سخن

  1. محمد فرحان سموں

    ایک قطعہ:: از ::فرحان سموں فرحان

    اپنا ظاہر جمال کرتے ہو اتنا کاہے وبال کرتے ہو جانتے ہو مِری غریبی کو کس لیے پھر سوال کرتے ہو
  2. حسن محمود جماعتی

    دراصل ہو گیا ہے مِرا گھر مِرے خلاف:::قیصرؔ مسعود

    قیصرؔ نہیں غنِیم کا لشکر مِرے خلاف دراصل ہو گیا ہے مِرا گھر مِرے خلاف مجھ کو مخالفت کا ہر اِک سُو ہے سامنا جس دن سے ہو گیا ہے وہ کافِر مِرے خلاف باہر مِرے خلاف نہیں ہے کوئی مگر صد حیف ہو گیا مِرا اندر مِرے خلاف اِس شہر کی زمیں بھی موافق نہیں مِرے مٹی مِرے خلاف ہے، پتھر مِرے خلاف اب کون سی...
  3. حسن محمود جماعتی

    ایک زمین میں سات غزلیں ::::1 زمین میں 7 غزلیں:::

    تمناؤں میں الجھایا گیا ہوں کھلونے دے کے بہلایا گیا ہوں دلِ مضطر سے پوچھ اے رونقِ بزم میں خود آیا نہیں لایا گیا ہوں لحد میں کیوں نہ جاؤں منہ چھپائے بھری محفل سے اٹھوایا گیا ہوں ہوں اس کوچے کے ہر ذرے سے آگاہ ادھر سے مدتوں آیا گیا ہوں سویرا ہے بہت اے شورِ محشر ابھی بے کار اٹھوایا گیا ہوں قدم...
  4. حسن محمود جماعتی

    یہ جو لاہور سے محبت ہے:::غزل::: ڈاکٹر فخر عباس

    یہ جو لاہور سے محبت ہے یہ کسی اور سے محبت ہے اور وہ "اور" تم نہیں شاید مجھ کو جس اور سے محبت ہے یہ ہوں میں اور یہ مری تصویر دیکھ لے غور سے محبت ہے بچپنا، کمسنی، جوانی آج تیرے ہر دور سے محبت ہے ایک تہذیب ہے مجھے مقصود مجھ کو اک دور سے محبت ہے اس کی ہر طرزمجھ کو بھاتی ہے اس کے ہر طور سے محبت ہے
  5. حسن محمود جماعتی

    رضی تم جھوٹ کہتے ہو::::رضی الدین رضی::آزاد نظم

    ستارے مل نہیں سکتے عجب دن تھے محبت کے عجب موسم تھے چاہت کے کبھی گر یاد آجائیں تو پلکوں پر ستارے جھلملاتے ہیں کسی کی یاد میں راتوں کو اکثر جاگنا معمول تھا اپنا کبھی گر نیند آجاتی تو ہم یہ سوچ لیتے تھے ابھی تو وہ ہمارے واسطے رویا نہیں ہو گا ابھی سویا نہیں ہو گا ابھی ہم بھی نہیں روتے ابھی ہم...
  6. حسن محمود جماعتی

    قتیل شفائی کر رہے قریہ قریہ زندگی کی جستجو ، میں اور تُو

    کر رہے قریہ قریہ زندگی کی جستجو ، میں اور تُو ہو گئے آوارگی کے نام پر بے آبرو، میں اور تُو تھے جہاں رسموں رواجوں کے اندھیروں پر فدا، اب اُس جگہ معذرت بن کر کھڑے ہیں روشنی کے روبرو، میں اور تُو کُچھ دنوں سے میں تری اور تُو مری مہمان ہے،کیا شان ہے بن چکے ہیں عکسِ جاں اک دوسرے کا ہو بہو،میں اور...
  7. ش زاد

    یہ پر یقین کے تو ملے بعد میں مُجھے

    یا تو مرا خمیر کسی شان سے اُٹھا یا پِھر یہ اپنا بوجھ مری جان سے اُٹھا یہ پر یقین کے تو ملے بعد میں مُجھے اڑنے کا شوق تو فقط امکان سے اُٹھا ورنہ اُٹھا کے پھینک نہ دوں میں اِسے کہیں سُن دیکھ اپنا آئینہ ایمان سے، اُٹھا سارے ستم گزار مگر اک وقار سے جتنے جفا کے ہاتھ اُٹھا مان سے اُٹھا...
  8. عمار ابن ضیا

    چاند جلتا رہا۔ وصی شاہ

    میرے نزدیک وصی شاہ نے یہ کلام کہہ کر تو کمال ہی کردیا ہے۔۔۔ دل کو چھولینے والا۔۔۔ مترنم۔۔۔ لاجواب! میری آنکھوں میں آنسو پگھلتا رہا، چاند جلتا رہا تیری یادوں کا سورج نکلتا رہا، چاند جلتا رہا کوئی بستر پہ شبنم لپیٹے ہوئے خواب دیکھا کیے کوئی یادوں میں کروٹ بدلتا رہا، چاند جلتا رہا میری آنکھوں میں...
Top