بارے نقشے کے کچھ معلومات درکار ہیں

’’ٓآدھی رات کا سورج‘‘ ۔۔۔ ۔
کسی انسائیکلوپیڈیا میں پڑھا تھا کہ قطب شمالی کے آس پاس کہیں رات ہو جاتی ہے، تو سورج نصف شب کے قریب پھر نکلتا ہے اور ایک آدھ ساعت بعد غروب ہو جاتا ہے، پھر معمول کے مطابق مشرق سے طلوع ہوتا ہے ؟؟؟؟؟؟؟۔

کسی دوست کو اس کے بارے میں علم ہو تو یہاں ضرور شیئر کریں۔ بہت نوازش۔


جناب قیصرانی ، جناب انعام جی ، جناب خرم شہزاد خرم ، جناب الف عین

قیصرانی صاحب نے جواب دے دیا ہے مزید یہ کہ قطب شمالی کے علاقے ایسے ہیں جہاں موسم گرم میں سورج غروب ہی نہیں ہوتا جیسا کہ ناروے میں Svalbard, کے مقام پر اخیر اپریل تا اخیر اگست۔یہی حالت قطبین کے اور مقامات کی بھی ہے۔ اور الاسکا میں ایسا بھی ہوتا ہے کہ سورج دس گیارہ بجے تک غروب ہی نہیں ہوتا اور پھر ایک آدھے گھنٹے بعد دوبارہ طلوع ہو جاتا ہے۔
ا
 

شمشاد

لائبریرین
ان علاقوں کے متعلق غالباً مستنصر حسین تارڑر نے لکھا تھا کہ عجیب ملک ہے وہاں بچہ پیدا ہوتا ہے اور چودہ پندرہ دنوں میں بالغ ہو جاتا ہے اور بیس بائیس دن کا ہوتا ہے تو اس کی شادی کر دیتے ہیں۔
 
پلوٹو کی سرگزشت جناب قیصرانی صاحب سے ہم تک پہنچی (جواب نمبر 117)۔
حسابات کی اغلاط کے باوجود، یہ امر قابلِ ذکر ہے کہ ہمارے نظامِ شمسی میں کہیں بھی کوئی تغیر رو نما ہوتا ہے تو اس کا اثر ہماری زمین تک پہنچتا ہے چاہے وہ پلوٹو سے بھی پرے ہو۔
 
زمین کا قریب ترین ہمسایہ مریخ زمین سے کسی قدر چھوٹا بتایا جاتا ہے۔ ایک سائنس دان نے (نام یاد نہیں: شاید سٹیفن ہاکنز) بظاہر بہت عجیب بات کی: ’’اگر مریخ گم ہو جائے تو زمین اپنے دَوری راستے (سورج کے گرد اپنے مدار) سے بھٹک جائے گی‘‘۔
ہمارے سورج کے گرد گھومنے والے سیارے کم و بیش ایک ہی پلین پر واقع ہیں، لہٰذا ان کے اپنے اپنے مدار پر ان کی رفتار، حجم، مقدارِ مادہ، (جس میں سورج کو مرکزی حیثیت حاصل ہے) ہماری زمین پر اثر انداز ہوتی ہے۔ سورج ہماری زمین سے تقریباً 33 لاکھ گنا بڑا ہے اور اس کی کشش پلوٹو سے بھی آگے تک مؤثر ہے۔ بہ فرضِ محال یہ کشش ایک لمحے کو معطل ہو جائے تو زمین سمیت یہ سارے سیارے خلائے بسیط میں کسی انجانے راستے پر چل نکلیں اور پھر شاید سورج کا اپنا وجود بھی خطرے میں پڑ جائے۔
 
اس وقت سورج اپنے پورے ’’خاندان‘‘ کو لے کر خلاؤں کے سفر پر تیزی سے رواں ہے۔
ایک ویب سائٹ کے مطابق:
Since the sun (and its solar system) is moving through three dimensional space, it is traveling in several directions at once. For example, the sun is moving toward the constellation of Hercules (or toward the region of Lambda Herculis) at 12 miles (20 kilometers) per second—or 45,000 miles (72,000 kilometers) per hour. At the same time, the sun is orbiting around the galactic center at about 140 miles (225 kilometers) per second.
The sun is also moving upwards, out of the plane of the Milky Way Galaxy, at a speed of 4.4 miles (7 kilometers) per second. Currently, our sun is moving outward from about 50 light-years above the galactic plane, but scientists believe the gravitational pull of the Milky Way stars will slow the sun’s escape in about 14 million years. Eventually, the sun will be pulled back into the galactic plane and then drift below it, oscillating back and forth across the plane until its demise.

Read more: http://www.answers.com/topic/how-fast-is-the-sun-moving-through-space#ixzz2HTIl5S3Z


۔۔۔۔۔۔
 
ہماری زمین اور سورج کا تعلق کچھ کچھ ایسا بھی ہے جیسا چندا ماموں اور اس کی اپیا کا ہے۔ ایک چیز اس میں جمع کر لیجئے کہ چندا ماموں زمین سے روشنی نہیں لیتے، سورج سے لے کر اپنی اپیا کی طرف بھیج دیتے ہیں۔ جب کہ زمین کی اپنی توانائیوں کا کثیر حصہ سورج سے ملنے والے عظیم تحفے ’’دھوپ‘‘ کا مرہونِ منت ہے۔ تبھی تو زمین سورج کے گرد ایک بڑے دائرے میں رقصاں ہے۔ اس دائرے کا اوسط رداس نو کروڑ میل ہے۔
زمین کے مختلف رقص اور ان کی تفصیل پھر کبھی سہی، فی الحال یہ دیکھتے ہیں کہ زمین سورج کے گرد کس رفتار سے بھاگ رہی ہے۔
ایک اور ویب سائٹ کے مطابق:
We also know that the time it takes for the Earth to go once around the Sun is 1 year. So in order to know the speed we just have to figure out the distance traveled by the Earth when it goes once around the Sun. To do that we will assume that the orbit of the Earth is circular (which is not exactly right, it is more like an ellipse, but for our purpose it will do just fine). So the distance traveled in one year is just the circumference of the circle. (remember that the circumference of a circle is equal to 2*pi*Radius)
The average distance from the Earth to the Sun is 149,597,890 km. Therefore in one year the Earth travels a distance of 2*Pi*(149,597,890)km. This means that the velocity is about:
velocity=2*Pi*(149,597,890)km/1 year
and if we convert that to more meaningful units (knowing there is 365 days in a year, and 24 hours per day) we get:
velocity=107,300 km/h (or if you prefer 67,062 miles per hour)
So the Earth moves at about 100,000 km/h around the Sun (which is 1000 times faster than the speeds we go at on a highway!)



۔۔۔۔۔۔
 
چاند زمین کے گرد گھوم رہا ہے اور زمین سورج کے گرد، سورج اپنے ’’خاندان‘‘ کے دوسرے افراد (عطارد، زہرہ، مریخ اور اس کے چاند، مشتری، زحل اور اس کے چاند، نیپچون پلوٹو اور دو جڑواں بچے ان کا نام کوئی نہیں نمبر ہے) سمیت ہمیں لے کر خلا میں ایک طرف 12 کلومیٹر فی سیکنڈ اور دوسری طرف 7 کلومیٹر فی سیکنڈ (ملا جلا 14 کلومیٹر فی سیکنڈ) کے حساب سے بھاگا جا رہا ہے۔
اس 14 کلومیٹر فی سیکنڈ میں زمین کا سورج کے گرد گھومنا )تقریباً 30 کلومیٹر فی سیکنڈ) اور چاند کا زمین کے گرد گھومنا (تقریباً 1 کلومیٹر فی سیکنڈ)!!! یہ بھی شامل کر لیجئے! ۔۔۔۔۔۔۔۔ سچی بات ہے کہ دماغ بھی گھومنے لگتا ہے۔

مختصراً (موٹے موٹے حساب میں) زمین خلا میں سورج کے ساتھ ساتھ فی سیکنڈ ساڑھے بتیس کلومیٹر کے حساب سے بھاگ رہی ہے۔ یعنی ایک لاکھ سترہ ہزار کلومیٹر فی گھنٹہ!! اس جناتی دوڑ میں ہم اس زمین پر پورے سکون اور اطمینان سے چلتے پھرتے مکان بناتے ہیں، فصلیں اگاتے ہیں، اور جملہ اقسام کے اچھے برے کام انجام دیتے پھر رہے ہیں!!!۔

جناب الف عین ، محمد وارث ، مدیحہ گیلانی ، شمشاد ، قیصرانی ، انعام جی ، اور دیگر احباب۔

اللہ رب کریم کے رحمان اور رحیم ہونے کا یہی ایک مظہر کافی نہیں کیا؟ توجہ فرمائیے گا!!
 

قیصرانی

لائبریرین
کائنات کی وسعتیں تو اپنی جگہ، اگر ہم اپنی کہکشاں دیکھیں تو اس اتنی گہرائی ہے کہ عقل دنگ رہ جاتی ہے۔ ابھی کل ہی کی خبر ہے کہ ہماری اپنی کہکشاں میں موجود زمین کے برابر حجم والے سیاروں کی تعداد سترہ ارب ہے۔ چند سال قبل تک یہ کہنا بھی مشکل تھا کہ آیا دیگر ستاروں کے سیارے بھی ہو سکتے ہیں

واضح رہے کہ ہماری کہکشاں میں موجود ستاروں کی تعداد ایک سو سے چار سو ارب یعنی ایک سے چار کھرب کے درمیان ہے۔ یہ محض اندازہ ہے۔ جس میں کمی بیشی کے امکانات موجود ہیں۔ اس کی موٹائی ایک ہزار نوری سال کے برابر ہے اور اگر ایک کنارے سے دوسرے کنارے تک جانا چاہیں تو ہمیں روشنی کی رفتار سے چلتے ہوئے ایک لاکھ سے ایک لاکھ بیس ہزار سال لگیں گے یعنی ایک لاکھ سے ایک لاکھ بیس ہزار نوری سال

اگر مقابلہ کرنا چاہیں تو دیکھیں کہ انسان کی بنی ہوئی چیز جنہیں ہم وائجر اول اور وائجر دوم کے نام سے جانتے ہیں، اس وقت ہمارے نظام شمسی کے کنارے پر پہنچنے والے ہیں۔ اس جگہ کو ہیلیئو شیتھ کہتے ہیں۔ ابتداء میں ان کی رفتار کم تھی لیکن گریوٹی اسسٹ نامی تکنیک کی مدد سے ان کی رفتار بڑھائی گئی تھی اور اب یہ 35000 میل فی گھنٹہ کی رفتار سے بڑھے جا رہے ہیں۔ 1977 سے اب تک اور زیادہ تر وقت اسی رفتار سے حرکت کرتے ہوئے یہ سیارچے زمین سے 16 گھنٹے کے نوری فاصلے پر پہنچ گئے ہیں۔ یعنی انسانی تیار کردہ مشین جس کی رفتار اگر اوسطاً 30000 میل فی گھنٹہ شمار ہو، 1977 سے اب تک محض اتنی دور پہنچی ہے جو روشنی سولہ گھنٹے میں طے کرتی ہے۔ اس سے اندازہ لگائیے کہ شمسی فاصلے کتنے بڑے ہیں۔ نزدیک ترین ستارہ، شاید جسے قنطورس اول کہتے ہیں، بھی چار نوری سال کے فاصلے پر موجود ہے :)
 

قیصرانی

لائبریرین
حسابات کی اغلاط کے باوجود، یہ امر قابلِ ذکر ہے کہ ہمارے نظامِ شمسی میں کہیں بھی کوئی تغیر رو نما ہوتا ہے تو اس کا اثر ہماری زمین تک پہنچتا ہے چاہے وہ پلوٹو سے بھی پرے ہو۔
بالکل سو فیصد بجا کہا۔ ابھی جتنے بھی نئے سیارے دریافت ہو رہے ہیں، ان میں سے شاید ہی کسی کا براہ راست مشاہدہ ہوا ہو۔ بالواسطہ مشاہدہ کر کے ان کے سورجوں پر پڑنے والے ذیلی اثرات کا جائزہ لیتے ہوئے ان سیاروں کی موجودگی کا تیقن کیا جاتا ہے
 
کائنات کی وسعتیں تو اپنی جگہ، اگر ہم اپنی کہکشاں دیکھیں تو اس اتنی گہرائی ہے کہ عقل دنگ رہ جاتی ہے۔ ابھی کل ہی کی خبر ہے کہ ہماری اپنی کہکشاں میں موجود زمین جیسے سیاروں کی تعداد سترہ ارب ہے۔ چند سال قبل تک یہ کہنا بھی مشکل تھا کہ آیا دیگر ستاروں کے سیارے بھی ہو سکتے ہیں

واضح رہے کہ ہماری کہکشاں میں موجود ستاروں کی تعداد ایک سو سے چار سو ارب یعنی ایک سے چار کھرب کے درمیان ہے۔ یہ محض اندازہ ہے۔ جس میں کمی بیشی کے امکانات موجود ہیں۔ اس کی موٹائی ایک ہزار نوری سال کے برابر ہے اور اگر ایک کنارے سے دوسرے کنارے تک جانا چاہیں تو ہمیں روشنی کی رفتار سے چلتے ہوئے ایک لاکھ سے ایک لاکھ بیس ہزار سال لگیں گے یعنی ایک لاکھ سے ایک لاکھ بیس ہزار نوری سال

اگر مقابلہ کرنا چاہیں تو دیکھیں کہ انسان کی بنی ہوئی چیز جنہیں ہم وائجر اول اور وائجر دوم کے نام سے جانتے ہیں، اس وقت ہمارے نظام شمسی کے کنارے پر پہنچنے والے ہیں۔ اس جگہ کو ہیلیئو شیتھ کہتے ہیں۔ ابتداء میں ان کی رفتار کم تھی لیکن گریوٹی اسسٹ نامی تکنیک کی مدد سے ان کی رفتار بڑھائی گئی تھی اور اب یہ 35000 میل فی گھنٹہ کی رفتار سے بڑھے جا رہے ہیں۔ 1977 سے اب تک اور زیادہ تر وقت اسی رفتار سے حرکت کرتے ہوئے یہ سیارچے زمین سے 16 گھنٹے کے نوری فاصلے پر پہنچ گئے ہیں۔ یعنی انسانی تیار کردہ مشین جس کی رفتار اگر اوسطاً 30000 میل فی گھنٹہ شمار ہو، 1977 سے اب تک محض اتنی دور پہنچی ہے جو روشنی سولہ گھنٹے میں طے کرتی ہے۔ اس سے اندازہ لگائیے کہ شمسی فاصلے کتنے بڑے ہیں۔ نزدیک ترین ستارہ، شاید جسے قنطورس اول کہتے ہیں، بھی چار نوری سال کے فاصلے پر موجود ہے :)


یہ بھی دیکھئے
 

شمشاد

لائبریرین
موضوع سے متعلقہ یہ خبر بی بی سی پر نظر سے گزری :

زمین کے برابر حجم کے سترہ ارب سیارے
آخری وقت اشاعت : منگل 8 جنوری 2013، PST 14:26 09:26 GMT

ماہرین فلکیات کا کہنا ہے کہ ہماری کہکشاں میں زمین کے برابر حجم کے سترہ ارب سیارے پائے جاتے ہیں اور ہر چھ ستاروں میں سے ایک کے مدار میں ایسا ایک سیارہ گردش کر رہا ہے۔
یہ نتائج کیپلر خلائی دور بین سے حاصل شدہ ڈیٹا میں ایسے اجرامِ فلکی کے تجزیے کے بعد سامنے آئے ہیں جو ممکنہ طور پر سیارے ہو سکتے ہیں۔
کیپلر ٹیم نے مکمل تجزیے کے بعد چار سو اکسٹھ نئے سیاروں کی دریافت کی تصدیق کی ہے جس کے بعد دریافت شدہ سیاروں کی تعداد دو ہزار سات سو چالیس تک پہنچ گئی ہے۔
ان نتائج کا اعلان کیلیفورنیا میں امریکی فلکیاتی سوسائٹی کے دو سو اکیسویں سالانہ اجلاس میں کیا گیا۔
---------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------

ربط
 
چاند زمین کے گرد گھوم رہا ہے اور زمین سورج کے گرد، سورج اپنے ’’خاندان‘‘ کے دوسرے افراد (عطارد، زہرہ، مریخ اور اس کے چاند، مشتری، زحل اور اس کے چاند، نیپچون پلوٹو اور دو جڑواں بچے ان کا نام کوئی نہیں نمبر ہے) سمیت ہمیں لے کر خلا میں ایک طرف 12 کلومیٹر فی سیکنڈ اور دوسری طرف 7 کلومیٹر فی سیکنڈ (ملا جلا 14 کلومیٹر فی سیکنڈ) کے حساب سے بھاگا جا رہا ہے۔
اس 14 کلومیٹر فی سیکنڈ میں زمین کا سورج کے گرد گھومنا )تقریباً 30 کلومیٹر فی سیکنڈ) اور چاند کا زمین کے گرد گھومنا (تقریباً 1 کلومیٹر فی سیکنڈ)!!! یہ بھی شامل کر لیجئے! ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔ سچی بات ہے کہ دماغ بھی گھومنے لگتا ہے۔

مختصراً (موٹے موٹے حساب میں) زمین خلا میں سورج کے ساتھ ساتھ فی سیکنڈ ساڑھے بتیس کلومیٹر کے حساب سے بھاگ رہی ہے۔ یعنی ایک لاکھ سترہ ہزار کلومیٹر فی گھنٹہ!! اس جناتی دوڑ میں ہم اس زمین پر پورے سکون اور اطمینان سے چلتے پھرتے مکان بناتے ہیں، فصلیں اگاتے ہیں، اور جملہ اقسام کے اچھے برے کام انجام دیتے پھر رہے ہیں!!!۔

جناب الف عین ، محمد وارث ، مدیحہ گیلانی ، شمشاد ، قیصرانی ، انعام جی ، اور دیگر احباب۔

اللہ رب کریم کے رحمان اور رحیم ہونے کا یہی ایک مظہر کافی نہیں کیا؟ توجہ فرمائیے گا!!
منہ کُھلا کا کُھلا رہ گیا !
 
Top