’’اٹھو مرنے کا حق استعمال کرو‘‘

La Alma

لائبریرین
’’جینے کا حق سامراج نے چھین لیا
اٹھو مرنے کا حق استعمال کرو‘‘
ظلم کی انتہا ہے۔اور اس ظلم پر خاموشی اس سے بھی بڑا جرم۔۔۔
اور کچھ نہیں تو ٹوئٹر، انسٹاگرام اور دوسرے سوشل میڈیا ہینڈلز پر، کشمیر میں کرفیو اور بھارتی مظالم پر # کشمیر جیسی کوئی آگاہی مہم شروع کی جا سکتی ہے۔ شاید موجودہ حالات کے تناظر میں اقوام عالم کا سویا ہوا ضمیر جاگ جائے، اور وہ کشمیر میں لگے کرفیو اور دنیا بھر میں ہونے والے حالیہ لاک ڈاؤنز میں کوئی مماثلت تلاش کر پائیں۔ ورنہ خدا کی لاٹھی تو بے آواز ہے ہی۔۔۔

وَمَا لَ۔كُمۡ لَا تُقَاتِلُوۡنَ فِىۡ سَبِيۡلِ اللّٰهِ وَالۡمُسۡتَضۡعَفِيۡنَ مِنَ الرِّجَالِ وَالنِّسَآءِ وَالۡوِلۡدَانِ الَّذِيۡنَ يَقُوۡلُوۡنَ رَبَّنَاۤ اَخۡرِجۡنَا مِنۡ هٰذِهِ الۡ۔قَرۡيَةِ الظَّالِمِ اَهۡلُهَا‌ ۚ وَاجۡعَلْ لَّ۔نَا مِنۡ لَّدُنۡكَ وَلِيًّا ۙۚ وَّاجۡعَلْ لَّ۔نَا مِنۡ لَّدُنۡكَ نَصِيۡرًا
آخر کیا وجہ ہے کہ تم اللہ کی راہ میں اُن بے بس مردوں، عورتوں اور بچوں کی خاطر نہ لڑو جو کمزور پاکر دبا لیے گئے ہیں اور فریاد کر رہے ہیں کہ خدایا ہم کو اس بستی سے نکال جس کے باشندے ظالم ہیں اور اپنی طرف سے ہمارا کوئی حامی و مدد گار پیدا کر دے۔(القرآن)
(فونٹ کا مسئلہ ہے۔ آیات سے متعلق درگزر فرمائیں)
 
مدیر کی آخری تدوین:

فرقان احمد

محفلین
“جینے کا حق سامراج نے چھین لیا
اٹھو مرنے کا حق استعمال کرو”
ظلم کی انتہا ہے۔اور اس ظلم پر خاموشی اس سے بھی بڑا جرم۔۔۔
اور کچھ نہیں تو ٹوئٹر، انسٹاگرام اور دوسرے سوشل میڈیا ہینڈلز پر، کشمیر میں کرفیو اور بھارتی مظالم پر # کشمیر جیسی کوئی آگاہی مہم شروع کی جا سکتی ہے۔ شاید موجودہ حالات کے تناظر میں اقوام عالم کا سویا ہوا ضمیر جاگ جائے، اور وہ کشمیر میں لگے کرفیو اور دنیا بھر میں ہونے والے حالیہ لاک ڈاؤنز میں کوئی مماثلت تلاش کر پائیں۔ ورنہ خدا کی لاٹھی تو بے آواز ہے ہی۔۔۔
ہندوستان کی تقسیم عجلت میں کی گئی۔ مناسب ہوم ورک نہ کیا گیا جس کا خمیازہ برصغیر کے باسیوں نے بھگتا۔ کشمیر کے حوالے سے بدقسمتی سے مناسب فیصلہ نہ لیا جا سکا۔ اس جنت نظیر وادی کے بسنے والوں نے بہت مصائب سہے۔ تاہم، اب اس مسئلے کا حل نکالنا جوئے شیر لانے کے مترادف ہے۔ دونوں طرف انتہاپسندانہ رویے فروغ پا چکے ہیں۔ گزشتہ صدی کے خاتمے پر جب مسٹر واجپائی پاکستان آئے تھے تو اس مسئلے کے حل کی بہت امید تھی۔ بعد ازاں مشرف صاحب جب انڈیا کے دورے پر گئے تو کسی حد تک یہ معاملہ حل ہوتا دکھائی دیا مگر انتہاپسندانہ سوچ ایک مرتبہ پھر آڑے آ گئی۔ اب مودی سرکار سے یہ توقع رکھنا کہ کشمیر کے معاملے میں یہ کوئی لچک دکھائیں گے، قریب قریب ناممکن لگتا ہے۔ ایسے رویوں کے ہوتے ہوئے اس مسئلے کا کیا حل برآمد ہو سکتا ہے؟ آپ کی بات درست ہے کہ کشمیر میں کرفیو اور ہندوستانی فوج کے بہیمانہ مظالم کے خلاف آگاہی مہم چلائی جائے تاہم اقوام عالم کا سویا ہوا ضمیر شاید اس طرح جاگ نہ پائے گا۔ ہماری دانست میں، اب اس مسئلے کا یہی حل برآمد ہوتا دکھائی دیتا ہے کہ کنٹرول لائن کو ہی بین الاقوامی سرحد تسلیم کر لیا جائے۔ شاید کشمیری بھی مان ہی جائیں گو کہ ایسا ہوتا مشکل دکھائی دیتا ہے۔ ہندوستان اور پاکستان اس پر متفق ہو سکتے ہیں اگر سنجیدگی سے مذاکراتی عمل ہو۔ موجودہ حالات میں اس کے علاوہ کوئی ایسا حل دکھائی نہیں دیتا ہے جس میں سرحدوں کا نئے سرے سے تعین کیا جائے۔ کوئی ایک انچ زمین چھوڑنے کو تیار نہیں ہے۔
 

الف نظامی

لائبریرین
آیت پر غیر نستعلیق فونٹ اپلائی کر دیں تو نسخ میں درست دکھائی دیتا ہے۔ ٹول بار میں جہاں aa لکھا ہے وہاں سے فوںٹ کی تبدیلی کی جا سکتی ہے
وَمَا لَكُمۡ لَا تُقَاتِلُوۡنَ فِىۡ سَبِيۡلِ اللّٰهِ وَالۡمُسۡتَضۡعَفِيۡنَ مِنَ الرِّجَالِ وَالنِّسَآءِ وَالۡوِلۡدَانِ الَّذِيۡنَ يَقُوۡلُوۡنَ رَبَّنَاۤ اَخۡرِجۡنَا مِنۡ هٰذِهِ الۡقَرۡيَةِ الظَّالِمِ اَهۡلُهَا‌ ۚ وَاجۡعَلْ لَّنَا مِنۡ لَّدُنۡكَ وَلِيًّا ۙۚ وَّاجۡعَلْ لَّنَا مِنۡ لَّدُنۡكَ نَصِيۡرًا
 

زاہد لطیف

محفلین
ہندوستان کی تقسیم عجلت میں کی گئی۔
یہ تقسیم کی کیوں گئی؟
یہ تقسیم کروائی کس نے؟
1948 1965، 1971، 1984، 1999 کی نا اہلی کا کون ذمہ دار ہے؟
ان لاکھوں انسانی جانوں کا کون ذمہ دار ہے جو تقسیم کے وقت سے لے کر اب تک دونوں اطراف کے شدت پسندوں کے ہاتھوں اللہ کو پیاری ہوئیں؟
ان لاکھوں انسانی مصیبتوں اور دکھوں کا کون ذمہ دار ہے جو اس تقسیم سے وجود میں آئیں؟
کیا آپ کے پاس ان سوالات کے جوابات ہیں؟ اگر ہاں تو پلیز شیئر کر کے شکریہ کا موقع دیں۔ کشمیر کا مضمون ان کے بغیر بالکل خالی ہے۔
 

فرقان احمد

محفلین
یہ تقسیم کی کیوں گئی؟
یہ تقسیم کروائی کس نے؟
1948 1965، 1971، 1984، 1999 کی نا اہلی کا کون ذمہ دار ہے؟
ان لاکھوں انسانی جانوں کا کون ذمہ دار ہے جو تقسیم کے وقت سے لے کر اب تک دونوں اطراف کے شدت پسندوں کے ہاتھوں اللہ کو پیاری ہوئیں؟
ان لاکھوں انسانی مصیبتوں اور دکھوں کا کون ذمہ دار ہے جو اس تقسیم سے وجود میں آئیں؟
کیا آپ کے پاس ان سوالات کے جوابات ہیں؟ اگر ہاں تو پلیز شیئر کر کے شکریہ کا موقع دیں۔ کشمیر کا مضمون ان کے بغیر بالکل خالی ہے۔
جناح کبھی ہندو مسلم اتحاد کے سفیر تھے۔ وہ متحدہ ہندوستان کے حق میں بھی ہو سکتے تھے۔ مگر انیس سو تیس کی دہائی میں جب کانگریس کو مختلف صوبوں میں حکومتیں بنانے کا موقع ملا تو انہوں نے کیا گُل کھلائے، یہ پیش نظر رہے؛ یہی وجہ ہے کہ جناح نے الگ وطن کا مطالبہ کیا۔ اس کے بعد جزئیات طے کیے بغیر عجلت میں تقسیم کی گئی جس کا خمیازہ ہر فریق نے بھگتا۔ اس میں سبھی کا قصور ہے، اگر لگی لپٹی رکھے بغیر کہا جائے تو۔ اگر تقسیم کا عمل نہ کیا جاتا تو معاملات ٹھیک بھی ہو سکتے تھے اور غلط بھی۔ بالخصوص آج مودی سرکار نے جو ظلم و ستم کا بازار گرم کر رکھا ہے، اس کو دیکھتے ہوئے جناح کا فیصلہ درست معلوم ہونے لگتا ہے گو کہ ہمیں ذاتی طور پر تقسیم کے حق میں کوئی واضح دلیل نہیں ملتی تاہم اس میں اچھا خاصا قصور کانگریسی قیادت کا ہے۔
 

زاہد لطیف

محفلین
جناح کبھی ہندو مسلم اتحاد کے سفیر تھے۔ وہ متحدہ ہندوستان کے حق میں بھی ہو سکتے تھے۔ مگر انیس سو تیس کی دہائی میں جب کانگریس کو مختلف صوبوں میں حکومتیں بنانے کا موقع ملا تو انہوں نے کیا گُل کھلائے، یہ پیش نظر رہے؛ یہی وجہ ہے کہ جناح نے الگ وطن کا مطالبہ کیا۔ اس کے بعد جزئیات طے کیے بغیر عجلت میں تقسیم کی گئی جس کا خمیازہ ہر فریق نے بھگتا۔ اس میں سبھی کا قصور ہے، اگر لگی لپٹی رکھے بغیر کہا جائے تو۔ اگر تقسیم کا عمل نہ کیا جاتا تو معاملات ٹھیک بھی ہو سکتے تھے اور غلط بھی۔ بالخصوص آج مودی سرکار نے جو ظلم و ستم کا بازار گرم کر رکھا ہے، اس کو دیکھتے ہوئے جناح کا فیصلہ درست معلوم ہونے لگتا ہے گو کہ ہمیں ذاتی طور پر تقسیم کے حق میں کوئی واضح دلیل نہیں ملتی تاہم اس میں اچھا خاصا قصور کانگریسی قیادت کا ہے۔
شکریہ
 

محمد وارث

لائبریرین
جناح کبھی ہندو مسلم اتحاد کے سفیر تھے۔ وہ متحدہ ہندوستان کے حق میں بھی ہو سکتے تھے۔ مگر انیس سو تیس کی دہائی میں جب کانگریس کو مختلف صوبوں میں حکومتیں بنانے کا موقع ملا تو انہوں نے کیا گُل کھلائے، یہ پیش نظر رہے؛ یہی وجہ ہے کہ جناح نے الگ وطن کا مطالبہ کیا۔ اس کے بعد جزئیات طے کیے بغیر عجلت میں تقسیم کی گئی جس کا خمیازہ ہر فریق نے بھگتا۔ اس میں سبھی کا قصور ہے، اگر لگی لپٹی رکھے بغیر کہا جائے تو۔ اگر تقسیم کا عمل نہ کیا جاتا تو معاملات ٹھیک بھی ہو سکتے تھے اور غلط بھی۔ بالخصوص آج مودی سرکار نے جو ظلم و ستم کا بازار گرم کر رکھا ہے، اس کو دیکھتے ہوئے جناح کا فیصلہ درست معلوم ہونے لگتا ہے گو کہ ہمیں ذاتی طور پر تقسیم کے حق میں کوئی واضح دلیل نہیں ملتی تاہم اس میں اچھا خاصا قصور کانگریسی قیادت کا ہے۔
مسلم لیگ یا صحیح معنوں میں جناح علیہ الرحمہ تو 1946ء میں کیبنٹ مشن پلان کو بھی مان گئے تھے جس کے تحت گروپس کی شکل میں صوبوں نے مرکز کے ساتھ اکھٹے رہنا تھا لیکن کانگریس کو یہ بھی منظور نہ ہوا۔ باقی قتل و غارت تو ہونی ہی تھی کہ جس فارمولے کے تحت ہند تقسیم ہو رہا تھا اسی فارمولے کے تحت پنجاب اور بنگال بھی تقسیم ہوئے اور یہیں قتل و غارت زیادہ ہوئی لیکن اس کی زیادہ ذمہ داری ماؤنٹ بیٹن پر ہے، اسے قریب سوا سال کے عرصے میں (جون 48ء تک) ہند تقسیم کرنے کی ذمہ داری ملی تھی لیکن اس نے پانچ چھ مہینوں میں یہ کام نپٹا کر تاریخ میں اپنا نام "زریں حروف" سے رقم کروا لیا، اور تو اور باؤنڈری کمیشن ایوارڈ کا اعلان دونوں ملکوں کی آزادی کے بعد 17 اگست 1947ء کو کیا گیا جس نے جلتی پر تیل کا کام کیا۔
 

La Alma

لائبریرین
آیت پر غیر نستعلیق فونٹ اپلائی کر دیں تو نسخ میں درست دکھائی دیتا ہے۔ ٹول بار میں جہاں aa لکھا ہے وہاں سے فوںٹ کی تبدیلی کی جا سکتی ہے
وَمَا لَكُمۡ لَا تُقَاتِلُوۡنَ فِىۡ سَبِيۡلِ اللّٰهِ وَالۡمُسۡتَضۡعَفِيۡنَ مِنَ الرِّجَالِ وَالنِّسَآءِ وَالۡوِلۡدَانِ الَّذِيۡنَ يَقُوۡلُوۡنَ رَبَّنَاۤ اَخۡرِجۡنَا مِنۡ هٰذِهِ الۡقَرۡيَةِ الظَّالِمِ اَهۡلُهَا‌ ۚ وَاجۡعَلْ لَّنَا مِنۡ لَّدُنۡكَ وَلِيًّا ۙۚ وَّاجۡعَلْ لَّنَا مِنۡ لَّدُنۡكَ نَصِيۡرًا
جزاک اللہ!
کوشش کی ہے لیکن بات نہیں بنی۔
 

La Alma

لائبریرین
ہندوستان کی تقسیم عجلت میں کی گئی۔ مناسب ہوم ورک نہ کیا گیا جس کا خمیازہ برصغیر کے باسیوں نے بھگتا۔ کشمیر کے حوالے سے بدقسمتی سے مناسب فیصلہ نہ لیا جا سکا۔ اس جنت نظیر وادی کے بسنے والوں نے بہت مصائب سہے۔ تاہم، اب اس مسئلے کا حل نکالنا جوئے شیر لانے کے مترادف ہے۔ دونوں طرف انتہاپسندانہ رویے فروغ پا چکے ہیں۔ گزشتہ صدی کے خاتمے پر جب مسٹر واجپائی پاکستان آئے تھے تو اس مسئلے کے حل کی بہت امید تھی۔ بعد ازاں مشرف صاحب جب انڈیا کے دورے پر گئے تو کسی حد تک یہ معاملہ حل ہوتا دکھائی دیا مگر انتہاپسندانہ سوچ ایک مرتبہ پھر آڑے آ گئی۔ اب مودی سرکار سے یہ توقع رکھنا کہ کشمیر کے معاملے میں یہ کوئی لچک دکھائیں گے، قریب قریب ناممکن لگتا ہے۔ ایسے رویوں کے ہوتے ہوئے اس مسئلے کا کیا حل برآمد ہو سکتا ہے؟ آپ کی بات درست ہے کہ کشمیر میں کرفیو اور ہندوستانی فوج کے بہیمانہ مظالم کے خلاف آگاہی مہم چلائی جائے تاہم اقوام عالم کا سویا ہوا ضمیر شاید اس طرح جاگ نہ پائے گا۔ ہماری دانست میں، اب اس مسئلے کا یہی حل برآمد ہوتا دکھائی دیتا ہے کہ کنٹرول لائن کو ہی بین الاقوامی سرحد تسلیم کر لیا جائے۔ شاید کشمیری بھی مان ہی جائیں گو کہ ایسا ہوتا مشکل دکھائی دیتا ہے۔ ہندوستان اور پاکستان اس پر متفق ہو سکتے ہیں اگر سنجیدگی سے مذاکراتی عمل ہو۔ موجودہ حالات میں اس کے علاوہ کوئی ایسا حل دکھائی نہیں دیتا ہے جس میں سرحدوں کا نئے سرے سے تعین کیا جائے۔ کوئی ایک انچ زمین چھوڑنے کو تیار نہیں ہے۔
اس ایشو پر دونوں ممالک کا اپنے اپنے موقف پر ڈٹے رہنا ایک الگ نظریاتی بحث ہے۔ کشمیر کو لے کر سیز فائر لائن تو 1949 سے ہی قائم کر دی گئی تھی جب بھارت نے سیکورٹی کونسل میں یہ معاملہ اٹھایا تھا۔ اور اقوام متحدہ کی قراداد کے مطابق کشمیریوں کی قسمت کا فیصلہ ان کے اپنے ہی ہاتھ میں دیا گیا تھا۔ وہ ریفرنڈم نہ ہونا تھا نہ آج تک ہوا۔ ظاہر ہے اس میں ہندوستان کی اپنی بد نیتی شامل تھی۔ لیکن اب بھارت کی جانب سے آرٹیکل 370 اور A 35 کی کھلم کھلا خلاف ورزی کو کس تناظر میں دیکھا جائے گا۔ اسے ان کا داخلی معاملہ قرار دے کر یکسر نظر انداز تو نہیں کیا جا سکتا۔ اس سے پیشتر بھی انڈین آرمی نے آرمڈ فورسز سپیشل پاورز ایکٹ کے تحت،مقبوضہ کشمیر میں ظلم اور بربریت کا ایک بازار گرم کر رکھا تھا۔ جس پر ہیومن رائٹس کی تنظیمیں، ایمنسٹی انٹرنیشنل وغیرہ بھی کچھ نہ کر سکیں۔ کشمیر کا موجودہ تنازعہ صرف جغرافیائی حد بندی تک محدود نہیں ہے بلکہ یہ بنیادی انسانی حقوق کا معاملہ ہے۔
 

محمداحمد

لائبریرین
ہماری دانست میں، اب اس مسئلے کا یہی حل برآمد ہوتا دکھائی دیتا ہے کہ کنٹرول لائن کو ہی بین الاقوامی سرحد تسلیم کر لیا جائے۔ شاید کشمیری بھی مان ہی جائیں گو کہ ایسا ہوتا مشکل دکھائی دیتا ہے۔

کشمیری مان بھی گئے تو مودی سرکار مسلمانوں کو ہندوستان میں کیسے برداشت کرے گی۔

اُن کے تو عزائم سب کے سامنے ہیں۔

ہندوستان کی تقسیم عجلت میں کی بھی گئی تھی تو اب اُس بات کو نہ جانے کتنی دہائیاں بیت چکی ہیں اب یہ باتیں کرنے سے کوئی فائدہ نہیں ہونے والا۔
 

محمداحمد

لائبریرین
1948 1965، 1971، 1984، 1999 کی نا اہلی کا کون ذمہ دار ہے؟

یعنی یسین ملک اور کشمیر کو گولی ماریں

اور پچھلے سو سال کے سارے قضیے کھول کر بیٹھ جائیں ! بھول جائیں کہ لڑی شروع کرنے والے نے یہ لڑی کیوں شروع کی تھی۔

بہت خوب!!!

شاباش!
 

زاہد لطیف

محفلین
یعنی یسین ملک اور کشمیر کو گولی ماریں

اور پچھلے سو سال کے سارے قضیے کھول کر بیٹھ جائیں ! بھول جائیں کہ لڑی شروع کرنے والے نے یہ لڑی کیوں شروع کی تھی۔

بہت خوب!!!

شاباش!
جب چڑیاں کھیت چگ گئی ہوں تو پچھتاوا ہی رہ جاتا ہے۔
 

محمداحمد

لائبریرین
جناح کبھی ہندو مسلم اتحاد کے سفیر تھے۔ وہ متحدہ ہندوستان کے حق میں بھی ہو سکتے تھے۔ مگر انیس سو تیس کی دہائی میں جب کانگریس کو مختلف صوبوں میں حکومتیں بنانے کا موقع ملا تو انہوں نے کیا گُل کھلائے، یہ پیش نظر رہے؛ یہی وجہ ہے کہ جناح نے الگ وطن کا مطالبہ کیا۔ اس کے بعد جزئیات طے کیے بغیر عجلت میں تقسیم کی گئی جس کا خمیازہ ہر فریق نے بھگتا۔ اس میں سبھی کا قصور ہے، اگر لگی لپٹی رکھے بغیر کہا جائے تو۔ اگر تقسیم کا عمل نہ کیا جاتا تو معاملات ٹھیک بھی ہو سکتے تھے اور غلط بھی۔ بالخصوص آج مودی سرکار نے جو ظلم و ستم کا بازار گرم کر رکھا ہے، اس کو دیکھتے ہوئے جناح کا فیصلہ درست معلوم ہونے لگتا ہے گو کہ ہمیں ذاتی طور پر تقسیم کے حق میں کوئی واضح دلیل نہیں ملتی تاہم اس میں اچھا خاصا قصور کانگریسی قیادت کا ہے۔

آج ہندوستانی حکومت کا جو رویہ مسلمانوں کے ساتھ ہے، وہ دیکھ کراندازہ ہو جانا چاہیے کہ دو قومی نظریہ درست تھا۔
 
Top