سے پہلے اک نظم
عنوان ہے "شکایت"

ﻣﺠﮭﮯ ﺗﻢ ﺳﮯ ﺷﮑﺎﯾﺖ ﮨﮯ
ﻓﻘﻂ ﺍﮎ ﮨﯽ ﺷﮑﺎﯾﺖ ﺑﺲ
ﺗﻤﮩﯿﮟ ﻧﻔﺮﺕ ﮨﮯ ﻣﺠﮫ ﺳﮯ
ﯾﮧ ﻧﮩﯿﮟ ﺷﮑﻮﮦ
ﮐﺮﻭ ﺗﻢ ﺷﻮﻕ ﺳﮯ ﻧﻔﺮﺕ
ﻧﮩﯿﮟ ﭘﺮﻭﺍﮦ
ﻣﮕﺮ ﺍﺗﻨﯽ ﮔﺰﺍﺭﺵ ﮨﮯ
ﺧﺪﺍ ﮐﮯ ﻭﺍﺳﻄﮯ
ﻣﯿﺮﯼ ﻣﺤﺒﺖ ﮐﻮ
ﮨﻮﺱ ﮐﺎ ﻧﺎﻡ ﻣﺖ ﺩﯾﻨﺎ
ﻣﺘﺎﻉِ ﺟﺎﮞ ﻣﺤﺒﺖ ﺍﻭﺭ ﮨﻮﺱ ﻣﯿﮟ
ﻓﺮﻕ ﮨﻮﺗﺎ ﮨﮯ
ﻣﺤﺒﺖ ﻣﯿﮟ ﺑﺪﻥ ﮐﺎ ﺗﻮ
ﺗﺼﻮﺭ ﮨﯽ ﻧﮩﯿﮟ ﮨﻮﺗﺎ
ﻓﻘﻂ ﺍﺣﺴﺎﺱ ﮨﻮﺗﮯ ﮨﯿﮟ
ﺟﻨﮩﯿﮟ ﻣﯿﮟ ﻧﺎﻡ ﺑﻬﯽ
ﺩﯾﻨﮯ ﺳﮯ ﻗﺎﺻﺮ ﮨﻮﮞ
ﮐﺒﮭﯽ ﯾﮧ ﺧﺘﻢ ﮨﻮﺟﺎﺋﮯ ﻧﮩﯿﮟ ﻣﻤﮑﻦ
ﻣﮕﺮ ﺍﮮ ﺟﺎﻥِ ﻣﺤﺒﻮﺑﯽ
ﮨﻮﺱ ﻣﯿﮟ ﮐﭽﮫ ﻧﮩﯿﮟ ﮨﻮﺗﺎ
ﻓﻘﻂ ﺩﻭ ﺟﺴﻢ ﮨﻮﺗﮯ ﮨﯿﮟ
ﺑﮩﺖ ﮨﯽ ﻋﺎﺭﺿﯽ ﻋﺮﺻﮯ ﮐﻮ ﺭﮨﺘﮯ ﮨﯿﮟ
ﻣﺘﺎﻉِ ﺟﺎﮞ ﻣﺤﺒﺖ ﺍﻭﺭ ﮨﻮﺱ ﻣﯿﮟ
ﻓﺮﻕ ﮨﻮﺗﺎ ﮨﮯ
ﻣﺠﮭﮯ ﺗﻢ ﺳﮯ ﻣﺤﺒﺖ ﮨﮯ

اور اب ایک غزل پیشِ خدمت ہے

ﻣﺴﮑﻦ ﺗﮭﺎ ﻣﯿﺮﺍ ﺩﻝ ﮐﺒﮭﯽ ﺗﯿﺮﺍ ﻣﺘﺎﻉِ ﺟﺎﮞ
ﻣﻌﻠﻮﻡ ﺍﺏ ﻧﮩﯿﮟ ﻣﺠﮭﮯ ﺭﮨﺘﯽ ﮨﮯ ﺗﻮ ﮐﮩﺎﮞ

ﺩﻝ ﮐﺶ ﺗﮭﺎ ﺍﺱ ﮐﮯ ﻧﻮﺭ ﺳﮯ ﮐﭽﮫ ﺍﺱ ﻗﺪﺭ ﺳﻤﺎﮞ
ﻣﺤﻔﻞ ﭘﮧ ﮨﻮﮔﯿﺎ ﺗﮭﺎ ﭘﺮﺳﺘﺎﻥ ﮐﺎ ﮔﻤﺎﮞ

ﻧﻮﺭِ ﺳﺤﺮ ﻭﮦ ﺣﻮﺭ ﺷﻤﺎﺋﻞ ﻣﺮﮮ ﻟﺌﮯ
ﮨﮯ ﺷﺎﻡ ﮐﯽ ﺷﻔﻖ ﺑﻬﯽ ﻭﮨﯽ ﺁﺭﺯﻭﺋﮯ ﺟﺎﮞ

ﻭﺍﻗﻒ ﺗﻤﮩﺎﺭﮮ ﻗﺮﺏ ﮐﯽ ﻟﺬﺕ ﺳﮯ ﺟﺐ ﮨﻮﺍ
ﺟﯿﻨﮯ ﻣﯿﮟ ﮐﯿﺎ ﻣﺰﺍ ﮨﮯ ﯾﮧ ﻣﺠﮫ ﭘﮧ ﮨﻮﺍ ﻋﯿﺎﮞ

ﺳﺐ ﮨﯿﮟ ﺗﺮﯼ ﻃﺮﺡ ﻏﻢِ ﺟﺎﻧﺎﮞ ﻣﯿﮟ ﻣﺒﺘﻼ
ﻗﺼﮯ ﺷﺐِ ﻓﺮﺍﻕ ﮐﮯ ارشد ﻧﮧ ﮐﺮ ﺑﯿﺎﮞ

اور مزید چند اشعار

ﺑﮯ ﭘﺮﻭﮞ ﮐﯽ ﺍﮌﺍﻧﮯ ﻭﺍﻟﮯ ﻟﻮﮒ
ﮨﯿﮟ ﺑﮭﺮﻭﺳﮧ ﺍﭨﮭﺎﻧﮯ ﻭﺍﻟﮯ ﻟﻮﮒ

ﺯﺧﻢ ﺍﭘﻨﮯ ﭼﮭﭙﺎﺋﮯ ﭘﻬﺮﺗﮯ ﮨﯿﮟ
ﯾﮧ ﺳﺪﺍ ﻣﺴﮑﺮﺍﻧﮯ ﻭﺍﻟﮯ ﻟﻮﮒ

ﺩﺷﺖ ﮐﯽ ﺳﻤﺖ ﺟﺎ ﻧﮑﻠﺘﮯ ﮨﯿﮟ
ﺗﯿﺮﯼ ﻣﺤﻔﻞ ﺳﮯ ﺟﺎﻧﮯ ﻭﺍﻟﮯ ﻟﻮﮒ

ﮐﺲ ﻗﺪﺭ ﺧﻮﺵ ﻧﺼﯿﺐ ﮨﻮﺗﮯ ﮨﯿﮟ
ﺷﺐِ ﻓﺮﻗﺖ ﻧﮧ ﭘﺎﻧﮯ ﻭﺍﻟﮯ ﻟﻮﮒ

ﺍﭘﻨﮯ ﮔﻬﺮ ﮐﮯ ﮨﯽ ﺁﺩﻣﯽ ﻧﮑﻠﮯ
ﻣﯿﺮﮮ ﮔﻬﺮ ﮐﻮ ﺟﻼﻧﮯ ﻭﺍﻟﮯ ﻟﻮﮒ

ﺟﺎﻧﮯ ﮐﺐ ﺁﺳﻤﺎﮞ ﺳﮯ ﺍﺗﺮﮮ ﮨﯿﮟ
ﺗﻢ ﭘﮧ ﺍﻧﮕﻠﯽ ﺍﭨﮭﺎﻧﮯ ﻭﺍﻟﮯ ﻟﻮﮒ

شکریہ احباب برداشت کرنے کا
 
زخم اپنے چھپائے پھرتے ہیں
یہ سدا مسکرانے والے لوگ

اپنے گھر کے ہی آدمی نکلے
میرے گھر کو جلانے والے لوگ

یہ تھے جناب ارشد خان صاحب جو اپنے کلام سے قارئین کو محظوظ کر رہے تھے۔

اب میں دعوتِ کلام دینے جا رہا ہوں جناب فقیر شکیب احمد صاحب کو کہ وہ آئیں اور اپنا کلام پیش کریں۔
جناب شکیب احمد صاحب
 

شکیب

محفلین
سب سے پہلے تو معذرت چاہوں گا کہ دیر میں حاضر ہوا۔ منتظمین اور میرا وقت مختلف ہونے کی وجہ سے یہ زحمت ہوئی۔ تمام شعراء کے کلام سے لطف اندوز ہوا۔ محمد بلال اعظم بھائی کی غزل تو سفر میں گنگناتے ہوئے پڑھی گئی۔ اور امجد علی راجا بھائی کے پہلے دو طرحی شعر تو فورا یاد ہو گئے۔ ہم تو اب بھی دہرا کر مزہ لیے جا رہے ہیں۔ فردا فردا سب کے کلام پر تبصرہ ان شاء اللہ تبصروں کی لڑی میں کرتا ہوں۔
طرحی مصرع پر سوچا تو تھا کہ طبع آزمائی کروں گا، لیکن وقت ہی نہیں نکل پایا۔ یہ سفر کے دوران چند اشعار موزوں ہوئے تھے، جس میں سے کچھ بھی زیرِ غور ہیں۔ چنانچہ دو ہی اشعار پیش کر رہا ہوں۔ بقیہ ان شاء اللہ پھر سہی۔
نذرِ آتش کر دیے اوراقِ قرآں آپ نے
اس متن کا کیا کرو گے جو ہمارے دل میں ہے
رحم کن بر حالِ عشاقِ مجازی یا رحیم
کوئی زلفِ فتنہ گر میں گُم ہے کوئی تل میں ہے
اور ایک عدد تازہ غزل آپ کی باذوق سماعتوں کی نذر
❀ غزل

عاشق و موسیٰ میں اب ایسا بھی کیا امتیاز؟
ہم بھی ہیں مشتاق کر، ہم سے بھی راز و نیاز

سود و زیاں سے پرے، صرف خدا کے اسیر
اہلِ تصوف وہ ہیں، جن پہ ہے خالق کو ناز

طیش میں وہ ہیں تو کیا، ایک یہی در تو ہے
اور کہاں پر کریں دستِ سوالی دراز

ذاتِ حبیبِ حزیں، تیری تڑپ کے نثار
سب کے لئے جاں گسل، سب کے تئیں جاں گداز

پیرِ حرم کیا کرے؟ قوم کی دانست میں
نقلِ فرنگی ہے آج کارگر و کارساز

کشمکشِ زندگی سے ہے عروجِِ امم
جہدِ مسلسل میں ہے رفعتِ قومی کا راز

آپ کی مانند سب رند نہیں ہیں شکیب
دیجیے گا کب تلک بادہ کشی کا جواز

دعاگو و دعاجو
فقیر شکیب احمد
 
عاشق و موسیٰ میں اب ایسا بھی کیا امتیاز؟
ہمبھی ہیں مشتاق کر، ہم سے بھی راز و نیاز

کشمکشِ زندگی سے ہے عروجِِ امم
جہدِ مسلسل میں ہے رفعتِ قومی کا راز
یہ تھے جناب شکیب احمد صاحب، جو اپنے خوبصورت کلام سے قارئین کی دلچسپی کا سامان کر رہے تھے.

اب میں دعوتِ کلام دینے جا رہا ہوں، محفل کی ہر دل عزیز شخصیت، قادر الکلام شاعر جناب راحیل فاروق صاحب کو، کہ وہ آئیں اور مشاعرہ کو اپنے خوبصورت کلام سے رونق بخشیں.
جناب راحیل فاروق
 
بہت بہت شکریہ، تابش بھائی۔
سب سے پہلے تو میں منتظمین کو اس نادرالوقوع مشاعرے کے انعقاد پر، جس کے دوسالہ ہونے کے قوی امکانات ہیں، دل سے مبارک باد پیش کرتا ہوں۔ امید ہے کہ اگلی سالگرہ پر نیا دھاگا کھولنے کی ضرورت نہیں پڑے گی۔
میرا خوب صورت کلام (بقولِ محمد تابش صدیقی ، دروغ بر گردنِ راوی) پیشِ خدمت ہے۔
پہلے ایک غیرطرحی غزل:

میرے طبیب کی قضا میرے سرھانے آ گئی
چارہ گرانِ عشق کی عقل ٹھکانے آ گئی

رات کی خیمہ گاہ میں شمع جلانے آ گئی
آ گئی مہرباں کی یاد، آگ لگانے آ گئی

بندہ نواز، کیا کروں؟ مجھ کو تو خود نہیں خبر
فرش میں عرش کی کشش کیسے نجانے آ گئی؟

جس کے وجود کا پتا موت کو بھی نہ مل سکا
اس کی گلی میں زندگی شور مچانے آ گئی

خاک ہوا تو دیکھیے، خاک پہ فضل کیا ہوا
کوچۂِ یار کی ہوا مجھ کو اڑانے آ گئی

تیرے وصال کی قسم، تیرے جمال کی قسم
ایک بہار عشق پر آ کے نہ جانے آ گئی​

فاتح بھائی کے حکم کی تعمیل میں یہ غزل اب میری آواز میں بھی سنیے:


اور اب طرحی غزل ملاحظہ فرمائیے:

عشق مشکل میں ہے، ضبط اس سے بڑی مشکل میں ہے
دل تمنا میں گیا، پھر بھی تمنا دل میں ہے

کچھ نہ کچھ تاب و تواں باقی ابھی بسمل میں ہے
پوچھ لیجے، آخر ایسی بات کیا قاتل میں ہے؟

جس کے باعث حسن ہے بدنام ازل سے، غافلو!
وہ خرابی اصل میں عاشق کے آب و گل میں ہے

انتظارِ وصل میں ہے کیا مزا، مت پوچھیے
پوچھیے مت، کیا مزا اس سعیِ لاحاصل میں ہے

خود شناسی کے سفر میں کیا نہیں پائی مراد
یہ وہ منزل ہے کہ جس کی راہ بھی منزل میں ہے

نام ہی کا رہ گیا ہوں یوں بھی اب راحیلؔ میں
"ذکر میرا مجھ سے بہتر ہے کہ اس محفل میں ہے"​

عموماً شاعر کمی کوتاہی کی معافی نہیں مانگتے، مگر کوئی ہو گئی ہو تو مجھے، تابش بھائی اور فاتح بھائی کو معاف فرمائیے گا۔
والسلام!
 

مقدس

لائبریرین
انتظارِ وصل میں ہے کیا مزا، مت پوچھیے
پوچھیے مت، کیا مزا اس سعیِ لاحاصل میں ہے

خود شناسی کے سفر میں کیا نہیں پائی مراد
یہ وہ منزل ہے کہ جس کی راہ بھی منزل میں ہے

نام ہی کا رہ گیا ہوں یوں بھی اب راحیلؔ میں
"ذکر میرا مجھ سے بہتر ہے کہ اس محفل میں ہے"

اپنے پر خیال کلام سے اہلِ محفل کے ذوق کی تسکین کا سامان کر رہے تھے محترم راحیل فاروق صاحب ۔

اب میں ملتمس ہوں محترم محمداحمد صاحب سے کہ وہ اپنے کلام سے مشاعرے کی رونق بڑھائیں۔ فرماتے ہیں:

آنا چاہتا ہے مجھ سے ملنے وہ
راہ میں آن بان پڑتی ہے

اُس کی لاٹھی تو ہے ہی بے آواز
چوٹ بھی بے نشان پڑتی ہے

آ گیا ہوں فرازِ طور پہ میں
دونوں جانب ڈھلان پڑتی ہے

جناب محمداحمد صاحب
 

محمداحمد

لائبریرین
عزیزانِ محفل اور اساتذہ کی خدمت میں خاکسار کا سلام!

سب سے پہلے تو مبارکباد دینا چاہوں گا مشاعرے کے متنظمین کو کہ جنہوں نے شبانہ روز محنت اور لگن سے یہ محفل سجائی ۔ محترم خلیل الرحمٰن بھائی، حسن محمود بھائی، بلال اعظم بھائی اور تابش بھائی ، اس خوبصورت مشاعرے کے انعقاد کے لئے آپ تمام احباب کی کاوشیں لائقِ صد ستائش ہیں۔ سب سے بڑھ کر میں شکریہ ادا کروں گا اپنی پیاری سی بہنا مقدس کا کہ جو ہر چند شعر و شاعری سے خاطر و خواہ دلچسپی نہیں رکھتی پھر بھی ہم بھائیوں اور دیگر محفلین کی دل جوئی کے لئے اس مشاعرے کے انتظام و انصرام میں پیش پیش ہے۔ شکریہ مقدس ! جیتی رہو۔

اور اب بات کو مختصر کرتے ہوئے اساتذہ کرام کی اجازت سے ایک غزل کے کچھ اشعار پیش کر نے کی جسارت کر رہا ہوں۔

عشق اک دشت ہائے وحشت تھا
دل بنَا ہی برائے وحشت تھا

بے قراری سکوں کی زیریں تہہ
اور سکوں بر بِنائے وحشت تھا

اشک قطرہ نہ تھا، سمندر تھا
غمِ دل آبنائے وحشت تھا

تھی ازل سے ہی بے قرار ہوا
اس کی فطرت میں پائے وحشت تھا

اک تڑپ بانسری کی لے میں تھی
ساز گویا صدائے وحشت تھا

کیا اُسے حالِ دل سناتے ہم
نغمہء دل نوائے وحشت تھا

ایک اور رنگ کی ایک دوسری غزل کے ساتھ اجازت چاہوں گا۔

بن کر جو کوئی سامنے آتا ہے آئینہ
خیمے میں دل کے آکے لگاتا ہے آئینہ

وہ کون ہے یہ مجھ سے کبھی پوچھتا نہیں
میں کون ہوں یہ مجھ کو بتاتا ہے آئینہ

اس عکس کے برعکس کوئی عکس ہے کہیں
کیوں عکس کو برعکس دکھاتا ہے آئینہ

خود کو سجائے جاتے ہیں وہ آئینے کو دیکھ
جلووں سے اُن کے خود کو سجاتا ہے آئینہ

خود آئینے پہ اُن کی ٹہھرتی نہیں نظر
کیسے پھر اُن سے آنکھ ملاتا ہے آئینہ

یہ میرا عکس ہے تو مگر اجنبی سا ہے
کیوں کر مجھے مجھی سی چُھپاتا ہے آئینہ

کب دل کے آئینے میں کھلا کرتے ہیں گُلاب
کب آئینے میں پھول کھلاتا ہے آئینہ

آویزہ دیکھتے ہیں وہ جُھک کر قریب سے
یا اُن کو کوئی راز بتاتا ہے آئینہ

جب میرا عکس مجھ سے مماثل نہیں رہا
کیوں میرا عکس مجھ کو دکھاتا ہے آئینہ

اس آئینے میں عکس کسی کا ہے رات دن
احمدؔ یہ عشق دل کو بناتا ہے آئینہ

شکریہ ۔​
 
اک تڑپ بانسری کی لے میں تھی
ساز گویا صدائے وحشت تھا


یہ میرا عکس ہے تو مگر اجنبی سا ہے
کیوں کر مجھے مجھی سی چُھپاتا ہے آئینہ

کب دل کے آئینے میں کھلا کرتے ہیں گُلاب
کب آئینے میں پھول کھلاتا ہے آئینہ
یہ تھے جناب محمد احمد صاحب جو مشاعرہ کو اپنے خوبصورت کلام کی خوشبو سے مہکا رہے تھے.

اب میں دعوتِ کلام دینے جا رہا ہوں جناب محمد حفیظ الرحمٰن صاحب کو،کہ وہ آئیں اور محفل مشاعرہ میں اپنا کلام پیش کریں.
جناب محمد حفیظ الرحمٰن
 
تمام حاضرینِ مشاعرہ کی خدمت میں السلام علیکم اور تمام منتظمین کو اس بے مثال مشاعرے کے کامیاب انعقاد پر مبارکباد کے بعد مصرعِ طرح پر ایک غزل کے چند اشعار پیشِ خدمت ہیں۔


فرق ہے واضح جو لا حاصل میں اور حاصل میں ہے
ہاں وہی جو دورئ منزل میں اور منزل میں ہے

جو کشاکش زندگی بھر خون رُلواتی رہی
کاروانِ زندگی اب تک اُسی مشکل میں ہے

وہ سمجھتے تھے کہ بس اِک ضرب میں قصّہ تمام
جان باقی اب تلک میرے تنِ بسمل میں ہے

حق کے پیروکار ہیں بے خوف اور سینہ سپر
دید کے قابل ہے جو لرزہ صفِ باطل میں ہے

آگئے پیں چھوڑ کر ساحل کو ہم یہ سوچ کر
دیکھتے ہیں لُطف کتنا دورئ ساحل میں پے

پائیے جذب و کشش ایسی بھلا کِس چیز میں
جو کسی کے چمپئ رُخسار کے اِک تِل میں پے

جن کو اپنے حال پر حاصل نہیں کچھ اختیار
وہ بھلا کیا جان سکتے ہیں جو مستقبل میں ہے

دِل میں ہنگامہ ہے برپا اِک ذرا سی بات پر
جو زباں تک آنہ پائی اور ابھی تک دِل میں ہے

کارواں میں ڈھونڈتا پھرتا ہے مجنوں ہر طرف
کون جانے اُس کی لیلیٰ کون سے محمل میں ہے

حُسن کے جلوے ہیں بکھرے جس طرف اُٹھّے نگاہ
جانے کیا تاثیر اِس خطے کے آب و گِل میں ہے

اور کِس منظر میں، کِس جا، ہم کو مِل پائے حفیظ
حُسن اور وہ دلرُبائی ، جو مہِ کامل میں ہے
 
مدیر کی آخری تدوین:
آ گئے ہیں چھوڑ کر ساحل کو ہم یہ سوچ کر
دیکھتے ہیں لُطف کتنا دورئ ساحل میں ہے

حُسن کے جلوے ہیں بکھرے جس طرف اُٹھّے نگاہ
جانے کیا تاثیر اِس خطے کے آب و گِل میں ہے​

یہ تھے جناب محمد حفیظ الرحمٰن صاحب جو اپنے کلام سے مشاعرہ کی رونق بڑھا رہے تھے.

اب میں دعوتِ سخن دینے جا رہا ہوں جناب نوید رزاق بٹ صاحب (ابنِ منیب) کو کہ وہ آئیں اور اپنے کلام سے قارئینِ محفل کو محظوظ فرمائیں.
جناب ابنِ منیب
 
جنابِ صدر، محترم مہمانِ خصوصی، شعرائے کرام، اور عزیز قارئین، السلام علیکم و رحمتہ اللہ

میں اردو محفل اور محترم جناب محمد تابش صدیقی صاحب کا بے حد شکر گزار ہوں کہ اُنہوں نے اس اہم مشاعرے میں شرکت کی دعوت دی۔ سائبر دنیا میں اتنے طویل عرصہ تک اردو زبان کی بہترین خدمت پر اردو محفل کی انتظامیہ اور متحرک اراکین سبھی بہت سی مبارکباد کے مستحق ہیں۔ اس کے ساتھ صاحبِ صدر کی اجازت سے اپنے کلام سے دو غزلیات، دو مختصر نظمیں اور ایک نمکین غزل پیش کرنا چاہوں گا۔

غزل

اپنے پیارے ساتھ چلیں تو
رستے منزِل ہو جاتے ہیں

چھوڑو مے اور مے خانوں کو
ہم تُم محفل ہوجاتے ہیں

وقت پہ گَر نہ آنکھ کُھلے تو
سپنے قاتِل ہو جاتے ہیں

روتا ہے جب پُھوٹ کے اَمبر
ہم بھی شامِل ہو جاتے ہیں

ڈوب رہا ہے دیکھوکوئی
بڑھ کر ساحِل ہو جاتے ہیں!

جلدی منزِل چاہنے والے
جلدی بددِل ہو جاتے ہیں

دیکھیں جب وہ پیار سے صاحِب!
شِکوے مشکل ہو جاتے ہیں

-------------------------------------

غزل

ذِکر تیرا جہاں، وہاں ٹھہرے
درد والے کہاں کہاں ٹھہرے!

اشک راہی ہیں اور تُو منزل
تُو ہی آئے نہ کارواں ٹھہرے

جو بھی کرنا ہے جلد ہی کر لو
وقت کس کے لئے مِیاں ٹھہرے

اپنی وُسعت سے کچھ زمیں والے
آسمانوں کے آسماں ٹھہرے

شیخ بانٹے ہے نفرتیں، رِند بھی!
دل جو ٹھہرے تو اب کہاں ٹھہرے؟

بَیچ کھایا جنہوں نے کلِیوں کو
ہائے گُلشن کے پاسباں ٹھہرے!

کچھ تعلق نہیں تھا دُنیا سے
چار پَل کو مگر یہاں ٹھہرے


--------------------------------------

"بیماری"

پنچھی جو پَلے ہوں پنجروں میں*
پرواز کو سمجھیں بیماری
جو ہونٹ سِلے ہوں صدیوں سے
آواز کو سمجھیں بیماری
جو تار کبھی نہ تڑپے ہوں
وہ ساز کو سمجھیں بیماری!


(* پہلا شعر مصنف اور فلمساز الیگزندرو جودوروسکی کے قول کا ترجمہ ہے)

---------------------------------

"ڈیجیٹل شاعری – فوٹو"

زندگی کی فوٹو کے
ایک ایک پِکسَل سے
روشنی تِری جھلکے
اور تُو نہیں تو پھر
اِک سیاہ پردے پر
گمشدہ نشاں ہوں میں
وہم ہُوں، گُماں ہُوں میں!

----------------------------------

نمکین غزل

اُس کو دیکھ کے "اچھے اچھے"
تھوڑے لِبرَل ہو جاتے ہیں

چھوڑو چُھپ چُھپ کر مِلنے کو
ہم تم لِیگَل ہو جاتے ہیں

سَوتی قوموں کے بالآخر
سپنے رَینٹَل ہو جاتے ہیں

"رایَل" کہنے سے کیا بھیا
پنکھے رایَل ہو جاتے ہیں؟

شعر ہمارے سُن کر بلبل
سَینٹِیمنٹَل ہو جاتے ہیں

سردی میں سویڈن کی صاحب!
شکوے ڈَینٹَل ہو جاتے ہیں


ایک بار پھر اردو محفل کے تمام احباب کا بے حد شکریہ۔

والسلام،

ابنِ مُنیب
 

مقدس

لائبریرین
اشک راہی ہیں اور تُو منزل
تُو ہی آئے نہ کارواں ٹھہرے

جو بھی کرنا ہے جلد ہی کر لو
وقت کس کے لئے مِیاں ٹھہرے

اپنی وُسعت سے کچھ زمیں والے
آسمانوں کے آسماں ٹھہرے

یہ تھے جناب نوید رزاق بٹ صاحب جو اپنے کلام سے مشاعرہ کی رونق بڑھا رہے تھے.

اب ہم دعوتِ کلام دیتے ہیں محترم مزمل شیخ بسمل صاحب کو کہ جن کا کہنا ہے:

دل میں ڈر اور ہاتھ میں ساغر لئے پھرتا رہا
گو بظاہر رند تھا پر صاحبِ ایماں بھی تھا
امتزاجِ حسن و عشق ایسی فریبی چیز ہے
تھے پریشاں وہ فقط، اور میں یہاں حیراں بھی تھا

محترم مزمل شیخ بسمل صاحب اپنا کلام پیش کرکے مشاعرے کی رونق بڑھائیں۔
 
عزیزانِ محفل، خصوصاً جنابِ صدر اعجاز عبید صاحب اور مہمانِ خصوصی جناب منیر انور صاحب کی خدمت میں سلام عرض ہے۔
میں شکر گذار ہوں اس مشاعرہ کے منتظمین، خصوصاً خلیل الرحمن صاحب، تابش صدیقی صاحب، عزیزہ مقدس حیات اور حسن محمود جماعتی صاحب کا جنہوں نے مشاعرے میں شرکت کے لیے مجھے لائق سمجھا۔
عرض ہے کہ میں کوئی شاعر نہیں ہوں۔ البتہ خود کو ادب کا ایک سنجیدہ قاری ماننے میں کسی انکسار کو حائل نہیں جانتا۔ چند ہی تک بندیاں کی ہیں جو کہ اس لائق نہیں کہ پیش کی جاسکیں۔ اور اب ایک عرصے سے طبیعت پر انتہا کا جمود طاری ہے جس کا سبب شاید میری غیر ادبی و غیر تخلیقی مشغولیات اور رسمی تعلیم و تعلم کے سلسلوں کا بارِ گراں ہے جو کہ اب بھی مزید کئی سال کا طلبگار ہے۔ لیکن برتر حقیقت یہی ہے کہ یہ اوپر ساری خامہ فرسائی اپنی کم مایگی اور نالائقی کے اعتراف سے بچنے کا حیلہ ہی ٹھہری۔ اور یہ جو "بسمل" اپنے نام کے ساتھ لگا رکھا ہے اس کی وجہ قطعاً یہ نہیں کہ میں شاعر ہوں۔ اس کی اصل وجہ کچھ اور ہے۔ بہر حال، اب چونکہ میرا نام پکارا جا چکا ہے، اور سوائے اس کے کوئی راہِ نجات نہیں کہ کچھ "موزوں سطریں" نذرِ محفل کرکے جان کی امان پاؤں۔ اساتذہ اور پختہ کار شعرا سے درخواست ہے کہ اس ناقص کی یہ گستاخی (جس کا ایک نظم کی صورت میں یہاں ارتکاب کر رہا ہوں) در گزر فرمائیے گا۔

نظم
(مزمل شیخ بسملؔ)
تمہیں اب کیا بتاؤں میں؟
کہ میں نے ہجر کی ہر شام کس مشکل سے کاٹی ہے
اندھیرے میں مصلّے پر دعائیں مانگنا میرا
وہ سارے دن
وہ سب راتیں
تمھاری آرزو کرنا
مرے آنسو کا میرے ”گال“ ہی پر خشک ہو جانا
تمہیں اب کیا بتاؤں میں؟
کہ میرا جنوری کی سرد اور تاریک راتوں میں
یوں کمبل اوڑھ کر لیٹے ہوئے کچھ سوچتے رہنا
کبھی سوچوں میں گم یک دم کوئی آنسو نکل آنا
مری بیچارگی کو تم کبھی آکر کے دیکھو تو
تمھیں اب کیا بتاؤں میں؟
کہ جب اپریل آتا ہے
تمہاری یاد لاتا ہے
کبھی موسم نہیں بھی ہو
مگر برسات ہوتی ہے
کبھی یادوں میں تم آکر مجھے بے حد ستاتے ہو
کبھی دن ختم ہوجانے پے بھی یادیں نہیں جاتیں
تمہیں اب کیا بتاؤں میں؟
کہ میں کس حال میں ہوں اب
یہ ویرانی ہے کیوں دل پر
مری آنکھوں کے حلقے ہر کسی پر کیوں نمایاں ہیں
مرے چہرے پے لکھی ہر کہانی دکھ بھری کیوں ہے
مری سانسوں سے آہوں کی یہ آوازیں کیوں آتی ہیں
تمھیں اب کیا بتاؤں میں؟
کہ اب بھی ساری تصویروں میں کتنے پر کشش ہو تم
تمہاری ہر ادا اوروں سے کتنی مختلف سی ہے
مگر مجھ سے بچھڑ کر تم بھی کچھ مرجھا گئے ہو اب
تمہارے بن یہاں میں بھی بہت غمگین رہتا ہوں
بہت شکوے ہیں اس دل میں مگر خاموش رہتا ہوں
تمہیں کیا کیا بتاؤں میں۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔؟
بھلا کیا کیا سنوگے تم؟
تمہیں اب کیا بتاؤں میں؟​
 
تمھیں اب کیا بتاؤں میں؟
کہ اب بھی ساری تصویروں میں کتنے پر کشش ہو تم
تمہاری ہر ادا اوروں سے کتنی مختلف سی ہے
مگر مجھ سے بچھڑ کر تم بھی کچھ مرجھا گئے ہو اب
تمہارے بن یہاں میں بھی بہت غمگین رہتا ہوں
بہت شکوے ہیں اس دل میں مگر خاموش رہتا ہوں
تمہیں کیا کیا بتاؤں میں۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔؟

جناب مزمل شیخ بسمل اپنی خوبصورت نظم پیش کررہے تھے اور داد سمیٹ رہے تھے۔


بلا کشانِ محبّت کی رسم جاری ہے
وہی اٹھانا ہے پتھر جو سب سے بھاری ہے



یہی متاع ہے میری، یہی مرا حاصل
نہالِ غم کی لہو سے کی آبیاری ہے


جی ہاں! اب ہم دعوتِ کلام دینے جارہے ہیں اردو محفل کی ہر دل عزیز شخصیت استادِ محترم جناب محمد وارث صاحب کو کہ وہ ہمارا مان بڑھائیں۔استقبال کیجیے۔ جناب محمد وارث۔
 

محمد وارث

لائبریرین
السلام علیکم،

سب سے پہلے تو اس لاجواب محفل کے خوبصورت مشاعرے کے مشفق و مہربان و سلیقہ و ہنر مند منتظمین محترم خلیل صاحب، مقدس بہن، تابش صدیقی صاحب، جماعتی صاحب اور بلال صاحب کو مبارکباد۔

اب چونکہ مجھے یاد فرمایا گیا ہے، منتظمین کی مہربانی سے، تو عرض کروں کہ بلا مبالغہ سات آٹھ سال بعد کچھ کہنے کی کوشش کی ہے۔ دو چار غزلوں سے خود پر شاعر ہونے کی تہمت لگوا رکھی ہے اور اب تو طبیعت بالکل بھی ادھر نہیں آتی لیکن حکم حاکم۔۔۔۔۔۔ پرانی غزلیں اور رباعیاں سنانے کا فائدہ نہیں کہ ہیں ہی کتنی سو مرتا کیا نہ کرتا کہ مصداق نئی غزل کہنی ہی پڑی۔ مصرع طرح کی بحر میرے مزاج سے ہٹ کر تھی سو بدل دی بلکہ بدل گئی اور قافیہ بھی الف کی قید سے آ گیا، ردیف بہرحال وہی ہے اور شعر پانچ ہی ہیں گویا فرض ہی پورا کیا ہے :)

سوختنی ہی سہی لیکن سُن لیجیے۔ صدرِ مشاعرہ محترم و معظم جنابِ اعجاز عبید صاحب کی اجازت سے:

عرض کیا ہے

ذکرِ عُقبیٰ ہی محافِل میں ہے؟
فکرِ دُنیا بھی تو حاصِل میں ہے

نقش بندِ حرَم آ دیکھ ذرا
اصلِ تاریخ مَقاتِل میں ہے

تیر و توپ و تبَر اور چنگ و رباب
معرکہ کیسا مقابِل میں ہے

ہیچ ہے راحتِ منزل یارو
لطف سارا تو مراحِل میں ہے

تُند خو بحر ہوں وارث، مرا چین
وُسعتِ بازوئے ساحِل میں ہے


والسلام
 
ذکرِ عُقبیٰ ہی محافِل میں ہے؟
فکرِ دُنیا بھی تو حاصِل میں ہے

ہیچ ہے راحتِ منزل یارو
لطف سارا تو مراحِل میں ہے​

یہ تھے جناب محمد وارث صاحب، جو اپنی خوبصورت غزل سے مشاعرہ کو زندگی بخش رہے تھے.

اب میں دعوتِ کلام دینے جا رہا ہوں، محفل کے ایک اور محترم شاعر جناب سید عاطف علی صاحب کو کہ وہ آئیں اور اپنے کلام سے مشاعرہ کی رونق بڑھائیں.

دیوانہ وار جشن ِبہاراں کو چھوڑ کر
مستانہ وار فصل ِخزاں ڈھونڈتے رہے

خاطر میں لائے خار مغیلاں کبھی نہ ہم
گم گشتہ وہ ہی محمل ِ جاں ڈھونڈتے رہے

دریا تھا ساتھ ساتھ مگر تشنگی نہ تھی
صحرا میں آکےآب رواں ڈھونڈتے رہے​

جناب سید عاطف علی
 

سید عاطف علی

لائبریرین
صدرمشاعرہ اعجاز صاحب محترم مہمانِ خصوصی منیر انور صاحب ،تمام شعرائے کرام، اور عزیز قارئین، السلام علیکم و رحمتہ اللہ
اپنی معذرت بھی پیش کرتا ہوں کچھ ذاتی مسائل اورمصروفیات کے سبب اور یہاں حج کی سرگرمیوں کے آغاز کی وجہ سے جو تاخیر کا سبب بنے۔
مبارکباد خلیل صاحب کو ، مقدس بہن کو، تابش صدیقی صاحب کو ، جماعتی صاحب کو اور بلال صاحب کو او دیگر وابستگان محفل کو کہ ایسی موقر ادب کی محفل سجا ئی کہ تشنہ لبوں کو سیراب کیا اور بہتیرے رنجوروں کو مسرور کرنے کا سامان کیا ۔
میری شرکت باعث صد مسرت ہے کہ اس کا اہل نہیں ،سو احباب کی ایسی تکریم کے شکریئے کا حق ادا کرنے قاصر ہوں۔
کچھ نہ کچھ پیش کرنا بھی کیوں کہ مسرت کا ایک لاینفلک حصہ تھا سو اپنے حصے کے پراگندہ خیالات پیش کرنے کا ارادہ بھی کیا۔ اور اسی نسبت سے ماحضر پیش خدمت کرنے کی جسارت اجازت کے ساتھ کرتا ہوں۔
عرض ہے کہ۔

ایک ان سے جو بھول ہو جائے
اپنی محنت وصو ل ہوجائے
-
وہ دعا ، لب پہ جو نہیں آتی
یا الہی !!!!! قبول ہو جائے
-
جس کو مل جائے عشق کا پیغام
وہ وفا کا رسول ہوجائے
-
بے جنوں، جو چلے ترا رستہ
اپنے قدموں کی دھول ہوجائے
-
تیرے ہاتھوں جو سنگ بھی نکلے
آتے آتےوہ پھول ہو جائے
-
میرا ہونا بھی تیرے ہونے کا
رمز شان نزول ہو جائے
-
زخم دل مندمل ہوا چاہے
تجھے دیکھے تو پھول ہو جائے
-
دیکھ کر تیرے عارض گلگوں
گل سے شبنم خجول ہا جائے
-

ایک طرحی جسارت بھی اہل محفل کی نذرعرض کر کے اجازت چاہوں گا۔
۔
کیا ہوئے وہ قافلے کیا ناقہ و محمل میں ہے
اک یہی نو حہ برابر میرے آب و گل میں ہے
۔
کس غریب شہر کی چھت سے گزر آیا ہے آج
کرب کی کیسی جھلک دیکھ اس مہ کامل میں ہے
۔
چکھ لیا فردوس میں ممنوع پھل جس کے سبب
اک وہی شعلہ فروزاں آج بھی ہر دل میں ہے
۔
چھوڑ کر صحرا سمندر پر برستا ہے یہ ابر
دل ازل سے آج تک الجھا سی مشکل میں ہے
۔
ڈوبتے سورج ! مجھے بھی ساتھ لیکر ڈوب جا
آج کیسا درد یہ نظارہء ساحل میں ہے
۔
تیرے ہاتھوں ایک جام آتشیں سے ہے وہ حال
نہ تو وہ ماضی میں ہے اور نہ ہی مستقبل میں ہے
۔
مارو کژدم کیا ہیں ثعبان و عصا کے سامنے
آزمالو زور کتنا بازوئے باطل میں ہے
۔
جانتے ہیں وہ جو رہتے ہیں سدا گرم سفر
راستے ہوں پر خطر تو کیا دھرا منزل میں ہے
۔
میر و مرزا کیوں نہ ہوں نازاں وہاں فردوس میں
"آپ" جیسا اک سخنور جب یہاں محفل میں ہے
۔
نام میرا ؟۔ ان کے لب؟۔ یہ کیا کہا ؟۔ پھر کہہ ندیم!
"ذکر میرا مجھ سے بہتر ہے کہ اس محفل میں ہے"


اجازت چاہوں گا۔​
آداب و تسلیمات ۔
 
آخری تدوین:
کس غریب شہر کی چھت سے گزر آیا ہے آج
کرب کی کیسی جھلک دیکھ اس مہ کامل میں ہے

نام میرا ؟۔ ان کے لب؟۔ یہ کیا کہا ؟۔ پھر کہہ ندیم!
"ذکر میرا مجھ سے بہتر ہے کہ اس محفل میں ہے"​

یہ تھے جناب سید عاطف علی، جنہوں نے اپنے عمدہ کلام سے قارئینِ مشاعرہ کے ذوق کی تسکین فرمائی.

ہماری خوش قسمتی ہے کہ ہمارے درمیان ایک کہنہ مشق شاعر محترم جناب ظہیراحمدظہیر موجود ہیں. اب میں مزید کسی تاخیر کے ان کو دعوت دیتا ہوں کہ وہ آئیں اور اپنے کلام کی خوشبو سے مشاعرہ کو معطر فرمائیں.

یہ طبیعت مجھے اپنا نہیں بننے دیتی
جیسے سب ہیں مجھے ویسا نہیں بننے دیتی

آنکھ ایسی ہے کہ دیکھے نہیں جاتے حالات
سوچ ایسی ہے کہ اندھا نہیں بننے دیتی

دُوراندر سے کہیں ایک اُبھرتی ہوئی چیخ
میرے احساس کو بہرا نہیں بننے دیتی

ظلم ایسا ہے کہ دنیا کی زبانیں خاموش
یہ خموشی مجھے گونگا نہیں بننے دیتی​

محترم جناب ظہیر احمد ظہیر
 
کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں
Top