سائنس کیا ہے؛ اور سائنس کیا نہیں ہے؟ (علیم احمد، مدیرِ اعلیٰ ماہنامہ گلوبل سائنس)

ربیع م

محفلین
سائنس نے صرف ان قوانین قدرت کو حتمی قرار دیا ہے جو لاتعداد تجربات و مشاہدات کے بعد یکساں نتائج پر پہنچے ہیں۔ سب کو نہیں۔

اور میں نے بھی یہی کہا ہے کہ اکثر باتیں حتمی نہیں ، نجانے زیک صاحب اورآپ کیوں اختلاف فرما رہے ہیں؟
 

سید عاطف علی

لائبریرین
سائنس نے صرف ان قوانین قدرت کو حتمی قرار دیا ہے جو لاتعداد تجربات و مشاہدات کے بعد یکساں نتائج پر پہنچے ہیں۔ سب کو نہیں۔
لیکن عارف یہ بھی تو دیکھو کہ نیوٹن کے قوانین نے بھی تو دو سو سال تھ حتمی رہنے کا اعزاز اپنے پاس رکھا ۔ سائنس کے اپنے ارتقا میں بھی تبدیلی کے عنصر کا انکار کرنا سائنسدان کے لیے ناممکن ہے ۔
 

فاتح

لائبریرین
لیکن عارف یہ بھی تو دیکھو کہ نیوٹن کے قوانین نے بھی تو دو سو سال تھ حتمی رہنے کا اعزاز اپنے پاس رکھا ۔ سائنس کے اپنے ارتقا میں بھی تبدیلی کے عنصر کا انکار کرنا سائنسدان کے لیے ناممکن ہے ۔
کیا مذہب بھی اپنے بتائے ہوئے قوانین یا اصولوں میں ایسی کسی تبدیلی کو خوش آمدید کہتا ہے؟
 

arifkarim

معطل
لیکن عارف یہ بھی تو دیکھو کہ نیوٹن کے قوانین نے بھی تو دو سو سال تھ حتمی رہنے کا اعزاز اپنے پاس رکھا ۔ سائنس کے اپنے ارتقا میں بھی تبدیلی کے عنصر کا انکار کرنا سائنسدان کے لیے ناممکن ہے ۔
نیوٹن کے اخذ کردہ قوانین روشنی اور برقی مقناطیسی لہروں پر تجربات کے دوران پورے نہیں اتر رہے تھے۔ ایسے میں آئن اسٹائن کے نظریے کا آنا کیوں کا نہیں کب کا سوال تھا۔ اگر آئن اسٹائن نہ بھی آتا تو کسی اور ماہر طبیعات نے یہ معمہ حل کر دینا تھا۔
 

زیک

مسافر
لیکن عارف یہ بھی تو دیکھو کہ نیوٹن کے قوانین نے بھی تو دو سو سال تھ حتمی رہنے کا اعزاز اپنے پاس رکھا ۔ سائنس کے اپنے ارتقا میں بھی تبدیلی کے عنصر کا انکار کرنا سائنسدان کے لیے ناممکن ہے ۔
نیوٹن کے قوانین آج بھی کام کرتے ہیں اور غلط ثابت نہیں ہوئے بس دائرہ کار کچھ محدود ہوا ہے۔

دوسری بات یہ کہ سائنس میں تبدیلی آ سکتی ہے مگر اس سے یہ نتیجہ اخذ کرنا کہ آج کے سائنسی نظریات اور قوانین کی کوئی حیثیت نہیں اور یہ غلط سلط نظریات کے برابر ہیں بالکل غلط ہے۔
 

سید عاطف علی

لائبریرین
نیوٹن کے قوانین آج بھی کام کرتے ہیں اور غلط ثابت نہیں ہوئے بس دائرہ کار کچھ محدود ہوا ہے۔
دوسری بات یہ کہ سائنس میں تبدیلی آ سکتی ہے مگر اس سے یہ نتیجہ اخذ کرنا کہ آج کے سائنسی نظریات اور قوانین کی کوئی حیثیت نہیں اور یہ غلط سلط نظریات کے برابر ہیں بالکل غلط ہے۔
زیک یہ تو ایک بدیہی اور مسلؑمہ حقیقت ہے اس سے تو کوئی نادان ہی انکار کرے گا ۔
 

سید عاطف علی

لائبریرین
کیا مذہب بھی اپنے بتائے ہوئے قوانین یا اصولوں میں ایسی کسی تبدیلی کو خوش آمدید کہتا ہے؟
فاتح یہاں ایک بات یہ دیکھنے کی ہے کہ مذہب کی بہت سی تعبیرات ہیں ۔ مذہب کے چند ہی اصول ایسے ہیں جو ثابت ہیں ۔ مثلاََ خدا ایک ہے اسی نے اپنی "خلقی اور امری حکمت " کے ساتھ تمام مخلوق کو پیدا کیا اور وہی انسانوں کی بھلائی کے لیے اپنے مقبول پیغام رسانوں کے ذریعے رہنمائی بھیجتا ہے ۔ جھوٹ نہ بولو دھوکا مت دو۔ ظلم و زیادتی کا ساتھ نہ دو کم مت تو لو امانت کا خیال رکھو بنی نوع انسانوں کی خیر خواہی کرو۔اور اسی طرح انسان کو قابل مواخذہ کر کے تکریم بخشی ہے ۔۔۔ باقی مذہب کے ساکت و جامد رکھنے اور کی ذہنیت نے یقیناََ مذہب کے تصور کو کبھی قوت نہیں بخشی ۔۔۔ مذہب میں اصول و ضوابط کے تحت قوانین سازی اور ان میں وقتی تبدیلی دراصل مذہب کا جزو لاینفک ہیں ۔۔۔۔ البتہ ہر عمل کے ساتھ ساتھ ہر فکر میں اعتدال بھی ہو نا چاہیئے ۔۔۔مذہب کو سائنس سے کوئی سروکار نہیں جب تک سائنسدان اپنے حد سے تجاوز کر کے اسے ایک مذہب نہ بنادیں ۔۔۔
 

سید عاطف علی

لائبریرین
نیوٹن کے اخذ کردہ قوانین روشنی اور برقی مقناطیسی لہروں پر تجربات کے دوران پورے نہیں اتر رہے تھے۔ ایسے میں آئن اسٹائن کے نظریے کا آنا کیوں کا نہیں کب کا سوال تھا۔ اگر آئن اسٹائن نہ بھی آتا تو کسی اور ماہر طبیعات نے یہ معمہ حل کر دینا تھا۔
عارف میں بھی یہی بات کہنا چاہ رہا ہوں جس طرح آئنسٹائن(بلکہ کوانٹم سائنسدانوں پلانک ،ہزنبرگ وغیرہ ) نے نویٹن کے قوانین کو واضح تر صورت بخشی اسی طرح آنےوالے کل میں بہت سے آج کے قوانین کے ساتھ یہی ہوگا اور یہ ایک تاریخی تسلسل کا حصہ ہے ۔۔۔
 

الشفاء

لائبریرین
یہاں آپ حضرات کو عقل و منطق یاد آجاتی ہے۔ :LOL:
پہلے خدا کے وجود کو عقلی اور منطقی طور پر ثابت تو کریں ، بغیر ایمانیات کا سہارا لئے :)

محترم بھائی ۔۔۔کسی چیز کو اس کے متعلقات کے ساتھ ربط دے کر اچھے طریقے سے ترتیب دینے کو نظم کرنا کہتے ہیں۔ اسی سے نظام ہے کہ مختلف عوامل کو آپس میں ایک ربط دے کر اس طرح باندھ دینا کہ وہ مطلوبہ کام انجام دینے لگیں ، اس کو سسٹم یا نظام کہتے ہیں۔۔۔ اس نظام کو بنانے والے یا اس کا انتظام کرنے والے کو منتظم کہتے ہیں جس کی مثالیں محفل پر موجود ہیں جیسے کہ محفل کے منتظمین۔ اسی کا مترادف لفظ ناظم بھی ہے جس سے ہم کافی مانوس ہیں اور جانتے ہیں کہ کسی علاقے کا انتظام و انصرام کرنے والے کو اس علاقے کا ناظم کہا جاتا ہے۔۔۔ اگر ہم اپنی سوسائٹیز میں ارد گرد نظر دوڑائیں تو ہزاروں قسم کے نظام یا سسٹمز چلتے ہوئے نظر آئیں گے۔ جیسا کہ سکیورٹی سسٹمز ، کمپیوٹر آپریٹنگ سسٹمز ، گورنمنٹ سسٹم یا نظام حکومت ، جوڈیشئل سسٹم یا نظام عدل و قانون ، کمیونیکیشن سسٹم یا نظام مواصلات یا نظام تعلیم وغیرہ وغیرہ۔ اور ہم یہ بھی اچھی طرح جانتے اور مانتے ہیں کہ یہ سب سسٹمز بغیر کسی بنانے والے یا چلانے والے کے نہیں چل سکتے۔۔۔ اسی طرح بے شمار سسٹمز اس کائنات میں چلتے ہوئے نظر آتے ہیں جیسا کہ سولر سسٹم یا نظام شمسی، انوائرمنٹل سسٹم یا ماحولیاتی نظام وغیرہ وغیرہ۔ حتٰی کہ اگر ہم صرف اپنے اندر غور کریں تو اپنے بدن میں عظیم الشان سسٹمز چلتے ہوئے دیکھیں گے۔ جیسا کہ نظام تنفس ، نظام ہضم ، نظام اخراج ، نظام دوران خون ، اعصابی نظام ، ہارمون سسٹم ، نظام تولیدگی ، مدافعتی نظام یا امّیون سسٹم وغیرہ وغیرہ۔۔۔ اور پھر اعضاء کا تناسب ، ان کے کام کے مطابق ان کی بناوٹ اور ترتیب اور ان کے اندر جاری عظیم الشان فنکشنز کہ جن کی تفصیل لکھنے سے ہم عاجز ہیں۔۔۔
جب آپ اور ہم اچھی طرح جانتے اور مانتے ہیں کہ ایک چھوٹا سا لکڑی کا چرخہ یا چکی بغیر کسی چلانے والے کے نہیں چل سکتی یا ایک علاقے کا یا ایک چھوٹے سے گھر کا نظام یا صرف اردو محفل کا نظام بھی بغیر کسی ناظم ، منتظم یا چلانے والے کے نہیں چل سکتا تو پھر سوچیں کہ اتنی بڑی دنیا ، اس میں بسنے والی مخلوقات اور اتنی وسیع کائنات کا پورا نظام بغیر کسی کے انتظام و انصرام سے کیسے چل سکتا ہے؟؟؟

کوئی تو ہے جو نظام ہستی چلا رہا ہے ،،، وہی خدا ہے۔:)
 

فاتح

لائبریرین

فاتح
یہاں ایک بات یہ دیکھنے کی ہے کہ مذہب کی بہت سی تعبیرات ہیں ۔ مذہب کے چند ہی اصول ایسے ہیں جو ثابت ہیں ۔ مثلاََ خدا ایک ہے اسی نے اپنی "خلقی اور امری حکمت " کے ساتھ تمام مخلوق کو پیدا کیا اور وہی انسانوں کی بھلائی کے لیے اپنے مقبول پیغام رسانوں کے ذریعے رہنمائی بھیجتا ہے ۔
شکریہ عاطف، لیکن درج بالا نکات کےمتعلق "ثابت" کا لفظ کہنا غلط ہے کیونکہ عقلی و منطقی و سائنسی دلیلوں سے تو ان نکات کو ثابت کیا ہی نہیں جا سکتا۔ ان کو تو ہم محض اس لیے مانتے چلے آ رہے کہ ہمارے ماں باپ نے اور ان کو ان کے ماں باپ نے اور ان کو ان کے ماں باپ نے (الخ)یہی بتایا۔
یہی جاننا چاہ رہا تھا جو آپ نے بتا دیا کہ یہ نکات وہ ہیں کہ سائنس کے برعکس جن کو تبدیل کرنے کی مذہب کبھی اجازت نہیں دے گا خواہ جس قدر بھی تحقیق اور علم کے بعد ان نکات کو تبدیل کرنے کی بات کی جائے ۔
 

فاتح

لائبریرین
مذہب کو سائنس سے کوئی سروکار نہیں جب تک سائنسدان اپنے حد سے تجاوز کر کے اسے ایک مذہب نہ بنادیں ۔۔۔

یہ بات سمجھ میں نہیں آئی کہ مذہب کو علم حاصل کرنے یا جاننے کی جستجو یعنی سائنس سے تب تک کوئی سروکار نہیں جب تک سائنس دان اپنی حد سے تجاوز نہ کریں اور ایک الگ مذہب نہ بنا لیں۔
یہاں میرا پہلا سوال تو یہ ہے کہ سائنس کی حدود کا تعین کس نے اور کب کیا؟
دوسرا سوال یہ ذہن میں آتا ہے کہ کیا صرف تب ہی مذہب کو سائنس سے سروکار ہو گی جب سائنس دان اپنا کوئی الگ مذہب بنا لیں۔ کیا ایسا کوئی مذہب بنایا گیا ہے؟
 

فاتح

لائبریرین
محترم بھائی ۔۔۔کسی چیز کو اس کے متعلقات کے ساتھ ربط دے کر اچھے طریقے سے ترتیب دینے کو نظم کرنا کہتے ہیں۔ اسی سے نظام ہے کہ مختلف عوامل کو آپس میں ایک ربط دے کر اس طرح باندھ دینا کہ وہ مطلوبہ کام انجام دینے لگیں ، اس کو سسٹم یا نظام کہتے ہیں۔۔۔ اس نظام کو بنانے والے یا اس کا انتظام کرنے والے کو منتظم کہتے ہیں جس کی مثالیں محفل پر موجود ہیں جیسے کہ محفل کے منتظمین۔ اسی کا مترادف لفظ ناظم بھی ہے جس سے ہم کافی مانوس ہیں اور جانتے ہیں کہ کسی علاقے کا انتظام و انصرام کرنے والے کو اس علاقے کا ناظم کہا جاتا ہے۔۔۔ اگر ہم اپنی سوسائٹیز میں ارد گرد نظر دوڑائیں تو ہزاروں قسم کے نظام یا سسٹمز چلتے ہوئے نظر آئیں گے۔ جیسا کہ سکیورٹی سسٹمز ، کمپیوٹر آپریٹنگ سسٹمز ، گورنمنٹ سسٹم یا نظام حکومت ، جوڈیشئل سسٹم یا نظام عدل و قانون ، کمیونیکیشن سسٹم یا نظام مواصلات یا نظام تعلیم وغیرہ وغیرہ۔ اور ہم یہ بھی اچھی طرح جانتے اور مانتے ہیں کہ یہ سب سسٹمز بغیر کسی بنانے والے یا چلانے والے کے نہیں چل سکتے۔۔۔ اسی طرح بے شمار سسٹمز اس کائنات میں چلتے ہوئے نظر آتے ہیں جیسا کہ سولر سسٹم یا نظام شمسی، انوائرمنٹل سسٹم یا ماحولیاتی نظام وغیرہ وغیرہ۔ حتٰی کہ اگر ہم صرف اپنے اندر غور کریں تو اپنے بدن میں عظیم الشان سسٹمز چلتے ہوئے دیکھیں گے۔ جیسا کہ نظام تنفس ، نظام ہضم ، نظام اخراج ، نظام دوران خون ، اعصابی نظام ، ہارمون سسٹم ، نظام تولیدگی ، مدافعتی نظام یا امّیون سسٹم وغیرہ وغیرہ۔۔۔ اور پھر اعضاء کا تناسب ، ان کے کام کے مطابق ان کی بناوٹ اور ترتیب اور ان کے اندر جاری عظیم الشان فنکشنز کہ جن کی تفصیل لکھنے سے ہم عاجز ہیں۔۔۔
جب آپ اور ہم اچھی طرح جانتے اور مانتے ہیں کہ ایک چھوٹا سا لکڑی کا چرخہ یا چکی بغیر کسی چلانے والے کے نہیں چل سکتی یا ایک علاقے کا یا ایک چھوٹے سے گھر کا نظام یا صرف اردو محفل کا نظام بھی بغیر کسی ناظم ، منتظم یا چلانے والے کے نہیں چل سکتا تو پھر سوچیں کہ اتنی بڑی دنیا ، اس میں بسنے والی مخلوقات اور اتنی وسیع کائنات کا پورا نظام بغیر کسی کے انتظام و انصرام سے کیسے چل سکتا ہے؟؟؟

کوئی تو ہے جو نظام ہستی چلا رہا ہے ،،، وہی خدا ہے۔:)
آپ کی بات میں وزن ہے اور بہت ہی اچھی دلیل دی آپ نے کہ چھوٹے سے چھوٹی چیز بھی بغیر خالق کے نہیں بن سکتی تو اتنی پیچیدہ کائنات اور اس میں بسنے والی مخلوق بشمول انسان کا اتنا پیچیدہ دماغ خود بخود کیسے بن گیا، اسے بنانے اور چلانے کے لیے کسی خالق کی ضرورت ہے۔ لیکن اس میں ایک بہت بڑا سقم ہے کہ اگر بعینہ یہی دلیل دے کر آپ سے پوچھا جائے کہ جب چھوٹے سے چھوٹی چیز بھی بغیر خالق کے نہیں بن سکتی تو اتنی پیچیدہ کائنات اور اس میں بسنے والی مخلوق بشمول انسان کا اتنا پیچیدہ دماغ بنانے والی ہستی بغیر خالق کے کیسے بن گئی ؟
اس صورت میں کیا آپ کے پیش کردہ مصرع کو تبدیل کیا جاءے گا کہ۔۔۔۔ کوئی تو ہے جو خدا کی ہستی بنا رہا ہے ۔ کوئی تو ہے جو نظامِ یزداں چلا رہا ہے ۔ کوئی تو ہے جو اسے بھی آخر بنا رہا ہے ۔ کوئی تو ہے جو بنانے والے خدا کو بھی پھر بنا رہا ہے۔ کئی خدا ہیں
 
آخری تدوین:

سید عاطف علی

لائبریرین
شکریہ عاطف، لیکن درج بالا نکات کےمتعلق "ثابت" کا لفظ کہنا غلط ہے کیونکہ عقلی و منطقی و سائنسی دلیلوں سے تو ان نکات کو ثابت کیا ہی نہیں جا سکتا۔ ان کو تو ہم محض اس لیے مانتے چلے آ رہے کہ ہمارے ماں باپ نے اور ان کو ان کے ماں باپ نے اور ان کو ان کے ماں باپ نے (الخ)یہی بتایا۔
یہی جاننا چاہ رہا تھا جو آپ نے بتا دیا کہ یہ نکات وہ ہیں کہ سائنس کے برعکس جن کو تبدیل کرنے کی مذہب کبھی اجازت نہیں دے گا خواہ جس قدر بھی تحقیق اور علم کے بعد ان نکات کو تبدیل کرنے کی بات کی جائے ۔
یہ وہ والا ثابت نہیں جو ثبوت کو پہنچے۔بلکہ وہ ثابت ہے جسے ثبات ہو اور وہ متغیر نہ ہو ۔مثلاََ ---(کھو جائیں گے افلاک میں سب ثابت و سیار)
یوں تو ہر مذہب میں یہ ثابت امور بھی مختلف ہو سکتے ہیں بلکہ ہوتے ہیں جو چاہے انسان اختیار کرے۔
 

سید عاطف علی

لائبریرین
یہ بات سمجھ میں نہیں آئی کہ مذہب کو علم حاصل کرنے یا جاننے کی جستجو یعنی سائنس سے تب تک کوئی سروکار نہیں جب تک سائنس دان اپنی حد سے تجاوز نہ کریں اور ایک الگ مذہب نہ بنا لیں۔
یہاں میرا پہلا سوال تو یہ ہے کہ سائنس کی حدود کا تعین کس نے اور کب کیا؟
دوسرا سوال یہ ذہن میں آتا ہے کہ کیا صرف تب ہی مذہب کو سائنس سے سروکار ہو گی جب سائنس دان اپنا کوئی الگ مذہب بنا لیں۔ کیا ایسا کوئی مذہب بنایا گیا ہے؟
جی ہاں سائنسدانوں نے تو شاید نہیں لیکن کچھ لوگ ایسے ہیں جنہوں نے بنا لیا ہے ۔:p
البتہ آپ کا سوال بہت عظیم ہے کہ سائنس کی حدود کیا ہیں ۔
 

فاتح

لائبریرین
جی ہاں سائنسدانوں نے تو شاید نہیں لیکن کچھ لوگ ایسے ہیں جنہوں نے بنا لیا ہے ۔:p
البتہ آپ کا سوال بہت عظیم ہے کہ سائنس کی حدود کیا ہیں ۔
حدود کیا ہیں تو بعد میں، پہلے یہ کہ کب اور کس نے محدود کیا سائنس کو؟
 
کل میں نے ایک مراسلے میں سوال کیا تھا کہ " پرویز ہود بھائی" کو بھائی کیوں کہا جاتا ہے اور کہیں اس کی بیوی بھی اُسے ہودبھائی تو نہیں کہتی؟ لیکن افسوس ہے آزادی اظہارِ رائے کے علمبرداروں پر کہ میرے اس مراسلے کو حذف کر دیا گیا۔۔۔۔۔۔۔۔ یہاں دینِ اسلام کی انتہائی معتبر ہستیوں کے اقوال کا مذاق اور ان ہستیوں پر طنز وتنقید کے نشتر چلائے جاتے ہیں تب کبھی کسی نے وہ مراسلے حذف نہیں کیے، لیکن جب میں نے ایک سڑک چھاپ کے بارے میں ایک عمومی سوال کیا جو کسی کے ذہن میں بھی آ سکتا ہے۔ تو مراسلہ ہی غائب کر دیا گیا کیوں ؟
کیا یہی معیار ہے یہاں اظہارِ رائے کی آزادی کا، کہ خود جو مرضی لکھ دو، لیکن دوسرے کو کچھ نہ بولنے دو۔
 

سید عاطف علی

لائبریرین
کل میں نے ایک مراسلے میں سوال کیا تھا کہ " پرویز ہود بھائی" کو بھائی کیوں کہا جاتا ہے اور کہیں اس کی بیوی بھی اُسے ہودبھائی تو نہیں کہتی؟ لیکن افسوس ہے آزادی اظہارِ رائے کے علمبرداروں پر کہ میرے اس مراسلے کو حذف کر دیا گیا۔۔۔۔۔۔۔۔ یہاں دینِ اسلام کی انتہائی معتبر ہستیوں کے اقوال کا مذاق اور ان ہستیوں پر طنز وتنقید کے نشتر چلائے جاتے ہیں تب کبھی کسی نے وہ مراسلے حذف نہیں کیے، لیکن جب میں نے ایک سڑک چھاپ کے بارے میں ایک عمومی سوال کیا جو کسی کے ذہن میں بھی آ سکتا ہے۔ تو مراسلہ ہی غائب کر دیا گیا کیوں ؟
کیا یہی معیار ہے یہاں اظہارِ رائے کی آزادی کا، کہ خود جو مرضی لکھ دو، لیکن دوسرے کو کچھ نہ بولنے دو۔
میرے خیال میں وہ بھائی نہیں بلکہ بھوائے ہے اور اس کا نام ہے ۔ حذف کر نے کا البتہ معلوم نہیں ۔
 
Top