رضوان
محفلین
غالب (نام ہی کافی ہے)
دل سے تری نگاہ جگر تک اتر گئی
دونوں کو اک ادا میں رضامند کر گئی
دونوں کو اک ادا میں رضامند کر گئی
شق ہو گیا ہے سینہ خوشا لذّتِ فراغ
تکلیفِ پردہ داریِ زخمِ جگر گئی
تکلیفِ پردہ داریِ زخمِ جگر گئی
وہ بادہ شبانہ کی سر مستیاں کہاں
اٹھیے بس اب کہ لذّتِ خوابِ سحر گئی
اٹھیے بس اب کہ لذّتِ خوابِ سحر گئی
اڑتی پھرے ہے خاک مری کوئے یار میں
بارے اب اے ہوا ہوسِ بال و پر گئی
بارے اب اے ہوا ہوسِ بال و پر گئی
دیکھو تو دل فریبیِ اندازِ نقشِ پا
موجِ خرامِ یار بھی کیا گل کتر گئی
موجِ خرامِ یار بھی کیا گل کتر گئی
ہر بول ہوس نے حسن پرستی شعار کی
اب آبروئے شیوہ اہلِ نظر گئی
اب آبروئے شیوہ اہلِ نظر گئی
نظّارے نے بھی کام کیا واں نقاب کا
مستی سے ہر نگہ ترے رخ پر بکھر گئی
مستی سے ہر نگہ ترے رخ پر بکھر گئی
فردا و دی کا تفرقہ یک بار مٹ گیا
کل تم گئے کہ ہم پہ قیامت گزر گئی
کل تم گئے کہ ہم پہ قیامت گزر گئی
مارا زمانے نے اسدللہ خاں تمہیں
وہ ولولے کہاں وہ جوانی کدھر گئی
وہ ولولے کہاں وہ جوانی کدھر گئی