نیرنگ خیال

لائبریرین
ایک مچھیرے کی دکھ بھری داستاں بزبان نیلم آپ یہاں پڑھ چکے۔
پیش ہے اک جہاں دیدہ مچھیرے کی داستاں۔
فکر تجربی

پرانے وقتوں کی بات ہے۔۔۔ کتنے پرانے ۔۔۔ جب مچھیرا کی رمز نئی نئی ایجاد ہوئی تھی۔ تو کئی لوگ اپنے کام کاج چھوڑ کر مچھیرا کہلانے کو مچھلیوں کا شکار کیا کرتے تھے۔ مگر مؤرخ بڑا مورکھ تھا۔ اس نے بھی ایسے لوگوں کو مچھیرے کے خطاب سے نہ نوازا۔ بلکہ جو صرف مچھلیاں پکڑ کر اپنی گزر اوقات کا بندوبست کرتا۔ اس کو مچھیرے کے خطاب سے نوازا۔
تو ایسے ہی وقتوں میں اک مچھیرا تھا۔ جو کہ مچھلیاں پکڑتا تھا۔ اب کوئی پوچھے کہ ہرن کیوں نہیں مارتا تھا۔ پرندے کیوں نہیں پکڑ لیتا تھا۔ اس میں جان جانے کا بھی خدشہ نہیں۔ ڈوب جانے کا بھی کوئی خطرہ نہیں۔
تو بئی بات یہ ہے کہ وہ اک مچھیرا تھا۔ جس کا کام مچھلیاں پکڑنا تھا۔ لیکن تھا کوئی اصلاً برصغیر کا مچھیرا۔۔۔ وہ ایسے کہ جب تک پہلی شکار کی ہوئی مچھلی نہ ختم ہوتی۔ دوسری کے لیے نہ نکلتا۔ فطری سستی اور طبیعت کا دھیما پن اس کے برصغیر سے تعلق کو ظاہر کرتا ہے۔ لیکن مؤرخ نے جب دیکھا کہ اس میں اک علاقے کے نام پر ضرب لگنے کا اندیشہ ہے۔ تو اس کو تؤکل کا نام دے دیا۔ جبکہ حقیقت یہ تھی۔ کہ توکل سے اس کا کچھ لینا دینا نہ تھا۔ وہ مچھیرا تھا۔ عالم وقت نہ تھا۔ خیر چھوڑیں ان باتوں کو۔۔۔ اصل کہانی کی طرف آتے ہیں۔
اچھا اس مچھیرے میں جہاں بہت سی خوبیاں تھیں۔ وہاں اک خوبی یہ بھی تھی۔ کہ یہ صرف ایک ہی مچھلی پکڑ کر لاتا تھا۔ کبھی دو نہ پکڑتا۔ ظاہر ہے فریج کا دور نہ تھا۔ کہ مچھلی ذخیرہ کر لی جائے۔ اور مٹکے میں مچھلی چھوڑ کر ضرورت پڑنے پر استعمال میں لانے کا خیال اس کے ذہن میں کبھی آیا نہ تھا۔ کیونکہ بات پھر وہی ہے، کہ مچھیرا تھا۔ سائنسدان نہ تھا۔ کبھی جو ایک سے زیادہ مچھلیاں جال میں پھنس جاتیں۔ تو ایک رکھ کر باقیوں کو چھوڑ دیتا۔ اور ان سے اپنے رویے کی معافی بھی مانگتا۔ بعض روایات میں ہے کہ ساری چھوڑ دیتا۔ اور صرف ایک مچھلی کے پھنسنے پر جال سمیٹتا۔ اگر زیادہ پھنس جاتی تو ایسی جگہ جا کر جال لگاتا۔ جہاں کسی بھولی بھٹکی مچھلی کے آنے ہی کا امکاں ہوتا۔ مچھلی لا کر اپنی بیوی کے حوالے کرتا۔ ماں باپ بہن بھائیوں کا ذکر اس حکایت میں اضافی ہے۔ اور غالب گمان ہے کہ بچوں کے بغیر بھی حکایت چل سکتی ہے۔
تو ایسی ہی اک شام میں جب وہ اپنی شکاری طبیعت کی بےچینی دور کر کے اک عدد مچھلی کا شکار کرنے کے بعد گھر لوٹا۔ تو حسب عادت یا حسب روایت یا حسب حکایت مچھلی اپنی بیوی کے ہاتھ پر رکھی۔ اور کمر سیدھی کرنے کو دراز ہوگیا۔ بیوی جب مچھلی کاٹ رہی تھی تو اس نے مچھلی کے پیٹ میں اک چمکتا دمکتا موتی دیکھا۔ یہ موتی دیکھتے ہی بیوی کی باچھیں کھل گئیں۔ بچپن میں سنی تمام کہانیاں پردہ ذہن پر رقصاں ہوگئیں۔ جن میں یونہی کسی غریب آدمی کے ہاتھ خزانہ لگتا تھا۔ اور وہ بادشاہ بن بیٹھتا تھا۔ خزانے کے ساتھ ہی اسے سپہ سالاری اور حکومت کرنے کے گر پتا نہیں کہاں سے ہاتھ لگ جاتے تھے۔ لیکن بات پھر وہی کہ جناب ہم کو ان باتوں سے کیا لینا دینا۔۔۔۔
موتی دیکھ کر مچھیرے کی بیوی اپنی خوشی پر قابو نہ رکھ سکی۔ اور چلائی۔ اؤے مچھیرے۔۔۔ پھر اسے خیال آیا کہ اگر وہ امیر ہوگئی تو یہ زبان اشرافیہ میں معیوب و معتوب ٹھہرے گی۔ اس خیال کے آتے ہی اس نے اپنی پکار میں تبدیلی پیدا کی۔ اور چلائی۔
سرتاج ، سرتاج
دیکھیے تو ذرا، ادھر آئیے۔۔۔ آج مچھلی کے شکم سے کیا برآمد ہوا ہے۔ بتاؤ تو سہی۔ ذرا بوجھو تو سہی۔۔۔ اک چمکتا دمکتا موتی۔۔۔ آج کے دور کی کوئی فلمی قسم کی بیوی ہوتی تو گانا گانے دریا پر نکل جاتی۔ لیکن یہ اک پرانی کہانی ہے۔ شاید گانا بھی ابھی ایجاد نہ ہوا تھا۔
موتی دیکھ کر مچھیرا بھی خوشی سے اچھلنے لگا۔ اور کہنے لگا۔ میری پیاری مچھیرنی۔۔۔ اوہ معذرت میری پیاری بیوی۔۔۔ میرے برے ہی برے وقتوں کی ساتھی۔۔۔ لگتا ہے کہ آج قسمت سے وہ دن آگیا ہے۔ جس کے لیے میں نے یہ پیشہ اپنایا تھا۔ میں جاتا ہوں۔ اور موتی کو بیچ کر کچھ اور کھانے پینے کا سامان لاتا ہوں۔ میرا خیال ہے کہ ہمارے دن پھرنے کا وقت آگیا ہے۔
مچھیرے کی بیوی نے کہا۔ کہ پرانی کہانیوں میں اس طرح کی باتوں کو چھپایا جاتا تھا۔ سو آپ بھی خاموشی سے پہلے اس کی قیمت کا اندازہ لگوا آؤ۔ یہ نہ ہو دن پھرنے سے پہلے ڈاکو پھر جائیں یہاں سے۔۔۔
مچھیرے نے موتی کو سنبھال کر تھاما۔ اور گاؤں کے سنار کے پاس جاپہنچا۔۔ سنار نے موتی کو اچھی طرح پرکھا۔ پہلے تو اس کے دل میں بےایمانی آئی کہ اس کو تھوڑی سی قیمت دے کر یہ چیز اپنے قبضے میں کر لوں۔ مگر پھر ساتھ ہی خیال آیا کہ اب اپنی ساری عمر گزار چکاہوں۔ یہ جو چند روپے بےایمانی سے کما لوں گا تو بلا وجہ اپنی قبر کو کیڑوں سے بھروں گا۔ اس نے مچھیرے سے کہا کہ بھائی بات یہ ہے کہ اپنی اتنی پسلی نہیں کہ یہ موتی خرید سکیں۔ تم ایسا کرو۔۔ کہ اس کو شہر کے کسی سنار کے پاس لے جاؤ۔ شاید وہ اس کی قیمت ادا کرنے میں کامیاب ہوجائے۔ یہ چیز بہت نایاب اور قیمتی ہے۔ دھیان سے جانا۔ اور دیکھو ٹھگے نہیں جانا۔ اللہ تمہارا حامی و ناصر ہو۔
مچھیرا اب موتی کو لے کر شہر میں سب سے امیر و کبیر سنار کے پاس جا پہنچا۔ اور اس کو موتی دکھایا۔ لیکن قصہ نہ بتایا۔ سنار نے موتی دیکھا۔ اور پھر مچھیرے کو۔ تو اس کے دل میں بےایمانی آگئی۔ اس نے کہا کہ میں اس سے اونے پونے دام خرید لیتا ہوں۔ اور بادشاہ سے منہ مانگا انعام پاؤں گا۔ اس نے مچھیرے کو کہا کہ ایسی تو کوئی خاص بات نہیں۔ خیر میں تمہیں اس کی اتنی قیمت ادا کردیتا ہوں۔ اب مچھیرا جو عرصہ سے مچھلیاں پکڑ پکڑ کر مچھلی شناس ہو چکا تھا۔ سمجھ گیا۔ کہ سنار اس کو بھی مچھلی سمجھ رہا ہے۔ کہنے لگا۔ نہیں میں یہ موتی نہیں بیچوں گا۔ اور وہاں سے نکل کر سیدھا بادشاہ کے محل جا پہنچا۔
بادشاہ کے محل میں پہنچ کر مچھیرے نے بوجہ واقفیتِ مؤرخانہ کے سبب، سب سے پہلے جان کی امان چاہی۔ جب اس بات پر یقین آگیا کہ بادشاہ نہیں مارے گا۔ تو سارا قصہ کہہ سنایا۔ اور موتی بھی بادشاہ کی خدمت میں پیش کر دیا۔
پرانے زمانے میں بادشاہ بھلے کوئی بھی بن جائے۔ لیکن جیسے ہی وہ بادشاہ بنتا، اس کو نجوم، سپہ گری ، قیافہ شناسی اور یہاں تک کہ جوہری ہونے پر بھی مکمل دسترس خود بخود حاصل ہوجاتی۔ سو یہی معاملہ اس بادشاہ کے ساتھ تھا۔ موتی دیکھ کر ہی بھانپ گیا کہ کوئی عدیم المثال قسم کی چیز ہے۔ اور دوبارہ ہاتھ نہیں آنے والی۔ فورا کہنے لگا۔ کہ میاں مچھیرے! اس موتی کی قیمت تو بہت زیادہ پاتے ہیں۔ کہ یہ اک بہت ہی نایاب چیز ہے۔ لیکن قصہ کچھ یوں ہے کہ تم خزانے میں چلے جاؤ۔ اور اک وقت مقرر کر دیا کہ اس دوران جو بھی اٹھانا چاہو۔ اٹھا سکتے ہو۔
مچھیرے نے فورا اک چھکڑا خریدا۔ اور اس کو لے کر شاہی خزانے میں داخل ہوگیا۔ جو چیز ہاتھ آئی۔ اٹھا اٹھا کر چھکڑے پر لادتا گیا۔ پرانی روایتوں میں آتا ہے کہ وہ کھانے پینے میں مشغول ہوگیا۔ لیکن یاد رہے کہ بادشاہ نے اس کو خزانے کا راستہ دکھایا تھا نہ کہ باورچی خانے یا پھر آرام گاہ کا۔ وقت مقررہ تک مچھیرا کافی لوٹ مار کر چکا تھا۔

وہاں سے نکل کر وہ اپنے علاقے میں واپس آگیا۔ جب ذرا غم روزگار سے فرصت ملی۔ تو دین کی طرف بھی راغب ہوا۔ بہت سے نیک کام کروائے۔ کہتے ہیں کہ اس کا لنگر ہر وقت چلتا تھا۔ جبکہ بعض متعصب مؤرخوں کے مطابق اس نے جال کرایے پر دینے کا کام بھی شروع کر دیا۔ اور بہت سے ملازم مچھیرے رکھ لیے۔ یوں وہ مچھلی منڈی کا سب سے بڑا تاجر بن گیا۔۔۔واللہ اعلم

حکایت اور کہانی اب یہاں ختم ہوگئی ہے۔ اور اس سے آگے کوئی سبق نہیں۔ جو کچھ تھا اس میں ہی تھا۔ اب بھی اگر اخد نہیں کیا تو بس پھر الگ سے لکھنا بھی بیکار ہی ہے۔۔۔ :p
 

نیرنگ خیال

لائبریرین
شکریہ منے :)


واہ فاتح بھائی۔۔ بہت شکریہ :)


شکراً :)


فنٹاسٹک ہی بہترین تبصرہ ہے :)
آپ کے طعنہ زن ہونے پر ہی حکایات کا کام دوبارہ شروع کیا ہے۔۔۔ :)


بہت خوب لکھا ہے محترم خیال بھائی
شکریہ نایاب بھائی۔۔۔۔ خوشی ہوئی جو تحریر معیار پر پہنچی :)


بہت عمدہ ۔ مزیدار مزیدار
واہ وا نیرنگ خیال بھائی آپ کی نیرنگیِ خیال کے کیا کہنے۔
واہ استاد محترم۔۔۔ بہت بہت شکریہ :)


شکریہ :p


شاندار، پھر سے پڑھوں گا۔

شمشاد بھائی اس جملے سے تو بہت خوشی ہوئی۔۔۔ بہت بہت شکریہ :)
 

غدیر زھرا

لائبریرین
بہت زبردست لکھا بھیا :thumbsup:
خاص طور پر یہ فقرہ بہت پسند آیا کیا پوائنٹ نکالا ہے :) "لیکن جیسے ہی وہ بادشاہ بنتا، اس کو نجوم، سپہ گری ، قیافہ شناسی اور یہاں تک کہ جوہری ہونے پر بھی مکمل دسترس خود بخود حاصل ہوجاتی۔"
اسے پڑھ کر پنجابی کا ایک محاورہ یاد آ گیا "جِنہاں دے گھر دانے، اُنہاں دے کملے وی سیانے" :p
 

الشفاء

لائبریرین
واہ جی۔ یہاں تو ہیپی اینڈینگ ہوئی ہے مچھیرے کی۔۔۔
اب تو سارے مچھیرے اپنی حکایت لکھوانے کے لئے نیلم بہن کی بجائے آپ کا رخ کریں گے۔۔۔:p
 
زبردست
اس میں سب سے اچھی بات یہ تھی کہ آخر میں کوئی سبق نہیں تھا
بیچ میں چھوٹے چھوٹے اسباق تھے
لگے رہو نینی (y)



ہم بھی بسندِ آسکر وائلڈ اس بات کی تائید کرتے ہیں کہ سب سے اچھی بات اس کہا نی میں یہ تھی کہ آخر میں کوئی سبق نہیں تھا۔
ورنہ اگر آخر میں کوئی سبق ہوتا تو ہم بھی آسکر وائلڈ کی کہانی ’’ وفادار دوست‘‘ کے پانی کے چوہے کی طرح ’’ پوہ!‘‘ کہتے اور بس۔:)

یوں بھی آسکر وائلڈ بزبانِ چوہا کہتے ہیں کہ ’’ آج کل کا ہر اچھا کہانی کار کہانی کے انجام سے شروع کرتا ہے، اور پھر آغاز پر پہنچتا ہے اور بالآخر کہانی کو درمیان میں ختم کرتا ہے۔ یہی نیا طریقہ ہے۔ میں نے ایک دن یہی بات ایک نقاد سے سنی جو ایک نوجوان کے ساتھ دریا کے کنارےٹہل لگارہا تھا۔ اس نے اس موضوع پر بہت دیر تک تقریر کی اور مجھے یقین ہے کہ وہ درست ہی کہہ رہا ہوگا، اس لیے کہ وہ نیلی عینک پہنے ہوئے تھا اور ایک عدد گنجے سرکا مالک تھا اور جیسے ہی نوجوان شخص کوئی نکتہ بیان کرتا ،وہ فوراً ہی جواب میں کہتا ’ پوہ!‘ ‘‘:LOL::LOL::LOL:
 

نیرنگ خیال

لائبریرین
بہت زبردست لکھا بھیا :thumbsup:
خاص طور پر یہ فقرہ بہت پسند آیا کیا پوائنٹ نکالا ہے :) "لیکن جیسے ہی وہ بادشاہ بنتا، اس کو نجوم، سپہ گری ، قیافہ شناسی اور یہاں تک کہ جوہری ہونے پر بھی مکمل دسترس خود بخود حاصل ہوجاتی۔"
اسے پڑھ کر پنجابی کا ایک محاورہ یاد آ گیا "جِنہاں دے گھر دانے، اُنہاں دے کملے وی سیانے" :p
ہاہاہاہا غدیر یہ تو بالکل ٹھیک کہا۔۔۔ پر یہ مثال بس بادشاہوں تک ہی محدود ہے۔ اور مجھے اس پر بہت اعتراض ہے کہ بادشاہ بنتے ہی وہ ایسے ایسے فنون میں طاق ہوجاتا جن کے کوسوں دور سے وہ ساری زندگی نہ گزرا ہوتا تھا۔ یہ حکایات لکھنے والے بھی کمال کرتے ہیں :)
اور بہت شکریہ تحریر کو پسندیدگی سے نوازنے پر :)


واہ جی۔ یہاں تو ہیپی اینڈینگ ہوئی ہے مچھیرے کی۔۔۔
اب تو سارے مچھیرے اپنی حکایت لکھوانے کے لئے نیلم بہن کی بجائے آپ کا رخ کریں گے۔۔۔ :p
مچھیرے رخ کریں نہ کریں۔۔۔ ہم خود ہی کسی حکایت کا رخ کر لیں گے۔ آخر کو ہم خود مختار ہیں۔۔۔۔ :p


زبردست
اس میں سب سے اچھی بات یہ تھی کہ آخر میں کوئی سبق نہیں تھا
بیچ میں چھوٹے چھوٹے اسباق تھے
لگے رہو نینی (y)
ہاہاہاہاہا۔۔۔ بہت شکریہ باباجی۔۔۔۔ :p


بیچارہ مچھیرا نین کی نیرنگیوں کا شکا ہوگیا
بہت عمدہ ایک بلاشبہ ماسٹر پیس:applause:

بہت شکریہ جٹا۔۔۔۔ توصیفی کلمات سے نوازنے پر :)
 

فارقلیط رحمانی

لائبریرین
نیرنگ خیال صاحب!
السلام علیکم!
فکر تجربی پڑھنے کے بعد بھی اگر آپ کی نیرنگی خیال کی داد نہ دی جائے تو بڑا ظلم ہوگا۔
ماشاء اللہ بہت خوب۔ بڑی اچھی کہانی لکھی ہے۔ لیکن صاحب ! ایک شکایت ہے۔
اور وہ یہ کہ
اس کہانی کی زبان اور اندازِ بیان دونوں سے یہ بات ثابت ہے کہ کہانی توآپ نے بچوں کے لیے لکھی ہے۔
اور عنوان فلسفیانہ رکھ دیا ۔ کیا آپ کو اس بات کا یقین ہی نہیں تھا کہ مجھ سا کوئی طفلِ مکتب بھی اِس
کہانی کو پڑھے گا۔ اَب جب کہ آپ نے عنوان رکھ ہی دِیا ہے تو ذرا اس عنوان کی وجہ تسمیہ پر روشنی
ڈالنے کی زحمت بھی فرما دیجیے۔تاکہ امتحانی پرچوں میں پوچھے جانے والے سوالات کے جواب دینا آسان
ہوجائے۔عین نوازِش ہوگی۔
 

نیرنگ خیال

لائبریرین
بہت خوب بھئی ۔۔۔ ایک عدد شاباش کے مستحق ہیں آپ ۔
عنایت کی جاتی ہے آپکو قبول کیجئے ۔اور اسی طرح لکھتے رہیئے ۔:)
شاباش کی عنایت پر ازحد تشکر۔۔۔ خوش رہیے اور اسی طرح شاباش عنایت کرتے رہیے۔۔۔ :)

نیرنگ خیال صاحب!
السلام علیکم!
فکر تجربی پڑھنے کے بعد بھی اگر آپ کی نیرنگی خیال کی داد نہ دی جائے تو بڑا ظلم ہوگا۔
ماشاء اللہ بہت خوب۔ بڑی اچھی کہانی لکھی ہے۔ لیکن صاحب ! ایک شکایت ہے۔
اور وہ یہ کہ
اس کہانی کی زبان اور اندازِ بیان دونوں سے یہ بات ثابت ہے کہ کہانی توآپ نے بچوں کے لیے لکھی ہے۔
اور عنوان فلسفیانہ رکھ دیا ۔ کیا آپ کو اس بات کا یقین ہی نہیں تھا کہ مجھ سا کوئی طفلِ مکتب بھی اِس
کہانی کو پڑھے گا۔ اَب جب کہ آپ نے عنوان رکھ ہی دِیا ہے تو ذرا اس عنوان کی وجہ تسمیہ پر روشنی
ڈالنے کی زحمت بھی فرما دیجیے۔تاکہ امتحانی پرچوں میں پوچھے جانے والے سوالات کے جواب دینا آسان
ہوجائے۔عین نوازِش ہوگی۔
استاد محترم!
وعلیکم السلام!
کہانی آپ کو پسند آئی۔ اس کے لیے صمیم قلب سے تشکر۔۔۔۔ :) اور اب بہ صمیم قلب آتے ہیں شکایت کی طرف :)
حقیقت الامر یہ ہے جناب کہ اس دھاگا میں جتنی بھی حکایات ہیں۔ وہ پہلے سے موجود حکایت کی جدید شکل ہیں۔ سو یہ حکایت بھی اس کلیہ سے مبّرا نہیں۔ انداز بیاں جو پہلے سے تھا اس کو ہی لے کر آگے بیان کر دیا۔۔ البتہ چونکہ خیالات ہمارے تھے سو کہیں رنگ تو اترا ہوگا۔ :)
اب آپ نے بات کر دی اپنے طفل مکتب ہونے کی۔۔۔ اور ساتھ ہی تاویل مانگ لی عنوان فلسفیانہ رکھنے پر۔۔۔ جو آپ کی بیان پر دسترس کی غماز ہے۔ :)
تو حکایت میں چونکہ عمومی مشاہدات کی روشنی میں نتائج کا بیان ہے۔ یا شاید میں ایسا سمجھتا ہوں۔ سو اسی غرض سے عنوان یہ رکھا۔ جو موضوع کی عکاسی کر سکے۔
مزید گر آپ کوئی اس بابت رہنمائی فرما کر توقیر میں اضافہ فرمائیں تو تشکر۔۔۔ :)
گر قبول افتد زہے عزوشرف
 
Top