ابن رضا

لائبریرین
قیصرانی صاحب لوح میں سب محفوظ هے که کون محمود بنے گا کون ایاز. بس وقت کا پرده حائل هے که کب کهاں کیسے محمود کو پتا چلے گا که وه محمود هے اور دوسرا ایاز هے. حضرت موسی علیه السلام پر بھی تب اسی وقت کا پرده حائل تھا. اس لیے ان که لیے تو آگ لینے جانا اور پیامبری لے کر لوٹنااسی محاورے کو تخلیق کرتا هے . تاهم طے شده هونا اور منتخب کیا جانا تو ابتدا سے هی معین هے
 
آخری تدوین:

ظفری

لائبریرین
اب بحث نبوت کے حوالے سے شروع ہوچکی ہے ۔ چونکہ موضوع تصوف اور ہمزاد سے متعلق ہے ۔لہذا اسی حوالے سے میں نبوت پر اپنا استدلال پیش کرنے کی جسارت کروں گا ۔ اس سے پہلے میں نے قرآن اور صوفیاء کے توحیداور اس کی اقسام کی طرف بھی اشارہ کیا تھا ۔
نبوت اصل میں مخاطبہ اور مکالمہِ الہی ہے ۔ اللہ اپنے بندوں میں کسی ایک بندے کا انتخاب کرتے ہیں ۔ تاکہ اس کے ذریعے سے بنی نوع انسان کو ہدایت پہنچائی جا سکے ۔ یعنی اتمامِ ہدایت اور اتمامِ حجت کی جائے ۔ اس مکامہ اور مخاطبہ ( نبوت)کے بارے میں قرآن ایک اور یہ اعلان کرتا ہے کہ یہ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر ختم ہوگئی ۔کوئی ابہام اور غلط فہمی ہوسکتی تھی تو اسے بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے واضح کردیا ۔ جو روایاتیں بلکل متفقہ طور پر ہر جگہ نقل ہوئیں ہیں ۔ بخاری میں بھی نقل ہے ، مسلم میں بھی نقل ہے ۔ ان سب میں یہ روایت نقل ہے کہ " نبوت اپنی حقیقت کے لحاظ سے ختم ہوگئی ۔ اگر کچھ رہ گیا ہے تو وہ مبشرعات ہیں ۔ " صحابہ کرام نے سوال کیا کہ " مبشرعات کیا ہیں ۔ ؟ " یعنی ایک مجمل لفظ تھا اسے بھی مجمل نہیں رہنے دیا ۔ جواب دیا کہ "کسی نیک آدمی کو کوئی خواب آجائے ۔جس میں اسے کوئی بشارت دے دی جائے" ۔ پھر اس کی مذید وضاحت فرما دی کہ " جب تم خوفناک خواب دیکھتے ہو تو اس کے پیچھے شیاطین ہوتے ہیں ۔ اور جب کوئی اچھا خواب دیکھتے ہو تو اس میں فرشتے تم کو بشارت دے رہے ہوتے ہیں ۔ " بشارت ایک انفرادی تجربہ ہے ۔ یعنی اس کا تعلق خواب دیکھنے والے سے ہے ۔ اس کا دین کے بیان اور اس کی حقیقتوں سے کیا تعلق بنتا ہے ۔ ؟ دین کے حقائق اللہ تعالی کی طرف سے نبوت کے ذریعے آتے ہیں ۔ اس کے بلکل برخلاف صوفیاء کہتے ہیں ۔ " جس جگہ سے نبی پاتا ہے وہیں سے ہم پاتے ہیں ۔ " ،" ہمارے اور نبی کے الہام میں اس کے سوا کوئی فرق نہیں ہوتا کہ ہمارا براہِ راست ہوتا ہے اور نبی کو نبوت کی وساطت سے ملتا ہے ۔ "
وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ ہمارے صوفیاء جب اس مقام پر پہنچتے ہیں ( جس کو وہ اپنی اصطلاح میں " مقامِ صدیقیت ہے ، یا مقامِ تہدیص سے تعبیر کرتے ہیں ۔" شاہ ولی ا للہ کی اصطلاح میں وہ مقام ِ ولایت ِ اولیاء ہے ) ۔تو اُس وقت حق کا معیار وہ خود ہوتے ہیں ۔ یعنی حق ان کے گرد گردش کررہا ہوتا ہے ۔ وہ جس چیز کو حق قرار دیں وہی حق ہوتا ہے ۔ اس موقع پر پیغمبر کی اطاعت کے بارے میں پوچھا جاتا ہے تو و ہ کہتے ہیں کہ" یہ ان سے اوپر سے کہا جاتا ہے تو وہ اطاعت کرتے ہیں "۔ (یہ شاہ اسماعیل کے الفاظ ہیں ۔ ) ورنہ ان کو اس کی ضرورت نہیں ہوتی ۔ وہ کسی کے مقلد نہیں ہوتے ۔
یہ ایسا نہیں ہے کہ کوئی اپنے ذاتی تجربات بیان نہیں کر رہا ہے ۔ نہ عوارف المعارف ذاتی تجربات کی کتاب ہے ، نہ قوت القلوب ذاتی تجربات کیا کتاب ہے ، اور نہ ہی عبقات ذاتی تجربات کی کتاب ہے ۔ عبقات میں آخری اشارے میں ( پہلے تین اشارات میں وحدت الوجود کے مختلف مراحل بیان ہوئے ہیں ) ۔ مقاماتِ وحدیہ کا پورا ایک عنوان قائم کرکے یہ بتایا ہے کہ کس طرح ہمارا الہام حق کا معیار بن جاتا ہے ۔ اس کے بعد عوارف میں دیکھیئے ۔ شہاب الدین وہاں بیان کرتے ہیں کہ" شیخ (صوفی) اور جبرئیل کے الہام اس کے سوا کوئی فرق نہیں ہوتا کہ وہ ایک شخص کو دنیا میں ہدایت کے لیئے کھڑا کرنے آتا ہے ۔ اور ہم وہاں سے براہِ راست پالیتے ہیں ۔ "۔ اور شیخ پیغمبر کی طرح الہام میں بھی کوئی خیانت نہیں کرتا ۔ " اور اس ا لہام میں حق بلکل اسی طرح واضح ہوتا ہے ۔ جس طرح پیغمبر کے الہام میں ہوتا ہے ۔ "۔ صوفیاء اس مقام پر اپنے الہام کو گردانتے ہیں ۔ یہ بلکل عام سطح کی باتیں ہیں کہ لوگ کہتے ہیں کہ وہ ہمارے لیئے حجت ہے ۔ اب اس بات کو واضح کریں کہ ان تمام عقائد کا مطلب کیا ہے ۔ ؟ یعنی خواص کے لیئے ایک الگ توحید بیان کردی ۔ نبوت کے حوالے سے یہ عقائد سامنے آگئے۔ سیف کی مکتوبات کو دیکھ لیجیئے کہ وہ وہاں یہ بیان کرتے ہیں کہ " ہم صرف اتنی بات بیان کرتے ہیں کہ نبوت اپنے منصب کے لحاظ سے ختم ہوئی ہے ۔ کمالات کے لحاظ سے ختم نہیں ہوئی "۔ ابنِ عربی " فتوحات " ( جوفصوص کی طرح کی کتاب نہیں ہے ) میں لکھتے ہیں کہ " حضور مآب صلی اللہ علیہ وسلم پر نبوتِ تشریح ختم ہوئی ہے ۔ یعنی شریعت والی نبوت ختم ہوئی ہے ۔ مگر نبوت اپنی حقیقت کے لحاظ سے ویسی کی ویسی ہی ہے ۔ اور وہ یہاں حدیث بھی نقل کرتے ہیں کہ " نبوتِ تشریح ختم ہوئی ہے ۔ " ۔میں یہاں نام لینا نہیں چاہتا لیکن آج کل جن لوگوں کے خلاف ہم آج ہنگامہ کرتے ہیں ۔ وہ اس سے زائد کونسی بات کہتے ہیں ۔
معذرت کیسا تھ کہ جو ان کتابوں میں ہے ۔ ایک طالب علم کے طور پر میں جاننا چاہوں گا کہ نبوت اور توحید کے بارے میں نبی اور قرآن کے تصور میں اور صوفیاء کے تصور میں یہ کیسا تضاد ہے ۔ِ
 
آخری تدوین:

نایاب

لائبریرین
محترم ظفری بھائی
آپ کے سوالات جو کہ " مبشرات القاء الہام وحی " بارےمعروف صوفی علماء کے خطابات سے سیاق و سباق کو الگ رکھتے منتخب کیئے گئے ہیں ۔ اپنی جگہ قابل بحث ہیں ۔ وحی بواسطہ " روح الامین " کا باب تو نبی پاک صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم پر " خاتم النبی " کی مہر لگاتے من جانب اللہ بند ہوگیا ۔ یا دوسرے الفاظ میں " انسان " کو جس آئین و قانون کی ضرورت تھی ۔ وہ " شریعت محمدی " کی صورت تمام ہو گئی اور اب کسی دیگر شریعت کی کوئی ضرورت نہیں ۔۔۔۔۔۔
اب " مبشرات القاء الہام " اور " فرمودات شیخ مرشد " اور " مقلد غیر مقلد " بارے آپ کے سوالات کے جوابات تلاش کرنے کی کوشش کرنے سے پہلے بطور طالب علم اک سوال کرنا چاہوں گا ۔
قران پاک کے بارے کونسا عقیدہ درست ہے کہ
قران پاک صرف نبی پاک صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے لیئے ہدایت خاص ہے ۔ یا کہ ہر انسان کے لیئے اس کے خالق و مالک کی جانب سے ارسال کیا گیا " ہدایت و نصیحت نامہ " ۔۔۔۔۔۔؟
اسی سوال کی دوسری صورت یہ بنتی ہے کہ " قران مخلوق ہے یا کہ خالق کا زندہ کلام جو خالق کی حیات سے براہ راست ربط رکھتا ہے ۔۔۔۔ ؟
 
پہلی بات جو سمجھ لینی چاہئیے وہ یہ ہے کہ یہ جو کچھ آپ نے بیان کیا ہے یہ صوفیاء کے مشاہدات اور معارف ہیں، بذاتِ خود تصوف نہیں ہے۔۔۔ صوفی ان باتوں کو عقائد کے مجموعے کے طور پر پیش نہیں کرتے کہ جن پر ایمان لانا مریدین کیلئے واجب ہو۔۔ ۔۔یہ کوئی سکول آف تھاٹ یا آئیڈیالوجی نہیں ہے۔ آئیڈیالوجی میں یہ ہوتا ہے کہ عقائد کی تفصیل میں جاکر انکا بیان کیا جاتا ہے اور اس آئیڈیالوجی کو ماننے والوں کیلئے ضروری ہوتا ہے کہ وہ بھی عقائد کی ان تفاصیل کو بعینہ اسی طرح حرزِ جاں بنائے رکھیں۔۔۔جبکہ اسکے برعکس، تصوف میں ہوتا یہ ہے کہ ایک ربانی شخصیت ( جسکا شمار نبی کے وارثین میں ہوتا ہو)، افرادِامت کے تزکئے پر مامور کی جاتی ہے۔ اور تزکئے کے نتیجے میں لوگ اپنی اپنی استعداد کے تناسب کے مطابق حقائق کی معرفت تک پہنچ جاتے ہیں۔۔۔ اس بات کو رومی نے ایک تمثیل سے سمجھانے کی کوشش کی ہے کہ جب رومی اور چینی کاریگروں کا مقابلہ ہوا، تو ایک گروہ نے دیوار پر خوب نقش و نگار بنائے، جبکہ دوسرے نے دیوار کو صاف کرنے، پالش کرنے اور چمکانے کے فن کا مظاہرہ کیا۔ جب دونوں کے شہکار سے پردہ ہٹایا گیا تو ایک کی دیوار پر خوبصورت فن پارے اپنی تمام تر نزاکت کے ساتھ منقوش تھے جبکہ دوسرے گرہ کی دیوار پر وہی فن پارے اور اردگرد کا ماحول آئینے کی طرح منعکس ہورہا تھا۔۔۔چنانچہ صوفی کی پرسپشن اور لگے بندھے عقائد کے فکسڈ آئیڈیاز، دو الگ چیزیں ہیں۔۔۔۔صوفی کا ایمان بالغیب اور ظاہر پرست مولویوں کے ایمان بالغیب میں Attitude کا فرق ہے، صوفی عقائد پر اجمالی طور پر ایمان رکھتا ہے اور اپنی عقل و فکر سے ان عقائد کی تفاصیل میں نہیں جاتا، جبکہ ظاہر پرست مولوی نے ان عقائد کی تفاصیل کو اپنی یا اپنے استادوں کی عقل و فکر کی روشنی ( یا اندھیرے) میں ایک مخصوص صورت اور Definition ذہن میں فکس کرلی ہوتی ہے اور اسکے بعد ذہن کو مقفل کرلیا ہوتا ہے۔۔۔۔جبکہ صوفی اوپن مائنڈڈ ہوتا ہے حقائق کی توضیح کا دروازہ کھلا رکھتا ہے ، اور جوں جوں اسکی استعداد ، ذوق میں ترقی ہوتی ہے، اسکے معارف و مکشوفات بھی اللہ کی طرف سے اس پر کھلتے جاتے ہیں۔
 
آخری تدوین:

الشفاء

لائبریرین
محترم قیصرانی بھائی
اور قران صرف وہی ہے جو کہ اللہ کے رسول کی زبانی " تنسیخ و منسوخ " کی حد سے گزر کر امت تک پہنچا ۔۔۔
اللہ نے اک آیت بیان فرمائی ۔ اور اپنی مصلحت کے تحت اس بھلا دیا ۔ یا اس کی جگہ دوسری آیت بھیج دی ۔
یہ ارسال و وصول اللہ اور اس کے رسول کے درمیان تھا ۔ اور مصدق کتاب انہی آیات پر مشتمل قرار پائی ۔ جنہیں اللہ کے رسول نے بحکم اللہ آخر قرار فرمایا ۔ اور اس کی تصدیق اللہ نے آپ کے اسوہ حسنہ کی تقلید کا حکم فرماتے کر دی ۔۔۔ ۔۔۔
بہت دعائیں

جزاک اللہ شاہ جی۔ آپ کی کرم نوازی سے دل خوش ہوا۔۔۔

اس حوالے سے جو جملہ لکھا گیا تھا ، وہ یہ تھا۔
قرآن مجید بھی دراصل ارشادات نبویہ میں سے ہی ہے کہ اللہ عزوجل کے جس کلام کو آپ صل اللہ علیہ وآلہ وسلم نے قرآن کہہ دیا ، ہمارے لئے وہی قرآن ہو گیا۔
اور اس جملے کو جو کچھ سمجھا گیا جس کی تصدیق بھائی کی پوسٹ سے ہوئی، وہ یہ ہے۔
نبی پاک ص نے جو فرما دیا، وہی قرآن ہے یعنی کسی آیت کا قرآن کا حصہ ہونا یا نہ ہونا، نبی پاک ص کی مرضی کے تابع تھا۔

اب ان دونوں جملوں میں زمین آسمان کا فرق ہے جو ایک عام سمجھ بوجھ رکھنے والے قاری سے بھی مخفی نہیں ، "اہل علم" کے تو کیا کہنے۔۔۔ بس اسی خیال کے تحت ہم نے بات کو " ظروف " کی قید لگا کر لپیٹنے کی کوشش کی تھی کہ مزید بحث کا فائدہ نہ تھا۔۔۔ ورنہ کم از کم ہمارے قرآن مجید میں تو کوئی آیت ایسی نہیں جس کی تصدیق ارشاد نبوی سے نہ ہوتی ہو۔ اور ہم ایسی کسی بھی آیت سے واقفیت نہیں رکھتے جس کی سند زبان نبوت نہ ہو۔ ۔۔:)

دعاؤں کا طالب۔۔۔
 
دھاگے میں چونکہ ہمزاد کے متعلق سوال کیا گیا تھا، چنانچہ اس سلسلے میں ہمزاد کے موضوع پر چند آرٹیکلز نظر سے گذرے، آپ سب کی دلچسپی کیلئے یہاں شئیر کر رہا ہوں۔۔۔
 
آخری تدوین:
hamzaad_2.gif
 
واضح کردینا چاہتا ہوں کہ یہ آرٹیکل جو ابھی شئیر کئے ہیں، ان سے میرا متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔۔۔مھض دھاگے سے متعلق ہونے کی وجہ سے آپ لوگوں کی دلچسپی کیلئے شئیر کئے ہیں ایک سائٹ سے۔۔۔۔
 

نایاب

لائبریرین
محترم غزنوی بھائی آپ کی " کاپی پیسٹنگ " موضوع " سے متعلقہ اور براہ راست ربط کی حامل بہترین شراکت ہے ۔
بہت شکریہ بہت دعائیں ۔۔
جہاں تک مجھے یاد ہے ۔ان محترم مصنف نے " چھلاوا " سلسلہ وار کہانی کو " ہمزاد " سے منسلک کیا ہے ۔
جبکہ " چھلاوہ " صبیحہ بانو نامی کردار کی ایسی سرگزشت ہے ۔ جس کا مرکزی خیال " عصمت چغتائی کے افسانے لحاف " میں بیان کردہ " نسائی جذبات " پر ہے ۔۔ کچھ باتیں تو بلاشک درست لکھیں ۔ اور کچھ فقط " زیب داستان " کے لیئے ۔۔۔۔۔۔۔۔
 
سورج اور کائنات کی توانائی کا مرکز؟
دراصل ان آرٹیکلز کے مصنف کا تعلق بنیادی طور پر آسٹرولوجی سے ہے، اور آسٹرولوجی میں نظامِ شمسی کے سیاروں کا ہی مطالعہ کیا جاتا ہے ، چنانچہ انکا یہ بیان شائد علمِ نجوم یعنی آسٹرولوجی کے ہی حوالے سے ہے۔۔۔
 

الشفاء

لائبریرین
ساقی بھائی کے "ہمزاد" کے چکر میں ہمیں ہمارے "ہمزاد" نے کہاں کہاں نہیں گھمایا ، پھرایا اور بھٹکایا۔۔۔

اعوذ باللہ من شر نفسی ومن شر کل دابۃ ومن شر کل شیطان الرجیم۔۔۔
اللہ عزوجل آپ سب بھائیوں کو بھی اپنے حفظ و امان میں رکھے۔۔۔

جیہڑی شے یار کنوں نکھیڑے اونکوں بھاہ لا۔۔۔۔۔۔۔
 
آخری تدوین:
Top