زبانِ عذب البیانِ فارسی سے متعلق متفرقات

اردو زبان میں فارسی الفاظ و تراکیب کا استعمال اردو کو کس قدر زیبائی و رعنائی کا تحفہ دیتی ہے، اس کا اندازہ مندرجہ ذیل اقتباس سے لگایا جاسکتا ہے:۔

"جب زمین گرمی کی شدت سے تمتما اٹھتی ہے، تمازتِ آفتاب اس کی رگ رگ سے نمِ زندگی چوس لیتی ہے۔آسمان کی شعلہ ریزیاں ساری فضا کو دہکتا ہوا انگار بنادیتی ہے۔بادِ سموم کی ہلاکت سامانیاں تازگی و شگفتگی کی ہر نمود کو جھلس ڈالتی ہیں۔پھول مرجھاجاتے ہیں۔شگوفوں کی گردن کے منکے ٹوٹ جاتے ہیں۔لالہ کا رنگ اڑجاتا ہے۔پتیاں سوکھ جاتی ہیں۔شاخیں پژمردہ ہوجاتی ہیں۔لہلہاتی کھیتیاں خشک ہوجاتی ہیں۔سرو و صنوبرآتش دانِ ارضی کے دُودکش دکھائی دیتے ہیں۔تابندہ چشمے دیدہء کور کی طرح بے نور ہوجاتے ہیں۔مرمریں ندیاں خطِ تقدیرِ محکوماں کی طرح بے آب رہ جاتی ہیں۔لُو کی دہشت سے سارے کانپتے ہیں۔راستے ہانپتے ہیں۔خُنکی غاروں میں منہ چھپا لیتی ہے۔ٹھنڈک سہم کر کنؤوں میں جادبکتی ہے۔وفورِ تپش سے سینہء کائنات میں سانس رکنے لگتی ہے۔جنگل کےجانور آسمانی شعلوں کی لپیٹ سے کہیں پناہ نہیں پاتے۔پرندے اپنے گھونسلوں میں نرم و نازک زبانیں نکالے نڈھال ہو کر پڑجاتے ہیں۔طائرِ نگاہ تک بھی کاشانہء چشم میں سمٹ کر رہ جاتا ہے۔انسان زندگی اور اس کی تمام لطافتوں سے مایوس ہوجاتا ہے۔سوختہ بخت کسان کھیت کے کنارے کھڑا للچائی ہوئی نظروں سے آسمان کی طرف تکتا ہے کہ کہیں سے اس کی آنکھوں کی ٹھنڈک کا سامان دکھائی دے لیکن اس کی خاسر و نامراد نگاہیں حسرت بن کر اس کے ویرانہء قلب میں لوٹ آتی ہیں۔اسی طرح جب حیاتِ ارضی کے کسی گوشے میں بھی امید کی نمی باقی نہیں رہتی اور بساطِ کائنات کے کسی کونے میں بھی زندگی کی کوئی تازگی دکھائی نہیں دیتی تو یاس و ناامیدی کے اس انتہائی عالم میں مبداءفیض کی کرم گستری سے سحابِ رحمت کسان کی آنکھوں کا نور بن کر فضائے آسمانی پر چھا جاتا ہے اور اپنی جواہر پاشیوں اور گہرریزیوں سے دامنِ ارض کو بھرپور کردیتا ہے۔زمینِ مردہ میں پھر زندگی آجاتی ہے۔رگِ کائنات میں نبضِ حیات پھر سے متموج ہوجاتی ہے۔فضا کے سینے میں رکی ہوئی سانس پھر سے زندگی کی جوئے رواں بن جاتی ہے۔چشموں کی خشک آنکھیں شرابِ زندگی کے چھلکتے ہوئے جامِ نور بن جاتی ہیں۔ندیوں کی بےآب لکیریں بادہء جاں فزا کی مسیحا نفسی سے رگِ جاں میں تبدیل ہوجاتی ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔"


دیکھا جائے تو مندرجہ بالا اقتباس کو فقط فارسی الفاظ و تراکیب ہی نے حسن و رعنائی اور قشنگی و زیبائی عطا کی۔
 

حسان خان

لائبریرین
جس طرح ہم اردو میں تعظیماً کسی کی موت کی خبر دینے کے لیے 'وفات کر گئے' یا 'گذر گئے' استعمال کرتے ہیں، اسی طرح کتابی فارسی میں عموماً 'درگذشت' استعمال ہوتا ہے۔
مثلاً:
بابا حاجی، شاعر، روزنامه‌نگار و مترجم معروف تاجیک، در سن ۸۸ سالگی درگذشت.
 

حسان خان

لائبریرین
افغان اور ماوراءالنہری گفتاری فارسی میں لفظِ 'اِزار' شلوار کے معنی میں استعمال ہوتا ہے۔ ایک قلمی دوست نے تصریح کی ہے تاجکستان میں یہ لفظ زنانہ شلوار کے لیے مستعمل ہے۔ ہمارے اردو کے 'ازاربند' کا 'ازار' یہیں سے آیا ہے۔
لغت نامۂ دہخدا کے مطابق یہ لفظ ادبی فارسی میں بھی مختلف معنوں میں استعمال ہوا ہے، لیکن اب یہ متروک ہو چکا ہے۔
 
آخری تدوین:

عثمان

محفلین
فارسی زبان کی ایک خوبی مجھے بسیار مطبوع و مرغوب لگتی ہے کہ یہ ٹ، ٹھ، ڈ، ڈھ، ڑ اور ڑھ جیسی بدصورت، درشت اور گوش خراش آوازوں سے بالکل پاک ہے۔
محض درجن بھر حروف تہجی پر محدود پاپوانیوگنی میں بولی جانے والے زبان روتوکاس شائد آپ کے ذوق کے عین مطابق قرار پائے۔
 

سید عاطف علی

لائبریرین
جس طرح ہم اردو میں تعظیماً کسی کی موت کی خبر دینے کے لیے 'وفات کر گئے' یا 'گذر گئے' استعمال کرتے ہیں، اسی طرح کتابی فارسی میں عموماً 'درگذشت' استعمال ہوتا ہے۔
مثلاً:
بابا حاجی، شاعر، روزنامه‌نگار و مترجم معروف تاجیک، در سن ۸۸ سالگی درگذشت.
اردو میں "وفات پانا " ( یا کہیں وفات ہونا) مقبول محاورہ ہے ۔" وفات کرنا " تو شاید درست نہیں ۔ حسان خان
 

طالب سحر

محفلین
اردو میں "وفات پانا " ( یا کہیں وفات ہونا) مقبول محاورہ ہے ۔" وفات کرنا " تو شاید درست نہیں ۔ حسان خان

سید صاحب، "وفات پانا" یقیناً زیادہ سننے میں آتا ہے، لیکن "وفات کرنا" بھی درست ہے- وارث سرہندی کی علمی اردو لغت اور خواجہ عبدالمجید کی جامع اللغات میں دونوں محاورے درج ہیں- صاحبِ نوراللغات نے کسی وجہ سے صرف "وفات کرنا" درج کیا ھے، اور سند میں یہ مصرع پیش کیا ہے:

بیگانہ ہو گئے وہ جنہوں نے وفات کی
-- تعشق
 

حسان خان

لائبریرین
کسی وفات یافتہ شخص کو احترام کے ساتھ یاد کرنے کے لیے فارسی میں 'مرحوم' کے علاوہ 'شادروان' بھی استعمال ہوتا ہے۔ اس ترکیب کا لفظی مطلب ہے: وہ شخص جس کی روح شاد ہے۔ مثلاً:
کتابخانهٔ شادروان ابوالحسن نجفی به فرهنگستانِ زبان اهدا شد۔

اسی طرح 'زندہ یاد' کی ترکیب بھی فارسی میں استعمال ہوتی ہے یعنی: وہ شخص جس کی یاد زندہ ہے۔
پس از درگذشتِ زنده‌یاد استاد ابوالحسن نجفی، عضوِ فقیدِ پیوسته و مدیرِ گروهِ ادبیاتِ تطبیقیِ فرهنگستانِ زبان و ادبِ فارسی، خانوادهٔ آن مرحوم کتابخانهٔ شخصیِ وی را به این فرهنگستان اهدا کردند.
 
آخری تدوین:

سید عاطف علی

لائبریرین
سید صاحب، "وفات پانا" یقیناً زیادہ سننے میں آتا ہے، لیکن "وفات کرنا" بھی درست ہے- وارث سرہندی کی علمی اردو لغت اور خواجہ عبدالمجید کی جامع اللغات میں دونوں محاورے درج ہیں- صاحبِ نوراللغات نے کسی وجہ سے صرف "وفات کرنا" درج کیا ھے، اور سند میں یہ مصرع پیش کیا ہے:
بیگانہ ہو گئے وہ جنہوں نے وفات کی
-- تعشق
(مجھے)لگتا ہے کہ وفات کر نا فارسی محاورہ کے ترجمہ کی بنیاد پر شامل ہوا اور شاید مستعمل بھی رہا ہے ۔لیکن وفات پانے کے محاورے کی موجودگی میں مقبول نہیں رہا چنانچہ اسی لیے اب شاید ہی کہیں نظر بھی آتا ہو۔ تعشق لکھنوی کے وقت کی زبان کے کئی اور الفاظ اب مکمل طور پر متروک ملیں گے۔ لیکن بہر کیف اس سے لغت کی ترتیب و تحقیق کی اہمیت کم نہیں ہوتی ایٹمولوجی کے لیے دلچسپ مواد فراہم کرتی ہیں ۔ لفظی طورپرغور کرنے سے بھی پانا اور ہونا لازمی فعل کا تاژر رکھتے ہیں اور کرنا سے متعدی معنی کی طرف دھیان جاتا ہے جو معنوی مطابقت نہیں رکھتا ۔غالبا فطری طور پریہی ایک محاورے کے مقبول رہنے کا سبب ہو۔یہ میری ذاتی رائے ہے۔
تعشق کے ایک سلام کا ایک شعر ہے۔ اور شعر کی تو کیا بات ہے ان میں تو کئی عملاً متروک الفاظ ایک خوشگوار کلاسیکی تاثر دیتے ہیں ۔
کم و زیاد ترا فیض خلق کو ہے مفید
بڑھا تو بحرگھٹا تو در خوش آب ہوا
 
فارسی سے آپ کی محبت اپنی جگہ اور آپ کو بہت مبارک۔ لیکن معذرت کے ساتھ ، یہ زبان سوچوں کے ارتقاء کے لئے محدود اور مخروطی ہے ، یہی وجہ ہے کہ خیالات کا ارتقا، فارسی بولنے والوں میں منجمد ہے۔ امید یہ کرتا ہوں کہ درج زیل تنقید سے کسی کی دل آزاری نہیں ہوگی۔

آپ کے بلاگ پر اردو میں فارسا کی اصطلاحات استعمال کرنے کا مشورہ کچھ سمجھ نہیں آیا ۔ اس لئے کہ اول تو فارسی صرف ایران میں بولی جاتی ہے۔ اور اردو کے مقابلے میں ایک بہت ہی چھوٹی زبان ہے۔ پھر یہ زبان خود جدید اصطلاحات سے خالی ہے۔ اگر آسان اور کھولتی ہوئی ہوتی تو سب جہاںمیں پھیل چکی ہوتی۔ اور آج ایرانی خیالات کے انجماد کا شکار نا ہوتے بلکہ اپنے خیالات کے ارتقاء کی بدولت نت نئی ایجادات، نت نئے نظریات اور دنیا بھر کو آگے بڑھانے والوں میں شامل ہوتے ۔ اس کے برعکس اردو ہندی بولنے ولوں نے اس زبان کی ہمہ گیر، جہاں گیر اور کھولتی ہوئی فطرت کے باعث بہت تیزی سے مالیات، ایجادات ، نظریات کے میدانوں میں فارسی بولنے والوں کی نسبت بہت زیادہ تیزی سے ترقی کی ہے اور یہ لوگ اپنی زبان کے ساتھ ساتھ دنیا بھر میں پھیل گئے ہیں۔

میں ا ایران کو اب فارسا چھوڑ کر اردو سیکھنے کی طرف توجہ دینے کا مشورہ نہیں دوں گا ، اس لئے کہ بڑی اور طاقتور زبانی پھیلتی جاتی ہیں اور چھوٹٰ اور کمزور زبانوں کو آہستہ آہستہ ختم کردیتی ہیں۔ لہذا ہم فارسی کو فطری طور پر غائب پائیں گے ، آج سارے ایران میں اردو ، ہندی فلمیں شوق سے دیکھی اور سمجھی جاتی ہیں ، ماسوائے اس کے کہ حکومت اپنے محدود مخروطی نظام کی وجہ سے غیر ملکی میڈیا کی حوصلہ شکنی کرتی ہے ۔ سوچوں کے ارتقاء کی کمی اور محدود ہونے کی بڑی وجہ ایک منجمد زبان ہی ہوتی ہے۔ جس کا وقت کے ساتھ ساتھ سکڑ جانا اس کی انجمادی فطرت کی وجہ سے سامنے کی بات ہے۔

ایسی سکڑنے والی زبانیں بڑی زبانوں پر کبھی بھی تھوپی نہیں جاسکیں۔
کوئی وجہ نہیں کہ ایک چھوٹی سی محدود اور مخروطی زبان فارسی کی اصطلاحات ایک ہمہ گیر و جہاں گیر ، تیزیی سے پھیلنے والی زبان اردو کو پہنا کر اس کو فارسایا یا عربایا جائے۔

شاعر سے معذرت کے ساتھ
سارے جہاں میں دھوم ہماری زبان کی ہے ؟
 
آخری تدوین:

حسان خان

لائبریرین
فاروق سرور خان صاحب، آپ بھی اولاً میری مؤدبانہ معذرت قبول کیجیے کہ آپ کے اعتراضات فارسی کے معاصر منظرنامے، معاصر ایران، اور ایرانی معاشرے سے ناواقفیت پر مبنی ہیں۔ ان سب اعتراضات کا سلسلہ وار جواب دے رہا ہوں۔
یہ زبان سوچوں کے ارتقاء کے لئے محدود اور مخروطی ہے ، یہی وجہ ہے کہ خیالات کا ارتقا، فارسی بولنے والوں میں منجمد ہے۔
پہلی بات تو یہ ہے کہ فارسی صرف ایران کی زبان نہیں، بلکہ افغانستان اور تاجکستان بھی اس زبان کے والی و وارث ہیں اور تینوں ملکوں کے مختلف معاشرے اور خود ایران کا معاشرہ متنوع طرزِ فکر کے لوگوں پر مشتمل ہے۔ جدید دور میں آپ جس قسم کی بھی طرزِ فکر اور نظریے کا تصور کر سکتے ہیں اُن سب کے نمائندے فارسی گو معاشروں میں موجود ہیں اور وہ اپنے نظریات اور خیالات کی تبلیغ کے لیے فارسی زبان ہی کا استعمال کرتے ہیں۔ یہ کہنا ہر لحاظ سے اور قطعاً نادرست ہے کہ یہ زبان خیالات کے ارتقا کے لیے محدود یا فارسی بولنے والوں میں اس زبان کے باعث خیالات کا ارتقا منجمد ہے۔ ایران سب سے بڑا فارسی گو ملک ہے، اس لیے میں اُسے ہی سامنے رکھ رہا ہوں۔ ایران ایک دلچسپ تضادوں والا اور بہت ہی متنوع معاشرے والا ملک ہے۔ خواہ ملک کے اندر رہنے والے ایرانی ہوں یا ملک سے باہر مقیم ایرانی، وہ جدید دنیا کے ہر قسم کے سیاسی یا معاشرتی نظریے کے ساتھ فکری طور پر مشغول ہیں اور ہر قسم کے نظریے کے حامی اور مخالف فارسی بولنے اور لکھنے والے ایرانیوں میں موجود ہے۔ ذہن میں رکھیے کہ ایرانی قوم پاکستانیوں کی مانند نہیں ہے کہ صرف ایک طبقہ اردو میں جبکہ دوسرا مختلف طبقہ انگریزی میں لکھتا ہو۔۔ بلکہ ایران میں چاہے کوئی دائیں بازو کا ہو یا بائیں بازو کا ہو، دینی ہو یا غیردینی ہو، ایرانی حکومت کا حامی ہو یا مخالف ہو، مولویوں کا حامی ہو یا مولویوں کا مخالف ہو، سرمایہ دار ہو یا اشتراکی ہو، قوم پرست ہو یا بین الاقوامیت پر یقین رکھنے والا ہو، نسل پرست ہو یا نسل پرستی کا مخالف ہو، مغرب مخالف ہو یا مغرب پرست ہو، سب کے سب استثناء کے بغیر فارسی زبان میں لکھتے ہیں۔ ایسے کئی جدید موضوعات جن پر اردو میں ابھی تک ایک لفظ بھی نہیں لکھا گیا ہے، فارسی میں اُن پر پوری اصل یا ترجمہ شدہ کتابیں موجود ہیں۔
ایک اور غور طلب بات یہ ہے کہ زبان تو خیالات کے ابلاغ، ترسیل اور تبادل کا ایک غیر جانب دار ذریعہ ہوتی ہے، اس لیے یہ زبان، یا کوئی اور زبان کسی مخصوص فکر کی لازمی نمائندہ نہیں ہے، بلکہ یہ اُس میں لکھنے والوں پر منحصر ہوتا ہے کہ وہ زبان کو کس قسم کے خیالات کے ابلاغ کے لیے استعمال کرتے ہیں۔
اول تو فارسی صرف ایران میں بولی جاتی ہے۔ اور اردو کے مقابلے میں ایک بہت ہی چھوٹی زبان ہے۔
فارسی صرف ایران میں نہیں بولی جاتی، بلکہ نصف سے زیادہ افغانستان، پورے تاجکستان اور ازبکستان کے دس فیصد حصے میں یہ رائج ہے۔ اور جہاں تک اس کی معنوی رسائی اور میراث کی بات ہے تو یہ بوسنیا سے لے کر بنگال تک لوگوں کے معاشروں میں غالب رہی ہے اور آج بھی فارسی کی اِس میراث کا مشاہدہ اِس پورے منطقے میں آسانی سے کیا جا سکتا ہے۔
مادری زبان کے طور پر یا دوسری زبان کے طور پر اردو بولنے والوں کی تعداد شاید فارسی گویوں سے زیادہ ہو، لیکن اگر علمی و ادبی سطح پر بات کی جائے تو تعداد کی نہیں کیفیت کی اہمیت ہوتی ہے۔ اردو بولنے والوں کی تعداد جرمن بولنے والوں سے زیادہ ہے، لیکن جرمن اور اردو کی کیفیت اور توانائی کا تفاوت زمین آسمان کا ہے۔
اردو اور فارسی کو ایک ہی صف میں شمار کرنا بالکل نادرست ہے۔ اردو ایک پس استعماری ملک اور معاشرے کی زبان ہے جہاں عملی طور پر ہر جگہ انگریزی غالب ہے، اور درجۂ دوم پر موجود اردو کا نفاذ اور اُس میں سنجیدہ علمی مواد نہ ہونے کے برابر ہے اور جدید علوم پر قلم اٹھانے والے افراد اس زبان کو ذریعہ نہیں بناتے۔ اگر کہیں اردو نظر بھی آتی ہے تو وہ انگریزی آمیز ہوتی ہے۔ جبکہ دوسری طرف ایران میں، اور ترکیہ میں بھی، سرکاری زبانیں زندگی کے ہر چھوٹے بڑے شعبے میں بلا شرکتِ غیرے رائج ہیں۔ ابتدائی تعلیم سے لے کر ہر شعبے میں ڈاکٹریٹ تک کی سطح کی تعلیم کا ذریعہ فارسی اور ترکی ہی ہیں۔ مثلاً جوہری توانائی کے موضوع پر بھی ایران میں مقالے فارسی زبان ہی میں لکھے جاتے ہیں۔ اگر فارسی کا تقابل کرنا ہے تو جاپانی، چینی، ترکی، روسی، عربی اور عبرانی زبانوں کے ساتھ کرنا چاہیے جو اپنے معاشروں میں ہر سطح پر رائج اور علم و تفکر کا ذریعہ ہیں۔
پھر یہ زبان خود جدید اصطلاحات سے خالی ہے۔
یہ بھی قطعاً ناواقفیت پر مبنی بات ہے۔ پہلوی دور میں تاسیس ہونے والا ایرانی ادارہ فرہنگستانِ زبان فارسی کو جدید علمی زبان بنانے اور اس میں جدید اصطلاحات کا اضافہ کرنے کے لیے ہی تاسیس ہوا تھا۔ یہ ادارہ اُس وقت سے تن دہی سے کام کر رہا ہے اور اب تک ہزاروں اصطلاحیں فارسی زبان کا حصہ بن چکی ہیں۔ اور توجہ رہے کہ یہ ادارہ پاکستان کے مقتدرۂ قومی زبان کی طرح نمائشی ادارہ نہیں ہے کہ وہاں اصطلاحیں تو وضع ہوتی رہیں لیکن معاشرے میں نہ تو وہ رائج کی جائیں اور نہ انہیں کوئی استعمال کرے، بلکہ فرہنگستانِ زبان ایک توانا اور بانفوذ ادارہ ہے جس میں افغانستان اور تاجکستان کی نمائندگی بھی موجود ہے۔ اُس کی وضع کردہ اصطلاحیں اور دیگر ہدایات اخباروں میں اور مختلف جرائد میں باقاعدگی سے شائع ہوتی ہیں، اور نویسندوں کو کہا جاتا ہے کہ وہ بعد میں انہی اصطلاحوں کو استعمال کریں تاکہ معاشرے میں وہ رائج ہوں۔ اور اخبارات و مطبوعات اُس کی ہدایات کو ایک کان سے سن کر دوسرے کان سے نہیں نکال دیتے، بلکہ اُن اصطلاحوں کا استعمال شروع کر دیتے ہیں۔ اور اخبارات و مطبوعات اُس کی ہدایات کو ایک کان سے سن کر دوسرے کان سے نہیں نکال دیتے، بلکہ اُن اصطلاحوں کا استعمال شروع کر دیتے ہیں۔ بعض جگہوں پر اگر نئی اصطلاح استعمال ہوتی ہے تو شروع میں چند دنوں تک اُس کے آگے قوسین میں انگریزی یا فرانسیسی لفظ بھی لکھ دیا جاتا ہے تاکہ وہ لوگوں کی یادداشت کا حصہ بنتی جائے اور انجامِ کار وہ چند ہی مہینوں میں معاشرے میں کاملاً رائج ہو جاتی ہے۔ میں ۲۰۰۹ء سے فارسی اخبارات اور مطبوعات پڑھ رہا ہوں۔ کتنی ہی جدید اصطلاحیں میرے دیکھتے دیکھتے رائج ہوئی ہیں۔ اردو اخبارات تو کسی انگریزی اصطلاح کا اردو ترجمہ کرنے کی زحمت گوارا نہیں کرتے، لیکن فارسی اخبارات تو باقاعدہ خود سے فارسی اصطلاحیں وضع کرنے اور انہیں معاشرے میں رائج کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔
میری بنیادی دلچسپی لسانیات، ادب، تاریخ اور معاشرتی علوم میں ہے۔ میری نظروں سے فارسی زبان میں عمومی لسانیات اور فارسی لسانیات کی کئی اعلیٰ علمی کتابیں گذری ہیں، اور میں پوری ضمانت کے ساتھ آپ کی خدمت میں عرض کر رہا ہوں کہ اُن کتابوں میں فارسی پوری علمی آب و تاب کے ساتھ جلوہ گر تھی۔
ایرانی مردم مغربی مصنفوں کی علمی کتابیں بھی عام طور پر فارسی ہی میں ترجمہ کر کے پڑھتے ہیں۔
اگر آسان اور کھولتی ہوئی ہوتی تو سب جہاںمیں پھیل چکی ہوتی۔
یہ زبان 'اگر آسان ہوتی' نہیں بلکہ دستوری لحاظ سے اِس کا شمار واقعی دنیا کی آسان زبانوں میں ہوتا ہے۔ فریڈرک اینگلز نے کارل مارکس کو ایک خط میں فارسی زبان کی آسانی پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھا تھا کہ اگر عربی خط کی مشکل نہ ہوتی تو وہ صرف ۴۸ گھنٹوں میں فارسی کا دستور سیکھ سکتا تھا۔
اور آج ایرانی خیالات کے انجماد کا شکار نا ہوتے بلکہ اپنے خیالات کے ارتقاء کی بدولت نت نئی ایجادات، نت نئے نظریات اور دنیا بھر کو آگے بڑھانے والوں میں شامل ہوتے ۔ اس کے برعکس اردو ہندی بولنے ولوں نے اس زبان کی ہمہ گیر، جہاں گیر اور کھولتی ہوئی فطرت کے باعث بہت تیزی سے مالیات، ایجادات ، نظریات کے میدانوں میں فارسی بولنے والوں کی نسبت بہت زیادہ تیزی سے ترقی کی ہے اور یہ لوگ اپنی زبان کے ساتھ ساتھ دنیا بھر میں پھیل گئے ہیں۔
یہ سارے الفاظ سوائے خام خیالی کے کچھ نہیں ہیں۔ جیسا کہ میں عرض کر چکا ہوں کہ نہ تو ایرانی فکری انجماد کا شکار ہیں اور نہ وہ ترقی کی سطح میں ہم سے کسی لحاظ سے پیچھے ہیں۔ اور جہاں تک اردو کی 'ہمہ گیری، جہاں گیری اور کھولتی ہوئی فطرت' کی بات کی ہے تو یہ میری نظروں سے بالکل پوشیدہ بات ہے۔ میں اس کی کوئی مثال جاننا چاہوں گا۔ پاکستان میں جب اردو زبان کسی بھی معاصر علمی تحقیق کا ذریعہ نہیں ہے، اس کے باوجود اردو کی بدولت ہم 'مالیات، ایجادات اور نظریات' میں ایرانیوں سے آگے کیسے بڑھ گئے، میرے لیے ناقابلِ فہم بات ہے۔ پاکستان میں جتنی بھی ترقی ہوئی ہے اُس کا ذریعہ انگریزی زبان ہے، جبکہ ایران اور ترکیہ میں جتنی بھی ترقی ہوئی ہے اُس کا ذریعہ بالترتیب فارسی اور ترکی زبان ہے۔ اس لیے اس لحاظ سے بھی یہ دو ممالک تعریف کے مستحق ہیں کہ جو کچھ پیشرفت کی ہے اپنی ہی زبانوں میں کی ہے۔ ویسے تو میں ایران کو کسی بھی لحاظ سے پاکستان سے کم ترقی یافتہ ملک نہیں مانتا، بلکہ میری نظر میں تو وہ معاشی و ترقیاتی لحاظ سے پاکستان سے بہت آگے ہے۔ لیکن اگر آپ کو میری یہ بات قبول نہیں ہے تو ترکیہ کی ترکی زبان کو ذریعہ بناتے ہوئے پیشرفت تو آپ کے سامنے ہے۔ ہم نے اپنی 'ہمہ گیر، جہاں گیر اور کھولتی ہوئی فطرت' والی زبان کی بدولت ترکیہ سے زیادہ ترقی کیوں نہیں کی؟
لہذا ہم فارسی کو فطری طور پر غائب پائیں گے
فارسی گیارہ سو سالہ تاریخ کی حامل توانا زبان ہے اور ایرانیوں اور تاجکوں کا ملی غرور اِس زبان کو اگلے ہزار سال میں بھی زندہ رکھے گا۔ یہ خدشہ کہ فارسی زبان بالاخر ایک روز صفحۂ ہستی سے غائب ہو جائے گی، ایک دفعہ بھی میرے ذہن میں نہیں آیا کیونکہ یہ بالکل بے بنیاد بات ہے۔
آج سارے ایران میں اردو ، ہندی فلمیں شوق سے دیکھی اور سمجھی جاتی ہیں
ایران میں ہندی فلمیں دیکھنے والے لوگ موجود ہیں لیکن آپ نے بہت مبالغے سے کام لیا ہے۔ ایران میں ہندی فلموں کی رسائی اُتنی ہی ہے جتنی رسائی ہمارے ہاں ترکی ڈراموں کی ہے یعنی کہ معاشرے، زبان، ثقافت پر اُن کا اثر ذرا نہیں ہے۔ ایرانی میں شاید فلمی ہندی سمجھنے والے افراد کی تعداد بیس سے زیادہ نہیں ہو گی، اس لیے میرے لیے یہ دعویٰ بھی بے بنیاد ہے کہ ایران میں ہندی فلمیں سمجھی جاتی ہیں۔ ایران میں ہندی فلموں سے کہیں زیادہ انگریزی اور ترکی فلمیں مقبول ہیں کیونکہ وہاں انگریزی اور ترکی زبانیں جاننے والے کئی افراد موجود ہیں بلکہ آذربائجان کی تو زبان ہی ترکی ہے۔ یہ بھی بتاتا چلوں کہ ایران میں بیرونی فلمیں عموماً فارسی برگردانی یا فارسی زیرنویس کے ساتھ دیکھی جاتی ہیں۔ اور اُن کی اپنی فارسی فلمیں بھی بے مثال ہوتی ہیں اور سب سے بیشتر وہی دیکھی جاتی ہیں۔
ایران کی بجائے اگر آپ یہاں افغانستان کا نام لیتے تو شاید آپ کی بات میں وزن ہوتا۔
ماسوائے اس کے کہ حکومت اپنے محدود مخروطی نظام کی وجہ سے غیر ملکی میڈیا کی حوصلہ شکنی کرتی ہے ۔ سوچوں کے ارتقاء کی کمی اور محدود ہونے کی بڑی وجہ ایک منجمد زبان ہی ہوتی ہے۔
اگر ایرانی حکومت غیر ملکی ذرائعِ ابلاغ کی حوصلہ شکنی کرتی ہے تو اِس سے زبان کیسے محدود و منجمد ہو گئی؟ آپ نے دو ایسی چیزوں کے درمیان علت و معلول کا تعلق قائم کرنے کی کوشش کی ہے ہے جن کے درمیان کوئی باہمی ربط ہی نہیں ہے۔ چینی حکومت کا بھی شاندار ماضی نہیں، اور وہاں بھی کئی حکومتی پابندیاں ہیں، لیکن اِس سے کیا چینی زبان کا ارتقا رکا؟ یا چینی زبان منجمد ہو گئی؟ یا یہ کہ چینیوں نے تفکر کرنا اور چینی زبان کے ذریعے اُسے بیان کرنا چھوڑ دیا؟ روس اور چین میں اشتراکیوں کی محدود نظریے والی استبدادی حکومت کے باوجود بھی روسی اور چینی زبانیں کسی قسم کے انجماد کا شکار نہیں ہوئیں تھیں بلکہ ہر لحاظ سے ان زبانوں کا ارتقاء جاری رہا ہے۔
ذہن میں رکھیے کہ حکومتیں آتی ہیں اور جاتی ہیں۔ فارسی ایران میں سلجوقیوں کے دور میں بھی تھی، صفویوں کے دور میں بھی تھی، پہلویوں کے دور میں بھی تھی اور موجودہ ولایتِ فقیہ کے دور میں بھی ہے۔ اور جب یہ دور نہیں رہے گا تو تب بھی فارسی زبان رہے گی۔ یہ سارے ادوار ایک دوسرے سے بہت مختلف ہیں اور اِن سب ادوار کا طرزِ فکر فارسی زبان میں ثبت ہے۔
فارسی زبان کے کئی شَبَکے (چینل) بیرونِ ایران مقیم ایرانیوں نے قائم کیے ہوئے ہیں جن پر ایرانی سرکاری شبکوں سے بالکل ہی مختلف برنامے نشر ہوتے ہیں۔ اگر فارسی زبان 'منجمد' ہے تو اِن ایرانی فارسی شبکوں کا وجود کیا معنی رکھتا ہے؟
کوئی وجہ نہیں کہ ایک چھوٹی سی محدود اور مخروطی زبان فارسی کی اصطلاحات ایک ہمہ گیر و جہاں گیر ، تیزیی سے پھیلنے والی زبان اردو کو پہنا کر اس کو فارسایا یا عربایا جائے۔
مجھے واقعی اِس بات پر حیرت ہو رہی ہے کہ آپ اردو کو فارسی سے زیادہ ترقی یافتہ زبان کہہ رہے ہیں جبکہ حقیقت بالکل برعکس ہے۔ صرف بی بی سی فارسی اور بی بی سی اردو ہی کو سامنے رکھ لیجیے آپ کو معلوم ہو جائے گا کہ 'تفاوتِ رہ از کجاست تا بہ کجا!'
میں یقیناً اردو کو مزید فارسیانے کا حامی ہوں، لیکن بنیادی طور پر میری فارسیانے کی تحریک کا محرک یہ نہیں ہے کہ فارسی زیادہ ترقی یافتہ زبان ہے، جو کہ یقیناً ہے، بلکہ میرا محرک یہ ہے کہ فارسی سے میں شدید تمدنی و تاریخی وابستگی محسوس کرتا ہوں اور اِسے کسی غیر کی نہیں بلکہ اپنی زبان مانتا ہوں۔ انگریزوں نے اپنی زبان کو جو لاطینیایا یا یونانیایا ہے یا اگر جاپانیوں، کوریایئیوں، اور ویت نامیوں نے اپنی زبانوں کو چینیایا ہے تو اِس وجہ سے نہیں کہ ان نام بُردہ زبانوں میں نوبل انعام پانے والے لکھتے ہیں، بلکہ ایسا اس لیے کیا ہے کیونکہ یہ اُن زبانوں کو اپنی کہنہ تمدنی زبان اور اپنی میراث مانتے ہیں اور ان کے ساتھ وابستگی محسوس کرتے ہیں۔ جاپان دنیا کا ایک پیشرفتہ ترین ملک ہے اور وہ ترقی میں چین سے بھی آگے ہے، لیکن اُس نے پھر بھی چینی زبان کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑا اور اُس کی چاپانی زبان کے ساٹھ فیصد سے زیادہ الفاظ چینی ہیں اور وہاں ہنوز چینی رسم الخط کا استعمال جاری ہے۔ میں چونکہ تمدنی، ثقافتی، اور لسانی لحاظ سے فارسی اور عربی کے ساتھ وابستگی محسوس کرتا ہوں اس لیے میں اردو کو مزید فارسیانے اور عربیانے کا حامی ہوں۔ اور فی الوقت یہ دونوں ہی زبانیں اردو سے کہیں زیادہ ترقی یافتہ زبانیں ہیں اور ہر روز تکامل کے نئے مراحل طے کر رہی ہیں۔ ذرا معاصر فارسی و عربی نویس مصنفوں کی کتابوں یا دوسری زبانوں سے اِن زبانوں میں ترجمہ ہونے والی کتابوں پر ایک نظر ڈالیے، میری بات کی حقیقت روزِ روشن کی طرح آپ پر واضح ہو جائے گی۔
 
آخری تدوین:
گنجور ایرانی ویب سائیٹ ہے؟
ونڈوز سٹور پر ایپ گنجینہ بهی دستیاب ہے جس میں گنجور والے تمام شاعروں کا کلام موجود ہے.
سبک هندی میں سے بیدل صائب اور عرفی کا کلام وہاں موجود ہے.
 

حسان خان

لائبریرین
تہرانی گفتاری فارسی میں 'تُو/tu' در کے معنی میں استعمال ہوتا ہے۔ مثلاً ایک ایرانی نغمے کا مصرع ہے:
"اُومدی وقتی تُو سینه نَفَسِ آخری بود"
(تم اُس وقت آئے جب سینے میں آخری سانس تھی)
یہاں 'تُو' در کا ہم معنی ہے۔ اِس لفظ کے استعمال کی بعد میں مزید مثالیں دوں گا۔

'تم' والے 'تو' کا ایرانی فارسی میں تلفظ to ہے۔
 

حسان خان

لائبریرین
تہرانی گفتاری فارسی میں 'تُو/tu' در کے معنی میں استعمال ہوتا ہے۔ مثلاً ایک ایرانی نغمے کا مصرع ہے:
"اُومدی وقتی تُو سینه نَفَسِ آخری بود"
(تم اُس وقت آئے جب سینے میں آخری سانس تھی)
یہاں 'تُو' در کا ہم معنی ہے۔ اِس لفظ کے استعمال کی بعد میں مزید مثالیں دوں گا۔

'تم' والے 'تو' کا ایرانی فارسی میں تلفظ to ہے۔
ایک اور ایرانی نغمے میں اِس گفتاری لفظ کے استعمال کی دو دیگر مثالیں مل گئی ہیں:

افسوس تُو این دوره همه عشق‌ها بی‌دَوُومِه
(افسوس اِس دور میں تمام عشق ناپائدار ہیں۔)
× بی‌دَوُومِه = بی‌دوام است

هرگز نبود جز تو هیچ‌کس تُو فکرِ من
(میری فکر میں تمہارے سوا کوئی فرد نہ تھا۔)
 
عنقا سر و برگیم مپرس از فقرا ہیچ

میں نے برگیم کا مطلب بہت ڈهونڈا شاید برگند سے نکلا ہے جس کے معنی رشوت کے ملے ہیں . اس کا اصل ترجمہ کیا ہوگا؟
 

حسان خان

لائبریرین
عنقا سر و برگیم مپرس از فقرا ہیچ

میں نے برگیم کا مطلب بہت ڈهونڈا شاید برگند سے نکلا ہے جس کے معنی رشوت کے ملے ہیں . اس کا اصل ترجمہ کیا ہوگا؟
'برگیم' کا لفظی معنی 'ہم برگ (پتّے) ہیں' لیکن یہ لفظ یہاں اس معنی میں استعمال نہیں ہوا ہے۔
'سر و برگ' کی ترکیبِ عطفی دو مفہوموں میں فارسی ادب میں استعمال ہوئی ہے: آرزو، خواہش، میل وغیرہ کے مفہوم میں، یا پھر ساز و سامان کے مفہوم میں۔
جس طرح 'شیردل' کا مطلب 'شیر جیسے دل والا' ہوتا ہے، اُسی پر قیاس کرتے ہوئے 'عنقا سر و برگیم' کا میری فہم کے مطابق یہ مطلب بن رہا ہے: ہم عنقا جیسے ساز و سامان والے ہیں۔
ابوالمعانی میرزا بیدل کے اشعار کی تشریح استادوں اور متخصصوں کا کام ہے، اس لیے غلطی کا احتمال ہے۔
 
Top