یہ پر یقین کے تو ملے بعد میں مُجھے

ش زاد

محفلین
یا تو مرا خمیر کسی شان سے اُٹھا
یا پِھر یہ اپنا بوجھ مری جان سے اُٹھا

یہ پر یقین کے تو ملے بعد میں مُجھے
اڑنے کا شوق تو فقط امکان سے اُٹھا

ورنہ اُٹھا کے پھینک نہ دوں میں اِسے کہیں
سُن دیکھ اپنا آئینہ ایمان سے، اُٹھا

سارے ستم گزار مگر اک وقار سے
جتنے جفا کے ہاتھ اُٹھا مان سے اُٹھا

لے کر تخیُلات کو الہام تک گیا
یہ زوق یہ خُمار جو وجدان سے اُٹھا

اس آگہی کا بوجھ کہاں تک سہے کوئی
اس آگہی کے بوجھ کو انسان سے اُٹھا

قاتل ہمارا سر بھی فخر سے بلند ہے
تلوار تو بھی دیکھ ذرا آن سے اُٹھا

ش زاد
 

امر شہزاد

محفلین
اس آگہی کا بوجھ کہاں تک سہے کوئی
اس آگہی کے بوجھ کو انسان سے اُٹھا

واہ

قاتل ہمارا سر بھی فخر سے بلند ہے
تلوار تو بھی دیکھ ذرا آن سے اُٹھا
 
Top