زبانِ عذب البیانِ فارسی سے متعلق متفرقات

حسان خان

لائبریرین
"گذشتہ زمانہ میں فارسی زبان مسلمان حکمرانوں کے گھر کی کنیز تھی، جس سے برِ صغیر کے ادباء و شعراء نے بھرپور استفادہ کیا اور نتیجتاً یہ ہوا کہ اردو زبان میں تمام اساسی مضامین کا مواد فارسی سے ہی در آیا۔ چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ صرف و نحو، صنائع و بدائع، بحور و اوزان، ردیف و قافیہ، تشبیہ و استعارہ کے قواعد ہر اعتبار سے فارسی زبان سے اپنائے گئے بلکہ اگر ہم بغور مطالعہ کریں تو منکشف ہو گا کہ اردو ادب فارسی ادب کا وجودِ ظِلّی ہے اور جب حقیقتِ حال یہ ہو تو فی زمانہ اردوداں طبقے کی فارسی زبان سے بے اعتنائی کو اگر لاابالی پن اور تن آسانی نہ کہا جائے تو کیا نام دیا جائے۔"
(اختر علی خان اختر چھتاروی)
ماخذ
 
آخری تدوین:

حسان خان

لائبریرین
"یہ کہنے کی جرأت کی جا سکتی ہے کہ جس ہندی فارسی کو امیر خسرو نے ایرانی فارسی پر ترجیح دی تھی وہ حریت کی مانند اردو اور انگریزی سے شکست کھا کر کابل کے پہاڑوں میں پناہ گزین ہو گئی تھی۔ ہندوستان کا سب سے بڑا فارسی شاعر بلکہ خاتم الشعرا مرزا بیدل اپنے وطن میں پامال ہو کر افغانی جذبات پر دو صدیوں سے حکمرانی کر رہا ہے۔ سردار غلام محمد خان طرزی نے ساٹھ ہزار روپے کی لاگت سے دیوانِ بیدل ایسا خوشخط لکھوایا اور مرصع کرایا تھا کہ اس پر امیر شیر علی خان کے ولی عہد کا دل للچایا تھا۔ اگرچہ بیدل کا کلام گہرا بھی ہے اور بلند بھی مگر کابل کی محفلوں میں اور کوئی اشعار ایسے پسندیدہ سمجھے نہیں جاتے اور گویے موقع اور محل کے مناسب ان سے حضار کو محظوظ کرتے ہیں۔
کابل اور افغانستان کے تمام شہروں میں سوائے قندہار کے فارسی ہی عوام و خواص کی زبان ہے اور پشتو اکثر دیہات اور پہاڑوں میں بولی جاتی ہے حالانکہ بادشاہ افغان اور ملک افغانستان ہے۔ بچہ سقّا کے امیر ہونے پر کایا اور پلٹی۔ وہ خود تاجیک تھا، جن کی آبائی زبان فارسی ہے اور پشتو کے ساتھ اسے کوئی لگاؤ نہیں ہو سکتا تھا۔ اس کی بے شمار قوم فارسی کے سوا کسی اور زبان میں تکلم نہیں کرتی۔ ہزارہ لوگ شیعہ ہیں۔ جن کے مذہب اور زبان کا تعلق ایران کے ساتھ ہے۔ افغانستان میں بارہ زبانیں بولی جاتی ہیں۔ ان کے بولنے والے سب فارسی جانتے ہیں۔ مگر پشتو افغانوں ہی تک محدود ہے اور اُن کی تعداد تمام آبادی میں ثلث کے قریب ہے۔ اور پھر ان میں سے بھی بعض صرف فارسی ہی میں بات چیت کرتے ہیں جیسے کابل اور ہرات وغیرہ کے افغان اور شاہی خاندان۔"

کتاب: انقلابِ افغانستان و خدمات و فتوحاتِ شاہِ غازی محمد نادر خان از روئے مشاہدات و معاملاتِ ذاتی، جلدِ اول
مصنف: محمد حسین خان، بی - اے (علیگ)، سابق رئیسِ تدریساتِ عمومیِ افغانستان
سالِ اشاعت: ۱۹۳۱ء
 
آخری تدوین:

حسان خان

لائبریرین
ماوراءالنہر کے علاقائی فارسی لہجے میں مچھر کے لیے ایک لفظ 'خاموشک' (ХОМӮШАК) بھی موجود ہے اور اِس لفظ کے ادبی اور اخباری زبان میں استعمال ہونے کے شواہد بھی ملے ہیں۔
بین الاقوامی معیاری فارسی میں مچھر کو 'پشّہ' کہتے ہیں۔
 
آخری تدوین:

حسان خان

لائبریرین
اردو کے 'جیسے ہی' اور انگریزی کے 'as soon as' کا فارسی معادل 'همین که' ہے۔
همین که حامد او را دید، بی‌قرار شد.
ترجمہ: جیسے ہی حامد نے اُسے دیکھا، بے قرار ہو گیا۔


پس نوشت: 'به محض اینکه' بھی اس مقصد کے لیے استعمال ہوتا ہے۔
به محض اینکه درس‌هایم را به پایان برسانم، ازدواج خواهم کرد.
ترجمہ: جیسے ہی میری پڑھائی ختم ہو‌تی ہے، میں شادی کر لوں گا۔

اس ثانی الذکر ترکیب کا استعمال تاجکستان میں بہت کم ہے۔
 
آخری تدوین:

حسان خان

لائبریرین
مجھے اس چیز کی شدید حسرت رہتی ہے کہ کاش میری مادری زبان اور میرے ملک پاکستان کی قومی زبان فارسی ہوتی تاکہ نہ تو میرا اور میرے ہم وطنوں کا رشتہ ہزار سالہ عظیم الشان فارسی تمدن اور اپنے اسلاف کے ثقافتی سلسلے سے منقطع ہوتا اور نہ ہم اس نفیس و حسین و جمیل زبان کے ثمرات سے محروم رہتے۔ علاوہ بریں، اپنے ہمسایہ ممالک افغانستان، تاجکستان اور ایران سے ہمارا معنوی و مادی تعلق بھی مزید استوار ہوتا۔
 
آخری تدوین:
مجھے اس چیز کی شدید حسرت رہتی ہے کہ کاش میری مادری زبان اور میرے ملک پاکستان کی قومی زبان فارسی ہوتی تاکہ نہ تو میرا اور میرے ہم وطنوں کا رشتہ ہزار سالہ عظیم الشان فارسی تمدن اور اپنے اسلاف کے تہذیبی سلسلے سے منقطع ہوتا اور نہ ہم اس نفیس و حسین و جمیل زبان کے ثمرات سے محروم رہتے۔ علاوہ بریں، اپنے ہمسایہ ممالک افغانستان، تاجکستان اور ایران سے ہمارا معنوی و مادی تعلق بھی مزید استوار ہوتا۔
بندہ ہم درین معاملہ ہم نوائے شماست۔کاش زبانِ فارسی زبانِ من و مللِ من بودے۔
 

حسان خان

لائبریرین
تاریخ کا ایک ورق:
بخارا کے آخری امیر 'امیر عالم خان' نے امارتِ بخارا کے سقوط اور افغانستان میں پناہ گزیں ہونے کے بعد 'تاریخِ حزن المللِ بخارا' کے نام سے جو اپنی یادداشتیں لکھیں تھیں، وہ فارسی زبان میں لکھیں تھیں۔ اگرچہ امیر عالم خان خود ازبک نژاد اور ترکی گو تھے،لیکن شوروی اتحاد کی تشکیل تک ترکستان کا، خصوصاً ازبکوں سے تعلق رکھنے والا، کوئی ایسا اہلِ قلم نہ تھا جو فارسی بول اور لکھ پانے پر قادر نہ ہو۔ بدقسمتی سے اب فارسی ادب و تمدن کی تاریخ میں ازبکوں کے فعال اور درخشاں کردار کے بارے میں آگاہی رکھنے والے افراد کی تعداد بہت کم ہے۔
ترکستان میں صرف ازبک ہی فارسی نہیں جانتے تھے، بلکہ تاجک بھی ترکی زبان سے واقف تھے۔ ایسے ازبک اور تاجک ادیبوں کی فہرست طویل ہے جنہوں نے ترکی اور فارسی دونوں زبانوں میں طبع آزمائی کی ہے۔ گذشتہ ماوراءالنہر کی یہ دولسانیت صرف خواندہ طبقے تک محدود نہیں تھی، بلکہ عام تاجک اور ازبک مردم بھی عموماً ذواللسانین تھے۔ یہی وجہ ہے کہ ماوراءالنہری گفتاری فارسی پر ترکی زبان نے بہت عمیق اثر ڈالا ہے۔

× شُورَوی اتحاد = سوویت اتحاد

پس نوشت: افغانستان کے ازبک تا حال دولسانی ہیں۔
 
آخری تدوین:

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
ماوراءالنہر کے علاقائی فارسی لہجے میں مچھر کے لیے ایک لفظ 'خاموشک' (ХОМӮШАК) بھی موجود ہے اور اِس لفظ کے ادبی اور اخباری زبان میں استعمال ہونے کے شواہد بھی ملے ہیں۔
بین الاقوامی معیاری فارسی میں مچھر کو 'پشّہ' کہتے ہیں۔

حسان خان ! پشہّ تو چلئے ٹھیک ہے اور اردو میں بہت پرانا چلا آتا ہے ۔ لیکن مچھّر کو "خاموشک" کہنا مجھے کسی صورت گوارہ نہیں ۔ بخدا مچھر کچھ بھی ہوسکتا ہے لیکن خاموش ۔۔۔۔ نہیں قطعی نہیں ۔ بالکل نامنظور! o_O
 

حسان خان

لائبریرین
حسان خان ! پشہّ تو چلئے ٹھیک ہے اور اردو میں بہت پرانا چلا آتا ہے ۔ لیکن مچھّر کو "خاموشک" کہنا مجھے کسی صورت گوارہ نہیں ۔ بخدا مچھر کچھ بھی ہوسکتا ہے لیکن خاموش ۔۔۔۔ نہیں قطعی نہیں ۔ بالکل نامنظور! o_O
میرے ذہن میں یہ وجۂ تسمیہ آ رہی ہے: چونکہ مچھر خاموشی سے آ کر کاٹ جاتا ہے، اس لیے ہو سکتا ہے وہاں کے لوگوں نے مچھر کی اس خصلت کے باعث اسے عامیانہ زبان میں خاموشک کہنا شروع کر دیا ہو۔ فارسی میں 'ک' تصغیر کا لاحقہ ہے، اور اگر لفظ کے ظاہر پر جایا جائے تو اس کا مفہوم 'خاموشِ کوچک' بنتا ہے۔
لیکن یہ محض ایک قیاس آرائی ہے اور مجھے بھی لفظ اور اس کے مفہوم کے درمیان واضح منطقی ربط نظر نہیں آ رہا۔ اس بات کا بھی امکان ہے کہ 'خاموشک' کا تعلق 'خاموش' سے ہو ہی نہ، بلکہ یہ ایک الگ ہی کوئی لفظ ہو۔
 
آخری تدوین:

حسان خان

لائبریرین
مولانا محمد حسین آزاد نے اپنی کتاب سخن دانِ فارس (۱۸۸۷ء) میں ترکستانی ترکوں اور ازبکوں کے ساتھ فارسی زبان میں گفتگو کرنے کی دو حکایتیں بیان کی ہیں:

"ایک دفعہ جوانی کی ہمت اور شوقِ سیاحت مل کر مجھے ترکستان کے ملک میں لے گئی۔ بلخ سے چند منزل آگے بڑھ کر ہمارا قافلہ اترا۔ اُن ملکوں کے لوگ کم علم، کم معلومات ہوتے ہیں۔ اپنی آرام طلبی اور رستوں کی دشواری انہیں ادھر کے سفر میں سدِ راہ ہوتی ہے۔ اس لیے ہمارے ملک کے آدمیوں کے ساتھ شوق سے ملتے ہیں اور ذرا ذرا سی بات معلوم کر کے خوش ہوتے ہیں۔ چنانچہ گاؤں کے لوگ آ کر قافلہ میں پھرنے لگے۔ دستور ہے کہ اہلِ آبادی روٹیاں، گھی، دودھ، دہی، انڈے، گوشت، مرغیاں، قالین (اپنے ہاتھ کے بنے ہوئے) لاتے ہیں۔ قافلہ والے قیمت میں کپڑا، سوئیاں، رانگ، پیتل کی انگوٹھیاں، جگنیاں، کانچ اور شیشہ کے دانے دے کر خریدتے ہیں۔ ایک ترک بچّہ طالبِ عالم میرے بستر کے پاس آ بیٹھا۔ دو تنگے (۱) میرے ہاتھ میں تھے۔ اِدھر اُدھر کی باتیں کرتے کرتے اُس نے پوچھا۔ در ملکِ شما ہمیں تنگہ رواج دارد۔ ایک افغان کا بستر برابر تھا۔ وہ بولا کہ در ہند روپیہ کلدار است فرنگی براں تصویرِ خود را نقش میکند۔ طالبِ علم نے میری طرف دیکھ کر کہا۔ چہ طور؟ میں نے کہا راست (۲) میگوید۔ روپیۂ ہند سہ برابرِ تنگۂ شماست۔ اُس نے پوچھا۔ تصویر چرا نقش میکند؟ میں نے کہا۔ سکۂ سلطنت است۔ در دورِ دائرہ نام و میانہ اش تصویرِ شاہ است۔ آں ہم تمام نیست۔ کلّہ اش را نقش میکنند۔ ترک بچّہ بولا۔ آرے بہ ہمیں سبب روپیہ را کلہ دار نام کردہ باشند۔ کلدار کو کلّہ دار کا مخفف سمجھا۔ خوب سمجھا۔ مگر غلط سمجھا۔
ایک دن میں کوکان میں چند اشخاص کے ساتھ بیٹھا تھا۔ چائے کا دور چل رہا تھا۔ ایک بڈھے فرتوت نے پوچھا کہ در ملکِ شما فرنگی سلطنت مے کند؟ میں نے کہا۔ بلے۔ اس نے کہا؟ او چہ نام دارد؟ میں نے کہا۔ بادشاہ در ملکِ فرنگ بہ پایۂ تختِ خود است۔ برائے ما نائبے فرستادہ است۔ او حکم میراند۔ بادشاہِ ما ہمانست۔ پوچھا۔ آخر او چہ نام دارد؟ میں نے کہا۔ بعدِ ہر چند سالے عوض میشود۔ البتہ بہ اعتبارِ عہدہ و منصب آن را لات میگوند۔ ایک بولا گوبرناس (۳) باشد (یہی گورنر)۔ میں نے کہا۔ بلے۔ ہمچنیں۔ ایک اور ترک نے کہا۔ لات چہ معنی دارد؟ میں نے تامّل کیا کہ کیا کہوں۔ دوسرا بولا۔ ہماں لات و منات است۔ دوسرا بولا۔ نے! فرنگ بت پرست نیست۔ بڈھے ازبک نے کہا۔ آخر کافر است۔ کفر بہ ہر جا یکیست۔ لاتشاں ہماں لات و منات باشد۔
اب تم غور سے خیال کرو۔ ہندُستان میں جو انگریزی روپیہ کے لیے کلدار کا لفظ پیدا ہوا۔ یہ بھی ایک عجیب اور اتفاقی ولادت تھی۔ پھر بھولے بھالے ترک نے جو اس کے لیے وجہ نکالی یہ عجیب در عجیب اتفاق ہے۔
لاٹھ کو اور لارڈ کے معنوں کو دیکھو کہ ہندُستان میں آ کر لفظ میں کیا تغیر پیدا ہوا؟ اور معنی اس کے یہاں کیا خیال پیدا کرتے ہیں؟ پھر اُس اُزبک کو دیکھو کہ کیا سمجھا اور اور دلیل کیا خوب پیدا کی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ اصلیتِ الفاظ کی تحقیق بہت نازک کام ہے۔ قیاس و انداز ہمارا ہرگز قابلِ اطمینان نہیں۔ اندھیرے میں تیر پھینکنے ہیں۔ لگا تو لگا ورنہ یا قسمت۔"

۱) تنگہ۔ ترکستان بخارا میں چاندی کا سکّہ ہوتا ہے۔
۲) افغان کا مطلب یہ تھا کہ تصویر کے ذکر سے ہماری بت پرستی ثابت کرے اور ترک بچّہ کے خیالاتِ اسلامی کو چمکا دے۔
۳) روس کی بدولت یہ لفظ وہ بھی جان گئے تھے۔ گورنر کو 'گوبرناس' کہتے تھے۔
 
آخری تدوین:

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
میرے ذہن میں یہ وجۂ تسمیہ آ رہی ہے: چونکہ مچھر خاموشی سے آ کر کاٹ جاتا ہے، اس لیے ہو سکتا ہے وہاں کے لوگوں نے مچھر کی اس خصلت کے باعث اسے عامیانہ زبان میں خاموشک کہنا شروع کر دیا ہو۔ فارسی میں 'ک' تصغیر کا لاحقہ ہے، اور اگر لفظ کے ظاہر پر جایا جائے تو اس کا مفہوم 'خاموشِ کوچک' بنتا ہے۔
لیکن یہ محض ایک قیاس آرائی ہے اور مجھے بھی لفظ اور اس کے مفہوم کے درمیان واضح منطقی ربط نظر نہیں آ رہا۔ اس بات کا بھی امکان ہے کہ 'خاموشک' کا تعلق 'خاموش' سے ہو ہی نہ، بلکہ یہ ایک الگ ہی کوئی لفظ ہو۔
بھئی میں نے تو مچھر کی بھن بھن کے حوالے سے مذاق کیا تھا۔ اس طرف تو میرا دھیان بھی نہیں گیا تھا کہ خموشک دراصل خموش کی تصغیر بھی ہوسکتا ہے ۔ آپ نے تو بہت اچھے طریقے سے اس امکان پر بھی بات کر ڈالی ۔ کیا عجب ایسا ہی ہو! ہماری فارسی میں شدھ بدھ تو صرف سیدھے سادے صاف اشعار سمجھنے کی حد تک ہی ہے ۔ جہاں زبان ذرا پیچیدہ ہوئی ہم فورًا زبانِ یارِ من ترکی ۔۔۔۔ کہہ کر صاف الگ ہوجاتے ہیں ۔ :):):)
حسان خان ! آپ کے مراسلات سے جتنی فارسی کچھ ہی دنوں میں سیکھ لی ہے اس سے تو لگتا ہے کہ جو کام ہم عمر بھر نہ کرسکے وہ چند سالوں میں ہوسکتا ہے اگر ہم سنجیدگی اور دلجمعی سے کوشش کریں ۔ لیکن اب یہ ہر دو صفات لائیں کہاں سے ؟!
صد تحسین آپ کیلئے! آفرین!!
 

حسان خان

لائبریرین
در شُرُفِ چیزی بودن

اس فارسی عبارت کے معنی ہیں: کسی چیز کے دہانے یا دہلیز پر ہونا، کسی چیز کے نزدیک ہونا، کسی چیز کا قریب الوقوع ہونا وغیرہ۔۔۔ اس کے استعمال کی مثالیں دیکھیے:

"از شدتِ گرسنگی در شُرُفِ موت بودم۔"
میں گرسنگی کی شدت سے موت کے دہانے پر تھا۔

"می‌دانست که حادثه‌ای در شُرُفِ وقوع است اما نمی‌دانست این حادثه چگونه خواهد بود."
وہ جانتا تھا کہ کوئی حادثہ وقوع ہونے والا ہے، لیکن وہ یہ نہیں جانتا تھا کہ یہ حادثہ کس شکل میں ہو گا۔

"به نظر می‌رسد ما در شُرُفِ رستاخیزِ فرهنگیِ دیگری قرار داریم."
ایسا نظر آتا ہے کہ ہم ایک اور ثقافتی احیاء کی دہلیز پر موجود ہیں۔

"امیر شیرعلی می‌دانست، که کابل در شُرُفِ اشغال شدن است."
امیر شیر علی جانتا تھا کہ کابل پر قبضہ ہونے والا ہے۔

لفظِ شُرُف کے بارے میں سلیمان حییم کی فرہنگ میں پڑھیے:
http://dsalsrv02.uchicago.edu/cgi-bin/philologic/getobject.pl?c.3:1:948.hayyim
 

اکمل زیدی

محفلین
حسان خان ! پشہّ تو چلئے ٹھیک ہے اور اردو میں بہت پرانا چلا آتا ہے ۔ لیکن مچھّر کو "خاموشک" کہنا مجھے کسی صورت گوارہ نہیں ۔ بخدا مچھر کچھ بھی ہوسکتا ہے لیکن خاموش ۔۔۔۔ نہیں قطعی نہیں ۔ بالکل نامنظور! o_O
ظہیر صاحب جہاں تک میری معلومات ہیں . ..آواز اس کے پروں کی ہوتی ہے ...تو مچھر تو خاموش ہی ہوا نہ ...:)
 

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین

حسان خان

لائبریرین
تَنَصُّر
محمد علی فروغی نے اپنی کتاب آئینِ سخنوری (۱۹۳۷ء) میں یہ لفظ مسیحی ہو جانے کے معنی میں استعمال کیا ہے۔ میں نے یہ دلچسپ عربی الاصل لفظ پہلی بار دیکھا ہے۔
"پس از تَنَصُّرِ قیصر دیانتِ قدیمِ رومی و یونانی که شرک و بت‌پرستی بود از میان رفت و نصرانیت دینِ رسمیِ یونانیان و رومیان گردید."
ترجمہ: "قیصر کے مسیحی ہو جانے کے بعد قدیم رومی و یونانی دین جو شرک و بت پرستی تھا معدوم ہو گیا اور مسیحیت یونانیوں اور رومیوں کا سرکاری دین بن گیا۔"
 

حسان خان

لائبریرین
"فارسی تقریباً ساڑھے آٹھ سو سال تک برِ صغیر کی علمی، ادبی، ثقافتی، تدریسی اور سرکاری زبان رہی ہے۔ اس عرصے میں یہاں کے اہلِ علم و ادب نے بڑی کامیابی سے فارسی نظم و نثر کو ذریعۂ اظہار بنایا اور تمام رائج علوم و فنون پر ہزاروں اہم کتابیں لکھیں۔ خاص طور پر اس سرزمین کی ایک ہزار سالہ اسلامی تاریخ فارسی ہی میں لکھی گئی۔ ہماری قومی زبان اردو کی نشو و نما بھی فارسی ہی کے زیرِ سایہ ہوئی اور اردو ادب نے فارسی کی درخشاں ادبی روایت سے بھی گہرے اثرات قبول کیے۔ فارسی ہمارا تہذیبی ورثہ ہے اور زندہ قومیں اپنی ثقافتی میراث کو نظر انداز نہیں کیا کرتیں۔ یہ حقیقت ہے کہ ہم فارسی سے آشنائی کے بغیر اپنی گذشتہ صدیوں کی تاریخ، ثقافت اور ادب سے پوری طرح آگاہ نہیں ہو سکتے۔ اگر ہم یہ نہیں چاہتے کہ ہماری آنے والی نسلیں اپنے عظیم ماضی سے کٹ کر رہ جائیں تو ہمیں بہ ہر طور فارسی کی شمع جلائے رکھنا ہو گی۔
ہمارے حال اور مستقبل کے لیے بھی فارسی کی اہمیت مسلّم ہے کیونکہ ایران، افغانستان اور وسطی ایشیا کی مسلم ریاستوں کے ساتھ ہمارے رابطے کی زبان یہی ہے۔"

"فارسی کا چلن اٹھ جانے سے ہماری روحانی اور تہذیبی اساس ہل کر رہ گئی ہے۔ ہم نے اپنا تخلیقی اور فکری شعور اسی زبان سے تشکیل دیا تھا۔ اس کے فراموش ہو جانے سے ہماری باطنی ساخت متغیر ہو گئی ہے۔ خود کو اپنی حقیقی بنیادوں پر نئے سرے سے تعمیر کرنے کے لیے ہمیں فارسی دانی کی روایت کا احیا کرنا ہے۔ اگر ہم نے ایسا نہ کیا تو اس کا مطلب ہو گا کہ ہم انسانیت کی زندہ اور بامعنی سطح پر موجود نہیں رہنا چاہتے۔"

"علامہ محمد اقبال ہماری تہذیب اور ادبی تاریخ کی توانا ترین شخصیت ہیں ۔ دنیا بھر کے دانشوروں نے فکر اقبال کی عظمت کو خراجِ تحسین پیش کیا ہے اور اسلامی ممالک کے فکری حلقوں میں اقبال کی مقبولیت روز بروز بڑھ رہی ہے۔ اقبال کے افکار کا بہترین اظہار ان کی شاعری میں ہوا ہے اور اس کا بیشتر حصہ فارسی میں ہے ۔ اقبال کے زندہ پیغام کو مکمل اور بہتر طور پر سمجھنے کے لیے فارسی سے آگاہی ضروری ہے اور اس کے بغیر اقبال شناسی کا حق ادا نہیں ہو سکتا۔"

ماخذ
 
Top