اسد اللہ خان غالب

  1. فاتح

    تسکیں کو ہم نہ روئیں، جو ذوقِ نظر ملے ۔ غالب (مختلف گلوکار)

    تسکیں کو ہم نہ روئیں، جو ذوقِ نظر ملے ۔ غالب (مختلف گلوکار) نور جہاں بیگم اختر ملکہ پکھراج طاہرہ سید نگہت اکبر اقبال بانو فریحہ پرویز راحت فتح علی خان ششر پارکھی تسکیں کو ہم نہ روئیں، جو ذوقِ نظر ملے حورانِ خلد میں تری صورت مگر ملے اپنی گلی میں مجھ کو نہ کر دفن بعدِ...
  2. کاشفی

    مرزا اسد اللہ خاں‌ غالب اور متین امروہوی - 3

    غزل (مرزا اسد اللہ خاں‌ غالب رحمتہ اللہ علیہ) شوق ہر رنگ رقیب سر و ساماں نکلا قیس تصویر کے پردے میں‌بھی عریاں نکلا زخم نے داد نہ دی تنگئی دل کی یارب تیر بھی سینہء‌بسمل سے پر افشاں نکلا بوئے گل، نالہء دل، بوئے چراغ محفل جو تری بزم سے نکلا سو پریشاں نکلا دل حسرت زدہ تھا مائدہء لذت...
  3. کاشفی

    غالب کبھی نیکی بھی اُس کے جی میں گر آجائے ہے مُجھ سے - غالب

    غزل (غالب رحمتہ اللہ علیہ) کبھی نیکی بھی اُس کے جی میں گر آجائے ہے مُجھ سے جفائیں کر کے اپنی یاد شرما جائے ہے مُجھ سے خُدایا جذبہء‌دل کی مگر تاثیر اُلٹی ہے کہ جتنا کھینچتا ہوں اور کھنچتا جائے ہے مُجھ سے وہ بَد خُو اور میری داستانِ عشق طولانی عبارت مختصر، قاصد بھی گھبرا جائے ہے...
  4. پ

    دو غزلیں - غالب و اکبر الٰہ آبادی

    یہ نہ تھی ہماری قسمت کہ وصالِ یار ہوتاا اگر اور جیتے رہتے ، یہی انتظار ہوتا ترے وعدے پر جئے ہم تو یہ جان جھوٹ جانا کہ خوشی سے مر نہ جاتے، اگر اعتبار ہوتا تری نازکی سے جانا کہ بندھا تھا عہد بودا کبھی تو نہ توڑ سکتا اگر استوار ہوتا کوئی میرے دل سے پوچھے ترے تیرِ نیم کش کو...
  5. دل پاکستانی

    غالب اے تازہ واردانِ بساطِ ہوائے دل - مرزا غالب

    اے تازہ واردانِ بساطِ ہوائے دل زنہار! اگر تمہیں ہوسِ نائے و نوش ہے دیکھو مجھے جو دیدۂ عبرت نگاہ ہو میری سنو، جو گوشِ نصیحت نیوش ہے ساقی، بہ جلوہ، دشمنِ ایمان و آگہی مُطرب، بہ نغمہ، رہزنِ تمکین و ہوش ہے یا شب کو دیکھتے تھے کہ ہر گوشۂ بساط دامانِ باغبان و کفِ گُل فروش ہے...
  6. فرخ منظور

    غالب جور سے باز آئے پر باز آئیں کیا - مرزا غالب

    جور سے باز آئے پر باز آئیں کیا کہتے ہیں ہم تجھ کو منہ دکھلائیں کیا رات دن گردش میں ہیں سات آسماں ہو رہے گا کچھ نہ کچھ گھبرائیں کیا لاگ ہو تو اس کو ہم سمجھیں لگاؤ جب نہ ہو کچھ بھی تو دھوکا کھائیں کیا ہو لیے کیوں نامہ بر کے ساتھ ساتھ یا رب اپنے خط کو ہم پہنچائیں کیا موجِ...
  7. فرخ منظور

    غالب بلا سے ہیں جو یہ پیشِ نظر در و دیوار - مرزا غالب

    بلا سے ہیں جو یہ پیشِ نظر در و دیوار نگاہِ شوق کو ہیں بال و پر در و دیوار وفورِ اشک نے کاشانے کا کیا یہ رنگ کہ ہو گئے مرے دیوار و در، در و دیوار نہیں ہے سایہ، کہ سن کر نوید مَقدمِ یار گئے ہیں چند قدم پیشتر در و دیوار ہوئی ہے کس قدر ارزانئ مئے جلوہ کہ مست ہے ترے کوچے میں ہر در و...
  8. فرخ منظور

    غالب نقش فریادی ہے کس کی شوخیِ تحریر کا - بیاض ِ غالب سے

    نقش فریادی ہے کس کی شوخیِ تحریر کا کاغذی ہے پیرہن، ہر پیکر ِتصویر کا آتشیں پا ہوں، گداز ِوحشتِ زنداں نہ پوچھ موے آتش دیدہ ہے ہر حلقہ یہاں زنجیر کا شوخیِ نیرنگ، صیدِ وحشتِ طاؤس ہے دام، سبزے میں ہے، پروازِ چمن تسخیر کا لذّتِ ایجاد۔ ناز، افسونِ عرض۔ ذوق ِ قتل نعل، درآتش ہے تیغِ یار سے...
  9. ق

    غالب ہر ایک بات پہ کہتے ہو تم کہ تو کیا ہے

    ہر ایک بات پہ کہتے ہو تم کہ تو کیا ہے تمہیں کہو کہ یہ اندازِ گفتگو کیا ہے نہ شعلے میں یہ کرشمہ نہ برق میں یہ ادا کوئی بتاؤ کہ وہ شوخِ تند خو کیا ہے یہ رشک ہے کہ وہ ہوتا ہے ہم سخن تم سے وگرنہ خوفِ بد آموزیِ عدو کیا ہے چپک رہا ہے بدن پر لہو سے پیراہن ہمارے جَیب کو اب حاجتِ رفو کیا ہے جلا ہے جسم...
  10. م

    غالب لازم تھا کہ دیکھو مرا رستہ کوئی دِن اور - غالب

    لازم تھا کہ دیکھو مرا رستہ کوئی دِن اور تنہا گئے کیوں؟ اب رہو تنہا کوئی دن اور مٹ جائےگا سَر ،گر، ترا پتھر نہ گھِسے گا ہوں در پہ ترے ناصیہ فرسا کوئی دن اور آئے ہو کل اور آج ہی کہتے ہو کہ ’جاؤں؟‘ مانا کہ ھمیشہ نہیں اچھا کوئی دن اور جاتے ہوئے کہتے ہو ’قیامت کو ملیں گے‘ کیا خوب! قیامت کا ہے...
  11. فرخ منظور

    غالب آمدِ خط سے ہوا ہے سرد جو بازارِ دوست - از مرزا غالب

    آمدِ خط سے ہوا ہے سرد جو بازارِ دوست دودِ شمعِ کشتہ تھا، شاید خطِ رخسارِ دوست اے دلِ ناعاقبت اندیش، ضبطِ شوق کر کون لا سکتا ہے تابِ جلوہء دیدار ِ دوست خانہ ویراں سازیء حیرت، تماشا کیجیئے صورتِ نقشِ قدم ہوں، رفتۂ رفتارِ دوست عشق میں بیدادِ رشکِ غیر نے مارا مجھے کُشتۂ دشمن ہوں آخر،...
  12. خرم شہزاد خرم

    جانشینِ جوہرِ آئینہ ہے خارِ چمن

    جانشینِ جوہرِ آئینہ ہے خارِ چمن صاف ہے ازبسکہ عکسِ گل سے گلزارِ چمن جانشینِ جوہرِ آئینہ ہے خارِ چمن ہے نزاکت بس کہ فصلِ گل میں معمارِ چمن قالبِ گل میں ڈھلی ہے خشتِ دیوارِ چمن برشگالِ گریۂ عشاق دیکھا چاہیے کھل گئی مانندِ گل سو جا سے دیوارِ چمن٭ تیری آرائش کا استقبال کرتی...
  13. محمد وارث

    غالب کے لطیفے

    آدھا مسلمان غدر کے بعد مرزا غالب بھی قید ہو گئے۔ ان کو جب وہاں کے کمانڈنگ آفیسر کرنل براؤن کے سامنے پیش کیا گیا تو کرنل نے مرزا کی وضع قطع دیکھ کر پوچھا۔ ویل، ٹم مسلمان ہے۔ مرزا نے کہا، جناب، آدھا مسلمان ہوں۔ کرنل بولا۔ کیا مطلب؟ مرزا نے کہا، جناب شراب پیتا ہوں، سؤر نہیں کھاتا۔ کرنل...
  14. پاکستانی

    غالب حسنِ مہ گرچہ بہ ہنگامِ کمال اچّھا ہے - غالب

    farzooq ahmed بھائی کے نام حسنِ مہ حسنِ مہ گرچہ بہ ہنگامِ کمال اچّھا ہے اس سے میرا مۂ خورشید جمال اچّھا ہے بوسہ دیتے نہیں اور دل پہ ہے ہر لحظہ نگاہ جی میں کہتے ہیں کہ مفت آئے تو مال اچّھا ہے اور بازار سے لے آئے اگر ٹوٹ گیا ساغرِ جم سے مرا جامِ سفال اچّھا ہے بے طلب دیں تو مزہ اس...
  15. ا

    تضمین بر کلام غالب

    جل بجھیں گے شب فرقت کی سحر ہونے تک دل لہو ہوگا مداوائے جگر ہونے تک ہم تو مرجائیں گے الفت کی نظر ہونے تک آہ! کو چاہیے اک عمر سحر ہونے تک کون جیتا ہے تیری زلف کے سر ہونے تک رفعتِ مرتبہ کے کیا کوئی آسان ہیں ڈھنگ دیکھنے پڑتے ہیں دنیا میں ہزاروں نیرنگ کبھی موجوں سے لڑائی ، کبھی طوفان سے جنگ...
  16. رضوان

    غالب دل سے تری نگاہ جگر تک اتر گئی - غالب

    غالب (نام ہی کافی ہے) دل سے تری نگاہ جگر تک اتر گئی دونوں کو اک ادا میں رضامند کر گئی شق ہو گیا ہے سینہ خوشا لذّتِ فراغ تکلیفِ پردہ داریِ زخمِ جگر گئی وہ بادہ شبانہ کی سر مستیاں کہاں اٹھیے بس اب کہ لذّتِ خوابِ سحر گئی اڑتی پھرے ہے خاک مری کوئے یار میں بارے اب اے ہوا ہوسِ بال و پر...
  17. سیفی

    غالب دہر میں‌ نقش وفا وجہ تسلی نہ ہوا - غالب

    دہر میں نقشِ وفا وجہِ تسلی نہ ہوا ہے یہ وہ لفظ کہ شرمندہٴ معنی نہ ہوا سبزہٴ خط سے ترا کاکلِ سرکش نہ دبا یہ زمّرد بھی حریفِ دمِ افعی نہ ہوا میں نے چاہا تھا کہ اندوہِ وفا سے چھوٹوں وہ ستمگر مرے مرنے پہ بھی راضی نہ ہوا دل گزر گاہِ خیالِ مے و ساغر ہی سہی گر نفس جادہٴ سر منزلِ تقویٰ نہ ہوا...
  18. سیفی

    غالب دھوتا ہوں جب میں پینے کو اس سیم تن کے پاؤں

    دھوتا ہوں جب میں پینے کو اس سیم تن دھوتا ہوں جب میں پینے کو اس سیم تن کے پاؤں رکھتا ہے ضد سے، کھینچ کے باہر لگن کے پاوں دی سادگی سے جان، پڑوں کوہکن کے پاؤں ہیہات! کیوں نہ ٹوٹ گئے پیر زن کے پاؤں بھاگے تھے ہم بہت، سو اس ی کی سزا ہے یہ ہو کر اسیروں دابتے ہیں راہزن کے پاؤں شب کو کسی...
Top