حسان خان

لائبریرین
از شرابِ نابِ ساقی چوں طہارت کردہ ام
از ہمہ خبث و خباثت در اماں خواہم شدن
(حافظِ ہندی)

میں نے چونکہ ساقی کی شرابِ ناب سے طہارت کی ہے اس لیے میں تمام ناپاکیوں سے محفوظ ہو جاؤں گا۔
 

محمد وارث

لائبریرین
گریزد از صفِ ما ہر کہ مردِ غوغا نیست
کسے کہ کشتہ نشد از قبیلہٴ ما نیست

نظیری نیشاپوری

ہر وہ کہ جو ظلم کے خلاف احتجاج اور فریاد کرنے کی ہمت نہیں رکھتا ہماری صفوں سے چلا جائے کہ جو جان نہ دے وہ ہمارے قبیلے میں سے نہیں ہے۔
 

حسان خان

لائبریرین
شبِ تاریک و بیمِ موج و گِردابی چنین هایل
کجا دانند حالِ ما سبک‌بارانِ ساحل‌ها؟
(حافظ شیرازی)

شبِ تاریک، خوفِ موج اور ایک ایسا ہولناک گِرداب۔۔۔۔ ساحلوں پر موجود سَبُک بار افراد ہمارا حال کہاں جانیں؟
× سَبُک بار = وہ شخص جس کے شانوں پر بار سَبُک (ہلکا) ہو

یہ کالی رات، طوفاں سر پہ، منہ پھاڑے بھنور آگے
دل اس بِپتا کو جانے کیا سبکبارانِ ساحل کا
(مولوی احتشام الدین حقی)
 
آخری تدوین:

سید عاطف علی

لائبریرین
شبِ معراج عروجِ تو از افلاک گزشت
بمقامے کہ رسیدی ۔ ۔۔نہ رسد ہیچ نبی
مدحِ رسول صلی اللہ تعالےعلیہ وسلم میں غالباۛ حافظ کا شعر ہے۔
اس پر والد صاحب کی ایک نعتیہ تضمین بھی یاد آرہی ہے۔
آسمانوں سے بلند آج تری جلوہ گری
بمقامے کہ رسیدی ۔ نہ رسد ہیچ نبی
 

سید عاطف علی

لائبریرین
سراب تشنہ‌لباں را کند بیابا ں مرگ
خوشا دلے کہ بہ دنبا ل آرزو نہ رود ۔۔۔۔ (صائب)
سراب پیاس کے ماروں کو اجل بن جاتی ہے۔
شاباش اے وہ دل جو خواہش کے پیچھے نہیں رہتا۔
 
جناب محمد وارث اور دیگر فارسی دوست احباب کی توجہ درکار ہے۔
میرزا غالب کی فارسی مثنوی ’’چراغِ دَیر‘‘ مطبوعہ صورت میں یا انٹرنیٹ پر کہیں دستیاب ہے؟ پاکستان میں تو اپنی سی کوشش کر چکا۔ اعجاز عبید صاحب کوئی اتہ پتہ بتا سکتے ہیں؟
بہت نوزش!۔
 

محمد وارث

لائبریرین
جناب محمد وارث اور دیگر فارسی دوست احباب کی توجہ درکار ہے۔
میرزا غالب کی فارسی مثنوی ’’چراغِ دَیر‘‘ مطبوعہ صورت میں یا انٹرنیٹ پر کہیں دستیاب ہے؟ پاکستان میں تو اپنی سی کوشش کر چکا۔ اعجاز عبید صاحب کوئی اتہ پتہ بتا سکتے ہیں؟
بہت نوزش!۔

انٹرنیٹ پر تو شاید نہ ہو آسی صاحب، میں کلیات غالب فارسی دیکھنے کی کوشش ضرور کرونگا۔
 

محمد وارث

لائبریرین
تو نظر باز نہ ای، ورنہ تغافل نگہ ست
تو زباں فہم نہ ای، ورنہ خموشی سخن است

ظہوری ترشیزی

تو ہی نظر باز نہیں ورنہ (جان جاتا کہ اسکا) تغافل ہی نگاہ ہے، تو ہی زبان فہم نہیں ہے ورنہ (سمجھ جاتا کہ اسکی) خاموشی ہی سخن ہے۔
 

محمد وارث

لائبریرین
مستِ تو ام از بادہ و جام آزادم
صیدِ تو ام از دانہ و دام آزادم
مقصودِ من از کعبہ و بتخانہ تویی
ورنہ من از ایں ہر دو مقام آزادم

رباعی از صوفی ابواسماعیل عبداللہ انصاری ہروی

میں فقط تیرا ہی مست ہو سو شراب و جام سے آزاد ہوں، میں تو تیرا ہی صید ہوں اور دانہ و دام سے آزاد ہوں۔ کعبے اور بتخانے میں میرا مقصود تو ہی ہے وگرنہ میں ان دونوں مقامات سے آزاد ہوں۔
 

طارق حیات

محفلین
محترم جناب محمد حارث اور جناب سید عاطف صاحب، آپکی کی شیئر کی ہوئی فارسی تراجم کا شدت سے انتظار رھتا ہے۔ امید کے یہ سلسلہ جاری و ساری رہے۔
 

محمد وارث

لائبریرین
چشمے دارم ہمہ پُر از صورتِ دوست
بادیدہ مرا خوش است چوں دوست درُوست
از دیدہ و دوست فرق کردن نہ نکوست
یا اُوست درونِ دیدہ یا دیدہ خود اُوست

رباعی از ابوحامد اوحدالدین معروف بہ اوحدی کرمانی

میری آنکھوں میں ہر وقت دوست کی صورت ہی بسی ہوئی ہے، سو میں خوش ہوں کہ میری آنکھوں میں دوست بستا ہے۔ آنکھوں اور دوست میں تفریق کرنا کسی کام کا نہیں کیونکہ یا تو وہ آنکھوں میں بستا ہے یا وہ خود ہی آنکھیں ہے۔
 

سید عاطف علی

لائبریرین
رفتم کہ خار از پا کشم ۔ محمل نہاں شد از نظر
یک لحظہ غافل گشتم و ۔ صد سالہ راہم دور شد
چلتے ہوئے ایک کانٹا نکالنے کے کیے ایک لمحے کے لیے ٹہرا اور محمل نگاہ سے اوجھل ہو گیا ۔
میرا ایک لمحے کا غافل ہونے نے مجھے سو سالوں کی مسافت پیچھے کر دیا ۔
یہ شعر کئی طرح لکھا اور پڑھا جاتا ہے۔ نہ جانے اس کی اصلی صورت کون سی ہے۔اور کس کا ہے ۔والد صاحب اسی طڑح پڑھتے تھے۔نازکی سے مضمون عرفی کاسا لگتا ہے۔ممکن ہےکسی اور کا ہو۔لیکن نزاکت کا کمال طاق ہے۔ :)
 

حسان خان

لائبریرین
رفتم کہ خار از پا کشم ۔ محمل نہاں شد از نظر
یک لحظہ غافل گشتم و ۔ صد سالہ راہم دور شد
چلتے ہوئے ایک کانٹا نکالنے کے کیے ایک لمحے کے لیے ٹہرا اور محمل نگاہ سے اوجھل ہو گیا ۔
میرا ایک لمحے کا غافل ہونے نے مجھے سو سالوں کی مسافت پیچھے کر دیا ۔
یہ شعر کئی طرح لکھا اور پڑھا جاتا ہے۔ نہ جانے اس کی اصلی صورت کون سی ہے۔اور کس کا ہے ۔والد صاحب اسی طڑح پڑھتے تھے۔نازکی سے مضمون عرفی کاسا لگتا ہے۔ممکن ہےکسی اور کا ہو۔لیکن نزاکت کا کمال طاق ہے۔ :)


یہ بہت ہی مشہور شعر ہے عاطف بھائی۔ اب اس کی بارے میں تو کوئی استاد ہی مصدقہ طور پر بتا سکتا ہے کہ یہ کس کا شعر ہے، لیکن لغتنامہ دہخدا کے مطابق یہ کسی 'ملک قمی' کا شعر ہے۔

http://www.vajehyab.com/dehkhoda/محمل
 

سید عاطف علی

لائبریرین
جی برادر حسان ۔۔۔۔ ملک قمی صاحب ہی کا ہوگا۔محض شعر کے رنگ سے تو شاعر کا اندازہ نا ممکن ہی ہوگا۔ مذکورہ شعر کا ایک اور ویریئنٹ اس طرح بھی مشہور ہے
رفتم كہ خار از پا كشم ۔۔۔ محمل ز چشمم دور شد
يك لحظہ من غافل شدم ۔صد سالہ راہم دور شد
 

محمد وارث

لائبریرین
گواہ اینکہ نہ رند و نہ زاہدیم بس است
پیالہٴ تہی و سبحہٴ گسستہٴ ما

حُسین خان اسیری اصفہانی

ہم نہ رند ہیں اور نہ ہی زاہد، اور اس (دعوے) پر گواہی یہی ہے کہ ہمارا جام خالی ہے اور تسبیح ٹوٹی ہوئی ہے۔
 

سید عاطف علی

لائبریرین
گواہ اینکہ نہ رند و نہ زاہدیم بس است
پیالہٴ تہی و سبحہٴ گسستہٴ ما
حُسین خان اسیری اصفہانی
ہم نہ رند ہیں اور نہ ہی زاہد، اور اس (دعوے) پر گواہی یہی ہے کہ ہمارا جام خالی ہے اور تسبیح ٹوٹی ہوئی ہے۔
واہ واہ ۔۔۔بہت خوب وارث صاحب۔۔۔کیا پر لطف ادائیگی ہے۔۔۔مرحوم والد صاحب کے اشعار بے اختیار زبان پر آگئے ۔ (یہ یوم مزدور پہ ایک مشاعرہ کے لیے لکھے گئے تھے ردیف بوجھ)
میں کسے تائب کہوں ۔کس کو کہوں توبہ شکن
لوگ پھرتے ہیں لیے اب خالی پیمانوں کا بوجھ
ٹانک آئے گا کہیں ۔ دیر و حرم کے درمیاں
ہے گراں اب شیخ پر تسبیح کے دانوں کا بوجھ
 

محمد وارث

لائبریرین
واہ واہ ۔۔۔ بہت خوب وارث صاحب۔۔۔ کیا پر لطف ادائیگی ہے۔۔۔ مرحوم والد صاحب کے اشعار بے اختیار زبان پر آگئے ۔ (یہ یوم مزدور پہ ایک مشاعرہ کے لیے لکھے گئے تھے ردیف بوجھ)
میں کسے تائب کہوں ۔کس کو کہوں توبہ شکن
لوگ پھرتے ہیں لیے اب خالی پیمانوں کا بوجھ
ٹانک آئے گا کہیں ۔ دیر و حرم کے درمیاں
ہے گراں اب شیخ پر تسبیح کے دانوں کا بوجھ

واہ واہ، لاجواب، کیا ہی اچھے اشعار ہیں۔
 

محمد وارث

لائبریرین
اے شوخ بیا در دلِ درویش نشیں
اے کانِ نمک بر جگرِ ریش نشیں
در ہجرِ تو دامنم گلستاں شدہ است
یک دم بہ کنارِ کشتہٴ خویش نشیں

رُباعی از صُوفی خلیل طالقانی

اے شوخ کبھی آ اور درویش کے دل میں بھی ٹھکانہ کر، اے کانِ نمک آ اور اس پارہ پارہ جگر پر اور اثر کر، تیرے ہجر میں میرا دامن ﴿تار تار ہو کر﴾ گلستان کا منظر پیش کر رہا ہے سو کبھی ایک لحظے کیلیے اپنے شہید کے پہلو میں بھی بیٹھ۔
 

حسان خان

لائبریرین
ضربتے باید کہ جانِ خفتہ برخیزد ز خاک
نالہ کے بے زخمہ از تارِ رباب آید بروں
(علامہ اقبال)

سوتے ہوئے لوگوں کے خاک سے اٹھنے کے لیے ضربت لازم ہے؛
رباب کے تاروں پر چوٹ کیے بغیر کب اُس سے نالے کی آواز آتی ہے؟
 

طارق شاہ

محفلین
ظلمت را بر رُخ پریشاں کردہ ای
زیرِ ظلمت ماہِ تاباں کردہ ای

از قد ومت بسترِ شب خواب را
رشکِ اورنگِ سلیماں کردہ ای

از گُل و برگِ لب و رُخسار خود
صحنِ عالم را گُلِستاں کردہ ای

از فروغِ مے رُخ گُلنار را
شعلہٴ شمعِ شبستاں کردہ ای
حُسین انجُم

زُلفوں کو جب بھی رُخ پہ پریشاں سا کردیا
ظُلمت کے پیچھے چاند کو تاباں سا کردیا

آئے تمھارے، رات سُہانے سے خواب نے
مسند کو میری تختِ سلیماں سا کردیا

رُخسارِگُل نما تِرے، پتّی سی ہونٹ نے
عالم تمام کو ہی گلُِسْتاں سا کردیا

دی یوں فروغِ مے وہ گلنار رُخ نے آج
میرا غریب خانہ شبِستاں سا کردیا

(ترجمہ طارق شاہ )
 
Top