“ وفا “

شمشاد

لائبریرین
کرنی ہے تو کُھل کے کرو ‘ انکارِ وفا کی بات
بات ادھوری رہ جائے تو حسرت رہتی ہے
(امجد اسلام امجد)
 

ہما

محفلین
وفا کے شیش محل میں سجا لیا میں نے
وہ اک دل جسے پتھر بنا لیا میں‌نے
یہ سوچ کر کہ نہ ہو تاک میں خوشی کوئی
غموں کی اوٹ میں خود کو چُھپا لیا میں نے
 

سارہ خان

محفلین

سکوں محال ہے امجد وفا کے رستے میں
کبھی چراح جلے ہیں ہَوا کے رستے میں ؟

نجانے اَب کے برس کھیتیوں پہ کیا گُزرے!
کئی پہاڑ کھڑے ہیں گھتا کے رستے میں

قدم قدم پہ قدم لڑ کھڑائے جاتے ہیں
بُتوں کے ڈھیر لگے ہیں خُدا کے رستے میں

جہانِ نو کو شعُورِ مُسافرت دیں گے
ہم اپنے خُون سے شمیں جلا کے رستے میں

دیارِ اہلِ محبّت میں کِس دی آواز
ہزار ساز بجے ہیں صدا کے رستے میں

سوائے دردِ محبت، بُجز غبار سَفر
کوئی رفیق نہ پایا وفا کے رستے میں
 

شمشاد

لائبریرین
حیات بے وفا ہو یا کہ وہ ہو شام تنہائی
میں سلجھاتا ہوں جتنا اور برہم ہوتی جاتی ہے
(سرور)
 

ہما

محفلین
اہل دل اور بھی ہیں، اہل وفا اور بھی ہیں
ایک ہم ہی نہیں دُنیا سے خفا اور بھی ہیں
ساحر لدھیانوی
 

شمشاد

لائبریرین
وعدہ آنے کا وفا کیجے ، یہ کیا انداز ہے ؟
تم نے کیوں سونپی ہے میرے گھر کی دربانی مجھے
(چچا)
 

سارہ خان

محفلین
کبھی کبھی تو محبتوں کے یقین لہجے میں گُفتگو ہو
کہیں تو میرا بھی نام آئے، تیری وفا کی کہانیوں میں
( نوشی گیلانی)
 

عمر سیف

محفلین
جّدت سے مجھے انکار نہیں، یاروں سے مگر یہ پوچھنا ہے
یہ کون سا معیارِ وفا، اُمید گئی تو وفا بھی گئی
 

شمشاد

لائبریرین
ہوئےاتفاق سےگر بہم، تو وفا جتانے کو دم بہ دم
گلہ ملامتِ اقرباء، تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو
(مومن خان مومن)
 
Top