محمد وارث

لائبریرین
آدھا مسلمان

غدر کے بعد مرزا غالب بھی قید ہو گئے۔ ان کو جب وہاں کے کمانڈنگ آفیسر کرنل براؤن کے سامنے پیش کیا گیا تو کرنل نے مرزا کی وضع قطع دیکھ کر پوچھا۔

ویل، ٹم مسلمان ہے۔

مرزا نے کہا، جناب، آدھا مسلمان ہوں۔

کرنل بولا۔ کیا مطلب؟

مرزا نے کہا، جناب شراب پیتا ہوں، سؤر نہیں کھاتا۔

کرنل یہ جواب سن کر ہنس پڑا اور مرزا کو بے ضرر سمجھ کر چھوڑ دیا۔
 

محمد وارث

لائبریرین
غالب کی نماز

غالب کی مفلسی کا زمانہ چل رہا تھا، پاس پھوٹی کوڑی تک نہیں تھی اور قرض خواہ مزید قرض دینے سے انکاری۔ نوبت یہاں تک پہنچی کہ ایک شام انکے پاس پینے کیلیے بھی پیسے نہ تھے، مرزا نے سنِ شعور کے بعد شاید ہی کوئی شام مے کے بغیر گزاری ہو، سو وہ شام ان کیلیے عجیب قیامت تھی۔

مغرب کی اذان کے ساتھ ہی مرزا اٹھے اور مسجد جا پہنچے کہ آج نماز ہی پڑھ لیتے ہیں۔ اتنی دیر میں انکے کے دوست کو خبر ہوگئی کہ مرزا آج "پیاسے" ہیں اس نے جھٹ بوتل کا انتظام کیا اور مسجد کے باہر پہنچ کر وہیں سے مرزا کو بوتل دکھا دی۔

مرزا، وضو کر چکے تھے، بوتل کا دیکھنا تھا کہ فورا جوتے پہن مسجد سے باہر نکلنے لگے۔ مسجد میں موجود ایک شناسا نے کہا، مرزا ابھی نماز پڑھی نہیں اور واپس جانے لگے ہو

مرزا نے کہا، قبلہ جس مقصد کیلیے نماز پڑھنے آیا تھا وہ تو نماز پڑھنے سے پہلے ہی پورا ہو گیا ہے اب نماز پڑھ کر کیا کروں گا۔
 

محمد وارث

لائبریرین
ذوق سودائی ہیں۔

ایک محفل میں لوگ میر تقی میر کی تعریف کر رہے تھے۔ اس محفل میں مرزا غالب بھی موجود تھے۔ اچانک شیخ ابراہیم ذوق بھی آ گئے اور بحث میں حصہ لیتے ہوئے مرزا رفیع سودا کو میر تقی میر پر ترجیح دینے لگے۔

غالب نے یہ سنا تو بے ساختہ بولے۔

میرا تو خیال تھا کہ آپ میری ہیں لیکن اب پتہ چلا کہ آپ سودائی ہیں۔
 

محمد وارث

لائبریرین
سپردِ خدا

ریاست رام پور کے نواب کلب علی خان انگریز گورنر سے ملاقات کیلئے بریلی گئے تو مرزا اسد اللہ خان غالب بھی انکے ہمراہ تھے، انہیں دلی جانا تھا بوقت روانگی نواب صاحب نے مرزا سے کہا۔۔

مرزا صاحب الوداع خدا کے سپرد

مرزا غالب جھٹ بولے۔

حضرت خدا نے تو مجھے آپ کے سپرد کیا تھا، اب آپ الٹا مجھے خدا کے سپرد کر رہے ہیں۔
 

محمد وارث

لائبریرین
دادہ نہیں دلدادہ

ایک نو عمر نے غالب کو ایک خط لکھا جس میں انہیں دادا کے لفظ سے مخاطب کیا۔ نو عمر نے اپنی دانست میں غالب کے ادب و احترام کو ملحوظِ خاطر رکھا تھا۔ لیکن غالب نے اس نو عمر کو جوابی خط میں لکھا۔

میاں میں تمہارا دادا نہیں بلکہ دلدادہ ہوں۔
 

محمد وارث

لائبریرین
گالی

مرزا کے مخالف انہیں‌ خطوط میں‌ گالیاں لکھتے رہتے تھے۔ ایک بار کسی مخالف نے انہیں ماں‌ کی گالی لکھ دی۔

مرزا اسے پڑھ کر ہنسے اور بولے، اس بیوقوف کو گالی دینے کا بھی شعور نہیں ہے۔ بوڑھے اور ادھیڑ عمر شخص کو بیٹی کی گالی دینی چاہئیے تاکہ اسے غیرت آئے۔ جوان آدمی کو ہمیشہ جورو کی گالی دو کہ اسے جورو سے بہت لگاؤ ہوتا ہے اور بچے کو ہمیشہ ماں‌ کی گالی دیتے ہیں کیونکہ وہ سب سے زیادہ ماں سے مانوس ہوتا ہے۔
 

محمد وارث

لائبریرین
قید

مرزا جب قید سے چھوٹ کر آئے تو میاں محمد نصیرالدین عرف میاں کالے صاحب کے مکان میں‌ آ کر رہے۔

ایک روز کسی نے آ کر قید سے چھوٹنے کی مبارک باد دی۔

مرزا نے کہا۔ "کون بھڑوا قید سے چھوٹا ہے؟ پہلے گورے کی قید میں تھا، اب کالے کی قید میں ہوں۔"
 

محمد وارث

لائبریرین
یزید اور با یزید


ایک روز مرزا سے ملنے ان کے کچھ دوست آئے ہوئے تھے کہ دوپہر کے کھانے کا وقت ہوگیا۔

دستر خوان بچھا اور کھانا آ گیا، برتن تو بہت زیادہ تھے لیکن کھانا نہایت قلیل تھا۔ مرزا نے مسکرا کر اپنے دوستوں سے کہا۔۔۔

اگر برتنوں کی کثرت پر خیال کیجیے تو میرا دستر خوان یزید کا دستر خوان معلوم ہوتا ہے اور جو کھانے کی مقدار کو دیکھیے تو با یزید کا۔
 

محمد وارث

لائبریرین
رتھ

دلی میں‌ بعض رتھ کو مؤنث اور بعض مذکر بولتے تھے، کسی نے مرزا سے پوچھا تو انہوں نے کہا۔۔۔۔

"بھیا، جب رتھ میں‌ عورتیں بیٹھی ہوں تو مؤنث کہو، اور جب مرد بیٹھے ہوں تو مذکر سمجھو۔"
 

محمد وارث

لائبریرین
روزہ

رمضان کا مہینہ تھا، ایک سُنی مولوی مرزا سے ملنے آئے، عصر کا وقت تھا۔ مرزا نے خدمتگار سے پانی مانگا۔ مولوی صاحب نے تعجب سے کہا۔ "کیا جناب کا روزہ نہیں ہے؟"

مرزا نے کہا۔ "سُنی مسلمان ہوں، چار گھڑی دن رہے تو روزہ کھول دیتا ہوں۔"
 

محمد وارث

لائبریرین
وبا

ایک دفعہ شہر میں سخت وبا پھیلی، میر مہدی مجروح نے پوچھ بھیجا کہ حضرت، وبا شہر سے دفع ہوئی یا ابھی تک موجود ہے۔

اس کے جواب میں لکھتے ہیں، "بھئی کیسی وبا، جب ایک ستر برس کے بڈھے اور ایک ستر برس کی بڑھیا نہ مار سکے تو تُف بریں وبا۔"
 

محمد وارث

لائبریرین
دھوکہ دہی

ایک روز غالب نے اپنے شاگردوں کو ہدایت کی۔

جوں ہی میری روح جسدِ خاکی کو چھوڑے، تم بھاگ کر کہیں سے پرانا کفن لانا اور مجھے اس میں لپیٹ کر دفنا دینا۔

ایک شاگرد بولا، استادِ محترم، یہ تو بتائیے، اس سے آپ کو کیا فائدہ پہنچے گا۔

غالب نے کہا، کم بخت اتنی سی بات بھی نہیں سمجھے کہ منکر نکیر تشریف لائیں گے تو پرانے کفن کو دیکھتے ہی سوال جواب کیے بغیر ہی لوٹ جائیں گے، کیونکہ پرانا کفن دیکھ کر وہ سمجھیں گے کہ اس جگہ غلطی سے دوبارہ آ گئے ہیں۔
 

محمد وارث

لائبریرین
روزہ بہلانا

اپنے روزوں کے بارے میں ایک دوست کو مرزا لکھتے ہیں۔

"دھوپ بہت تیز ہے، روزہ رکھتا ہوں مگر روزے کو بہلاتا رہتا ہوں، کبھی پانی پی لیا، کبھی حقہ پی لیا، کبھی کوئی ٹکڑا روٹی کا بھی کھا لیا، یہاں کے لوگ عجیب فہم رکھتے ہیں، میں تو روزہ بہلاتا ہوں اور یہ صاحب فرماتے ہیں کہ تُو روزہ نہیں رکھتا، یہ نہیں سمجھتے کہ روزہ نہ رکھنا اور چیز ہے اور روزہ بہلانا اور چیز ہے۔"
 

محمد وارث

لائبریرین
برسات

ایک خط میں برسات کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں۔۔۔

"دیوان خانے کا حال محل سرا سے بد تر ہے، میں مرنے سے نہیں ڈرتا، فقدانِ رحمت سے گھبرا گیا ہوں، چھت چھلنی ہوگئی ہے، ابر دو گھنٹے برسے تو چھت چار گھنٹے برستی ہے۔"
 

محمد وارث

لائبریرین
جاڑا

سردیوں کے دن تھے، ایک نواب صاحب مرزا کے ہاں تشریف لائے، مرزا نے ایک گلاس شراب سے بھر کے انکے آگے رکھ دیا۔

نواب صاحب بولے۔ میں توبہ کر چکا ہوں۔

مرزا نے حیرت زدہ ہو کر پوچھا۔۔۔

"کیا جاڑے میں بھی؟"۔
 

شمشاد

لائبریرین
آدھا مسلمان

غدر کے بعد مرزا غالب بھی قید ہو گئے۔ ان کو جب وہاں کے کمانڈنگ آفیسر کرنل براؤن کے سامنے پیش کیا گیا تو کرنل نے مرزا کی وضع قطع دیکھ کر پوچھا۔۔۔۔۔۔۔۔

غدر کی جگہ اگر جنگِ آزادی لکھتے تو زیادہ بہتر تھا۔
 

تیلے شاہ

محفلین
قید

مرزا جب قید سے چھوٹ کر آئے تو میاں محمد نصیرالدین عرف میاں کالے صاحب کے مکان میں‌ آ کر رہے۔

ایک روز کسی نے آ کر قید سے چھوٹنے کی مبارک باد دی۔

مرزا نے کہا۔ "کون بھڑوا قید سے چھوٹا ہے؟ پہلے گورے کی قید میں تھا، اب کالے کی قید میں ہوں۔"
میری رائے میں یہاں سے گالی کو حذف کردینا چاہیے
 

محمد وارث

لائبریرین
غم

مرزا کی پنشن بند ہوئی تو لوگوں نے احوال پرسی کے خطوں کا تانتا باندھ دیا، ایک بار میر مہدی مجروح نے اسی مضمون کا خط بھیجا تو جواب میں مرزا نے لکھا۔۔۔

"میاں بے رزق جینے کا ڈھب مجھ کو آ گیا ہے، اس طرف سے خاطر جمع رکھنا۔ رمضان کا مہینہ روزے کھا کھا کر کاٹا، آگے خدا رازق ہے، کچھ اور کھانے کو نہ ملا تو غم تو ہے۔"
 

محمد وارث

لائبریرین
خط کا جواب

ایک دوست کو دسمبر 1858 کی آخری تاریخوں میں خط لکھا۔ انہوں نے اس کا جواب جنوری 1859 کی پہلی تاریخ کو دیا۔ اس کے جواب میں مرزا انہیں لکھتے ہیں ۔۔۔

"دیکھو صاحب، یہ باتیں ہم کو پسند نہیں، 1858 کے خط کا جواب 1859 میں‌ بھیجتے ہو، اور مزہ یہ کہ جب تم سے کہا جائے گا تو یہ کہو گے کہ میں نے تو دوسرے ہی دن جواب لکھا ہے۔"
 

محمد وارث

لائبریرین
ندامت

ایک روز دیوان فضل اللہ خاں بگھی میں سوار مرزا کے مکان کے پاس سے انہیں ملے بغیر گزر گئے، مرزا کو پتہ چلا تو انہوں نے اس مضمون کا رقعہ دیوان جی کو لکھ بھیجا۔

"آج مجھ کو اس قدر ندامت ہوئی ہے کہ شرم کے مارے زمین میں گڑا جاتا ہوں، اس سے زیادہ اور کیا نالائقی ہو سکتی ہے کہ آپ کبھی کبھی تو اس طرف سے گزریں اور میں سلام کو حاضر نہ ہوں۔"

جب رقعہ دیوان جی کے پاس پہنجا تو وہ نہایت شرمندہ ہوا اور اسی وقت بگھی میں سوار ہو کر مرزا صاحب کو ملنے چلا آیا۔
 
Top