ایگناسٹک

سید عاطف علی

لائبریرین
ادراک کا مطلب بھی تو یہی ہے۔ کہ مجھے اس بات کا ادراک نہیں۔ یعنی اس بات کا علم نہیں۔
ادراک کا اصل معنی پہنچنا ہوتا ہے اور یہ سمجھ اور فہم اور دیکھنے کی حد میں آنے کے معنی میں بھی استعمال ہو تا ہے ۔ اردو میں کسی چیز کے احساس ہو نے کے معنی میں استعمال ہوتا ہے ۔
لیکن لفظی طور پر دونوں الگ مادّہ یعنی روٹ رکھتے ہیں ۔
 

سید عاطف علی

لائبریرین
بہت سی باتیں ایسی ہیں جن پر یہاں اختلاف اور بحث ہو سکتی ہے مگر مجھے اس کا کوئی فائدہ نظر نہیں آتا۔ صرف یہ پوائنٹ آؤٹ کرتا چلوں کہ یہ پوسٹ کسی مذہبی ٹرول کی نہیں بلکہ عاطف کی ہے۔ اگر ایتھیئسٹ کو حیوان کہنا حقارت نہیں تو معلوم نہیں اس لفظ کا مطلب کیا ہے۔
زیک بھائی یہاں میری نیت ( یا وہم و گمان ) ہر گز حقارت کی نہیں تھی جیسا کہ پہلے معذرت پیش کر چکا ہوں ڈرپوک کہنے کی وجہ سے۔ مجھے تو یہاں کسی کا مذہب بھی نہیں معلوم البتہ انسان کا کہا ہوا (اور لکھ ہوا) لفظ لفظ اس کی فکر اور شخصیت کا عکاس ہو تا ہے ، بس مجھے بھی ان محدود مراسلات سے تاثر اور رجحان کا ایک حد تک اندازہ ہوتا ہے۔کوئی مونو تھیئسٹ ہو یا پولی تھیئسٹ ایتھیئسٹ ہر ایک کا اپنا اپنا اختیار ہے۔ میرے نزدیک انسان کائنات میں کسی مذہب اختیار کرنے سے قطع نظر ایک گونہ احترام بطور انسان ہی رکھتا ہے ۔
کوئی ایتھیئسٹ خود ہی جب خالق کا انکار کرتا ہے تو میری نگاہ میں وہ فکری گہرائی کی بے اعتدالی کے باعث غلط فہمی کی وجہ سے ایسا کہتا ہے جس کے بارے میں میں ذکر کر چکا ہوں اس بنیاد پر میں نے کہا کہ میرے نزدیک تو وہ میرے جیسا انسان ہی ہے ۔ مگر خود کو لامحالہ اس انسانیت کی تکریم سے عاری کر نا اس کی مجبوری بن جاتا ہے اور یہ اس کا خود کا اختیار ہے میرا یا کسی کا مسلط کردہ نہیں ۔یہ میری ذاتی رائے ہے۔
اگر تم سمجھتے ہو کہ یہ کسی کی دل آزاری یا حقارت ہے تو میں بر ملا ایک بار پھر معذرت پیش کرتا ہوں ۔
ہاں اگر کسی کو اختلاف ہو تو وہ بے شک دلیل دے سکتا ہے ۔ شاید کسی کی فکر کا کوئی زاویہ سدھر جائے۔۔۔۔ ویسے تو لوگ بغیر دلیل کے بھی اختلاف کر لیتے ہیں ۔ بہر حال اپنی اپنی مرضی ہے۔میرا تاثر ایتھیئسٹوں کے بارے میں یہ ہے کہ وہ ایسی بات کو اس طرح محسوس نہ کرتے ہو ں گے اور مذہبی لوگوں کے مقابلے میں زیادہ وسیع المشرب ہوتے ہوں گے۔۔۔رچرڈ ڈاکنز (جو اتھیزم کا نہ صرف معروف علمبردار ہے بلکہ انتہائی اخلاص کے ساتھ اس کی تبلیغ بھی کرتا نظر آتا ہے)۔ کو میں نے ایک مرتبہ اپنے حیوان ہونے یا کہے جانے پر فخر کرتے سنا ہے۔البتہ یاد نہیں کب اور کہاں ۔۔ ۔
 

زیک

مسافر
زیک بھائی یہاں میری نیت ( یا وہم و گمان ) ہر گز حقارت کی نہیں تھی جیسا کہ پہلے معذرت پیش کر چکا ہوں ڈرپوک کہنے کی وجہ سے۔ مجھے تو یہاں کسی کا مذہب بھی نہیں معلوم البتہ انسان کا کہا ہوا (اور لکھ ہوا) لفظ لفظ اس کی فکر اور شخصیت کا عکاس ہو تا ہے
میں نے آپ کی نیت پر شک نہیں کیا۔ حقیقت یہ ہے کہ پاکستانی مسلمان اکثر کسی کے غیر مذہبی یا خدا کا منکر ہونے پر کافی مفروضات قائم کر لیتے ہیں۔ شاید یہ ایسے لوگوں سے کوئی انٹریکشن نہ ہونے کی وجہ سے ہے یا شاید مذہب کا تقاضا ہے۔ یہاں امریکہ میں جن مذہبی لوگوں سے بھی گفتگو ہوتی ہے وہ ایتھیئسٹ وغیرہ کو بائی ڈیفالٹ ایسا برا نہیں تصور کرتے حالانکہ وہ اپنے مذہب کے سچ ہونے کے اتنے ہے قائل ہیں جتنے پاکستانی مسلمان۔
 

ربیع م

محفلین
آزادی اظہار رائے کی جیلوں میں قید انسان پر حسرت ہی کی جا سکتی ہے جیسا کہ خالق کائنات جیسی عظیم ذات سے اپنا دامن چھڑوا کر کوئی اپنے آپ کو "اپنی" محدود سی عقل کا غلام بنا لے ،باوجویکہ خالق کائنات نے اس انسان کی رہنمائی کیلئے ایک ایسی عظمت والی کتاب نازل کی ہو جس جیسی کتاب لانے سے دنیا بھر کے ادیب و دانشور عاجز ہوں اور جس کے چیلنج کا کوئی جواب نا دے سکا ہو۔
 

نور وجدان

لائبریرین
میرے خیال میں لاادریت اور ایگناسٹسزم میں فرق ہے۔ بلکہ لاادریت سکیپٹیسزم کے زیادہ قریب ہے۔
جبکہ ایگناسٹسزم محض خدا کو ماننے یا نہ ماننے سے متعلق ہے۔
پھر ہمیں یہ بھی معلوم ہے کہ خدا کو ماننے والے تھیئسٹ بھی ہیں، دیئسٹ بھی۔ اسی طرح ایگناسٹسزم بھی اپنی نظریاتی سطح پر کوئی ایک متعین چیز نہیں ہے۔ یعنی ایگناسٹسزم میں بھی تھیئسٹ، دیئسٹ اور اتھیئسٹ ایگناسٹکس ہوتے ہیں۔ یہ میلانی بات ہے کہ وہ کس طرف زیادہ قریب ہیں۔
جیسے ڈیکارٹ کی زندگی کا ایک مخصوص مقام ایگناسٹک ایتھیئزم میں گزرا ہے۔ اسی کے برعکس غزالی نے ایگناسٹک تھیئزم کا دور گزارا ہے۔
یہ بات البتہ سکیپٹیسزم سے بالکل مختلف ہے۔ کیونکہ وہاں صرف خدا کے وجود کی نہیں، بلکہ ہر شئے پر منطقی تشکیکیت کا اطلاق ہوتا ہے۔ ڈیوڈ ہیوم اس کی اعلی ترین مثال ہے۔

نہیں۔ ایگناسٹک اس بات کے قائل ہیں کہ وہ دلیل بھی وجود نہیں رکھتی ہے۔

بنیادی طور پر ایتھیسٹ اور ایگناسٹک دونوں ہی خدا کے وجود کو unfalsifiable سمجھتے ہیں۔ تاہم ایتھیسٹ خدا کے وجود نہ رکھنے کو زیادہ منطقی اور حتمی سمجھتے ہیں۔

اب ایتھیسٹ کو دیکھیں تو وہ خارجی دنیا یعنی مشاہدات اور عقلیات کے عنصر کے غلبے (اس کے بھی کئی مدارج ہوں گے یہ بائنری نظام کی طرح نہیں ) کی وجہ سے بظاہر خدا کا انکار کرتا ہے لیکن درحقیقت وہ اس غلبے کی وجہ سے اس قوت کا انکار کر تا ہے جو عقلیات اور مشاہدات کے گوں نا گون (ڈائیورسٹی) تجربات میں "کھو" جاتی ہے یا " سو "جاتی ہے

ور داخلی دنیا سے رجوع نہیں کر پاتا بہر حال سب سے بڑا نقصان اسے انسانیت کا مقام کھونے کی صورت میں ادا کرنا پڑتا ہے۔

اب دیکھیں ایگناسٹک کو کہ یہ ایتھیسٹ سے کس طرح مختلف ہے ۔ اس پر مشاہدات اور عقلیات کا غلبہ یقینا ہوتا ہے مگر اس کی وہ شدت نہیں ہوتی جو اس کے اندر انسانیت کے اس جوہر کو دبا سکے ۔ انسانیت وہ جوہر ہے جسے وہ کھونے کا خوف رکھتا ہے اور وہ خدا کا دیا ہوامقام کھونا افورڈ نہیں کرپاتا ) لیکنوہ در پردہ داخلی انتشار کا شکار رہتاہے اور ایک درمیانی راہ کو موقف کا درجہ دے کر مطمئن و مامون ہونا چاہتا ہے ۔یہی خوف یا کمزوری اسے ایتھیسٹ سے ممتاز کرتی ہے۔



ایگناسٹک اور ایٹھیسٹ کی مختلف تعریفیں سن کے مجھے تشکیک ہونے لگی ہے :) کسی کے کہنے کے مطابق اگناسٹک بنا دلیل کے خُدا کے وجود کو ماننے کا نام ہے ۔

کسی کے مطابق اگناسٹک وہ کیفیت ہے جو دلیل اور نفی دلیل کے درمیان کی کیفیت یا نفی اور اثبات کے درمیان کی کیفیت ہے ۔

کسی کے نزدیک خارجی مشاہدات پر یقین رکھنے والا ایتھیسٹ اور داخلی اور خارجی مشاہدات کے بین بین والا اگناسٹک ہے یعنی درمیانی راہ والا ہے ۔

اسی ضمن میں غزالی کی مثال اگناسٹک تھیسٹ کے طور پر دی گئی یا اقبال نے بھی اگناسٹک تھیئسٹ کا وقت گزار کے مونو تھئزم پر یقین رکھا ۔

ان سب کو ذکر کرتے ہوئے ایک سوال ذہن میں آیا ہے

وہ کون سے داخلی مشاہدات ہیں جن سے اگناسٹک مونو تھیئزم کی طرف رجوع کرتا ہے اور وہ کون سے عوامل ہیں جن سے اگناسٹک مکمل طور خارجی دنیا کے مشاہدات کو اپناتے خدا کی مکمل نفی کر دیتا ہے ؟
 
ایگناسٹک اور ایٹھیسٹ کی مختلف تعریفیں سن کے مجھے تشکیک ہونے لگی ہے :) کسی کے کہنے کے مطابق اگناسٹک بنا دلیل کے خُدا کے وجود کو ماننے کا نام ہے ۔

کسی کے مطابق اگناسٹک وہ کیفیت ہے جو دلیل اور نفی دلیل کے درمیان کی کیفیت یا نفی اور اثبات کے درمیان کی کیفیت ہے ۔

کسی کے نزدیک خارجی مشاہدات پر یقین رکھنے والا ایتھیسٹ اور داخلی اور خارجی مشاہدات کے بین بین والا اگناسٹک ہے یعنی درمیانی راہ والا ہے ۔

اسی ضمن میں غزالی کی مثال اگناسٹک تھیسٹ کے طور پر دی گئی یا اقبال نے بھی اگناسٹک تھیئسٹ کا وقت گزار کے مونو تھئزم پر یقین رکھا ۔

ان سب کو ذکر کرتے ہوئے ایک سوال ذہن میں آیا ہے

وہ کون سے داخلی مشاہدات ہیں جن سے اگناسٹک مونو تھیئزم کی طرف رجوع کرتا ہے اور وہ کون سے عوامل ہیں جن سے اگناسٹک مکمل طور خارجی دنیا کے مشاہدات کو اپناتے خدا کی مکمل نفی کر دیتا ہے ؟

آپ کی بات پر ابھی گوگل کیا تو دیکھیں کیا ملا ہے۔ ممکن ہے یہاں زیادہ بہتر ابلاغ ممکن ہو سکے :
ایگناسٹک تھیئزم
ایگناسٹک ایتھیئسٹ
 

نور وجدان

لائبریرین
افسوس ہے۔ ممکن ہے آپ کے ستارے گردش میں ہیں۔ یا پھر ہدایت کے دروازے تاحال بند ہیں۔ :p:p:p

میں نے آخری لائن میں ایک سوال پوچھا ہے اس موضوع پر بحث کسی لنک پر نہیں مل پائے گی باوجود اس کہ لنک کام نہیں کر رہا ہے ۔
 
وہ کون سے داخلی مشاہدات ہیں جن سے اگناسٹک مونو تھیئزم کی طرف رجوع کرتا ہے اور وہ کون سے عوامل ہیں جن سے اگناسٹک مکمل طور خارجی دنیا کے مشاہدات کو اپناتے خدا کی مکمل نفی کر دیتا ہے ؟

داخلی مشاہدات ہوں یا خارجی۔ سب کچھ انسانی نفس کی نوازش ہے۔ "نفس"، مادہ اور شعور کی مجموعی صورت کا نام ہے۔
اب ایگناسٹک ہو یا ملحد، کسی بھی وقت وہ موحد ہو سکتا ہے۔ اسی طرح موحد کسی بھی وقت ملحد یا ایگناسٹک ہو سکتا ہے۔
وجہ کیا ہے؟
وجہ علم کی لامحدودیت اور دلیل کی اضافیت ہے۔ دلیل کی اضافیت سے مراد یہ ہے کہ مطلق اور حتمی سچائیوں کے لیے کوئی دلیل حتمی نہیں ہے۔ ہر دلیل اضافی یا ریلیٹیو ہی ہوتی ہے جسے پیور ریزن یا عقلِ محض پر ہمیشگی یا دوام نہیں رہتا۔ سچ بدلتے رہتے ہیں۔ تبدیلی ہی کو دوام ہے۔
ایسے میں ہم اپنے اپنے نظریات کبھی بناتے ہیں، کبھی دریافت کرتے ہیں، کبھی مستعار لیتے ہیں۔ اور آخر میں قبول صرف اسے ہی کرتے ہیں جس کے ساتھ جذباتی وابستگی اور اطمینان پیدا ہو جائے۔ گویا ہم سب کائنات کی مطلق حقیقتوں کی تلاش کے فریب میں در حقیقت صرف اپنی تسکین کی تلاش ہی کر رہے ہیں۔ اور یہی سب سے بڑی آزمائش ہے جو حضرتَ انسان کے "اخلاقی وجود" کے حصے میں آئی ہے۔ :unsure:
 

نور وجدان

لائبریرین
۔ گویا ہم سب کائنات کی مطلق حقیقتوں کی تلاش کے فریب میں در حقیقت صرف اپنی تسکین کی تلاش ہی کر رہے ہیں۔ اور یہی سب سے بڑی آزمائش ہے جو حضرتَ انسان کے "اخلاقی وجود" کے حصے میں آئی ہے۔

سچائی کی تلاش میں انسانی کے مشاہدات و تجربات بدلتے رہتے ہیں ۔ انسانی عقل کا وہ کونسا مقام ہے جو اس کو تسکین دے سکتا ہے ۔ اصل میں ایک انتہا کی تسکین صورت ہمیں اقبال یا غزالی کے تصانیف میں ملتی ہے ۔ ایک کی صورت سائنسی تجربات کی صورت نظر آتی ہے ۔ کہنے کا مقصد یہ ہے کہ درمیانی راہ سے انتہا تک کا سفر انسان کو ایک ایسے مقام پر لے جاتا ہے جہاں وجدان کا کام کرنا بہت تیز تر ہوجاتا ہے جس طرح سیب کا گرنا کشش ثقل کے قانون کو وجود میں لے آیا ۔ انسانی تسکین یہی ہے کہ وہ اپنی تخلیق سے خوش ہوجائے یا خالق کی تخلیق کو خود جان کر تسکین حاصل کرلے ۔ چلیں ایک ایتھیسٹ تو اپنے تجربات میں خود مختار اور طاقت ء کل ہوتا ہے جبکہ ایک اگناسٹک کا خدا کی طرف سفر کونسے داخلی و خارجی مشاہدات کا حامل ہے ۔کونسے وراء اور ماوراء عوامل ہے جو اس کو عین الیقین کی طرف لے جاتے ہیں ۔درمیانی راہ والے اگناسٹک کیا ذہین ہوتے ہیں یا انتہاؤں والے ؟ اور ان کے بارے میں کیا خیال ہے جن کی زندگی کے تجربات ان کے شعور میں بدلاؤ لانے سے قاصر ہوتے ہیں یا وہ اندھے مقلد ہوتے ہیں۔ اب سوال یہی ہے کہ اللہ نے انسان کو اگناسٹک سے یقین کی طرف راہ کا سفر بتایا ہے یا ایتھیسٹ کا یا اندھے مقلد کا ۔۔۔ہم میں سے ہر کوئی خود کو بہتر جانتا ہے مگر کون مشاہدات سے اپنے طرز ء فکر میں بدلاؤ لاتا ہے میرے خیال میں تبدیلی لانے والے موجد و موحد ہوتے ہیں یا اعلی پائے کے عقلیت پسند ہوتے ہیں اور اندھے مقلد سوچنے کی صلاحیت استعمال نہیں کرتے ہیں مگر سوال وہی ہے کہ وجدانی صلاحیت ایک؎“؎ یقین و بے یقین” دونوں کی بیدار ہوتی ہیں ۔۔انسانی ذہن کام ہی تب کرتا ہے جب اس کا وجدان مکمل بیدار ہوتا ہے ۔کونسے شواہد وجدان کو بیدار کرتے ہیں ۔۔۔؟؟؟
 
آخری تدوین:

سید عاطف علی

لائبریرین
داخلی مشاہدات ہوں یا خارجی۔ سب کچھ انسانی نفس کی نوازش ہے۔ "نفس"، مادہ اور شعور کی مجموعی صورت کا نام ہے۔
ایک بات یاد آگئی ۔ کوئی ربع صدی قبل نو جوانی میں ایک شعر پڑھا تھا اور یادداشت پر نقش ہو گیا تھا ۔یہ سب گہرائی کی نگاہ سے دیکھ پر انسان کےنفس مدرکہ کی شوخیاں ہیں
ہستی و نیستی از دیدن و نا دیدن من۔چہ زمان و چہ مکاں "شوخیءگفتار" من است
 

arifkarim

معطل
میرے نزدیک یہاں سے ایک دوسری بحث کا آغاز ہو تا ہے ۔ اور وہ یہ کہ مشاہدات کی حدود اور عقلیات کا مشاہدات پر حاکم ہونا اور ان دونوں کی حدود اس کے علاوہ کسی علمی وسیلے یا زریعے کی موجودگی۔(جیسا کہ آسمانی مذاہب میں الہام و وحی)
پھر تو آسمانی مذاہب و الہام و وحی کی بھی قیود انسانی عقل ومنطق ہی پر ہے کہ فلاں آیت قرآنی یا حدیث نبویؐ کی کیا تشریح کرنی ہے ۔ کونسی تشریح درست ہے اور کونسی غلط ہے کا تعین اگر خدا نے ہی کر دینا تھا تو پھر اتنے سارے فرقوں، مسالک اور مکتبہ الفکر کی ضرورت کیوں پیش آئی؟ داعش کا قرآن بھی وہی ہے جو کسی امن پسند مسلمان کا قرآن ہے۔ یعنی ان دونوں کی اسلامی سمجھ بوجھ کا منبع پھر وہی محدود انسانی عقل و فہم ہی ہےبیشک اسکا ماخذ الہامی کتب ہی کیوں نہ ہوں۔

اور نتیجتاََ لامحالہ اسے اپنے آپ کو حیوان ماننا پڑتا ہے اوراسے انسانیت کی محترم منصب سے استعفی دینا پڑتا ہے لیکن بایں ہمہ وہ اس کی جراءت کرتا ہے ۔اب کیون کہ اس کے پاس سوائے عقلیات و مشاہدات کے کوئی اور چارہ نہیں سو اس لیے وہ اس کے جواز کے لیے خارجی دنیا میں سرگرداں رہتا ہے اور داخلی دنیا سے رجوع نہیں کر پاتا بہر حال سب سے بڑا نقصان اسے انسانیت کا مقام کھونے کی صورت میں ادا کرنا پڑتا ہے۔
انسان کے بعض منفی اعمال تو حیوانوں سے بھی بدتر ہیں۔ ایسے میں مذہب کا اسے اشرف المخلوقات کہنا کافی عجیب سا لگتا ہے۔

دخیلات اور معادلات جیسے الفاظ سن کر قے سی آنے لگی ہے۔
حسان بھائی کی پوسٹس پڑھتے وقت قے کی بالٹی ساتھ رکھا کریں :)

ہاں اگر کسی کو اختلاف ہو تو وہ بے شک دلیل دے سکتا ہے ۔ شاید کسی کی فکر کا کوئی زاویہ سدھر جائے۔۔۔۔ ویسے تو لوگ بغیر دلیل کے بھی اختلاف کر لیتے ہیں ۔ بہر حال اپنی اپنی مرضی ہے۔میرا تاثر ایتھیئسٹوں کے بارے میں یہ ہے کہ وہ ایسی بات کو اس طرح محسوس نہ کرتے ہو ں گے اور مذہبی لوگوں کے مقابلے میں زیادہ وسیع المشرب ہوتے ہوں گے۔۔۔رچرڈ ڈاکنز (جو اتھیزم کا نہ صرف معروف علمبردار ہے بلکہ انتہائی اخلاص کے ساتھ اس کی تبلیغ بھی کرتا نظر آتا ہے)۔ کو میں نے ایک مرتبہ اپنے حیوان ہونے یا کہے جانے پر فخر کرتے سنا ہے۔البتہ یاد نہیں کب اور کہاں ۔۔ ۔
انسان سائنس کی رو سے حیوان ہی ہے۔ اب مذہب نے اسکو اشرف المخلوقات بنا دیا ہے تو اسمیں سائنس پر چلنے والوں کا کیا قصور؟

میں نے آپ کی نیت پر شک نہیں کیا۔ حقیقت یہ ہے کہ پاکستانی مسلمان اکثر کسی کے غیر مذہبی یا خدا کا منکر ہونے پر کافی مفروضات قائم کر لیتے ہیں۔ شاید یہ ایسے لوگوں سے کوئی انٹریکشن نہ ہونے کی وجہ سے ہے یا شاید مذہب کا تقاضا ہے۔ یہاں امریکہ میں جن مذہبی لوگوں سے بھی گفتگو ہوتی ہے وہ ایتھیئسٹ وغیرہ کو بائی ڈیفالٹ ایسا برا نہیں تصور کرتے حالانکہ وہ اپنے مذہب کے سچ ہونے کے اتنے ہے قائل ہیں جتنے پاکستانی مسلمان۔
معاشرے معاشرے میں فرق ہے بھائی۔ آپ مغربی معاشرے میں رہتے ہیں جو صدیوں کے ارتقاء کے بعد اس برداشت کے مقام کو پہنچا ہے۔ جبکہ پاکستانی معاشرے کو آئندہ کچھ صدیاں لگیں گی۔

آزادی اظہار رائے کی جیلوں میں قید انسان پر حسرت ہی کی جا سکتی ہے جیسا کہ خالق کائنات جیسی عظیم ذات سے اپنا دامن چھڑوا کر کوئی اپنے آپ کو "اپنی" محدود سی عقل کا غلام بنا لے ،باوجویکہ خالق کائنات نے اس انسان کی رہنمائی کیلئے ایک ایسی عظمت والی کتاب نازل کی ہو جس جیسی کتاب لانے سے دنیا بھر کے ادیب و دانشور عاجز ہوں اور جس کے چیلنج کا کوئی جواب نا دے سکا ہو۔
اس مذہبی برین واشنگ پر کتنا سرمایہ خرچ ہوتا ہے فی کس پاکستانی؟

انسانی ذہن کام ہی تب کرتا ہے جب اس کا وجدان مکمل بیدار ہوتا ہے ۔کونسے شواہد وجدان کو بیدار کرتے ہیں ۔۔۔؟؟؟
سائنسدانوں کا آئی کیو عموماً باقیوں کی نسبت زیادہ ہوتا ہے اور یہی وجدان کی بیداری ہے۔ سائنسدان وہ سب کچھ سمجھ لیتے ہیں جسکی طرف توجہ بھی عام لوگوں کو نہیں ہوتی۔
 

نور وجدان

لائبریرین
وجہ علم کی لامحدودیت اور دلیل کی اضافیت ہے۔ دلیل کی اضافیت سے مراد یہ ہے کہ مطلق اور حتمی سچائیوں کے لیے کوئی دلیل حتمی نہیں ہے۔ ہر دلیل اضافی یا ریلیٹیو ہی ہوتی ہے جسے پیور ریزن یا عقلِ محض پر ہمیشگی یا دوام نہیں رہتا۔ سچ بدلتے رہتے ہیں۔ تبدیلی ہی کو دوام ہے۔

اب ایگناسٹک ہو یا ملحد، کسی بھی وقت وہ موحد ہو سکتا ہے۔ اسی طرح موحد کسی بھی وقت ملحد یا ایگناسٹک ہو سکتا ہے۔

ایک موحد کا ملحد ہونا یا ملحد سے موحد ہونا شعور یا مادہ کا محتاج ہوتا تو اس دنیا سے جانے والے مسلم افراد کے متعلق یہ مفروضہ قائم کیا جاسکتا ہے
1۔ کچھ موحد مرگئے
2، کچھ ملحد مرگئے
3۔ کچھ اگناسٹکس مرگئے

سب کے مرنے والے مسلمان ہونے کا لیبل بھی رکھتے ہیں ۔ یہاں سے ایک اور سوال نکلتا ہے کہ اگر خلفاء راشدین اس دنیا سے رخصت ہوئے یا کچھ ولی اللہ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔وہ اپنی زندگی میں ملحد۔۔۔۔۔۔۔موحد ۔۔۔۔۔۔۔۔۔لاداریت ۔۔۔۔۔۔۔۔ان سب مدارج سے گزرتے رہے ہیں اس لیے ان کے بارے میں کچھ کہنا فضول ہے ۔ میرا خیال عقل کی اضافی خاصیت ہر انسان ریلیٹو ہوتی ہے اگر اس کا موازنہ کسی دوسرے سے کیا جائے مگر انسان کی عقل پر ایک مرحلہ ایسا آتا ہے جب اضافیت سے مستقل یا کانسٹنت کی طرف سفر ہوتا ہے ۔ یہی سفر اقبال، غزالی ، رومی کو دوسروں سے ممتاز کرگیا تھا یہی کانسٹنت کا سفر ایک ڈاکو حضرت ابو الفضیل بن عیاض کو ولی کا درجہ دے گیا ۔ سوال یہی بنتا ہے کن شواہد و عوامل سے عقل کی اضافی اکائی کانسٹنٹ میں بدلتی ہے ؟

ہستی و نیستی از دیدن و نا دیدن من۔چہ زمان و چہ مکاں "شوخیءگفتار" من است

نفس کی شوخیاں کب مطمئنہ کا درجہ حاصل کر پاتی ہیں ؟



سائنسدانوں کا آئی کیو عموماً باقیوں کی نسبت زیادہ ہوتا ہے اور یہی وجدان کی بیداری ہے۔ سائنسدان وہ سب کچھ سمجھ لیتے ہیں جسکی طرف توجہ بھی عام لوگوں کو نہیں ہوتی۔

آئی کیو ۔۔۔۔۔۔۔ وجدان ۔۔۔۔۔۔یہ ایک چیز ہے ِ؟ انسانی پروسیسر ۔۔۔۔۔۔ انسانی ہارڈ ڈسک ۔۔۔۔۔۔ یہی آئی کیو بناتی ہے ۔۔۔سائنس کے مطابق سب کا پروسییسر اور ہارڈ ڈسک ایک سی ہے مگر کیا وجہ ہے وجدان کی مکمل بیداری اسے دوسروں سے ممتاز کیے دیتی ہے
 

arifkarim

معطل
سائنس کے مطابق سب کا پروسییسر اور ہارڈ ڈسک ایک سی ہے مگر کیا وجہ ہے وجدان کی مکمل بیداری اسے دوسروں سے ممتاز کیے دیتی ہے
اسکا استعمال۔ سائنسدان اسے تمام انسانیت کی فلاح و بہبود کیلئے استعمال کرتا ہے یوں تاریخ میں امر ہو جاتا ہے۔
جبکہ دیگر اسی کا استعمال کرتے ہوئے انسانوں میں مزید تفرقہ و فاصلے بڑھاتے ہیں۔ آج اگر کسی نے دنیا کے تمام انسانوں کو ایک پلیٹ فارم یعنی انٹرنیٹ پر جمع کیا ہے تو وہ صرف سائنسدان ہیں۔ کوئی مفکر، فلاسفر یا رسول نہیں۔
 

نور وجدان

لائبریرین
اسکا استعمال۔ سائنسدان اسے تمام انسانیت کی فلاح و بہبود کیلئے استعمال کرتا ہے یوں تاریخ میں امر ہو جاتا ہے۔

میں جو سوال کر رہی ہوں وہ یہی ہے کہ ہر انسان اس کا استعمال نہیں کرسکتا ہے جو کرتا ہے وہ پاگل ،مجنون یا کریزی کہلاتا ہے ۔ کیا انسان پاگل بنتے ہی اس کا استعمال فلاح و بہبود کے لیے کر پاتا ہے ۔ سوچ پر کونسا درک وا ہوتا ہے یا کونسا ایسا مرحلہ آتا ہے جس سے وہ وجدان سے مدد لیتا ہے ۔ وجدان تب کام کرتا ہے جب انسان سارے حواس ء خمسہ کو بیک وقت استعمال کرے ۔ آپ پر کب ایسا مرحلہ آیا ؟ جیسے شیکسپئر اور اس کے کردار ہیملٹ کے بارے میں نقاد کہتے ہیں کہ اگر ہیملٹ پاگل یا دیوانہ تھا تو شیکسپئر بھی تھا اور اگر جینئس پاگل پن ہے تو دنیا میں سبھی جینئس پاگل ہوتے ہیں ۔ اس حوالے آئن سٹائن کا بھی کچھ ایسا مشہور ہے ۔
 

arifkarim

معطل
میں جو سوال کر رہی ہوں وہ یہی ہے کہ ہر انسان اس کا استعمال نہیں کرسکتا ہے جو کرتا ہے وہ پاگل ،مجنون یا کریزی کہلاتا ہے ۔ کیا انسان پاگل بنتے ہی اس کا استعمال فلاح و بہبود کے لیے کر پاتا ہے ۔ سوچ پر کونسا درک وا ہوتا ہے یا کونسا ایسا مرحلہ آتا ہے جس سے وہ وجدان سے مدد لیتا ہے ۔ وجدان تب کام کرتا ہے جب انسان سارے حواس ء خمسہ کو بیک وقت استعمال کرے ۔ آپ پر کب ایسا مرحلہ آیا ؟ جیسے شیکسپئر اور اس کے کردار ہیملٹ کے بارے میں نقاد کہتے ہیں کہ اگر ہیملٹ پاگل یا دیوانہ تھا تو شیکسپئر بھی تھا اور اگر جینئس پاگل پن ہے تو دنیا میں سبھی جینئس پاگل ہوتے ہیں ۔ اس حوالے آئن سٹائن کا بھی کچھ ایسا مشہور ہے ۔
میرے تو خیال میں وجدان کے پیچھے کسی بھی خیال کی شدید مرکوزیت کا بڑا ہاتھ ہے۔ جب تک انسان اسمیں پری طرح غرق نہ ہوجائے یہ حاصل نہیں ہو سکتا۔ بدھمت میں اسے غالباً نروانا کہا جاتا ہے۔
 
Top