ساقی۔

محفلین
(مندر جہ ذیل تحریر ایک جگہ سے پڑھی ۔ اسے کے متعلق آپ کے خیالات جاننا چاہوں گا ۔)
نایاب بھائی اور تمام مخفلین

اﷲتعالیٰ نے انسان میں اپنی قدرت کاملہ سے اپنی طرف سے روح پھونکی اور اس روح کے ایک لطیف جزو کو انسان کا ساتھی بنا کے دنیا میں اس کے ساتھ لگا دیا،چونکہ یہ انسان کی اپنی ہی روح کا ایک جزو ہے اس لئے یہ بعینہ اس انسان کی مانند ہوتا ہے جس کی روح کا یہ جزو ہوتا ہے،اسکی شکل و صورت، اسکی آواز حتیٰ کہ اسکا لباس تک انسان کے عین مطابق نظر آتا ہے،یہ انسان کا جسم لطیف یا ہمزاد کہلاتا ہے۔اس حد تک مشابہت ھے کہ کسی طرح بھییہ ممکن نہیں کہ انسان اور اسکے جسم لطیف کو ایک ساتھ دیکھ کہیہ بتایاجا سکے کہ ان میں انسان کون سا ہے اور جسم لطیف کونسا۔ خدا نے اس مخفی مخلوق میںبے انتہا قوتیں پنہاں کی ہیں مثلاً وقت اور فاصلہ اسکے لئے بے معنی ہیں یہ خیال کی رفتار سے سفر کرتا ہے،ایک پل میں اگر یہ پاکستان میں ہے تو دوسرے پل امریکا یا کسی اور دور دراز ملک جا کر کوئی کام نمٹا کہ واپس آ سکتا ہے،حتیٰ کہ روشنی بھی اسکی رفتار کے آگے بے بس ھے۔چنانچہ پہاڑ و بیاباں، دریا و سمندر اسکے آگے کچھ اہمیت نہیں رکھتے ۔ اکیلاہمزاد سیکڑوں،ہزاروں انسانوں کو موت کے گھاٹ اتار سکتا ہے۔خطرناک ترین جانوروں کو موت کی وادی میں دھکیل سکتا ہے۔غضب کامصور ہے،کسی بھی جگہ یا شخص کی تصویر بنالاتا ہے۔انتہائی زبردست علوم پردسترس رکھتا ہے،فلسفہ،طب،نجوم،ریاضی ،طبیعات،کیمیاء وغیرہ کابے انتہا ماہرہے۔ سخت مہلک اور جان لیوا امراض کا علاج تجویز کر سکتا ہے۔سپرکمپیوٹرتک جن مسائل کےحل سے عاجز ہو،حل کر سکتا ہے۔کوئی دیوار اسکا رستہ نہیں روک سکتی،لوہے اور پتھر کی دیواروں،چٹانوں اوردیوہیکل عمارتوں سے یوں گزر جاتا ہے جیسے روشنی.شیشے سے گزر جاتی ہے۔ لاکھوں کروڑوں ٹن وزنی اشیاء اکیلا کہیں سے بھی اٹھا لاتا ہے۔المختصر دنیا کے تمام تر وسائل اور ٹیکنالوجی استعمال کر کے بھی کوئی چیز اتنی جلد مہیا نہیں کی جا سکتی جو ہمزاد لمحوں میں مہیا کر سکتا ہے ۔بے موسم کی اشیاء لمحوں میں مہیاء کر سکتا ہے۔کسی جگہ، علاقہ،یا شہر میں جنگ و جدل برپا کر سکتاہے، لوگوں کو ایک دوسرے کے خون کا پیاسا بنا سکتا ہے ۔جزب و طرب پہ قدرت رکھتا ہے انسانوں کے دلوں میں سخت ترین نفرت یا انتہائی شدید محبت پیدا کرنا اسکے نزدیک انتہائی معمولی کام ہے۔گزرے ہوئے زمانوں، ہزاروں برس پہلے کے واقعات من و عن بتا سکتا ہے۔زمینمیں چھپے خزانوں اور دفینوں کا نہ صرف پتہ بتا سکتا ہے بلکہ حاصل بھی کرا دیتا ھے۔موسم کی پیشگوئی تو کیا،کسی بھی جگہ بارش یا اولے بھی برسا سکتا ہے۔گمشدہ لوگوں اور اشیاء کا پتہ دے سکتا ھے۔اسکے علاوہ کئی ماورائی طاقتوں کا حامل ہے مثلاً کسی پر بیماری مسلط کرنا،چلتے کاروبار کو سرد کرنا، باغات اور کھیتیوں کوویرانوں میں بدلنا، کسی شخص کے خیالات کو پڑھنا، کسی پہمسلط ہو کہ مرضی کا کام لینا وغیرہ ۔جسم کثیف کے مر جانے کے بعد بھی زندہ رہتا ہے۔جنات، ہمزاد اور فرشتوں میں فرق یہ ہے کہ جنات آگ سے تخلیق ھوئے،فرشتے نور سے بنائے گئے اور جسم لطیف کی تخلیق کا مآ خذ روحِِ انسانی ہے۔ان تمام تر قوتوں کے باوجود انسان کی عظمت کے آگے سر جھکانے پہ مجبور ہو جاتا ہے۔جس طرح باقی ساری کائنات انسان کے مسخر کرنے کے لئے بنی ہے ویسے ہی اﷲ نے انسان کو ہمزاد کے تسخیر کرنے کی بھی قدرت بخشی ہے لیکن اسے غلام بنانے اور اسکی قوتوں سے کام لینے کیلئے بہت سخت مجاہدے اور ریاضت کی ضرورت ہے۔اسکے لئے مختلف قسم کی ریاضتوں،عملیات اور چلہ کشی کے مراحل سے گزرنا پڑتا ہے۔ انتہائی دشوار مراحل سے گزرنے کے بعد ہی کوئی شخص قوت و اقتدار کی اس دولت کو حاصل کرنےمیں کامیاب ہو پاتا ہے۔اﷲ نے کائنات میں خیر و شر کی دو متضادقوتیں پیدا کی ہیں اسلئے اس منزل کو پانے کے بھی دو رستے ہیں، ایک خیر کا قرآنی اور نوری راستہ اور دوسرہ شر کا شیطانی اور سفلی راستہ، انتخاب انسان کے اپنے اختیار میں
 

ساقی۔

محفلین
ویسے ایویں اتنی دولت اور محنت لگا کر سپر کمپیوٹر بنائے گئے ہیں۔دس دن لگا کر ہمزاد قابو کر لیتے تو کتنا فائدہ ہوتا؟:bee:
 
بچپن میں ہم نے بھی ایسی باتیں سنی تھیں اور کچھ لوگ تو اس ہمزاد کو تسخیر کرنے کیلئے چِلّے بھی کاٹتے تھے۔ میں دیکھا ہے کہ کچھ لوگ کوئی بھی کام کرنے سے پہلے اپنے آپ سے بات کرتے ہیں
اُٹھ اوئے منا (اے میرے من (دل)) چلئے
یا اپنا نام لے کر مثال کے طور پر میں خود کو کسی کام سے روکنا چاہتا ہوں تو کہوں گا " یار خالد ہن بس وی کر" "چل خالدا اے کم آپے ای کرنا پینا اے" وغیرہ وغیرہ
مجھے نہیں پتہ کہ ہمزاد اس طرح مسخر ہوتا ہے یا نہیں لیکن میرے خیال میں اتنا ضرور ہوتا ہے کہ اس طرح انسان آپ اپنے ڈھارس بڑھانے میں ضرور کامیاب ہو جاتا ہے۔
مجھے یہ عادت نہیں ہے ، مجھے اس پر یقین ہے یا نہیں لیکن یقین ضروری بھی نہیں کیوں کہ یہ ایمان کا حصّہ نہیں ہے۔
 
مجھے ہمزاد کے بارے میں مندرجہ ذیل مستند معلومات ملی ہیں :)
p336.jpg

p337.jpg

p338.jpg

ماخذ
 

الشفاء

لائبریرین
(مندر جہ ذیل تحریر ایک جگہ سے پڑھی ۔ اسے کے متعلق آپ کے خیالات جاننا چاہوں گا ۔)
نایاب بھائی اور تمام مخفلین

اﷲتعالیٰ نے انسان میں اپنی قدرت کاملہ سے اپنی طرف سے روح پھونکی اور اس روح کے ایک لطیف جزو کو انسان کا ساتھی بنا کے دنیا میں اس کے ساتھ لگا دیا،چونکہ یہ انسان کی اپنی ہی روح کا ایک جزو ہے اس لئے یہ بعینہ اس انسان کی مانند ہوتا ہے جس کی روح کا یہ جزو ہوتا ہے،اسکی شکل و صورت، اسکی آواز حتیٰ کہ اسکا لباس تک انسان کے عین مطابق نظر آتا ہے،یہ انسان کا جسم لطیف یا ہمزاد کہلاتا ہے۔اس حد تک مشابہت ھے کہ کسی طرح بھییہ ممکن نہیں کہ انسان اور اسکے جسم لطیف کو ایک ساتھ دیکھ کہیہ بتایاجا سکے کہ ان میں انسان کون سا ہے اور جسم لطیف کونسا۔ خدا نے اس مخفی مخلوق میںبے انتہا قوتیں پنہاں کی ہیں مثلاً وقت اور فاصلہ اسکے لئے بے معنی ہیں یہ خیال کی رفتار سے سفر کرتا ہے،ایک پل میں اگر یہ پاکستان میں ہے تو دوسرے پل امریکا یا کسی اور دور دراز ملک جا کر کوئی کام نمٹا کہ واپس آ سکتا ہے،حتیٰ کہ روشنی بھی اسکی رفتار کے آگے بے بس ھے۔چنانچہ پہاڑ و بیاباں، دریا و سمندر اسکے آگے کچھ اہمیت نہیں رکھتے ۔ اکیلاہمزاد سیکڑوں،ہزاروں انسانوں کو موت کے گھاٹ اتار سکتا ہے۔خطرناک ترین جانوروں کو موت کی وادی میں دھکیل سکتا ہے۔غضب کامصور ہے،کسی بھی جگہ یا شخص کی تصویر بنالاتا ہے۔انتہائی زبردست علوم پردسترس رکھتا ہے،فلسفہ،طب،نجوم،ریاضی ،طبیعات،کیمیاء وغیرہ کابے انتہا ماہرہے۔ سخت مہلک اور جان لیوا امراض کا علاج تجویز کر سکتا ہے۔سپرکمپیوٹرتک جن مسائل کےحل سے عاجز ہو،حل کر سکتا ہے۔کوئی دیوار اسکا رستہ نہیں روک سکتی،لوہے اور پتھر کی دیواروں،چٹانوں اوردیوہیکل عمارتوں سے یوں گزر جاتا ہے جیسے روشنی.شیشے سے گزر جاتی ہے۔ لاکھوں کروڑوں ٹن وزنی اشیاء اکیلا کہیں سے بھی اٹھا لاتا ہے۔المختصر دنیا کے تمام تر وسائل اور ٹیکنالوجی استعمال کر کے بھی کوئی چیز اتنی جلد مہیا نہیں کی جا سکتی جو ہمزاد لمحوں میں مہیا کر سکتا ہے ۔بے موسم کی اشیاء لمحوں میں مہیاء کر سکتا ہے۔کسی جگہ، علاقہ،یا شہر میں جنگ و جدل برپا کر سکتاہے، لوگوں کو ایک دوسرے کے خون کا پیاسا بنا سکتا ہے ۔جزب و طرب پہ قدرت رکھتا ہے انسانوں کے دلوں میں سخت ترین نفرت یا انتہائی شدید محبت پیدا کرنا اسکے نزدیک انتہائی معمولی کام ہے۔گزرے ہوئے زمانوں، ہزاروں برس پہلے کے واقعات من و عن بتا سکتا ہے۔زمینمیں چھپے خزانوں اور دفینوں کا نہ صرف پتہ بتا سکتا ہے بلکہ حاصل بھی کرا دیتا ھے۔موسم کی پیشگوئی تو کیا،کسی بھی جگہ بارش یا اولے بھی برسا سکتا ہے۔گمشدہ لوگوں اور اشیاء کا پتہ دے سکتا ھے۔اسکے علاوہ کئی ماورائی طاقتوں کا حامل ہے مثلاً کسی پر بیماری مسلط کرنا،چلتے کاروبار کو سرد کرنا، باغات اور کھیتیوں کوویرانوں میں بدلنا، کسی شخص کے خیالات کو پڑھنا، کسی پہمسلط ہو کہ مرضی کا کام لینا وغیرہ ۔جسم کثیف کے مر جانے کے بعد بھی زندہ رہتا ہے۔جنات، ہمزاد اور فرشتوں میں فرق یہ ہے کہ جنات آگ سے تخلیق ھوئے،فرشتے نور سے بنائے گئے اور جسم لطیف کی تخلیق کا مآ خذ روحِِ انسانی ہے۔ان تمام تر قوتوں کے باوجود انسان کی عظمت کے آگے سر جھکانے پہ مجبور ہو جاتا ہے۔جس طرح باقی ساری کائنات انسان کے مسخر کرنے کے لئے بنی ہے ویسے ہی اﷲ نے انسان کو ہمزاد کے تسخیر کرنے کی بھی قدرت بخشی ہے لیکن اسے غلام بنانے اور اسکی قوتوں سے کام لینے کیلئے بہت سخت مجاہدے اور ریاضت کی ضرورت ہے۔اسکے لئے مختلف قسم کی ریاضتوں،عملیات اور چلہ کشی کے مراحل سے گزرنا پڑتا ہے۔ انتہائی دشوار مراحل سے گزرنے کے بعد ہی کوئی شخص قوت و اقتدار کی اس دولت کو حاصل کرنےمیں کامیاب ہو پاتا ہے۔اﷲ نے کائنات میں خیر و شر کی دو متضادقوتیں پیدا کی ہیں اسلئے اس منزل کو پانے کے بھی دو رستے ہیں، ایک خیر کا قرآنی اور نوری راستہ اور دوسرہ شر کا شیطانی اور سفلی راستہ، انتخاب انسان کے اپنے اختیار میں

:)
جب اُس علیم القدیر نے اس روح کے ساتھ "ی" کا لاحقہ لگا کر اسے "من روحی" کر دیا تو اب اس کے علم و قدرت کے کیا کہنے۔۔۔ البتہ اس کی فعالیت کے لئے "مُوتُو قبل ان تمُوتُو" کی مننزل سے گزرنا پڑتا ہے۔۔۔
فلیتنافس المتنافسون۔۔۔:)
 

حاتم راجپوت

لائبریرین
میں نے اب سے 5،6 سال پہلے اس موضوع میں بہت دلچسپی محسوس کی تھی اور اچھا خاصا مطالعہ بھی کیا۔ کچھ مشقیں وغیرہ شروع کیں لیکن بعد میں انسانی عقل اور ہمت پر یہ یقین آیا کہ انسان ہمزاد کی مدد کے بغیر بھی بہت کچھ کر سکتا ہے، دوسری چیز یہ کہ اس طاقت کا انحصار آپ کے ظرف پر ہے،اس بات کو آپ سمجھ سکتے ہیں کہ جتنی بڑی طاقت آپ کے پاس ہے اُتنی ہی بڑی ذمہ داری بھی ہے۔ یعنی اگر تو آپ نفس پر اس حد تک قابو پا چکے ہیں کہ کوئی بھی غلط خیال آپ کو کسی غلط عمل پر نہیں اکسا سکتا تو پھر بھلے آپ چلہ کریں، ریاضتیں کریں،مجاہدے کریں لیکن اگر ایسا نہیں تو پھر اس کی سعی کرنا بیکار ہے کیونکہ کچھ پتا نہیں کہ کسی کمزور لمحے میں آپ اس طاقت سے کوئی ایسا کام لے بیٹھیں جو قدرت کے اصولوں کی عین نفی کرتا ہو تو پھر تو آپ گئے کام سے۔۔۔ سمجھ لیں بندہ کو بارگاہِ الٰہی سے دھتکار دیا جاتا ہے۔
تیسرا یہ کہ اس کی مشقوں کے دوران اکثر ایسے تجربات ہوتے ہیں جن کی حواسِ انسانی کو بالکل عادت نہیں ہوتی اور اسی وجہ سے اسے جاری رکھنا بہت مشکل ہو جاتا ہے۔ میرے معاملے میں یہ تینوں چیزیں وقوع پذیر ہوئی تھیں لہٰذا میں نے اس سلسلے کو موقوف کر دیا تھا۔
باقی اگر علمی لحاظ سے بحث درکار ہے تو میں روحانی بابا کو اس دھاگے میں اظہارِ خیال کرنے کی دعوت دیتا ہوں۔ :)
 

ساقی۔

محفلین
:)
جب اُس علیم القدیر نے اس روح کے ساتھ "ی" کا لاحقہ لگا کر اسے "من روحی" کر دیا تو اب اس کے علم و قدرت کے کیا کہنے۔۔۔ البتہ اس کی فعالیت کے لئے "مُوتُو قبل ان تمُوتُو" کی مننزل سے گزرنا پڑتا ہے۔۔۔
فلیتنافس المتنافسون۔۔۔ :)

جاہل ہیں ہم ۔۔۔۔ کچھ ا آسان الفاظ مین اپنا نقطہ نظر واضح کر دیں ۔
 

حاتم راجپوت

لائبریرین
:)
جب اُس علیم القدیر نے اس روح کے ساتھ "ی" کا لاحقہ لگا کر اسے "من روحی" کر دیا تو اب اس کے علم و قدرت کے کیا کہنے۔۔۔ البتہ اس کی فعالیت کے لئے "مُوتُو قبل ان تمُوتُو" کی مننزل سے گزرنا پڑتا ہے۔۔۔
فلیتنافس المتنافسون۔۔۔ :)
جاہل ہیں ہم ۔۔۔ ۔ کچھ ا آسان الفاظ مین اپنا نقطہ نظر واضح کر دیں ۔
جہاں تک میری ناقص عقل کام کرتی ہے اس کے مطابق الشفاء نے سورہ سجدہ کی ان آیات کا ذکر کیا ہے وَنَفَخَ فِيهِ مِن رُّوحِهِ (پھر اس میں اپنی (طرف سے) روح پھونکی) ۔۔آیت نمبر 9
اور اسی روح کو اُس معنوں میں فعال کرنے کے لئے ہست کو نیست کر کے ہست کو سمجھنے اور طاری کرنے کا ذکر ہے۔
 
جہاں تک میری ناقص عقل کام کرتی ہے اس کے مطابق الشفاء نے سورہ سجدہ کی ان آیات کا ذکر کیا ہے وَنَفَخَ فِيهِ مِن رُّوحِهِ (پھر اس میں اپنی (طرف سے) روح پھونکی) ۔۔آیت نمبر 9
اور اسی روح کو اُس معنوں میں فعال کرنے کے لئے ہست کو نیست کر کے ہست کو سمجھنے اور طاری کرنے کا ذکر ہے۔
میری رائے میں ہمزاد کو قابو کرنا اور اپنی روح کو طاقت ور کرنا (یا روحانی طاقت بڑھانا) دو الگ الگ چیزیں ہیں۔
 

الشفاء

لائبریرین
جاہل ہیں ہم ۔۔۔ ۔ کچھ ا آسان الفاظ مین اپنا نقطہ نظر واضح کر دیں ۔

آپ کو ایک بڑے جاہل سے واسطہ پڑ گیا ہے۔۔۔:)
بہرحال روح کے متعلق عرض کرنے کا مطلب تھا کہ خالق ارض و سماوات نے قرآن مجید میں جگہ جگہ روح کی نسبت اپنی طرف کی ہے جیسے کہ ونفخت فیہ من روحی (الحجر 29 ) اور قل الروح من امر ربی (الاسریٰ 85)، اور پھر اس کو "خلقتُ بیدی" کی شان عطا کر کے اس میں گوناگوں قوتیں اور صلاحیتیں مضمر کر دی ہیں۔۔۔علماء فرماتے ہیں کہ روح اللہ عزوجل کے رازوں میں سے ایک عجیب راز ہے کہ جس کی حقیقت کو سمجھنے سے بیشتر عقلیں قاصر ہیں۔ جب اس کی صلاحیتوں کی صحیح تربیت و آبیاری کی جاتی ہے تو فرشتے بھی اس کی گرد راہ کو نہیں پہنچ سکتے۔۔۔

مزید کلام کے لئے عارف محفلین کا انتظار کرتے ہیں۔۔۔:)
 

حاتم راجپوت

لائبریرین
میری رائے میں ہمزاد کو قابو کرنا اور اپنی روح کو طاقت ور کرنا (یا روحانی طاقت بڑھانا) دو الگ الگ چیزیں ہیں۔
متفق۔
ہمزاد قابو کرنے کو اسی سلسلے کے ذیلی رستے کا ایک شعبدہ سمجھ لیں۔کئی لوگ اصل سے صرفِ نظر کر کے اسی پر قناعت کر لیتے ہیں اور علم سے محروم رہ جاتے ہیں ، روحانی طاقت بڑھانے کے رستے میں قیام تو ہے ہی نہیں۔ سفر ہی سفر ہے۔ یہ ہمزاد اور دوسرے شعبدے تو ظرف ماپنے کا ایک پیمانہ ہیں، جو بچ کر نکل گیا اس کا مقصود اسے حاصل ہو جاتا ہے۔ اور جو ان میں پھنس گیا اس کے لئے پھر یہی سب کچھ ہے۔
 

S. H. Naqvi

محفلین
ایم اے راحت کی لکھی ہوئی ہمزاد پڑھی تھی کبھی، میرے خیال میں یہ کتابوں کی حد تک پایا جاتا ہے وگرنہ انٹلیجنس میں ایک سیکشن ہمزاد کی تسخیر کے نام سے رکھ کر ساری توجہ اسی طرف لگا دیں ایک بھی کام یاب ہو گیا تو کسی ایٹم بم کی ضرورت نہیں پڑھے گی:p
 
حاتم راجپوت غالبا سب رنگ میں آج سے 35 یا چالیس سال پہلے ہمزاد کے نام سے ایک سلسلہ وار داستان شروع ہوئی (شیخ کرامت کی داستان حیات جو کہ اس نے بستر مرگ پر بیان کی) چونکہ اس زمانے میں تفریح کا کوئی اور ذریعہ ہوتا نہیں تھا سو لوگ سب رنگ کو برے انہماک سے پڑھتے تھے اس داستان کو بدقسمتی سے اصل سمجھ لیا گیا اور پھر نہ پوچھئے کہ عملیات میں ہمزاد کی تسخیر کے ضمن میں اوٹ پٹانگ قسم کے ایسے ایسے عملیات ایجاد کیے گئے کہ الامان الحفیظ
 
Top