غزل ۔ تعلق رکھ لیا باقی، تیّقن توڑ آیا ہوں ۔ محمد احمدؔ

جاسمن

لائبریرین
تمھارے ساتھ جینے کی قسم کھانے سے کچھ پہلےمیں کچھ وعدے، کئی قسمیں، کہیں پر توڑ آیا ہوں

پلٹ کر آگیا لیکن، یوں لگتا ہے کہ اپنا آپجہاں تم مجھ سے بچھڑے تھے، وہیں رکھ چھوڑ آیا ہوں
اس قدر خوبصورت اشعار۔ہر شعر ایک فن پارہ ہے۔
بہت ہی پیاری غزل ہے۔
زبردست پہ زبریں لگاتے جائیں،لگاتے جائیں۔۔۔۔۔زبر زبر زبر زبر زبردست
ڈھیر ساری داد۔
بہت اچھا لگا ۔جی چاہتا ہے کہ پھر سے پڑھیں،پھر سے پڑھیں،پھر سے پڑھیں۔۔۔۔۔
 
واہ، واہ احمد بھائی ۔ کیا خوب غزل کہی ہے۔
پوری غزل ہی شاہکار ہے۔ خاص کر یہ اشعار تو بس پڑھے جا رہا ہوں۔
پلٹ کر آگیا لیکن، یوں لگتا ہے کہ اپنا آپ
جہاں تم مجھ سے بچھڑے تھے، وہیں رکھ چھوڑ آیا ہوں

اُسے جانے کی جلدی تھی، سومیں آنکھوں ہی آنکھوں میں
جہاں تک چھوڑ سکتا تھا، وہاں تک چھوڑ آیا ہوں

کہاں تک رم کیا جائے، غزالِ دشت کی صورت
سو احمدؔ دشتِ وحشت سے یکایک دوڑ آیا ہوں

ڈھیروں داد
 
واہ بھائی
کہاں تک رم کیا جائے، غزالِ دشت کی صورت
سو احمدؔ دشتِ وحشت سے یکایک
دوڑ آیا ہوں
لیکن یہاں
محبت کانچ کا زندان تھی، سنگِ گراں کب تھی
جہاں سر پھوڑ سکتا تھا، وہیں سر
پھوڑ آیا ہوں
جیسا عمدہ شعر ’زندان‘ کی وجہ سے پریشان کر رہا ہے۔ اگر یوں کر دیں تو اور اچھا ہو جائے۔
محبت کانچ کا زنداں تھی، یوں سنگِ گراں کب تھی

آپ نے پھوڑ، توڑ، جوڑ کے ساتھ دَوڑ کو قافیہ بنانے پر کچھ نہیں فرمایا۔ شاید مناسب نہیں جانا ہو گا، مجھے خیال آ گیا سو توجہ دلا دی۔ معذرت!
 

الف عین

لائبریرین
آپ نے پھوڑ، توڑ، جوڑ کے ساتھ دَوڑ کو قافیہ بنانے پر کچھ نہیں فرمایا۔ شاید مناسب نہیں جانا ہو گا، مجھے خیال آ گیا سو توجہ دلا دی۔ معذرت!
میں بھی انسان ہوں آسی بھائی، ضروری نہیں کہ ہر خطا پر میری نظر جائے۔ دوڑ پر واقعی میری نظر نہیں پڑی۔
 

سید عاطف علی

لائبریرین
آپ نے پھوڑ، توڑ، جوڑ کے ساتھ دَوڑ کو قافیہ بنانے پر کچھ نہیں فرمایا۔ شاید مناسب نہیں جانا ہو گا، مجھے خیال آ گیا سو توجہ دلا دی۔ معذرت!
میں بھی انسان ہوں آسی بھائی، ضروری نہیں کہ ہر خطا پر میری نظر جائے۔ دوڑ پر واقعی میری نظر نہیں پڑی۔
کیا اسے خاتم جمشید اور پرتو خورشید یا پھر جاوید اور امید جیسے امتزاج پر محمول نہیں کیا جاسکتا ؟
اگر چہ لہجےکے لحاظ سے قافیے کی کی نزاکت کے متاثر ہونے کےاحساس کا امکان باقی رہے گا ۔
 
کیا اسے خاتم جمشید اور پرتو خورشید یا پھر جاوید اور امید جیسے امتزاج پر محمول نہیں کیا جاسکتا ؟
اگر چہ لہجےکے لحاظ سے قافیے کی کی نزاکت کے متاثر ہونے کےاحساس کا امکان باقی رہے گا ۔
آداب
کچھ الفاظ ہیں جن کے فارسی میں دو دو لہجے ہیں، اور ہمارے اساتذہ نے بھی اس کا فائدہ اٹھایا ہے۔ مجھے ٹھیک ٹھیک تو یاد نہیں ایک مقام پر غالب گفتگو واو مجہول کے ساتھ لائے ہیں، جبکہ معروف گفتگو، جستجو واو معروف کے ساتھ ہیں۔
رنج کی جب گفتگو ہونے لگی
آپ سے تم تم سے تو ہونے لگی​
فارسی میں واوِ مجہول یوں بھی کم کم ہی بولتے ہیں۔ ہم دو (2) کہتے ہیں وہ دُو (2) کہتے وغیرہ، ایسا ہی جاوید کے ساتھ ہے۔ وہ جاوِید بولتے ہیں اردو مزاج میں جاوید (یائے مجہول) ہے۔ جب ہم فارسی میں شاعری کریں گے تو ہمیں فارسی اصوات و اعراب کو اختیار کرنا ہو گا، اردو میں ہم کچھ لچک لے لیتے ہیں۔ واوِ لین اور یائے لین کے مقامات عام طور پر نسبتاً زیادہ حتمی ہوتے ہیں۔
آپ نے بہت عمدہ بات کی "قافیے کی نزاکت" والی۔ شاعر پر اتنا تو واجب ہے نا، کہ اظہار کی نزاکت کا اہتمام نہیں کرتا تو اس کو مجروح بھی نہ ہونے دے۔
 
آخری تدوین:
میں بھی انسان ہوں آسی بھائی، ضروری نہیں کہ ہر خطا پر میری نظر جائے۔ دوڑ پر واقعی میری نظر نہیں پڑی۔
بجا ارشاد۔
در اصل میں ذہن میں ایک تازہ حوالہ آ گیا، وہ جو کسی نے لکھا تھا کہ جی فلاں صاحب نے ساری کتاب کی اصلاح بھی کی ہے اور دیباچہ بھی لکھا ہے ۔۔ ۔۔ وغیرہ۔ سو، کل ایسا نہ ہو جائے کہ جی اعجاز عبید صاحب نے اس غزل پر بات کی اور دوڑ پر نہیں ٹوکا (لہٰذا یہ قافیہ درست ہے؟؟؟؟)۔
ورنہ میں آپ کی گرفت کروں گا؟ ناممکن۔ دعاؤں کا طالب رہا کرتا ہوں۔
 

سید عاطف علی

لائبریرین
آداب
کچھ الفاظ ہیں جن کے فارسی میں دو دو لہجے ہیں، اور ہمارے اساتذہ نے بھی اس کا فائدہ اٹھایا ہے۔ مجھے ٹھیک ٹھیک تو یاد نہیں ایک مقام پر غالب گفتگو واو مجہول کے ساتھ لائے ہیں، جبکہ معروف گفتگو، جستجو واو معروف کے ساتھ ہیں۔
رنج کی جب گفتگو ہونے لگی
آپ سے تم تم سے تو ہونے لگی​
فارسی میں واوِ مجہول یوں بھی کم کم ہی بولتے ہیں۔ ہم دو (2) کہتے ہیں وہ دُو (2) کہتے وغیرہ، ایسا ہی جاوید کے ساتھ ہے۔ وہ جاوِید بولتے ہیں اردو مزاج میں جاوید (یائے مجہول) ہے۔ جب ہم فارسی میں شاعری کریں گے تو ہمیں فارسی اصوات و اعراب کو اختیار کرنا ہو گا، اردو میں ہم کچھ لچک لے لیتے ہیں۔ واوِ لین اور یائے لین کے مقامات عام طور پر نسبتاً زیادہ حتمی ہوتے ہیں۔
آپ نے بہت عمدہ بات کی "قافیے کی نزاکت" والی۔ شاعر پر اتنا تو واجب ہے نا، کہ اظہار کی نزاکت کا اہتمام نہیں کرتا تو اس کو مجروح بھی نہ ہونے دے۔
آسی بھائی بھلی بات کہی آپ نے ، میں متفق ہوں۔
بر سبیل تذکرہ یاد آیاڈاکٹر اقبال اپنے نثری خطبات میں کوئی نکتہ بیان کر تے ہوئےشیخ معروف کرخی کا حوالہ استعمال کیا ہے ۔
ایک جگہ کچھ اس طرح رقمطراز ہوتے ہوئے "آن دی اتھارٹی آف شیخ معروف کرخی آئی کین سے ۔۔۔۔۔"الخ
برسہا قبل اسلامی فکر کی تشکیل نو مین شاید اس طرح کے الفاظ یاد پڑتے ہیں۔
چنانچہ شاعر اس پس منظر میں غالب کی مندرجہ ذیل غزل میں مستعمل قوافی کی اتھارٹی کے پردے میں امان حاصل کر سکتا ہے اگر چہ محسوس کرنے والے (بشمول راقم ) بہر حال کچھ گرانی اپنی طبع کی لطافت و نزاکت کے بقدرضرورمحسوس کریں گے۔ ویسے اس طرح کے تنوع کی کئی اور مثالیں ملتی ہیں ۔
اس ضمن میں غالب کی ایک معروف غزل یاد آئی تھی۔
عشق، تاثیر سے نومید نہیں​
جاں سپاری، شجرِ بید نہیں​
رازِ معشوق نہ رسوا ہو جائے​
ورنہ مر جانے میں کچھ بھید نہیں​
ہے تجلی تری، سامانِ وجود​
ذرّہ، بے پرتوِ خورشید نہیں​
گردشِ رنگِ طرب سے ڈرئیے​
غمِ محرومئ جاوید نہیں!​
سلطنت دست بَدَست آئے ہے​
جامِ مے ، خاتمِ جمشید نہیں​
کہتے ہیں "جیتی ہے امید پہ خلق"​
ہم کو جینے کی بھی امید نہیں​
مے کشی کو نہ سمجھ بے حاصل​
بادہ، غالبؔ! عرقِ بید نہیں​
 
آسی بھائی بھلی بات کہی آپ نے ، میں متفق ہوں۔
بر سبیل تذکرہ یاد آیاڈاکٹر اقبال اپنے نثری خطبات میں کوئی نکتہ بیان کر تے ہوئےشیخ معروف کرخی کا حوالہ استعمال کیا ہے ۔
ایک جگہ کچھ اس طرح رقمطراز ہوتے ہوئے "آن دی اتھارٹی آف شیخ معروف کرخی آئی کین سے ۔۔۔۔۔"الخ
برسہا قبل اسلامی فکر کی تشکیل نو مین شاید اس طرح کے الفاظ یاد پڑتے ہیں۔
چنانچہ شاعر اس پس منظر میں غالب کی مندرجہ ذیل غزل میں مستعمل قوافی کی اتھارٹی کے پردے میں امان حاصل کر سکتا ہے اگر چہ محسوس کرنے والے (بشمول راقم ) بہر حال کچھ گرانی اپنی طبع کی لطافت و نزاکت کے بقدرضرورمحسوس کریں گے۔ ویسے اس طرح کے تنوع کی کئی اور مثالیں ملتی ہیں ۔
اس ضمن میں غالب کی ایک معروف غزل یاد آئی تھی۔
عشق، تاثیر سے نومید نہیں
جاں سپاری، شجرِ بید نہیں
رازِ معشوق نہ رسوا ہو جائے
ورنہ مر جانے میں کچھ بھید نہیں
ہے تجلی تری، سامانِ وجود
ذرّہ، بے پرتوِ خورشید نہیں
گردشِ رنگِ طرب سے ڈرئیے
غمِ محرومئ جاوید نہیں!
سلطنت دست بَدَست آئے ہے
جامِ مے ، خاتمِ جمشید نہیں
کہتے ہیں "جیتی ہے امید پہ خلق"
ہم کو جینے کی بھی امید نہیں
مے کشی کو نہ سمجھ بے حاصل
بادہ، غالبؔ! عرقِ بید نہیں​
غالب کے دور میں ایک چیز آپ کو ملے گی "بصری قافیہ"، (موسیٰ، عالی، کافی، بشریٰ؛ وغیرہ)؛ یہ غزل بھی بصری قافیہ پر ہے کہ قوافی لکھنے میں ایک سے ہوں، صوتیت کو ثانوی حیثیت دی گئی ہے۔ بصری قافیہ بعد میں تقریباً ترک کر دیا گیا۔ اس کی وجہ شاید وہی تھی جسے آپ نے کہا: "کچھ گرانی اپنی طبع کی لطافت و نزاکت کے بقدر"۔ سو، میری سفارش ہے کہ اس سے گریز اولیٰ۔

ایک بات مزمل شیخ بسمل نے کسی گفتگو میں لکھی تھی کہ غالب کے دور میں "علمِ قافیہ" باضابطہ طور پر رائج نہیں تھا۔ انہوں نے اردو کے لئے علمِ قافیہ کے بانی یا مخترع کا نام بھی لکھا تھا۔
 
آخری تدوین:

فاتح

لائبریرین
ایک ضمنی بات: کراچی میں بولی جانے والی اردو میں دوڑ کو موڑ توڑ کا ہم قافیہ یا انہی کے تلفظ پر بولا جاتا ہے۔
 
خوب است احمد بھائی! ویسے یہ آنکھوں ہی آنکھوں میں کسی کو گھر تک چھوڑ آنے والی اصطلاح تو عموماً مزاح نگار برادری کسی اور ہی مفہوم میں استعمال کرتی رہی ہے، آپ نے تو اسے کسی اور ہی رنگ میں برت لیا اور کیا ہی خوب برتا۔ :) :) :)
 

محمداحمد

لائبریرین
اس قدر خوبصورت اشعار۔ہر شعر ایک فن پارہ ہے۔
بہت ہی پیاری غزل ہے۔
زبردست پہ زبریں لگاتے جائیں،لگاتے جائیں۔۔۔۔۔زبر زبر زبر زبر زبردست
ڈھیر ساری داد۔
بہت اچھا لگا ۔جی چاہتا ہے کہ پھر سے پڑھیں،پھر سے پڑھیں،پھر سے پڑھیں۔۔۔۔۔

بہت شکریہ !

اس داد پر اور اندازِ داد پر سیروں خون بڑھ گیا۔ :)

شاد آباد رہیے۔
 

محمداحمد

لائبریرین
در اصل میں ذہن میں ایک تازہ حوالہ آ گیا، وہ جو کسی نے لکھا تھا کہ جی فلاں صاحب نے ساری کتاب کی اصلاح بھی کی ہے اور دیباچہ بھی لکھا ہے ۔۔ ۔۔ وغیرہ۔ سو، کل ایسا نہ ہو جائے کہ جی اعجاز عبید صاحب نے اس غزل پر بات کی اور دوڑ پر نہیں ٹوکا (لہٰذا یہ قافیہ درست ہے؟؟؟؟)۔

ہم تو کتاب کے دیباچے میں یہ بھی لکھ دیں گے کہ اس مجموعے کا سارا کلام اردو محفل پر پیش کیا جا چکا ہے اور چونکہ اُستادِ محترم یعقوب آسی صاحب اردو محفل کے باقاعدہ رُکن ہیں سو اس مجموعے کے تمام تر کلام کو محترم جناب یعقوب آسی صاحب کی طرف سے سند یافتہ سمجھا جائے اور اگر کہیں کوئی سقم پایا جائے تو اس کی بابت براہِ راست اُن سے ہی استفسار کیا جائے۔ :)

یہ بات صرف ازراہِ تففن کہی ہے۔ اُمید ہے کہ اس شوخی پر خاکسار کی گرفت نہیں فرمائی جائے گی۔ :)
 

محمداحمد

لائبریرین
تففن برطرف! اساتذہ کا ہونا تو مجھ جیسے ٹوٹے پھوٹے شعر کہنے والے کے لئے نعمت سے کم نہیں ہے ۔ خاص طور پر اردو محفل میں جو محبت اور شفقت مجھے ملی اور ہر آنے والے طالب کو ملتی ہے اُس کی مثال کہیں اور نہیں ملتی۔ رہی بات شاعری کی تو اس میں کوئی دو رائے نہیں ہیں کہ خاکسار کی شاعری میں اگر کچھ محاسن ہیں تو وہ اساتذہ کے فیض سے ہی ہیں اور جو عیب ہیں سو وہ سراسر میری وجہ سے ہیں اُن کے لئے میرے محترم اساتذہ کوکوئی الزام نہیں دیا جا سکتا۔ سو اگر کسی کے دل میں میری بابت اس قسم کا کوئی خیال ہے تو وہ براہِ کرم اُسے دل سے نکال دے۔
 

محمداحمد

لائبریرین
آپ نے پھوڑ، توڑ، جوڑ کے ساتھ دَوڑ کو قافیہ بنانے پر کچھ نہیں فرمایا۔ شاید مناسب نہیں جانا ہو گا، مجھے خیال آ گیا سو توجہ دلا دی۔ معذرت!
کیا اسے خاتم جمشید اور پرتو خورشید یا پھر جاوید اور امید جیسے امتزاج پر محمول نہیں کیا جاسکتا ؟
اگر چہ لہجےکے لحاظ سے قافیے کی کی نزاکت کے متاثر ہونے کےاحساس کا امکان باقی رہے گا ۔
آداب
کچھ الفاظ ہیں جن کے فارسی میں دو دو لہجے ہیں، اور ہمارے اساتذہ نے بھی اس کا فائدہ اٹھایا ہے۔ مجھے ٹھیک ٹھیک تو یاد نہیں ایک مقام پر غالب گفتگو واو مجہول کے ساتھ لائے ہیں، جبکہ معروف گفتگو، جستجو واو معروف کے ساتھ ہیں۔
رنج کی جب گفتگو ہونے لگی
آپ سے تم تم سے تو ہونے لگی​
فارسی میں واوِ مجہول یوں بھی کم کم ہی بولتے ہیں۔ ہم دو (2) کہتے ہیں وہ دُو (2) کہتے وغیرہ، ایسا ہی جاوید کے ساتھ ہے۔ وہ جاوِید بولتے ہیں اردو مزاج میں جاوید (یائے مجہول) ہے۔ جب ہم فارسی میں شاعری کریں گے تو ہمیں فارسی اصوات و اعراب کو اختیار کرنا ہو گا، اردو میں ہم کچھ لچک لے لیتے ہیں۔ واوِ لین اور یائے لین کے مقامات عام طور پر نسبتاً زیادہ حتمی ہوتے ہیں۔
آپ نے بہت عمدہ بات کی "قافیے کی نزاکت" والی۔ شاعر پر اتنا تو واجب ہے نا، کہ اظہار کی نزاکت کا اہتمام نہیں کرتا تو اس کو مجروح بھی نہ ہونے دے۔

بہت شکریہ محترم جناب یعقوب آسی صاحب!

سچی بات یہ ہے کہ مجھے اس قافیے کے حوالے سے بالکل اندازہ نہیں ہو سکا تھا۔

آپ کی جانب سے نشاندہی پر ممنون ہوں۔
 
Top