نایاب

لائبریرین
محترم دوستو " تصوف " کی حقیقت کیا ہے ۔۔؟
" تصوف " سے کیا فوائد حاصل ہوتے ہیں ۔ ۔؟
" تصوف " سے انسان اور معاشرے میں کیا تبدیلی آتی ہے ۔۔۔۔۔۔؟
" تصوف " کو سمجھنا ہو تو فرائض دنیاوی کو بحسن و خوبی ادا کرتے " لہو و لعب " سے کنارہ کرتے آبادی سے دور کسی ویران " غار " میں عمر عزیز کا اک حصہ حقیقت کی تلاش میں محو رہتے گزارہ جائے ۔۔۔۔
تو علم ہوگا کہ " اسلام " ابھرا ہی تصوف کی زمین سے ہے ۔۔۔۔۔ تصوف کسی بھی صوفی کا ہر پل اس سچے ذکر کا ذاکر ہونا ہے جو کہ انسانوں کے ساتھ بھلائی کرتے خود سختی برداشت کرتے پیش آمدہ واقعات و حالات پر غوروفکر کی تعلیم دیتا ہے ۔ جو جھکنے والوں کی تعظیم کرتا ہے ۔
 

نایاب

لائبریرین
جی ہاں حضور،،، اس ناچیز سے زیادہ روشنی کا منتظر اور کون ہو گا کہ جو سر تا پا ظلمت نفس اور جہالت کے اندھیروں میں ڈوبا ہوا ہو۔۔۔ ہمہ وقت دعاؤں کی درخواست ہے۔۔۔
میرے محترم بھائی بزرگوں نے کہا ہے کہ " روشنی " کے متلاشی سے کبھی صرف نظر نہ کرو ۔ اپنے حصے کی روشنی بھی اسے دیدو ۔ عین ممکن کہ تمہیں سچی روشنی نصیب ہوجائے ۔۔۔۔۔
جسے اپنے باطن پر نگاہ رکھنے کی توفیق حاصل ہو ۔ وہی دوسروں کے لیئے رہنما ٹھہرتا ہے ۔
اللہ نورالسماوات والارض ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کے ذکر پاک کے حامل کبھی تاریکی میں نہیں بھٹکتے ۔ اور اگر ساتھ میں درود پاک کا تڑکہ بھی ہو تو وجود بھی منور ہوجاتا ہے ۔ میرے بھائی
بہت دعائیں
 
محمود احمد غزنوی جی لگے رہو لگتا ہے کہ آپ میاں محمد بخش رحمۃ اللہ علیہ کے شعر کا مطلب نہیں سمجھے ہو دیکھیں بات یہ ہے کہ آپ لاکھ لگے رہو آپ کے کوشش اور تبلیغ سے دوسرا بندہ اپنا عقیدہ تبدیل یا اپنا نقطہ نظر تبدیل نہیں کرتا ہے اور پھر ادھر تو بات تصوف کی ہورہی ہے ایک نسبت کی ہو رہی ہے میرے خیال سے نسبت تو بڑے دور کی بات اگر کسی پر نسبت کا سایہ بھی پڑ جائے تو یہ بھی بہت بڑی بات ہے لگتا ہے دیار غیر میں آپ چین کی بین بجا رہے ہو تبھی آپ کو بین بجانے میں ملکہ حاصل ہے یا پھر آپ مزے لیتے ہو
 

ساقی۔

محفلین
ارے ساقی۔ بھائی آپ کا ہمزاد ڈھونڈتے ڈھونڈتے 14 صفحے بھر گئے ، آپ کا ہمزاد آپکے قابو آیا یا نہیں ابھی تک؟

میں کوشش کر رہا ہوں کہ جنات و ہمزاد کے چکروں سے نکل کر اللہ کی مخلوق کی جہاں تک ہو سکے ویسے ہی مدد کر دیا کروں ۔ شعبدے دکھا کر لوگوں کی نظروں میں خود کو خاص بنا کر اللہ کی نظروں میں بندہ اگر گر جائے تو کہیں کا نہیں رہتا۔ میں نے آپ حضرات کی علمی گفتگو سے یہ نتیجہ نکالا ہے کہ بندے کو اپنی نیت پاک صاف اور خالص رکھ کر فقط اللہ رب العزت کی خوشنودی مقصود ہونی چاہیے ۔ جب پروردگار کی رحمت ساتھ ہو تو باقی سب کُوڑا ہے۔
 
آخری تدوین:

نایاب

لائبریرین
میں کوشش کر رہا ہوں کہ جنات و ہمزاد کے چکروں سے نکل کر اللہ کی مخلوق کی جہاں تک ہو سکے ویسے ہی مدد کر دیا کروں ۔ شعبدے دکھا کر لوگوں کی نظروں میں خود کو خاص بنا کر اللہ کی نظروں میں بندہ اگر گر جائے تو کیا کہیں کا نہیں رہتا۔ میں نے آپ حضرات کی علمی گفتگو سے یہ نتیجہ نکالا ہے کہ بندے کو اپنی نیت پاک صاف اور خالص رکھ کر فقط اللہ رب العزت کی خوشنودی مقصود ہونی چاہیے ۔ جب پروردگار کی رحمت ساتھ ہو تو باقی سب کُوڑا ہے۔
حق سچ بات ۔۔۔۔۔۔۔
جو ہو ذوق یقین پیدا تو کٹ جاتی ہیں زنجیریں ۔۔
ہمت مرداں مدد خدا ۔۔۔۔۔۔
جس نے خود کو اللہ کے حوالے کر دیا ۔ اللہ اس کے لیئے کافی ہو گیا ۔۔۔۔۔۔۔
بہت دعائیں
 
میں کوشش کر رہا ہوں کہ جنات و ہمزاد کے چکروں سے نکل کر اللہ کی مخلوق کی جہاں تک ہو سکے ویسے ہی مدد کر دیا کروں ۔ شعبدے دکھا کر لوگوں کی نظروں میں خود کو خاص بنا کر اللہ کی نظروں میں بندہ اگر گر جائے تو کہیں کا نہیں رہتا۔ میں نے آپ حضرات کی علمی گفتگو سے یہ نتیجہ نکالا ہے کہ بندے کو اپنی نیت پاک صاف اور خالص رکھ کر فقط اللہ رب العزت کی خوشنودی مقصود ہونی چاہیے ۔ جب پروردگار کی رحمت ساتھ ہو تو باقی سب کُوڑا ہے۔
دل جیت لیا ہے آپ نے میرا یہ سب کہ کر، میں آپ سے یہی سننا چاہتا تھا۔ :)
رب کریم خوش رکھے اور سلامت رکھے۔
 
اوپر قرآن پاک کی آیات "وما ینطق عن الھویٰ ، ان ھو الاّ وحیً یوحیٰ " کا ذکر ہوا تو مناسب ہے کہ میں ان کی تفسیر پیش کردوں جو میں نے تفسیر ضیاء القرآن سے حاصل کی ہے۔
so7lnd.jpg
 

الشفاء

لائبریرین
پہلے بصد احترام آپ کے دوسرے جملے سے ایک گزارش کے ساتھ متفق ہیں کہ اگر آپ "اس کے بعد" کی بجائے لفظ "اور" استعمال فرماتے تو شائد زیادہ مناسب لگتا ۔کیونکہ قرآن مجید بھی دراصل ارشادات نبویہ میں سے ہی ہے کہ اللہ عزوجل کے جس کلام کو آپ صل اللہ علیہ وآلہ وسلم نے قرآن کہہ دیا ، ہمارے لئے وہی قرآن ہو گیا۔اسی لئے علماء کرام آقا علیہ الصلاۃ والسلام کے ارشادات کے لئے وحی متلو اور وحی غیر متلو کی اصطلاح استعمال فرماتے ہیں، یعنی ایک وہ وحی جس کی تلاوت کی جاتی ہے یعنی قرآن مجید اور دوسری وہ وحی جس کی تلاوت نہیں کی جاتی یعنی احادیث مبارکہ۔ اور اس کی دلیل آیت "وما ینطق عن الھویٰ ، ان ھو الاّ وحیً یوحیٰ " کو بناتے ہیں۔۔۔ ۔البتہ حفظ مراتب میں ہمیشہ قرآن و حدیث ہی لکھا اور پڑھا جاتا ہےیعنی قرآن اور حدیث۔ لیکن اوپر لکھے گئے انداز سے کچھ ناپختہ ذہن ابہام کا شکار ہو جاتے ہیں اور حفظ مراتب کے چکر میں لذت ادب سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں ، حالانکہ ادب پہلا قرینہ ہے محبت کے قرینوں میں۔۔۔
یہ صرف ایک گزارش تھی اور متفق تو ہم ہیں ہی کہ دین کا مستند ترین ماخذ قرآن و حدیث ہی ہے۔۔۔ ہاں اوپر والی لذت کا حصول محض مباح ہے،لازمی نہیں۔ اگر کسی کو یہ نہیں چاہیئے تو اس سے کوئی جھگڑا نہیں۔۔۔ :)

آپ نے بہت بڑی بات کہہ دی ہے ۔ پہلے قرآن اور حدیث کا فرق سمجھ لیں ۔ پھر بات ہوگی۔ ماشاءاللہ یہاں بھی بڑے قابل لوگ ہیں ۔ ان سے مدد لیں ۔

آپ نے آدھا جملہ پڑھ کر اُسے "لال" کر دیا۔ باقی آدھا ہم نے آپ کی سہولت کے لئے "ہرا بھرا" کر دیا ہے۔ ملا کر پڑھیں گے تو ان شاءاللہ وسوسہ جاتا رہے گا۔۔۔:)
 

قیصرانی

لائبریرین
سید بادشاہ آپ نے فرمایا کہ
جناب موسی علیہ السلام اپنی دنیاوی ضرورت پورا کرنے کے لیئے آگ کی تلاش میں نکلتے ہیں ۔ اور اللہ ان سے کلام فرماتے انہیں " نبوت " سے نواز دیتا ہے ۔
دراصل نبوت جہاں تک میرا علم ہے، پہلے سے فیصلہ ہو چکا ہوتا ہے کہ کسے عطا کی جائے اور کسے نہیں، اس لئے معذرت کے ساتھ کہ یہ کچھ بات بڑھی ہوئی لگتی ہے۔ یعنی الفاظ کا نسبتاً غیر محتاط چناؤ :)
 

نایاب

لائبریرین
سید بادشاہ آپ نے فرمایا کہ

دراصل نبوت جہاں تک میرا علم ہے، پہلے سے فیصلہ ہو چکا ہوتا ہے کہ کسے عطا کی جائے اور کسے نہیں، اس لئے معذرت کے ساتھ کہ یہ کچھ بات بڑھی ہوئی لگتی ہے۔ یعنی الفاظ کا نسبتاً غیر محتاط چناؤ :)
میرے محترم بھائی اس قدر پیارے انداز میں مجھے میری غلطی سے آگاہ کرنے پر بہت دعائیں ۔۔۔۔۔۔
نبوت عطا ہے یا کہ کسب یا کہ قدر ۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یہ بحث بہت طویل ہے اور کسی بھی نتیجہ پر آسانی سے نہیں پہنچا جا سکتا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آپ نے نبوت کو " قدر " میں رکھتے اس کا فیصلہ پہلے سے مقرر ہوچکا قرار دیا ہے ۔۔۔۔۔ اور میرے الفاظ کو غیر محتاط ۔
میں اللہ کی پناہ چاہتا ہوں شیطان مردود سے ۔۔۔۔۔ قران پاک میں یہ ذکر کچھ اس طرح سے پڑھا ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


(۲۸) پھر جب موسیٰ وہ مدت پوری کر چکا اور اپنے گھر والوں کو لے کر چلا کوہِ طور کی طرف سے ایک آگ دیکھی اپنے گھر والوں سے کہا ٹھیرو میں نے ایک آگ دیکھی ہے شاید تمہارے پاس وہا ں کی کچھ خبر یا آگ کا انگارہ لے آؤں تاکہ تم سینکو (۲۹) پھر جب اس کے پاس پہنچا تو میدان کے داہنے کنارے سے برکت والی جگہ میں ایک درخت سے آواز آئی کہ اے موسیٰ! میں الله جہان کا رب ہوں (۳۰) اور یہ کہ اپنی لاٹھی ڈال دے پھر جب اسے دیکھا کہ سانپ کی طرح لہرا رہا ہے تو منہ پھیر کر الٹا بھاگا اور پیچھے مڑ کر نہ دیکھا اے موسیٰ! سامنے آ اور ڈر نہیں بے شک تو امن والوں سے ہے (۳۱) اپنے گریبان میں اپنا ہاتھ ڈال وہ بغیر کسی عیب کے چمکتا ہوا نکلے گا اور رفع خوف کے لیے اپنا بازو اپنی طرف ملا سو تیرے رب کی طرف سے فرعون اور اس کے سرداروں کے لیے یہ دو سندیں ہیں بے شک وہ نافرمان لوگ ہیں (۳۲) کہا اے میرے رب! میں نے ان کے ایک آدمی کو قتل کیا ہے پس میں ڈرتا ہوں کہ مجھے مارڈ الیں گے (۳۳) اور میرے بھائی ہارون کی زبان مجھ سے زياہ روان ہے اسے میرے ساتھ مددگار بنا کر بھیج کہ میری تصدیق کرےکیونکہ میں ڈرتا ہوں کہ وہ مجھے جھٹلائیں گے (۳۴) فرمایا ہم تیرے بازو کو تیرے بھائی سے مضبوط کر دیں گے اور تمہیں غلبہ دیں گے پھر وہ تم تک پہنچ نہیں سکیں گے ہماری نشانیوں کے سبب سےتم اورتمہارے تابعدار غالب رہیں گے
سورۃ القصص
 

الشفاء

لائبریرین
سید بادشاہ آپ نے فرمایا کہ
جناب موسی علیہ السلام اپنی دنیاوی ضرورت پورا کرنے کے لیئے آگ کی تلاش میں نکلتے ہیں ۔ اور اللہ ان سے کلام فرماتے انہیں " نبوت " سے نواز دیتا ہے ۔

دراصل نبوت جہاں تک میرا علم ہے، پہلے سے فیصلہ ہو چکا ہوتا ہے کہ کسے عطا کی جائے اور کسے نہیں، :)

دونوں باتیں اپنی اپنی جگہ درست ہیں۔۔۔فیصلے تو سارے ہی پہلے لیے جا چکے ہیں اور قلم کب کا خشک ہو چکا ہے۔ اب تو معاملہ وقت پر اٹکا ہوا ہے کہ کس فیصلے نے کب وقوع پذیر ہونا ہے۔۔۔ یہ سارا کُن فیکون کا افسوں ہے۔ فیصلوں کے بعد کُن کا حکم جاری ہوا اور فیکون کا اثر کبھی کوہ طور پر جلوہ فگن ہوا اور کبھی غار حرا پر ، اپنے اپنے وقت کے مطابق۔۔۔:)
 

قیصرانی

لائبریرین
دونوں باتیں اپنی اپنی جگہ درست ہیں۔۔۔ فیصلے تو سارے ہی پہلے لیے جا چکے ہیں اور قلم کب کا خشک ہو چکا ہے۔ اب تو معاملہ وقت پر اٹکا ہوا ہے کہ کس فیصلے نے کب وقوع پذیر ہونا ہے۔۔۔ یہ سارا کُن فیکون کا افسوں ہے۔ فیصلوں کے بعد کُن کا حکم جاری ہوا اور فیکون کا اثر کبھی کوہ طور پر جلوہ فگن ہوا اور کبھی غار حرا پر ، اپنے اپنے وقت کے مطابق۔۔۔ :)
جی محترم، ایک ہی بات دو مختلف انداز سے کی جا سکتی ہے:

حضرت موسیٰ آگ لینے گئے اور پیغمبری لے کر لوٹے یعنی انہیں نعوذباللہ زبردستی پیغمبری تھما دی گئی
حضرت موسیٰ آگ لینے گئے لیکن اللہ تعالٰی کی مرضی سے انہیں اس وقت پیغمبری عطا کر دی گئی یعنی اللہ پاک نے ان پر اپنی رحمت کو واضح کر دیا

دونوں فقروں میں بات ایک ہی ہے، لیکن انداز سے مطلب بدل جاتا ہے۔ اسی طرح یہ دیکھئے کہ:

نبی پاک ص نے جو فرما دیا، وہی قرآن ہے یعنی کسی آیت کا قرآن کا حصہ ہونا یا نہ ہونا، نبی پاک ص کی مرضی کے تابع تھا
نبی پاک ص نے وضاحت فرما دی کہ اللہ تعالٰی کی طرف سے نازل کردہ قرآن پاک کون سا ہے یعنی انہوں نے صرف وضاحت فرمائی کہ کیا چیز قرآن کا حصہ ہے اور کیا نہیں

امید ہے کہ آپ میری بات پر ٹھنڈے دل سے غور کریں گے
 

الشفاء

لائبریرین
جی محترم، ایک ہی بات دو مختلف انداز سے کی جا سکتی ہے:
حضرت موسیٰ آگ لینے گئے اور پیغمبری لے کر لوٹے یعنی انہیں نعوذباللہ زبردستی پیغمبری تھما دی گئی
دونوں فقروں میں بات ایک ہی ہے، لیکن انداز سے مطلب بدل جاتا ہے۔ اسی طرح یہ دیکھئے کہ:
نبی پاک ص نے جو فرما دیا، وہی قرآن ہے یعنی کسی آیت کا قرآن کا حصہ ہونا یا نہ ہونا، نبی پاک ص کی مرضی کے تابع تھا

محترم بھائی جان۔۔۔ ہمارے خیال میں تو ایسا کسی نے بھی نہیں کہا۔ ۔۔ ۔
ہاں یہ عین ممکن ہے کہ ہم لوگ اپنے اپنے ظرف کے مطابق سمجھے ہوں۔ بہر حال آپ اپنی جگہ پر درست کہہ رہے ہیں۔۔۔

اپنے اپنے مزار میں واصف
اپنی اپنی صفات کی خوشبو۔۔۔:)
 

قیصرانی

لائبریرین
محترم بھائی جان۔۔۔ ہمارے خیال میں تو ایسا کسی نے بھی نہیں کہا۔ ۔۔ ۔
ہاں یہ عین ممکن ہے کہ ہم لوگ اپنے اپنے ظرف کے مطابق سمجھے ہوں۔ بہر حال آپ اپنی جگہ پر درست کہہ رہے ہیں۔۔۔

اپنے اپنے مزار میں واصف
اپنی اپنی صفات کی خوشبو۔۔۔ :)
:)
 

نایاب

لائبریرین
دونوں باتیں اپنی اپنی جگہ درست ہیں۔۔۔ فیصلے تو سارے ہی پہلے لیے جا چکے ہیں اور قلم کب کا خشک ہو چکا ہے۔ اب تو معاملہ وقت پر اٹکا ہوا ہے کہ کس فیصلے نے کب وقوع پذیر ہونا ہے۔۔۔ یہ سارا کُن فیکون کا افسوں ہے۔ فیصلوں کے بعد کُن کا حکم جاری ہوا اور فیکون کا اثر کبھی کوہ طور پر جلوہ فگن ہوا اور کبھی غار حرا پر ، اپنے اپنے وقت کے مطابق۔۔۔ :)
محترم بھائی
یہ " افسوں " نہیں بلکہ عین حقیقت ہے " کن فیکون " پر قائم و استوار ۔۔۔۔۔۔
" کن سے فیکوں " تک کے سفر میں جو " وقت " کا یہ کھیل ہے ۔۔۔۔
ان ہی کھلاڑیوں کو بلندی پر پہنچاتا ہے جو کہ اس قابل ہوتے ان تھک محنت و کوشش کرتے ہیں ۔
بلا شک " ان اللہ علی کل شئی قدیر " اور وہی ہے سچا" خلاق العظیم " اور وہی ہے سچا " خیر الماکرین "
اور وہی ٹھہرتا ہے " مسبب الاسباب " یہ فرماتے ہوئے کہ "و ان لیس للانسان الا ما یسعی ۔۔۔۔۔۔۔"
تقدیر کیا ہے قسمت کہاں سے ابھرتی ہے ۔ ؟ یہ عجب گنجلک موضوع ہیں ۔۔۔۔۔
 

نایاب

لائبریرین
جی محترم، ایک ہی بات دو مختلف انداز سے کی جا سکتی ہے:

حضرت موسیٰ آگ لینے گئے اور پیغمبری لے کر لوٹے یعنی انہیں نعوذباللہ زبردستی پیغمبری تھما دی گئی
حضرت موسیٰ آگ لینے گئے لیکن اللہ تعالٰی کی مرضی سے انہیں اس وقت پیغمبری عطا کر دی گئی یعنی اللہ پاک نے ان پر اپنی رحمت کو واضح کر دیا

دونوں فقروں میں بات ایک ہی ہے، لیکن انداز سے مطلب بدل جاتا ہے۔ اسی طرح یہ دیکھئے کہ:

نبی پاک ص نے جو فرما دیا، وہی قرآن ہے یعنی کسی آیت کا قرآن کا حصہ ہونا یا نہ ہونا، نبی پاک ص کی مرضی کے تابع تھا
نبی پاک ص نے وضاحت فرما دی کہ اللہ تعالٰی کی طرف سے نازل کردہ قرآن پاک کون سا ہے یعنی انہوں نے صرف وضاحت فرمائی کہ کیا چیز قرآن کا حصہ ہے اور کیا نہیں

امید ہے کہ آپ میری بات پر ٹھنڈے دل سے غور کریں گے
محترم قیصرانی بھائی
سورت القصص کے ترجمے پہ غور فرمائیں ۔ کسی بھی مترجم کے کئے ہوئے ۔،،،
جناب موسی علیہ السلام کا " ردعمل " واضح طور پر اس " زبردستی " کا خود اللہ کی زبان سے بیان فرما رہا ہے ۔۔۔۔۔۔
اور قران صرف وہی ہے جو کہ اللہ کے رسول کی زبانی " تنسیخ و منسوخ " کی حد سے گزر کر امت تک پہنچا ۔۔۔
اللہ نے اک آیت بیان فرمائی ۔ اور اپنی مصلحت کے تحت اس بھلا دیا ۔ یا اس کی جگہ دوسری آیت بھیج دی ۔
یہ ارسال و وصول اللہ اور اس کے رسول کے درمیان تھا ۔ اور مصدق کتاب انہی آیات پر مشتمل قرار پائی ۔ جنہیں اللہ کے رسول نے بحکم اللہ آخر قرار فرمایا ۔ اور اس کی تصدیق اللہ نے آپ کے اسوہ حسنہ کی تقلید کا حکم فرماتے کر دی ۔۔۔۔۔۔
بہت دعائیں
 
آگ لینے جائیں، اور پیغمبری مل جائے۔۔۔یہ ایک محاورہ ہے۔ اور غیرمتوقع طور پر حاصل ہونے والی نعمت کے موقع پر بولا جاتا ہے۔ اس سے کھینچ تان کر اگر الٹے سیدھے مطالب نکالنے ہیں تو پھر تو ہر بات سے کوئی نہ کوئی دوسرا مطلب نکالا جاسکتا ہے۔۔۔۔آپ کوئی بھی جملہ لکھئے،
 
Top