ساقی۔

محفلین
ہممم ۔۔۔ آپ کی دلیل بہتر ہو سکتی تھی لیکن مجبوری یہ ہے کہ کوئی بھی انسان، جب چاہے، ویزہ لے کر ہوائی جہاز کی ٹکٹ لے کر امریکہ جانا چاہے تو جا سکتا ہے۔ ہے نا؟ جنات کو اگر کوئی انسان دیکھنا چاہتا ہے تو کیسے؟ ہمزاد کو بھی دیکھا جائے تو کیسے؟

جسطرح ویزہ لے کر ہم امریکہ دیکھ سکتے ہیں اگر ویزے جتنی جستجو ہم روحانیت کی کریں تو کام بن سکتا ہے ۔۔۔ جیسے ہم ڈائریکٹ امریکہ نہیں جا سکتے ۔۔ نہیں دیکھ سکتے ویسے ہی ہم خود سے غیر مرئی چیزوں کو بھی نہیں دیکھ سکتے ۔۔۔ ان کو دیکھنے کے لیے بھی کسی کی راہنمائی یا ویزے کی ضرورت ہوتی ہے۔


آپ کو تو آفر بھی ہوئی تھی ۔:)تو آپ کہہ دیں کہ دیکھنا ہے۔

قیصرانی آپ جنات کو دیکھنا چاہتے ہو ؟؟؟
 

قیصرانی

لائبریرین
جسطرح ویزہ لے کر ہم امریکہ دیکھ سکتے ہیں اگر ویزے جتنی جستجو ہم روحانیت کی کریں تو کام بن سکتا ہے ۔۔۔ جیسے ہم ڈائریکٹ امریکہ نہیں جا سکتے ۔۔ نہیں دیکھ سکتے ویسے ہی ہم خود سے غیر مرئی چیزوں کو بھی نہیں دیکھ سکتے ۔۔۔ ان کو دیکھنے کے لیے بھی کسی کی راہنمائی یا ویزے کی ضرورت ہوتی ہے۔


آپ کو تو آفر بھی ہوئی تھی ۔:)تو آپ کہہ دیں کہ دیکھنا ہے۔
بات گھوم پھر کر وہیں آ جاتی ہے کہ امریکہ ہو یا الٹرا سانک لہریں، انفرا ریڈ ہو یا کچھ اور غیر مرئی مظاہر، انہیں دیکھنے کے لئے مناسب آلات کی ضرورت ہے، مسلمان، ہندو، عیسائی، یہودی، بدھ مت وغیرہ کا کوئی چکر نہیں
اب اگر ہم غیر مرئی مخلوقات کی طرف آتے ہیں تو اس میں ہمیں یہ شرط ملتی ہے کہ مسلمان ہونا چاہئے، ایمان ہو (بھلا جب ایمان لا چکے ہیں تو پھر بحث کاہے کی)، رہنمائی ہو، یہ ہو، وہ ہو، پھر جا کر امید بنتی ہے کہ جنات یا ہمزاد دکھائی دیں گے :)
 
دیکھئے، سائنسی طور پر جس چیز کو ثابت کیا جا سکتا ہے، وہ اس دنیا میں بھی اور اس دنیا سے ہٹ کر بھی تقریباً ہر جگہ ثابت ہو سکے گی
یہ بھی ضروری نہیں ہے، دیکھئے میں ایک رنگ دیکھتا ہوں اور اسکو نیلے رنگ کا نام دیتا ہوں، ایک اور شخص جو کلر بلائنڈ ہے وہ اسی رنگ کو دیکھ کر کہتا ہے کہ نہیں یہ سبز رنگ ہے۔۔۔اب آپ اسے لاکھ سمجھائیے لیکن وہ اس رنگ کو بعینہ اسی طرح نہیں percieve کرے گا جس طرح آپ نے کیا۔۔۔تو بات گھوم پھر کر نا رمل اور ابنارمل تک پہنچ جاتی ہے۔۔۔علم دو قسم کے ہیں ایک Objective اور دوسرا Subjective.۔۔۔۔آبجیکٹو یہ ہے کہ دو جمع دو چار ہوتے ہیں ، سبجیکٹو یہ ہے کہ جو منظر میری آنکھ سے نظر آتا ہے اور جس کیفیت کے ساتھ محسوس ہوتا ہے، وہ ضروری نہیں کہ بعینہ اسی طرح دوسرے شخص کو محسوس ہوتا ہو۔۔۔۔
 

ساقی۔

محفلین
بات گھوم پھر کر وہیں آ جاتی ہے کہ امریکہ ہو یا الٹرا سانک لہریں، انفرا ریڈ ہو یا کچھ اور غیر مرئی مظاہر، انہیں دیکھنے کے لئے مناسب آلات کی ضرورت ہے، مسلمان، ہندو، عیسائی، یہودی، بدھ مت وغیرہ کا کوئی چکر نہیں
اب اگر ہم غیر مرئی مخلوقات کی طرف آتے ہیں تو اس میں ہمیں یہ شرط ملتی ہے کہ مسلمان ہونا چاہئے، ایمان ہو (بھلا جب ایمان لا چکے ہیں تو پھر بحث کاہے کی)، رہنمائی ہو، یہ ہو، وہ ہو، پھر جا کر امید بنتی ہے کہ جنات یا ہمزاد دکھائی دیں گے :)

دنیا گول ہے ۔
پھر تو امریکہ بھی نہیں ہے۔:)یہ فواد صاحب پتا نہیں کہاں کے ہیں ۔:happy:
 

قیصرانی

لائبریرین
یہ بھی ضروری نہیں ہے، دیکھئے میں ایک رنگ دیکھتا ہوں اور اسکو نیلے رنگ کا نام دیتا ہوں، ایک اور شخص جو کلر بلائنڈ ہے وہ اسی رنگ کو دیکھ کر کہتا ہے کہ نہیں یہ سبز رنگ ہے۔۔۔ اب آپ اسے لاکھ سمجھائیے لیکن وہ اس رنگ کو بعینہ اسی طرح نہیں percieve کرے گا جس طرح آپ نے کیا۔۔۔ تو بات گھوم پھر کر نا رمل اور ابنارمل تک پہنچ جاتی ہے۔۔۔ علم دو قسم کے ہیں ایک Objective اور دوسرا Subjective.۔۔۔ ۔آبجیکٹو یہ ہے کہ دو جمع دو چار ہوتے ہیں ، سبجیکٹو یہ ہے کہ جو منظر میری آنکھ سے نظر آتا ہے اور جس کیفیت کے ساتھ محسوس ہوتا ہے، وہ ضروری نہیں کہ بعینہ اسی طرح دوسرے شخص کو محسوس ہوتا ہو۔۔۔ ۔
یہ مثال آپ نے غلط دی ہے کہ میں خود کلر بلائینڈ ہوں اور کبھی بھی نیلے اور سبز کو مکس نہیں کرتا
اگر علم کی ہم بات کرتے ہیں سبجیکٹو اور آبجیکٹو کے پہلو سے تو پھر یہ کیسا علم ہے جسے جاننے کے لئے بندہ پہلے مسلمان ہو، پھر ایمان لائے کہ یہ چیز ایسے ہی ہے، پھر رہنمائی پکڑے، پھر جنات کو دیکھنے کی خواہش بھی رکھتا ہو، پھر جا کر مشاہدہ کرے؟
 

زبیر حسین

محفلین
یہ مثال آپ نے غلط دی ہے کہ میں خود کلر بلائینڈ ہوں اور کبھی بھی نیلے اور سبز کو مکس نہیں کرتا
اگر علم کی ہم بات کرتے ہیں سبجیکٹو اور آبجیکٹو کے پہلو سے تو پھر یہ کیسا علم ہے جسے جاننے کے لئے بندہ پہلے مسلمان ہو، پھر ایمان لائے کہ یہ چیز ایسے ہی ہے، پھر رہنمائی پکڑے، پھر جنات کو دیکھنے کی خواہش بھی رکھتا ہو، پھر جا کر مشاہدہ کرے؟
اچھا پھر میں اس بات پر اتنا کہنا چاہوں گا کہ خواہش اور کوشش تو بنیادی شرط ہے لیکن روحانی علوم کے لئے بندے کا مسلمان ہونا شرط نہیں،اگر آپ مانتے ہیں کہ روح ہےتو ، جہاں روح ہے وہاں روحانیت ہے۔
 

قیصرانی

لائبریرین
یار رکئے مت ،جاری رکھیئے ۔۔ میں کب سے دلچسپی اور انہماک کے ساتھ سب کی گفتگو پڑھ رہا ہوں :)
ویسے ابھی پاکستان یا عرب ممالک میں عین ممکن ہے کہ رات کافی ہو گئی ہو۔ ویسے بھی ہمار ےاکثر دوست گھر بار والے ہیں، میری طرح فارغ ہوتے تو شاید پوری رات بیٹھے رہتے :)
خیر یہ گفتگو تو وقفے کے بعد بھی جاری رہ سکتی ہے :)
 
یہ مثال آپ نے غلط دی ہے کہ میں خود کلر بلائینڈ ہوں اور کبھی بھی نیلے اور سبز کو مکس نہیں کرتا
اگر علم کی ہم بات کرتے ہیں سبجیکٹو اور آبجیکٹو کے پہلو سے تو پھر یہ کیسا علم ہے جسے جاننے کے لئے بندہ پہلے مسلمان ہو، پھر ایمان لائے کہ یہ چیز ایسے ہی ہے، پھر رہنمائی پکڑے، پھر جنات کو دیکھنے کی خواہش بھی رکھتا ہو، پھر جا کر مشاہدہ کرے؟
پہلی بات تو یہ ہے کہ جن یا کوئی دوسری قسم کی مخلوق جو عادتاّ دکھائی نہیں دیتی، اسکے لئے ضروری نہیں ہے کہ بندہ مسلمان ہی ہو، بہت سے دوسرے مذاہب والے بھی ایسے تجربات رکھتے ہیں۔۔۔
دوسری بات یہ ہے کہ دیکھنے کی خواہش رکھنا بڑا عام سا لفظ ہے، ہم جب حقیقی طور پر کوئی خواہش رکھتے ہیں اور شعور و لاشعور کے ساتھ اس خواہش کی تکمیل کیلئے کمربستہ ہوتے ہیں تو اکثر اوقات کامیاب بھی ہوجاتے ہیں۔۔۔ ورنہ عام معمولی درجے کی خواہش یا تجسس سے وہ نتیجہ نہیں ملتا۔۔۔وصالِ یار فقط آرزو کی بات نہیں۔
 

قیصرانی

لائبریرین
اچھا پھر میں اس بات پر اتنا کہنا چاہوں گا کہ خواہش اور کوشش تو بنیادی شرط ہے لیکن روحانی علوم کے لئے بندے کا مسلمان ہونا شرط نہیں،اگر آپ مانتے ہیں کہ روح تو ، جہاں روح ہے وہاں روحانیت ہے۔
دیکھئے، روحانیت وغیرہ میں یہ نکتہ انتہائی قابلِ غور ہے کہ اس میں آپ کو ماننا پڑتا ہے اور دل سے ماننا پڑتا ہے۔ جبکہ ہم سائنسی نکتہ نظر سے دیکھتے ہیں تو یہ آسانی رہتی ہے کہ ہمیں سب سے پہلے سوال کرنا سکھایا جاتا ہے اور بتایا جاتا ہے کہ کسی بات پر اندھا یقین نہ کرو۔ اسے جانچو، پرکھو، اگر عقل مانے تو قبول کر لو، ورنہ رد کر دو :)
 

عبد الرحمن

لائبریرین
ویسے ابھی پاکستان یا عرب ممالک میں عین ممکن ہے کہ رات کافی ہو گئی ہو۔ ویسے بھی ہمار ےاکثر دوست گھر بار والے ہیں، میری طرح فارغ ہوتے تو شاید پوری رات بیٹھے رہتے :)
خیر یہ گفتگو تو وقفے کے بعد بھی جاری رہ سکتی ہے :)
ساڑھے دس بج رہے ہیں۔
 

زبیر حسین

محفلین
دیکھئے، روحانیت وغیرہ میں یہ نکتہ انتہائی قابلِ غور ہے کہ اس میں آپ کو ماننا پڑتا ہے اور دل سے ماننا پڑتا ہے۔ جبکہ ہم سائنسی نکتہ نظر سے دیکھتے ہیں تو یہ آسانی رہتی ہے کہ ہمیں سب سے پہلے سوال کرنا سکھایا جاتا ہے اور بتایا جاتا ہے کہ کسی بات پر اندھا یقین نہ کرو۔ اسے جانچو، پرکھو، اگر عقل مانے تو قبول کر لو، ورنہ رد کر دو :)
اس بات کولے کر تو میں یہی کہہ سکتا ہوں کہ پھر حتمی تو کچھ نہ ہوا ، آج اگر عقل نہیں مان رہی توکل مان سکتی ہے آج جسے سائنس نہیں مانا جا رہا کل شائد اسی کو سائنس کا درجہ بھی مل جائے، ابھی ہم چانچنے کی کوشش کر رہے ہیں اس لئے رد بھی نہیں کر سکتے۔
 
دیکھئے، روحانیت وغیرہ میں یہ نکتہ انتہائی قابلِ غور ہے کہ اس میں آپ کو ماننا پڑتا ہے اور دل سے ماننا پڑتا ہے۔ جبکہ ہم سائنسی نکتہ نظر سے دیکھتے ہیں تو یہ آسانی رہتی ہے کہ ہمیں سب سے پہلے سوال کرنا سکھایا جاتا ہے اور بتایا جاتا ہے کہ کسی بات پر اندھا یقین نہ کرو۔ اسے جانچو، پرکھو، اگر عقل مانے تو قبول کر لو، ورنہ رد کر دو :)
عقل درجہ بدرجہ مانتی ہے۔ دو جمع دو برابر چار کے اصول پر کام کرتی ہے، لفظ " عقل" کا لغوی معنیٰ ہی یہ ہے کہ کسی چیز کو کسی دوسری چیز کے ساتھ باندھنا، گرہ دینا، relate کرنا۔۔چنانچہ دو معلوم حقائق کی مدد سے تیسرے نامعلوم حقیقت کو عقل ایسے ہی جان پاتی ہے۔چنانچہ نارمل عقل میں جست اور جمپ اور بائی پاس نہیں ہوتے۔۔۔لیکن یہ سمجھنا کہ علم کا سورس بس اسی قسم کی عقل ہے، یہ غلط ہوگا۔۔۔کبھ کبھی علم یکلخت کوانٹا کی طرح بھی مل جاتا ہے ، یعنی ایک جمپ کی صورت میں۔۔۔ اسے آپ vision کہہ سکتے ہیں۔۔۔بہت سے سائنسدانوں کے ناقابلِ حل مسئلے اچانک خواب میں حل ہوئے۔۔۔یہ اسی کی مثال ہے
 

ساقی۔

محفلین
پہلی بات تو یہ ہے کہ جن یا کوئی دوسری قسم کی مخلوق جو عادتاّ دکھائی نہیں دیتی، اسکے لئے ضروری نہیں ہے کہ بندہ مسلمان ہی ہو، بہت سے دوسرے مذاہب والے بھی ایسے تجربات رکھتے ہیں۔۔۔
دوسری بات یہ ہے کہ دیکھنے کی خواہش رکھنا بڑا عام سا لفظ ہے، ہم جب حقیقی طور پر کوئی خواہش رکھتے ہیں اور شعور و لاشعور کے ساتھ اس خواہش کی تکمیل کیلئے کمربستہ ہوتے ہیں تو اکثر اوقات کامیاب بھی ہوجاتے ہیں۔۔۔ ورنہ عام معمولی درجے کی خواہش یا تجسس سے وہ نتیجہ نہیں ملتا۔۔۔ وصالِ یار فقط آرزو کی بات نہیں۔

باقی کا تو مجھے پتا نہیں پر یہ سچ کہا آپ نے۔ :)
 
ویسے ابھی پاکستان یا عرب ممالک میں عین ممکن ہے کہ رات کافی ہو گئی ہو۔ ویسے بھی ہمار ےاکثر دوست گھر بار والے ہیں، میری طرح فارغ ہوتے تو شاید پوری رات بیٹھے رہتے :)
خیر یہ گفتگو تو وقفے کے بعد بھی جاری رہ سکتی ہے :)
مجھے بھی اب اٹھنا ہوگا۔۔۔بچوں کا اصرار ہے کہ انکے ساتھ کیرم کھیلا جائے۔۔اسلئیے جنات کی جان فی الحال چھوڑدیتے ہیں۔۔۔:mrgreen:
 

تلمیذ

لائبریرین
آپ سب اہل علم حضرات آبجیکٹو علم اور سبجیکٹو علم ، عملی و ظاہر ثبوتوں اور عقل و خرد کی گتھیوں میں اُلجھے ہوئے ہیں۔ اور اس دُھن میں غالباً آپ نے جناب نایاب شاہ صاحب کےمندرجہ ذیل مراسلے پر زیادہ غور نہیں کیا ہے جس میں وہ بڑے کام کی بات کہہ گئے ہیں اور میرے خیال میں یہ آپ سب کے سوالوں کا ایک جامع جواب ہے۔ اس سے اتفاق کرنا یا نہ کرنا آپ کی اپنی صوابدید ہے۔

میرے محترم بھائی
ذاتی مشاہدات بھی دو قسم کے ہوتے ہیں ۔۔۔ ۔۔
اک " کسبی " اور اک " وہبی یا عطا " ۔
کسبی مشاہدات بارے کوئی بھی ذکر " دعوی " کے درجہ پر ہوتا ہے اور یہ حق رکھتا ہے کہ " ذاکر " سے اس ذکر بارے اثبات و دلائل طلب کرے ۔ اور ذاکر جب تک اپنے ذکر " دعوی " کا اثبات نہ دے ۔ اس کے ذکر سے اختلاف کرتے اسے جھٹلایا جائے ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔
وہبی یا عطا کے طور پر پیش آنے والے ذاتی مشاہدات کبھی بھی کسی بھی جانب سے دلائل و اثبات طلب کیئے جانے کے حقدار نہیں ہوتے ۔۔۔ کیونکہ ان ذاتی مشاہدات پر کسی بھی ذاکر کی اپنی کوئی گرفت نہیں ہوتی اس لیئے یہ " دعوی " کے درجہ تک نہیں پہنچتے ۔۔۔ ۔۔۔
 
آخری تدوین:
Top