کاشفی

محفلین
غزل
(بہزاد لکھنوی)
یہ ہے اک نَو شباب کا عالم
جیسے کِھلتے گلاب کا عالم

حُسن زیرِ نقاب اُف توبہ
صبحدم آفتاب کا عالم

تم نے کی بھی نگاہِ لُطف تو کیا
کیا گیا اضطراب کا عالم

میرے دامانِ تر سے پوچھ نہ لو
میری چشمِ پُرآب کا عالم

سیلِ اُلفت میں ہے یہ حال مرا
جیسے بہتے حباب کا عالم

تم بھی دیکھو گے ایک دن آکر
کسی خانہ خراب کا عالم

دیدہء نیم باز ہے بالکل
نرگسِ نیم خواب کا عالم

اک گہر بار ابر ہے گویا
یہ ہے چشم پُرآب کا عالم

اُس نے الٹی نقاب رُخ جس دم
اک تھا شیخ و شباب کا عالم

اب کسی کو سنائیں کیا بہزاد
اپنے گزرے شباب کا عالم
 
Top