’’اٹھو مرنے کا حق استعمال کرو‘‘

محمداحمد

لائبریرین
اس جاہلانہ تعصب اور ہندو نفرت پر مبنی نظریات کی وجہ سے مسئلہ کشمیر کبھی حل نہیں ہو سکتا۔ ہندوؤں سے متعلق پاک فوج میں ایک اور متعصبانہ نظریہ بھی تھا کہ چونکہ یہ گوشت نہیں کھاتے اس لئے ڈرپوک ہیں۔ لیکن جب بھارت سے بڑی جھڑپیں ہوئی اور "ہندو افواج" کا سامنا کرنا پڑا تو 1971 میں مشرقی پاکستان میں ہتھیار پھینک کر آگئے۔ پھر 1984 میں سیاچین کے محاذ اور 1999 میں کارگل کے محاذ پر بھی اسی ڈرپوک ہندو فوج سے مار کھائی۔

آپ تاریخی حوالے بہت دیتے ہیں۔ لیکن سب حقائق کو توڑ مروڑ کر اور بہت سی باتوں کو نظر انداز کرکے اپنی مرضی کا نتیجہ نکال کر۔

اس قسم کی بحث اگر سو سال بھی ہوتی رہے تب بھی اس سے کوئی مثبت نتیجہ نہیں نکلنا۔ آپ کو کوشش کرنی چاہیے کہ اپنی انرجی مثبت کاموں میں لگائیں۔

محفلین کو بھی اپنا وقت بچانے کا سوچنا چاہیے۔
 

محمداحمد

لائبریرین
کشمیری اور دیگربھارتی مسلمان بھی مودی حکومت میں بہت مزے کر سکتے ہیں اگر وہ تین طلاق بل، شہریت بل، اپنی مساجد کی شہادت، کرفیوز، لاک ڈاؤنز، ہندو آر ایس ایس کی غنڈہ گردیاں تسلیم کر لیں

بھائی!

ستم تو یہ ہے کہ ہم آپ کو قادیانیوں کا ایجنٹ بھی نہیں کہہ سکتے کہ اس قسم کا طرزِ تخاطب کسی طرح مناسب نہیں لگتا۔

تاہم آپ کشمیریوں کا مقابلہ قادیانیوں کے معاملے سے ہرگز نہ کریں ۔ کہ یہ بالکل الگ نوعیت کی بات ہے۔

کشمیر کا معاملہ بالکل الگ ہے اس کی جزیات واقعات فریقین سب کا معاملہ بالکل مختلف ہے۔ سیب کا مقابلہ نارنگی سے نہیں کیا جاتا یہ آپ بخوبی جانتے ہیں۔
 

عدنان عمر

محفلین
بھارتی مسلمان پہلے خود ایک اکائی بنیں اور پھر اپنی متحدہ لیڈرشپ کے ساتھ اکثریتی حکومت کو قائل کریں کہ وہ جس سمت میں ملک کو لے جا رہے ہیں وہ درست نہیں ہے۔
بھارت کا ایوانِ زیریں (لوک سبھا) 543 نشستوں پر مشتمل ہے۔ یعنی ان نشستوں کو پُر کرنے کے لیے پورے ملک میں 543 انتخابی حلقے قائم کیے گئے ہیں۔ ان 543 حلقوں میں کسی ایک حلقے میں بھی مسلم آبادی، غیر مسلم آبادی سے زیادہ نہیں ہے۔
543 ارکان پر مشتمل موجودہ بھارتی لوک سبھا میں مسلم ارکان کی تعداد 27 ہے، جن میں سے بیشتر امیدوار ہندو اکثریتی پارٹیوں کے ٹکٹ پر مسلم ہندو مکس ووٹ لے کر جیتے ہیں، ورنہ جیتنا تقریباً ناممکن تھا۔
ان سب حالات کے پیشِ نظر یہ کیسے ممکن ہے کہ ہندوستانی مسلمان، حکومت سے وہ حقوق مانگ سکیں جو وہ پیار سے تو کیا شاید مار پیٹ سے بھی دینے پر راضی نہ ہو۔
 

جاسم محمد

محفلین
بھائی!

ستم تو یہ ہے کہ ہم آپ کو قادیانیوں کا ایجنٹ بھی نہیں کہہ سکتے کہ اس قسم کا طرزِ تخاطب کسی طرح مناسب نہیں لگتا۔

تاہم آپ کشمیریوں کا مقابلہ قادیانیوں کے معاملے سے ہرگز نہ کریں ۔ کہ یہ بالکل الگ نوعیت کی بات ہے۔

کشمیر کا معاملہ بالکل الگ ہے اس کی جزیات واقعات فریقین سب کا معاملہ بالکل مختلف ہے۔ سیب کا مقابلہ نارنگی سے نہیں کیا جاتا یہ آپ بخوبی جانتے ہیں۔
بھائی آپ درست کہہ رہے ہیں اور میں موازنہ کر بھی نہیں رہا۔ صرف مثال دی تھی کہ جیسے پاکستان میں قادیانی اقلیت میں ہیں ویسے ہی بھارت میں مسلمان اقلیت ہیں۔ اور دونوں ممالک کی اکثریتیں چاہتی ہیں کہ ان کی اقلیتیں محض عددی برتری کی بنیاد پر اکثریت کی حاکمیت کو تسلیم کر لیں۔
پاکستان میں قادیانی اقلیت کے خلاف آئینی ترامیم و دیگر قانون سازیاں، جبکہ بھارت میں کشمیری اور دیگر مسلم اقلیت کے خلاف آئینی ترامیم اور قانون سازیاں اکثریت کے اقلیت پرجبر کا واضح ثبوت ہیں۔
 

محمداحمد

لائبریرین
پاکستان میں قادیانی اقلیت کے خلاف آئینی ترامیم و دیگر قانون سازی

سمجھنے کی بات یہ ہے کہ اگر قادیانی خود کو اقلیت سمجھتے تو اس قانون سازی کی ہرگز ضرورت نہ پیش آتی۔

ہندوستانی مسلمان کبھی یہ نہیں کہتا کہ اُسے ہندو تسلیم کیا جائے اور اقلیت کے بجائے اکثریت کا حصہ تسلیم کیا جائے۔
 

عدنان عمر

محفلین
سمجھنے کی بات یہ ہے کہ اگر قادیانی خود کو اقلیت سمجھتے تو اس قانون سازی کی ہرگز ضرورت نہ پیش آتی۔

ہندوستانی مسلمان کبھی یہ نہیں کہتا کہ اُسے ہندو تسلیم کیا جائے اور اقلیت کے بجائے اکثریت کا حصہ تسلیم کیا جائے۔
 

محمد وارث

لائبریرین
ہندوستان کی تقسیم عجلت میں کی گئی۔ مناسب ہوم ورک نہ کیا گیا جس کا خمیازہ برصغیر کے باسیوں نے بھگتا۔ کشمیر کے حوالے سے بدقسمتی سے مناسب فیصلہ نہ لیا جا سکا۔ اس جنت نظیر وادی کے بسنے والوں نے بہت مصائب سہے۔ تاہم، اب اس مسئلے کا حل نکالنا جوئے شیر لانے کے مترادف ہے۔ دونوں طرف انتہاپسندانہ رویے فروغ پا چکے ہیں۔ گزشتہ صدی کے خاتمے پر جب مسٹر واجپائی پاکستان آئے تھے تو اس مسئلے کے حل کی بہت امید تھی۔ بعد ازاں مشرف صاحب جب انڈیا کے دورے پر گئے تو کسی حد تک یہ معاملہ حل ہوتا دکھائی دیا مگر انتہاپسندانہ سوچ ایک مرتبہ پھر آڑے آ گئی۔ اب مودی سرکار سے یہ توقع رکھنا کہ کشمیر کے معاملے میں یہ کوئی لچک دکھائیں گے، قریب قریب ناممکن لگتا ہے۔ ایسے رویوں کے ہوتے ہوئے اس مسئلے کا کیا حل برآمد ہو سکتا ہے؟ آپ کی بات درست ہے کہ کشمیر میں کرفیو اور ہندوستانی فوج کے بہیمانہ مظالم کے خلاف آگاہی مہم چلائی جائے تاہم اقوام عالم کا سویا ہوا ضمیر شاید اس طرح جاگ نہ پائے گا۔ ہماری دانست میں، اب اس مسئلے کا یہی حل برآمد ہوتا دکھائی دیتا ہے کہ کنٹرول لائن کو ہی بین الاقوامی سرحد تسلیم کر لیا جائے۔ شاید کشمیری بھی مان ہی جائیں گو کہ ایسا ہوتا مشکل دکھائی دیتا ہے۔ ہندوستان اور پاکستان اس پر متفق ہو سکتے ہیں اگر سنجیدگی سے مذاکراتی عمل ہو۔ موجودہ حالات میں اس کے علاوہ کوئی ایسا حل دکھائی نہیں دیتا ہے جس میں سرحدوں کا نئے سرے سے تعین کیا جائے۔ کوئی ایک انچ زمین چھوڑنے کو تیار نہیں ہے۔
تاریخ کی ایک ستم ظریفی تو یہ ہے کہ پاکستان کی قیادت نے تقسیم کے بعد وہ موقع کھو دیا جب سردار پٹیل حیدر آباد دکن کے بدلے میں کشمیر پاکستان کو دینے کو تیار ہو گیا تھا لیکن کشمیر اور دکن دونوں کے لالچ میں پاکستانی قیادت دونوں ہی گنوا بیٹھی!

باقی اب یہ مسئلہ گمبھیر ہو چکا ہے اور وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ مزید پیچیدہ ہو جائے گا مگر ایک بات ابھی تک سیدھی ہے وہ یہ کہ اگر الہند اور پنجاب اور بنگال تقسیم ہو سکتے ہیں تو کشمیر بھی تقسیم ہو سکتا ہے۔ یہ تقسیم جس طرح برصغیر کے دیگر باسیوں نے طوعا و کرہا تسلیم کی ہے اسی طرح کشمیری بھی کر سکتے ہیں، روشن پہلو یہ ہے کہ بھارتی قیادت کو بھی موجودہ لائن آف کنٹرول کو انٹرنیشنل بارڈر تسلیم کرنے میں زیادہ دقت نہیں ہوگی۔ مسئلہ پاکستانی عوام الناس کے ان جذبات کا ہے جن کو پچھلے ستر سالوں میں خون پسینہ اور پیسہ دے دے کر انگیخت کیا گیا ہے۔ کوئی نواز شریف کوئی زرداری کوئی عمران خان اس قسم کا فیصلہ کر کے زندہ نہیں رہ سکتا، اگر کسی سیاستدان کے لیے یہ ممکن ہوتا تو بھٹو شملہ معاہدے کے وقت اندرا گاندھی کی یہ آفر مان لیتا۔

پاکستان میں یہ اسی وقت ہو سکتا ہے کہ کوئی مطلق العنان "امیر المومنین ٹائپ" فوجی ڈکٹیٹر ہو کہ ساری مذہبی جنونی پارٹیاں اس کی کمر کا زور بنی ہوں، سیاستدان "دم ہلاتے ہوئے" اس کے آگے پیچھے پھر رہے ہوں، آئین کو وہ "ردی کا ٹکڑا" سمجھے اور میڈیا اس کی خاص جیب میں ہو، تبھی یہ ممکن ہو سکتا ہے کہ پاکستان موجودہ کنٹرول لائن کو انٹرنیشل بارڈر مان لے۔ (اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ میں کسی ایسے فوجی ڈکٹیٹر کی حمایت یا چاہ کر رہا ہوں لیکن سنجیدہ حضرات اپنے دل پر ہاتھ رکھ کر بتائیں کہ اس کے بغیر کیا یہ ممکن ہے؟)۔ :)
 

جاسم محمد

محفلین
بھارت کا ایوانِ زیریں (لوک سبھا) 543 نشستوں پر مشتمل ہے۔ یعنی ان نشستوں کو پُر کرنے کے لیے پورے ملک میں 543 انتخابی حلقے قائم کیے گئے ہیں۔ ان 543 حلقوں میں کسی ایک حلقے میں بھی مسلم آبادی، غیر مسلم آبادی سے زیادہ نہیں ہے۔
543 ارکان پر مشتمل موجودہ بھارتی لوک سبھا میں مسلم ارکان کی تعداد 27 ہے، جن میں سے بیشتر امیدوار ہندو اکثریتی پارٹیوں کے ٹکٹ پر مسلم ہندو مکس ووٹ لے کر جیتے ہیں، ورنہ جیتنا تقریباً ناممکن تھا۔
ان سب حالات کے پیشِ نظر یہ کیسے ممکن ہے کہ ہندوستانی مسلمان، حکومت سے وہ حقوق مانگ سکیں جو وہ پیار سے تو کیا شاید مار پیٹ سے بھی دینے پر راضی نہ ہو۔
آپ نے بھارتی انتخابی نظام میں خرابی کی بہترین نشاندہی کی ہے۔ یہ خرابی بھارت ہی نہیں بلکہ برطانیہ، پاکستان، امریکہ اور بھی کئی ممالک میں ہے جہاں اس سے ملتا جلتا انتخابی نظام نافذ ہے۔
First-past-the-post voting - Wikipedia
Countries_That_Use_a_First_Past_the_Post_Voting_System.png

عوامی نمائندگی کے اس ناقص نظام کو متناسب نمائندگی سے بدلے بغیر خطے میں بہتر جمہوریت لانا ممکن نہیں ہے:
متناسب نمائندگی ایک انتخابی نظام ہے۔ دنیا بھر کے ماہرین اس امر پر متفق ہیں کہ متناسب نمائندگی کا نظام زیادہ جمہوری ہے، اس میں قوم کی خواہش اور جماعتوں کی معاشرے میں حمایت زیادہ واضح انداز میں سامنے آتی ہے۔ مثلاً اگر کسی جماعت کا ووٹوں میں حصہ 30 فیصد ہے، تو اس کی پارلیمان میں بھی نشستیں 30 فیصد ہی ہوں گی۔ پارلیمان میں نمائندگی کی شرط اول صرف اور صرف اکثریت ہوتی ہے یعنی 50 فیصد سے زیادہ۔ اگر ایک حلقے میں لوگ اس انداز میں تقسیم ہو جائیں کہ کوئی بھی 50 فیصد ووٹ حاصل نہ کرے تو چوٹی کے دو امیدواروں میں پھر مقابلہ ہوتا ہے، ان میں سے یقینی طورپر کوئی ایک 51 فیصد ووٹ حاصل کرنے میں کامیاب ہوجاتا ہے۔ یہ نظام اس وقت دنیا کے 80 سے زائد ممالک میں مختلف صورتوں میں رائج ہے۔ ان میں آسٹریا، ہنگری، سوئٹزرلینڈ، شمالی یورپ، بلجیئم، ہالینڈ، ڈنمارک، ناروے، سویڈن، جرمنی، فرانس، ترکی اور سری لنکا بھی شامل ہیں۔
متناسب نمائندگی - آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا
 

جاسم محمد

محفلین
سمجھنے کی بات یہ ہے کہ اگر قادیانی خود کو اقلیت سمجھتے تو اس قانون سازی کی ہرگز ضرورت نہ پیش آتی۔
ہندوستانی مسلمان کبھی یہ نہیں کہتا کہ اُسے ہندو تسلیم کیا جائے اور اقلیت کے بجائے اکثریت کا حصہ تسلیم کیا جائے۔
سمجھنے کی بات یہ بھی ہے کہ بھارت میں مسلمان خود کو اقلیت سمجھتے ہیں اور اسی بنیاد پر اپنے شہری حقوق کا مطالبہ کرتے ہیں۔ لیکن عددی اکثریت پر قائم ہندو حکومت ان کو زور زبردستی ان حقوق سے محروم رکھ رہی ہے جب تک وہ اکثریت سے پاس شدہ قانون سازی کو تسلیم نہیں کرلیتے۔
ایسے ہی پاکستان میں قادیانی اقلیت خود کو مسلمان سمجھتی ہے اور اسی بنیاد پر اپنے شہری حقوق کا تقاضا کرتی ہے۔ لیکن عددی اکثریت پر قائم مسلم حکومت ان کو زور زبردستی ان حقوق سے محروم رکھے ہوئے ہے جب تک وہ اکثریت سے پاس شدہ قانون سازی کو تسلیم نہیں کر لیتے۔
دونوں ہمسایہ ممالک میں مسئلہ ایک ہی ہے یعنی اکثریت کا اپنی اقلیتوں پر جبر۔
 

فرقان احمد

محفلین
پاکستان میں یہ اسی وقت ہو سکتا ہے کہ کوئی مطلق العنان "امیر المومنین ٹائپ" فوجی ڈکٹیٹر ہو کہ ساری مذہبی جنونی پارٹیاں اس کی کمر کا زور بنی ہوں، سیاستدان "دم ہلاتے ہوئے" اس کے آگے پیچھے پھر رہے ہوں، آئین کو وہ "ردی کا ٹکڑا" سمجھے اور میڈیا اس کی خاص جیب میں ہو، تبھی یہ ممکن ہو سکتا ہے کہ پاکستان موجودہ کنٹرول لائن کو انٹرنیشل بارڈر مان لے۔ (اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ میں کسی ایسے فوجی ڈکٹیٹر کی حمایت یا چاہ کر رہا ہوں لیکن سنجیدہ حضرات اپنے دل پر ہاتھ رکھ کر بتائیں کہ اس کے بغیر کیا یہ ممکن ہے؟)۔ :)
ایسا ہی ہے۔ قریب قریب ناممکن ہے۔ اسی لیے جناب مشرف اور مسٹر واجپائی کے دور میں یہ امید ہو چلی تھی کہ شاید کوئی بریک تھرو ہو جائے مگر ۔۔۔۔! :(
 

محمداحمد

لائبریرین
تاریخ کی ایک ستم ظریفی تو یہ ہے کہ پاکستان کی قیادت نے تقسیم کے بعد وہ موقع کھو دیا جب سردار پٹیل حیدر آباد دکن کے بدلے میں کشمیر پاکستان کو دینے کو تیار ہو گیا تھا لیکن کشمیر اور دکن دونوں کے لالچ میں پاکستانی قیادت دونوں ہی گنوا بیٹھی!

باقی اب یہ مسئلہ گمبھیر ہو چکا ہے اور وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ مزید پیچیدہ ہو جائے گا مگر ایک بات ابھی تک سیدھی ہے وہ یہ کہ اگر الہند اور پنجاب اور بنگال تقسیم ہو سکتے ہیں تو کشمیر بھی تقسیم ہو سکتا ہے۔ یہ تقسیم جس طرح برصغیر کے دیگر باسیوں نے طوعا و کرہا تسلیم کی ہے اسی طرح کشمیری بھی کر سکتے ہیں، روشن پہلو یہ ہے کہ بھارتی قیادت کو بھی موجودہ لائن آف کنٹرول کو انٹرنیشنل بارڈر تسلیم کرنے میں زیادہ دقت نہیں ہوگی۔ مسئلہ پاکستانی عوام الناس کے ان جذبات کا ہے جن کو پچھلے ستر سالوں میں خون پسینہ اور پیسہ دے دے کر انگیخت کیا گیا ہے۔ کوئی نواز شریف کوئی زرداری کوئی عمران خان اس قسم کا فیصلہ کر کے زندہ نہیں رہ سکتا، اگر کسی سیاستدان کے لیے یہ ممکن ہوتا تو بھٹو شملہ معاہدے کے وقت اندرا گاندھی کی یہ آفر مان لیتا۔

پاکستان میں یہ اسی وقت ہو سکتا ہے کہ کوئی مطلق العنان "امیر المومنین ٹائپ" فوجی ڈکٹیٹر ہو کہ ساری مذہبی جنونی پارٹیاں اس کی کمر کا زور بنی ہوں، سیاستدان "دم ہلاتے ہوئے" اس کے آگے پیچھے پھر رہے ہوں، آئین کو وہ "ردی کا ٹکڑا" سمجھے اور میڈیا اس کی خاص جیب میں ہو، تبھی یہ ممکن ہو سکتا ہے کہ پاکستان موجودہ کنٹرول لائن کو انٹرنیشل بارڈر مان لے۔ (اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ میں کسی ایسے فوجی ڈکٹیٹر کی حمایت یا چاہ کر رہا ہوں لیکن سنجیدہ حضرات اپنے دل پر ہاتھ رکھ کر بتائیں کہ اس کے بغیر کیا یہ ممکن ہے؟)۔ :)

اگر کشمیری مسلمانوں کے لئے یہ حل قابلِ قبول ہے تو ہم پاکستانیوں کو بھی کوئی اعتراض نہیں ہونا چاہیے۔ ہم تو یہی چاہتے ہیں کہ اُن کو حقِ خود ارادیت ملے۔
 

عدنان عمر

محفلین
آپ نے بھارتی انتخابی نظام میں خرابی کی بہترین نشاندہی کی ہے۔ یہ خرابی بھارت ہی نہیں بلکہ برطانیہ، پاکستان، امریکہ اور بھی کئی ممالک میں ہے جہاں اس سے ملتا جلتا انتخابی نظام نافذ ہے۔
First-past-the-post voting - Wikipedia
Countries_That_Use_a_First_Past_the_Post_Voting_System.png

عوامی نمائندگی کے اس ناقص نظام کو متناسب نمائندگی سے بدلے بغیر خطے میں بہتر جمہوریت لانا ممکن نہیں ہے:
متناسب نمائندگی ایک انتخابی نظام ہے۔ دنیا بھر کے ماہرین اس امر پر متفق ہیں کہ متناسب نمائندگی کا نظام زیادہ جمہوری ہے، اس میں قوم کی خواہش اور جماعتوں کی معاشرے میں حمایت زیادہ واضح انداز میں سامنے آتی ہے۔ مثلاً اگر کسی جماعت کا ووٹوں میں حصہ 30 فیصد ہے، تو اس کی پارلیمان میں بھی نشستیں 30 فیصد ہی ہوں گی۔ پارلیمان میں نمائندگی کی شرط اول صرف اور صرف اکثریت ہوتی ہے یعنی 50 فیصد سے زیادہ۔ اگر ایک حلقے میں لوگ اس انداز میں تقسیم ہو جائیں کہ کوئی بھی 50 فیصد ووٹ حاصل نہ کرے تو چوٹی کے دو امیدواروں میں پھر مقابلہ ہوتا ہے، ان میں سے یقینی طورپر کوئی ایک 51 فیصد ووٹ حاصل کرنے میں کامیاب ہوجاتا ہے۔ یہ نظام اس وقت دنیا کے 80 سے زائد ممالک میں مختلف صورتوں میں رائج ہے۔ ان میں آسٹریا، ہنگری، سوئٹزرلینڈ، شمالی یورپ، بلجیئم، ہالینڈ، ڈنمارک، ناروے، سویڈن، جرمنی، فرانس، ترکی اور سری لنکا بھی شامل ہیں۔
متناسب نمائندگی - آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا
کیا مستقبل قریب و بعید میں بھارت میں اس جمہوری ماڈل کے نفاذ کا کوئی امکان ہے؟
یہ یاد رہے کہ ہندوستان میں مسلم آبادی کی شرح کم و بیش 14.2 فیصد ہے۔
 

محمداحمد

لائبریرین
قادیانی اقلیت خود کو مسلمان سمجھتی ہے
:)
کوئی بتلائے کہ ہم بتلائیں کیا؟

بھائی آپ سے آخری بار درخواست ہے کہ کشمیر سے متعلق اس دھاگے کو اپنی قادیانی مہم کے لئے مت استعمال کریں اور اس موضوع پر ایک اور دھاگہ کھول لیجے۔
 

محمد وارث

لائبریرین
اگر کشمیری مسلمانوں کے لئے یہ حل قابلِ قبول ہے تو ہم پاکستانیوں کو بھی کوئی اعتراض نہیں ہونا چاہیے۔ ہم تو یہی چاہتے ہیں کہ اُن کو حقِ خود ارادیت ملے۔
حق خود ارادیت تو احمد صاحب ایک ناممکن سی بات ہے۔ نہ نو من تیل ہوگا نہ رادھا ناچے گی، حق خود ارادیت کی ایک شرط یہ بھی تھی کہ پاکستان کشمیر سے اپنی ساری فوج واپس بلائے گا اور انڈیا کے بقول اس کشمیر سے بھی جو پاکستان نے چین کو دے دیا ہوا ہے، چین فوج واپس بلائے، سو اب ایسی صورتحال میں تو یہ نہیں ہونے والا۔ ہندوستان اور پنجاب اور بنگال کی تقسیم بھی سب سے پوچھ کر نہیں ہوئی بلکہ تھوپی گئی تھی۔ اور بنگال تو دو بار کشت و خون سے گزرا اور دونوں بار چند مہینوں میں اتنی قتل و غارت ہوئی جو کشمیر میں ستر برسوں میں نہیں ہوئی!
 

جاسم محمد

محفلین
تاریخ کی ایک ستم ظریفی تو یہ ہے کہ پاکستان کی قیادت نے تقسیم کے بعد وہ موقع کھو دیا جب سردار پٹیل حیدر آباد دکن کے بدلے میں کشمیر پاکستان کو دینے کو تیار ہو گیا تھا لیکن کشمیر اور دکن دونوں کے لالچ میں پاکستانی قیادت دونوں ہی گنوا بیٹھی!
جی بالکل۔ اس کا ذکر میں اپنی پوسٹ میں بھی کر چکا ہوں:
پاکستان نے اول دن سے کشمیر میں مداخلت کی پالیسی اپنائی جس کے سنگین نتائج بھارت سے آج تک سنگین دشمنی کی شکل میں نکل رہے ہیں۔ کشمیر حاصل کرنے کے لالچ میں پاکستا ن بنگلہ دیش، جوناگڑھ، نظام حیدر آباد، سیاچین، کارگل کے علاقے اور اپنی معیشت و ترقی سب برباد کر چکا ہے۔
 

محمداحمد

لائبریرین
حق خود ارادیت تو احمد صاحب ایک ناممکن سی بات ہے۔ نہ نو من تیل ہوگا نہ رادھا ناچے گی، حق خود ارادیت کی ایک شرط یہ بھی تھی کہ پاکستان کشمیر سے اپنی ساری فوج واپس بلائے گا اور انڈیا کے بقول اس کشمیر سے بھی جو پاکستان نے چین کو دے دیا ہوا ہے، چین فوج واپس بلائے، سو اب ایسی صورتحال میں تو یہ نہیں ہونے والا۔ ہندوستان اور پنجاب اور بنگال کی تقسیم بھی سب سے پوچھ کر نہیں ہوئی بلکہ تھوپی گئی تھی۔ اور بنگال تو دو بار کشت و خون سے گزرا اور دونوں بار چند مہینوں میں اتنی قتل و غارت ہوئی جو کشمیر میں ستر برسوں میں نہیں ہوئی!

میرا اپنا اندازہ تو یہ ہے کہ کشمیری ہندوستان کے ساتھ نہیں رہنا چاہتے، چاہے وہ پاکستان کے ساتھ بھی نہ رہیں۔

اقوامِ متحدہ پاکستانی کشمیر میں تو ریفرنڈم کر وا سکتی ہے اور میرا خیال ہے کہ پاکستان بھی اس پر راضی ہو جائے گا۔ مسئلہ تو ہندوستانی جبر کا ہے۔
 

جاسم محمد

محفلین
باقی اب یہ مسئلہ گمبھیر ہو چکا ہے اور وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ مزید پیچیدہ ہو جائے گا مگر ایک بات ابھی تک سیدھی ہے وہ یہ کہ اگر الہند اور پنجاب اور بنگال تقسیم ہو سکتے ہیں تو کشمیر بھی تقسیم ہو سکتا ہے۔ یہ تقسیم جس طرح برصغیر کے دیگر باسیوں نے طوعا و کرہا تسلیم کی ہے اسی طرح کشمیری بھی کر سکتے ہیں، روشن پہلو یہ ہے کہ بھارتی قیادت کو بھی موجودہ لائن آف کنٹرول کو انٹرنیشنل بارڈر تسلیم کرنے میں زیادہ دقت نہیں ہوگی۔ مسئلہ پاکستانی عوام الناس کے ان جذبات کا ہے جن کو پچھلے ستر سالوں میں خون پسینہ اور پیسہ دے دے کر انگیخت کیا گیا ہے۔ کوئی نواز شریف کوئی زرداری کوئی عمران خان اس قسم کا فیصلہ کر کے زندہ نہیں رہ سکتا، اگر کسی سیاستدان کے لیے یہ ممکن ہوتا تو بھٹو شملہ معاہدے کے وقت اندرا گاندھی کی یہ آفر مان لیتا۔

پاکستان میں یہ اسی وقت ہو سکتا ہے کہ کوئی مطلق العنان "امیر المومنین ٹائپ" فوجی ڈکٹیٹر ہو کہ ساری مذہبی جنونی پارٹیاں اس کی کمر کا زور بنی ہوں، سیاستدان "دم ہلاتے ہوئے" اس کے آگے پیچھے پھر رہے ہوں، آئین کو وہ "ردی کا ٹکڑا" سمجھے اور میڈیا اس کی خاص جیب میں ہو، تبھی یہ ممکن ہو سکتا ہے کہ پاکستان موجودہ کنٹرول لائن کو انٹرنیشل بارڈر مان لے۔ (اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ میں کسی ایسے فوجی ڈکٹیٹر کی حمایت یا چاہ کر رہا ہوں لیکن سنجیدہ حضرات اپنے دل پر ہاتھ رکھ کر بتائیں کہ اس کے بغیر کیا یہ ممکن ہے؟)۔ :)
لائن آف کنٹرول کو انٹرنیشنل بارڈر بنانا لازمی نہیں۔ ایک متبادل یا قدرے بہتر حل یہ بھی ہے کہ جیسے برصغیر کا مذہبی بنیادوں پر بٹوارا ہوا، ویسے ہی کشمیر کے بھی تین ٹکڑے کرکے ہندو کشمیر بھارت کو، مسلم کشمیر پاکستان جبکہ بدھمت کشمیر چین کے حوالہ کر دیا جائے :)
KashmirReligion.jpg
 

محمد وارث

لائبریرین
لائن آف کنٹرول کو انٹرنیشنل بارڈر بنانا لازمی نہیں۔ ایک متبادل یا قدرے بہتر حل یہ بھی ہے کہ جیسے برصغیر کا مذہبی بنیادوں پر بٹوارا ہوا، ویسے ہی کشمیر کے بھی تین ٹکڑے کرکے ہندو کشمیر بھارت کو، مسلم کشمیر پاکستان جبکہ بدھمت کشمیر چین کے حوالہ کر دیا جائے :)
KashmirReligion.jpg
اجی صاحب اس بلی کے گلے میں گھنٹی کون باندھے گا؟ انڈیا میں بھی جنونی موجود ہیں وہاں تو شاید اس بات کا ذکر بھی نہیں ہو سکتا خاص ان حالات میں کہ جب قبضہ بھی انہی کے پاس ہے!
 
Top